Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تین خاموش چیزیں اور ایک زرد پھول

دیوندر اسر

تین خاموش چیزیں اور ایک زرد پھول

دیوندر اسر

MORE BYدیوندر اسر

    ’’سماوار میں اور کوئلے ڈال دوں۔‘‘ بوڑھے سرائے والے نے پوچھا۔ ہم نے اثبات میں سر ہلادیا۔

    ’’اس برس خوب سردی پڑے گی۔‘‘

    ’’ہاں کچھ آثار تو ایسے ہیں، دسمبر کے دوسرے ہفتہ ہی میں برف گرنی شروع ہوگئی۔‘‘

    ’’پچھلے سال تو کرسمس پر پہلے روز برف پڑی تھی۔‘‘

    ’’تم کرسمس پر یہیں تھے۔‘‘

    ’’ہاں۔ کیوں؟‘‘

    ’’میں بھی یہاں تھا۔ ملاقات نہیں ہوئی۔‘‘

    ’’میں تو ہر برس آتا ہوں، سردیوں میں۔ برف گرنے کامنظر دیکھنے۔ کبھی کبھی ایسا جی چاہتا ہے کہ برف میں دور تک چلتے چلیں، دھند میں ڈوبے ہوئے، جب پہچانے ہوئے چہرے اجنبی دکھائی دیں اور اجنبی چہرے نزدیک سے گزریں تو احساس ہو کہ یہ تو وہی ہیں جنہیں تم برسوں سے جانتے ہو۔‘‘

    ’’غلام، بیگم بادشاہ۔‘‘ میں نے کہا، ’’ایک رنگ کے۔‘‘

    ’’اِدھر تین اِکّے ہیں۔‘‘

    ’’اٹھالو۔‘‘

    اس نے پیسے سمیٹ لیے اور میزپوش کا کونا اٹھاکر اس کے نیچے رکھ دیے۔ تاش کے پتے پھر بٹنے لگے۔ سماوار میں پانی گرم ہو رہاتھا۔ بھاپ کے سفید سفید بادل ابھرنے لگے۔ آتش دان میں ایک لکڑی اورڈال دی گئی۔ باہر برف بدستور گر رہی تھی۔

    ’’تو تم ہر سال کرسمس میں آتے ہو۔‘‘

    سنا ہے کرسمس کا دن سب سے بڑا ہوتا ہے۔ اتنے لمبے دن میں اکیلے ایک کونے میں اس دور دراز سرائے میں بیٹھ کر قہوہ پینے میں بڑا مزہ آتا ہے، باہر برف گر رہی ہوتی ہے اور آدمی اپنے سے طویل ملاقات کرسکتا ہے۔ جو شاید سال بھر وہ نہیں کرتا۔ دوسرے لوگ دوسری باتیں۔ جیسے تم کچھ بھی نہیں ہو۔ صفر بھی نہیں، تمہارا کوئی چہرہ نہیں، تمہارا کوئی دل نہیں، تمہارا کوئی دوست نہیں۔‘‘

    ’’آج بجلی بڑے زوروں سے چمک رہی ہے۔‘‘

    ’’مجھے بجلی کے چمکنے سے بڑا ڈر لگتا ہے۔‘‘

    ’’پہاڑی اسٹیشنوں پر تو بجلی اکثر چمکتی ہے۔ بادل خوب گرجتے ہیں۔‘‘

    ’’لیکن کبھی کبھی آدمی ڈر کے قریب ہونا چاہتا ہے۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کے چہرے کا رنگ کیسے بدلتا ہے۔‘‘

    ’’اسی لیے تمہیں شکار پسند ہے؟‘‘

    اس نے سرہلادیا اور پائپ سلگانے لگا۔

    سرائے والے نے قہوے کے تین پیالے میز پر رکھ دیے۔ قہوے کی سنہری رنگت سے بھاپ کی سفیدی اٹھتی ہوئی دل کو بڑا خوش کن احساس دیتی ہے۔ لکڑی کے چٹخنے کی آواز بڑی بھلی معلوم ہوتی ہے، اور آگ کے شعلوں کے باعث سامنے بوسیدہ دیوار پر سایے آپس میں ٹکرا سے جاتے ہیں۔

    ’’تم خاموش کیوں ہوگئے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’سوچتا ہوں، وہ کون سی چیز ہے جو ہمیں ہر برس اس جگہ لے آتی ہے۔ سردی میں سب پرندے اپنے اپنے آشیانے چھوڑ کر گرم علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور یہاں کے باسی بھی میدانوں میں چلے جاتے ہیں اور ہم۔‘‘

    ’’شاید ہم پر کسی شاپ کااثر ہے۔‘‘ تیسرا آدمی بولا۔

    ’’ہر آدمی کو اپنا نگر چھوڑنا پڑتا ہے۔ آدم اور حوا سے لے کر ہم سب تک۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’اور جنت کو چھوڑ کر ہم اس دنیا میں مسلسل بھٹک رہے ہیں۔‘‘

    ’’مسلسل بھٹکنا انسان کی قسمت ہے۔‘‘

    ’’تم قسمت پر وشواس کرتے ہو۔‘‘

    ’’ہر آدمی قسمت پر وشواس کرتا ہے، تم نہیں کرتے؟‘‘

    وہ خاموش رہا۔

    ’’تم ہر برس یہاں کیوں آتے ہو؟ کسی کی تلاش میں آتے ہو؟ تمہیں تو قسمت ہی کھینچ کے لاتی ہے۔‘‘

    ’’شاید۔‘‘

    ’’تم کہتے ہو تم نے کئی بار کوشش کی ہے کہ تم اس برس یہاں نہیں آؤگے۔ لیکن جونہی تمہیں خبر ملتی ہے کہ برف گرنا شروع ہوگئی تمہارے جسم میں جیسے لاوے کی گرمی تیرنے لگتی ہے۔ اور تمہیں خبر ہی نہیں رہتی کہ تم اس سرائے میں ہو۔‘‘

    ’’یہ قسمت نہیں۔‘‘

    ’’تو اور کیا ہے؟‘‘

    وہ خاموش ہوگیا۔ تاش کے پتے اس کے ہاتھ میں لرزنے لگے۔ اس نے قہوے کاایک گھونٹ پیا اور اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا۔ اور پھر پتوں کو ایک دوسرے سے بدلنے لگا۔ کمرے میں خاموشی چھاگئی۔ صرف لکڑی کے جلنے کی آواز تھی یا سماوار میں پانی کھولنے کی۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی سیاہی چھاگئی۔ اس نے اپنی کرسی آتش دان کے قریب سرکالی۔

    ’’آج میں نے مس فریڈا کو دیکھا ہے۔‘‘ تیسرا آدمی بولا۔

    ’’کہاں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’راج پر، وہ اکیلی ہی جارہی تھی، اس نے بالوں میں ایک ننہا سا زرد پھول لگا رکھا تھا۔‘‘

    ’’یہ مس فریڈا سردیوں میں چلی کیوں نہیں جاتی۔ ڈانس اسکول تو بند ہوجاتا ہے۔ اور ٹورسٹ بھی نہیں ہوتے۔ کاروبار بڑا مندہ ہوتاہے۔‘‘

    ’’سنا ہے اس کے اپنے اسکول کے پروپرائٹر سے کئی بار جھگڑا ہوچکاہے۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’وہ چاہتا ہے کہ جس سے وہ چاہے، فریڈا اس کے ساتھ رقص کرے۔ اس کے ساتھ شراب پیے۔ اس کے ساتھ اور اس کے ساتھ۔‘‘

    ’’تو اس میں کیا ہے، آخر وہ دوسروں کے ساتھ بھی تو گھومتی پھرتی ہے۔‘‘

    ’’وہ کہتی ہے کہ میں اسکول سے باہر آزاد ہوں۔ جہاں چاہوں گھوموں، جس سے چاہوں ملوں۔ تم نے کبھی فریڈا کے ساتھ ڈانس کیا ہے۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’اس کے ساتھ رقص کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ تم قوس قزح پر جھول رہے ہو، اس کے جسم کی حدت، خوشبواور رنگ تمہیں مدہوش بنا دیتے ہیں۔‘‘

    ’’کس کا ذکر کر رہے ہو۔ فریڈا کا؟‘‘ آتش دان کے قریب سے دوڑ کر وہ واپس میز پر آگیا۔

    ’’تین برس ہوئے ایک رات وہ اس سرائے میں آئی تھی۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’اس سرائے میں؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔

    ’’اس نے ہلکے سرخ اور پیلے پھولوں والی اسکرٹ پہن رکھی تھی اور لال بلاؤز، اس کے بال ہوا میں لہرا رہے تھے اور گلے میں نیلا اسکارف تھا۔ جس پر روم کے گرجاگھروں کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ اس کا چہرہ برف کی طرح سفید تھا۔ اس نیم تاریک کمرے میں شعلوں کے سامنے وہ انتہائی خوبصورت لگ رہی تھی۔ وہ بے حد پئے ہوئے تھی۔‘‘

    ’’پھر کیا ہوا؟‘‘

    ’’میں نے اسے کرسی پر بیٹھادیا۔ اسی کرسی پر جس پر تم بیٹھے ہو۔ وہ کرسی کی پشت پر سرٹیک کر بیٹھ گئی۔ میں اس کے اوپر جھک گیا۔ میں نے پوچھا میں تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں۔ اس نے اپنی آنکھیں کھولیں، میری طرف دیکھا اور مسکرادی۔‘‘

    ’’تم کیا مدد کرسکتے ہو؟‘‘

    ’’کچھ بھی۔‘‘

    ’’میرے جسم کو مت چھونا بس۔ اس نے کہا اور آنکھیں بند کرلیں۔ میں اس کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے ہینڈ بیگ سے وہسکی کی شیشی نکالی اور منہ سے لگالی۔ میں نے اس کے ہاتھ سے شیشی چھیننی چاہی۔ وہ پہلے ہی پئے ہوئے تھی۔ اس نے میرا ہاتھ جھٹک دیا۔ تم نے وعدہ کیا ہے کہ تم میرے جسم کو نہیں چھوؤگے۔ میں واپس کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ اسی طرح کرسی کی پشت پر سر ٹکائے نیم دراز رہی اور پھر سوگئی۔ میں نے اپنا اوورکوٹ اس پر ڈال دیا۔ مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔ مس فریڈا سے میری یہ پہلی ملاقات تھی۔‘‘

    میں فریڈا کی داستان بڑے شوق سے سن رہا تھا۔ سرائے والا پیالوں میں اور قہوہ ڈال گیا۔

    ’’جب وہ صبح اٹھی، اس نے انگڑائی لی اور چاروں طرف دیکھا۔ میں کہاں ہوں؟ اس نے پوچھا۔‘‘

    ’’سرائے میں۔‘‘

    ’’کون سی سرائے میں۔ اوہ ڈرٹی لٹل ران۔‘‘

    ’’تم ٹھیک ہونا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’تم کون ہو؟‘‘

    ’’میں کون ہوں اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘

    وہ ایک لمحے کے لیے خاموش رہی پھر اس نے اپنا اسکارف ڈھیلا کیا۔ اس کے بالوں کاپھول فرش پر گرگیا۔

    ’’تم یہ زرد پھول کیوں لگاتی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’آج پہلی بار لگایا ہے۔ نہ جانے کیوں جی چاہا، اس نے میری طرف دیکھا۔ برف گرنے سے پھول زرد ہوجاتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا اورآنکھیں بند کرلیں۔

    ’’میں تمہیں کیسی لگتی ہوں؟‘‘ وہ اچانک بولی۔

    ’’بہت خوبصورت، جاذب اور۔۔۔‘‘

    ’’اور کیا؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    جو میرے ذہن میں تھا، وہ میں کہہ نہیں سکا۔ وہ مسکرادی۔ اگر تم نے وعدہ نہ کیا ہوتا کہ میرے جسم کو نہیں چھوؤگے تو مجھے مدہوش پاکر تم کیا کرتے۔‘‘ میرے پاس اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ شاید وہ جواب چاہتی بھی نہیں تھی۔

    ’’اگر میں نیلام ہوناچاہوں تو میری قیمت کیا ہوگی؟ میرا مطلب ہے ایک رات کی نہیں، جب تک میں زندہ ہوں۔ چھوڑو، مگر تم خریدنا چاہو تو کیا دوگے۔ شاید تمہارے پاس اتنے پیسے نہیں۔ تم ایک رات کا کیا دوگے؟‘‘ وہ متواتر بولے جارہی تھی۔

    ’’میں تمہیں خرید نہیں سکتا میڈم۔ انسان کی کوئی قیمت نہیں۔‘‘

    ’’یوڈیم ہپوکریٹ۔‘‘

    میں خاموش رہا۔

    ’’تم، مجھے کیپ بنانا چاہتے ہو۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’تم نے کبھی پیارکیا ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔ شاید تم نے بھی کبھی محبت نہیں کی۔‘‘

    ’’کوئی آدمی کسی سے پیار نہیں کرتا۔ سب اپنے تصور سے پیار کرتے ہیں اور جب یہ تصور ٹوٹ جاتا ہے تو وہ مایوس ہوجاتے ہیں۔ کچھ بے وفاہوجاتے ہیں۔ کچھ خودکشی کرلیتے ہیں۔ پھر اور کچھ دوسروں سے شادی کرلیتے ہیں۔‘‘

    ’’پیار نہ تصور سے ہوتا ہے نہ جسم سے بلکہ شخصیت سے، جسم سے، دل سے، روح سے۔‘‘

    ’’یہ روح کیا ہوتی ہے۔ کتابوں میں اس کابڑا ذکر آتا ہے۔‘‘ وہ بولی۔

    ’’جسم ہی حقیقت ہے، جسم سے پرے کوئی سچائی نہیں۔‘‘

    فرش پر اس کے پاؤں تھرکنے لگے اور اس کا جسم گلاب کے پھولوں کی طرح کھل اٹھا۔ وہ ہلکے ہلکے سروں میں گنگنانے لگی۔

    تین خاموش چیزیں۔

    گرتی ہوئی برف۔

    پوپھٹنے سے پہلے کا لمحہ

    اس کاچہرہ۔

    جس کی موت ابھی ہوئی ہے۔

    گاتے گاتے اس کے قدم ایک دم رک گئے۔ اس کا چہرہ سفید پڑگیا اور وہ بے حس سی کرسی پرگر پڑی۔ اس نے فرش سے پھول اٹھایا اور اپنے بالوں میں لگایا۔ میں نے قہوہ بنایا اور اسے پیش کیا۔ اس نے قہوہ پیا اور چلی گئی۔

    باہر برف گر رہی تھی۔ پوپھٹنے ہی والی تھی۔ میں نے کھڑکی کے شیشے سے دیکھا، وہ دھیرے دھیرے جارہی تھی۔

    پھر وہی مس فریڈا تھی۔ وہی ڈانس اسکول، وہی بانہوں کے ہالے اور آغوش کے غار اور جسم شراب میں ڈوبے ہوئے۔‘‘

    اس نے تاش کو میز پر رکھتے ہوئے کہا اور قہوے کاایک گھونٹ پیا۔ آتش دان میں آگ دھیمی پڑچکی تھی۔ سماوار میں پانی کھول کھول کر خاموش ہوچکا تھا۔ بوڑھا سرائے والا اپنی چارپائی پر اونگھ رہا تھا۔ ہوا کے جھونکے سے لیمپ ہل رہا تھا اور ہمارے سایے فرش اور دیوار پر کانپ رہے تھے۔ وہ کرسی سے اٹھا اور کھڑکی کے قریب جاکھڑا ہوا۔ اچانک کھڑکی کھلی اور ہوا کے تیز جھونکے اندر آنے لگے۔ تاش کے پتے میز پر سے اڑکر سارے کمرے میں بکھرگئے۔ بوڑھے سرائے والے نے اپنی آدھی بند آنکھیں کھولیں اور لحاف منہ پر اوڑھ کر سوگیا۔ میں نے لپک کر کھڑکی بند کردی۔ چیڑ کے درختوں سے گزرتی ہوئی ہوا کا شور اب بھی کمرے میں آرہاتھا۔

    ’’آج طوفان بہت تیز ہے۔ بجلی چمک رہی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

    بجلی کے چمکنے سے کمرے میں یکبارگی روشنی کی لہر پھیل کر سمٹ گئی۔ وہ کھڑکی سے ہٹ آیا۔

    ’’تم نے کہا تھافریڈا نے آج بھی زرد پھول لگا رکھا تھا۔‘‘ اس نے اچانک پوچھا۔

    ’’ہاں۔‘‘ تیسرے آدمی نے اثبات میں سرہلادیا۔

    اس نے پائپ سلگایا اور آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ کافی دیر تک پائپ پیتا رہا۔ میں سو گیا۔

    ابھی صبح نہیں ہوئی تھی۔ سرائے والا میرے سرہانے کھڑا مجھے جگا رہاتھا۔

    ’’صاحب غضب ہوگیا۔ وہ صاحب جو ہر سال یہاں آتے ہیں نہ جانے کہاں چلے گئے ہیں۔ باہر بڑا طوفان ہے صاحب۔‘‘

    میں ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھا۔ میں نے سامنے اس کی چارپائی پر دیکھا۔ وہ نہیں تھا۔ میز پر اس کا پائپ پڑا تھا۔ میں نے جلدی سے کوٹ پہنا اور باہر کی طرف لپکا۔

    برف بدستور گر رہی تھی۔ پوپھٹنے ہی والی تھی۔ سڑک بہت نیچے گلین کی طرف جارہی تھی۔ وہ اکثر اسی سڑک پر جایا کرتا تھا۔ کافی دور جانے کے بعد مجھے کسی کی جھلک دکھائی دی۔ میں جلدی سے اس کے قریب پہنچا۔ وہ وہی تھا۔ وہ ایک یخ بستہ آدمی کی طرح ساکت کھڑا تھااور نیچے دیکھ رہا تھا۔ اچانک میری نگاہ نیچے پڑی۔ میں مبہوت رہ گیا۔ سڑک پر برف سے ڈھکی مس فریڈا کی لاش پڑی تھی۔

    مأخذ:

    کینوس کا صحرا (Pg. 25)

    • مصنف: دیوندر اسر
      • ناشر: پبلشرز اینڈ ایڈورٹائزرز کرشن نگر، دہلی
      • سن اشاعت: 1982

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے