Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تم کون ہو؟

طلعت زہرا

تم کون ہو؟

طلعت زہرا

MORE BYطلعت زہرا

    ہوائیں سیدھی ہمارے چہرے کو مَس ہوتی ہوئی ہمارے پیچھے کی جانب روانہ تھیں۔ ہمارے بال چند لمحوں کو ہوا کے ہمدم و ساتھی بنتے اور پھر ہوا کے گذر جانے پر ان کی زندگی اتھل پتھل ہو جاتی۔ ہم اپنے کپڑوں کے اڑانے سے لے کر ہوا کی ہر ہر حرکت پر نظر کئے ہوئے تھے۔

    کبھی ہم ہوا کے مخالف رخ کھڑے ہو جاتے تونہ پوچھو ایسی حالت ہوتی، ہماری نہیں ہوا کی، وہی تو تھی جو ہمارا رخ موڑنے پرسخت برہم ہوتی اور ہمارے تمام بالوں کا یوں حشر نشر کئے دیتی کہ اللہ ہی جانتا تھایا ہم، جو اس کے عتاب میں آ جاتے تھے۔

    ہمیں کیا پڑی تھی کہ بادِ مخالف کو اپنے ہی پیچھے لگا لیتے تھے۔ بس یہی ہماری محبت کے چونچلے تھے۔ ہمیں اپنی محبت کا اتنا یقین تھا کہ ہم ہر طوفان سے بےخبر چلے جارھے تھے۔

    وہ دن جب اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ۔۔۔ کیا کہوں کہ اس یاد سے ہی سانس گھٹنے لگتا ہے، اس لئے نہیں کہ وہ کوئی برا واقعہ تھا بلکہ اسلئے کہ اس پیار کی یاد جو اب کہیں گم ہو چکا ہے اس کو سوچتے ہی دم گھٹنے لگتا ہے۔ سانسیں اٹک جاتی ہیں، دماغ مین دھواں سا بھر جاتا ہے، شوں شوں کی آوازیں اور میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو میں اپنے تکیہ پر اوندھا سر رکھے نجانے کب سے پڑی تھی۔ کئی دن ہو گئے یا کچھ برس ہو گئے ہوں گے، میں نے تو اپنے ذھن میں یاد کے ہر خانے کے آگے ایک دیوار تعمیر کر دی تھی، سب کچھ مخفی ہو گیا تھا، نہ مجھے کچھ یاد آیا ان سالوں میں، نہ ہی میں سوئی۔ عجیب کیفیت ہوتی ہے نا جب یہ بھی سمجھ نہ آئے کہ آخر اداسی کی وجہ کیا ہے لیکن غم ایسا کہ سینہ پھٹا جا رھا ہو، درد ایسا کہ ٹیسیں تو اٹھیں لیکن منبع نہ مل سکے ، دل بند ہو رھا ہو تو کوئی چارہ نہ ہو اور دماغ میں سائیں سائیں کی آوازیں اور میں اور وہ دنیا سے بے خبر بلکہ دنیا پر ہنستے اور اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کبھی دریاؤں کے کنارے پتھروں پہ بیھٹتے تو سورج آ کر ساتھ ہی بیٹھ جاتا۔ بڑا نٹ کھٹ تھا، ہمارے سایے ایسے بناتا کہ کبھی دو پرندے جو دریا پر تیرتے ہوئے اٹھکیلیاں کررھے ہوں تو کبھی وہ بچے جو ساحل پر کھیلتے ہوئے آپس میں گھتم گھتا ہوں۔ جب وہ مجھے پکڑنے کو بھاگتا تو میں پانی کی جانب جانے لگتی۔ وہ مجھے اپنی قسم دیتا دیکھو پانی کے قریب مت جانا۔ یہ بہت دھوکےباز ہوتا ہے۔ ھاں نامیرا نام جو اس نے لکھا تھا پانی پہ بڑا دھوکے باز نکلا، کیا؟ وہ؟ ھاں پانی! میرا نام ہی مٹا دیا۔

    میرا جسم اب بالکل نہیں ہلتا، بازو ہیں یہ تو مجھے یاد ہے، پاؤں بھی ہیں، وہ بھی یاد ہے یا شاید یاد آ گیا ہے پر میں دیکھ نہیں سکتی، دکھائی دیتا ہے تو صرف ایک تکیہ جس کا غلاف کبھی سفید ہوتا ہے تو کبھی چمپئی۔۔۔ آنکھیں کام کر رھی ہیں، یہ جو پانی کی گرم بوندیں رخسار سے تکیے میں دھنسی جا رھی ہیں، یہی میری زندگی کی علامت ہیں۔ آنکھیں نم کیوں ہو گئیں؟ کرب، اذیت، کس بات کا؟ کیوں یاد نہین آ رھا؟ نہین نہین مجھے نہیں سوچنا۔ مجھے کھڑکیاں بند رکھنے کا حکم ہے، ذھن کی بھی اور شائیں شائیں شائیں۔

    ھاں نا چمپئی رنگ مجھے پسند تھا، اسے بھی۔۔۔ سمندروں کے کنارے شام کا رنگ، ہمارےخوابوں کا رنگ، ساتھ گزارے بے شمار وقتوں کا رنگ۔ جب وہ میرے بالوں میں چمپہ کا پھول لگاتا تو مین مسحور ہو کر اسے چوم لیتی۔ پھول کو کیسے چوم سکتی ہوں اس کے ہاتھوں کو بھئی۔ عین اسی لمحے پھول میرے ہی عارض کے رنگ چرا لیتا تھا۔ چور۔۔۔ اور وہ میرے عارض بھنورا، نہیں چکور ھاں ھاں تم پروانے ہو, میں کہتی۔۔۔۔ وہ دل ہی دل میں خوش ہوتا لیکن ستانے کو کہتا کہ میں تو بھنورا نہین بھنور ہوں تمہین لے ڈوبوں گا اپنے چکر میں، چکور نہیں اور پرواہ نہ (پروانہ ) کرنےوالا ہوں۔ ہم دونوں خوب ہنستے، ایسا بھلا ممکن تھا، کبھی نہیں وہ تھا ہی ایسامن موھنا، شریر۔۔۔ ہنستے ہنستے پھندا لگ گیا۔۔۔

    گھٹن بڑھتی جا رھی ہے، وہ دیکھو لوگ آ گئے ہیں۔ دائرہ تنگ ہو رھا ہے۔ ان کے ہاتھ ہماری گردنوں پر ہیں۔ ہمارے ہنسنے کی سزا ہے، نہیں نہیں، بےخبر ہونے کی، یاشاید تم۔۔۔کیا تم بھی۔ دنیا ہو، پانی ہو، سایا ہو، ہوا ہو یا چکر میں اپنا سر پکڑنا چاھتی ہوں کہ وہ پھیلتا جا رھا ہے، لیکن بازو قید ہیں، میں بھاگنا چاہتی ہوں، ٹانگیں منجمد۔ کیا میں صرف اب تکیہ ہی دیکھ سکتی ہوں۔ سیدھا تو کر دو مجھے۔ نہیں، اچھا، دیکھو مر جاؤں گی؟۔۔۔

    تم میر ی تصویر کھینچو گے؟ کتنے پاگل تھے نا تم؟

    اجڑے پیلے یرقان زدہ پتے بھی میرے ساتھ تصویر کھنچوانا چاھتے تھے، وہ میری ہریالی چرانا چاھتے تھے، سبزہ و گھاس مجھ سے میری شادابی اور باغ مجھ سے بہار لینا چاھتے تھے۔ میں نے سب کو انکا حصہ دے دیا۔ میں خالی رہ گئی، یہاں خالی خالی نگاھوں، سے کئی برسوں کو گود لئے پڑی ہوں یا شاید صدیوں کو شائیں شائیں۔۔۔

    ‘‘سسٹر پلیز انہیں ری ہیبیلیٹیشن وارڈ مین منتقل کر دیں۔ انہیں رفتہ رفتہ ہوش آرھا تھا لیکن ہمیشہ کی طرح واپس کوما۔۔۔’‘ ڈاکٹر ذریمان کی آواز میرے کانوں میں اور شائیں شائیں شائیں۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے