Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وراثت

MORE BYمشتاق احمد نوری

    پھر وہی آواز آئی:

    ’’لاسن۔۔ لاسن‘‘

    میں چونک گیا۔ میرے اندر بےچینی کروٹ بدلنے لگی۔ میں جب بھی اس کی آواز سنتا ہوں میرے اندر اتھل پتھل ہونے لگتی ہے۔ کبھی کبھی تو باہر نکل کر اسے دیکھنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔ اسے دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں نے ابا کو دیکھ لیا۔

    نہیں نہیں، آپ یہ نہ سمجھیں کہ اس کی شکل میرے ابا سے ملتی جلتی ہے، لیکن ابا سے اس کا ایک ایسا عجیب رشتہ ہے کہ اس کی آواز سن کر ابا کا خیال در آتا ہے۔

    ’’لاسن ۔۔۔لاسن۔‘‘

    پھر وہی مانوس آواز۔ میں اس کی آواز کو اپنے اندر جذب کرکے ایک طمانیت محسوس کرتا ہوں۔ میں جس آواز لگانے والے کی بات کر رہا ہوں وہ ایک پھیری والا ہے جو کوارٹر کے سامنے کی سڑکوں پر ایک بڑی سی ٹوکری اپنے سر پر رکھے آواز لگاتا رہتا ہے۔

    ’’لاسن۔۔۔لاسن۔‘‘

    ابا میرے ساتھ رہ رہے تھے۔ وہ اکثر فلیٹ کے گارڈن میں بیٹھ کر دھوپ کا مزہ لیتے۔ وہ ہر آواز لگا نے والے کی آواز سنتے۔ کبھی کبھی اسے پکار لیتے اور سامان بھی خرید لیتے۔ کوئی پھیری والا آتا تو وہ نہ صرف سامان خریدتے بلکہ اس کے بال بچوں کی خیریت بھی دریافت کرتے اور یہ ضرور پوچھتے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوا رہا ہے یا نہیں۔ اگر کوئی کہتا کہ وہ اپنی غربت کی وجہ سے بچوں کو نہیں پڑھا پا رہا ہے تو پھر اسے ایک لمبا لکچر دیتے اور پڑھائی کی ترغیب بھی دیتے۔

    ’’لاسن۔۔۔ لاسن۔‘‘

    پھر وہی جانی پہچانی آواز آئی۔ میں اس آواز کی طرف متوجہ ہو گیا۔ دراصل ایک بار وہ اپنی مخصوص آواز لگاتا ہوا پھیری لگا رہا تھا، لیکن ابا اس کی آواز سن کر یہ اندازہ نہیں لگا پا رہے تھے کہ وہ کیا بیچ رہا ہے۔ انہوں نے آواز دے کر اسے اندر بلایا اور دریافت کیا:

    ’’کیا بیچ رہے ہو؟‘‘

    ’’لاسن۔‘‘

    ابا سمجھ نہیں پائے پھر پوچھا جواب آیا۔ ’’لاسن‘‘۔ تب ابا نے اسے سر سے ٹوکری اتارنے کوکہا اور جب اس نے ٹوکری زمین پر رکھی تو سامان دیکھ کر ابا مسکرا پڑے:

    ’’تم لہسن کو لاسن کیوں کہہ رہے ہو۔ لہسن بولا کر و، تاکہ لوگ سمجھیں کہ تم کیا بیچ رہے ہو۔ ‘‘ پھر اس سے دو چار بار لہسن کی گردان کروائی۔ ضرورت تو نہیں تھی پھر بھی اس کا دل رکھنے کے لئے لہسن خریدا اور صحیح تلفظ بتا کر روانہ کیا۔ وہ ٹوکری سر پر رکھے پھر وہی آواز لگانے لگا:

    ’’لاسن۔۔۔ لاسن۔‘‘

    اس کی آواز سن کر ابا مسکراپڑے اور بڑبڑائے۔

    ’’اس کی پرانی عادت ہے اتنی آسانی سے تھوڑے ہی جائےگی۔‘‘

    اس کے بعد وہ جب بھی آتا، ابا کو باہر دیکھتا تو پر نام پاتی کرنے چلا آتا۔ ان سے گفتگو کرکے اسے بھی سکون ملتا۔ ایک بار تو ابا نے مجھے بلا کر کہا۔

    ’’اس لاسن بیچنے والے کو چائے بسکٹ کھلاؤ۔ یہ بھی اپنے بچے کو اسکول بھیجنے لگا ہے۔‘‘ پھر انہوں نے اپنی جیب سے سو روپیہ نکال کر دیتے ہوئے کہا۔

    ’’بچوں کی تعلیم پر خرچ کرنا۔‘‘

    اس دن وہ ابا کا پاؤں چھو کر پرنام کر کے گیا۔

    ابا رہتے تو تھے میرے ساتھ، لیکن وہ خود کو تنہا محسوس کرتے۔ وجہ یہ تھی کہ ان سے کوئی بات کرنے والا نہ تھا۔ گاؤں میں تو وہ لوگوں کے درمیان گھرے رہتے۔ہر کوئی ان سے مشورہ کرتا۔ زمین کا جھگڑا نپٹانے میں تو وہ ماہر سمجھے جاتے۔ وہ انگریز کے زمانے کے امین تھے۔ اس زمانے میں ’امین‘ کو ’شری مان‘ کہا جاتا تھا، اس لیے زیادہ ترلوگ آج بھی انہیں شری مان کے نام سے ہی بلاتے تھے۔ جب معاملہ زمین کی ناپی کا ہوتا تو ابا کا فیصلہ آخری مانا جاتا ۔ پہلے بلائے گئے امین نقشہ ناپتے پھر زمین کی پیمائش ہوتی۔ سارا کام ابا کی نگرانی میں ہوتا، پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی صاف ہو جاتا۔ کبھی کبھی وہ اتنا مصروف ہوتے کہ دن کا کھانا ہی گول کر جاتے۔ وہ جس کا کام کرتے اس کے یہاں کھانا نہیں کھاتے۔ کوئی لاکھ خوشامد کرتا، مگر بڑی محبت سے انکار کر دیتے۔ ایک بار میں نے کہا:

    ’’ابا آپ دن بھر بھوکا رہ کر خود پر ظلم کرتے ہیں۔ گاؤں کے ہی لوگ ہیں، کیوں نہیں کھا لیتے۔‘‘

    ’’نہیں بیٹا۔ میں انصاف کرنے جاتا ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس کا دانا پیٹ میں جائے اس کی جانب جھک جاؤں ۔میں ڈرتا ہوں کہ مجھ سے انصاف کرنے میں کوئی چوک نہ ہو جائے۔‘‘

    یہ سب سن کر آج کے زمانے میں وحشت ہوتی ہے۔ آج تو بغیر کھائے، کھلائے انصاف ہی نہیں ملتا، لیکن ابا ہیں کہ احتیاط کا دامن کبھی چھوڑنے پر آمادہ ہی نہیں ہوئے۔

    میں ان کو جب بھی گاؤں سے پٹنہ لاتا وہ بھاگنے کے چکر میں رہتے۔ یہاں وہ تنہائی کے اسیر ہو جاتے ۔ بھرے پرے گھر میں بھی کوئی بات کرنے والا نہ ملتا۔ گھر میں کبھی کبھار میں ہی ان سے گفتگو کر لیتا۔ بیگم بس ضرورت بھرہی گفتگو کرتی۔ بچے دادا دادا کرتے، ان سے کھیلتے ان سے کہانی بھی سنتے، لیکن ان کی اپنی بھی مصروفیات تھیں۔ پڑھائی، اسکول، ٹاسک بنانا اور پھر کارٹون دیکھنا، کبھی کہانی کے چکر میں رات بھیگنے لگتی تو بیگم کی آواز آتی:

    ’’کہاں ہو تم لوگ۔۔۔ صبح سویرے اٹھنا ہے۔‘‘

    ابا جھٹ اپنی بات ختم کرتے اور مسکراکر کہتے:

    ’’جلدی بھاگو۔۔۔ ورنہ مار پڑےگی۔ ‘‘ اور بچے خدا حافظ کہتے ہوئے بستروں میں دبک جاتے۔ کہانی کے نام پر وہ زیادہ تر اخلاقی کہانی سناتے۔ کبھی کبھی بچے کہتے کہ الف لیلہ کب اسے نصیحت آموز موڑ دیتے اس کا بچوں کو احساس بھی نہ ہوتا۔ بچوں کی تربیت کہانی کے انداز میں انہوں نے اس طرح کی کہ ان کی دینی بنیاد مضبوط ہو گئی۔ وہ نماز میں کھڑے ہوتے تو بچے بھی ان کے ساتھ ہو لیتے۔ انہیں وضو کرنے، نماز پڑھنے اور نماز کی ساری چیزیں یاد کرانے میں انہوں نے بہت اہم رول ادا کیا۔ طریقہ بھی ایسا اپنا یا کہ بچے کھیل کھیل میں سب کچھ سیکھ گئے۔

    میں جب چھ منزلہ عمارت کی چوتھی منزل پر تھا تو انہیں اوپر نیچے کرنے میں کافی وقت ہوتی تھی۔ پانچویں منزل پر ایک کھنہ صاحب رہتے تھے۔کہیں ڈی ایس پی تھے۔ ان کے ابا سے ان کی دوستی ہو گئی۔ پھر تو ابا کا وقت بہت آسانی سے کٹنے لگا۔ ایک دن انہوں نے بڑی افسردگی سے کہا:

    ’’جانتے ہو کھنہ صاحب کے ابا کو کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔۔۔ وہ صبح سویرے پانچویں منزل سے اتر کر بوتھ سے دودھ لاتے ہیں۔ پھر پوتے کو اسکول بس تک چھوڑنے جاتے ہیں۔ پھر شام کو بھی گھر کا سودا سلف بازار سے وہی لاتے ہیں۔‘‘

    پھر افسر وہ ہو گئے اور ٹھنڈی سانس لے کر بولے:

    ’’بے چار ے بوڑھے آدمی کو دن میں چار پانچ بار پانچ منزل اوپر نیچے چڑھنا اترنا پڑتا ہے۔ کتنا تھک جاتے ہوں گے وہ؟‘‘ میں نے کہا۔

    ’’ابا ان سے کوئی زبردستی کام نہیں کرواتا۔ انہوں نے خود ہی یہ ساری ذمہ داری اوڑھ لی ہے۔ دراصل وہ گھر والوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ آج بھی ان لوگوں کو ان کی ضرورت ہے، اس طرح وہ خود کو مصروف رکھتے ہیں اور اپنے ہونے کا جواز پیدا کرتے ہیں۔‘‘

    میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے بات جاری رکھی:

    ’’دراصل وہ آج کی زندگی کے پروردہ ہیں۔ انہیں آپ کی طرح گاؤں کی تہذیب نہیں معلوم۔ آپ اپنے طور پر ان کی مصروفیت تول رہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ اگر میں یا آپ کی بہو آپ کو تھیلا دے کر یہ کہیں کہ فلاح فلاح سامان بازار سے لے آئیں تو شاید بات تو آپ مان جائیں گے، لیکن دوسرے دن ہی اپنا تھیلا لے کر گھر روانہ ہو جائیں گے کیونکہ آپ جس تہذیب کے پروردہ ہیں وہاں بزرگوں کا الگ مقام ہے۔ آپ کی غیرت یہ گوارہ نہیں کرےگی کہ آپ کا بیٹا آپ سے کام کرنے کو کہے۔‘‘

    میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:

    ’’ہاں۔ کل جب میں ریٹائر ہو جاؤں گا اور کبھی بیٹے کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوگا تو شید میں کھنہ صاحب کے ابا سے زیادہ کام کر کے اپنی اہمیت قائم رکھنا چاہوں گا کیونکہ میری پرورش جس ماحول میں ہو رہی ہے اس کا تقاضا یہی ہوگا۔‘‘

    ابا نے میری باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے کہا:

    ’’شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔‘‘

    دراصل ابا گاؤں کی اس تہذیب کے پروردہ ہیں جہاں ایک حکم کی تعمیل کے لیے دسیوں لوگ حاضر رہتے ہیں۔ وہاں بزرگ صرف حکم دینے کے لیے ہوتے ہیں ۔ چاروں طرف نوکر چاکر اور گھر کا ہر چھوٹا فردان کی زبان سے نکلے ہر حکم کو بجالانے کے لیے مستعد ہوتا ہے۔

    ابا جب سے بڑے کوارٹر میں آئے ہیں، یہاں آرام تو بہت ہے، لیکن کوئی بات کرنے والا نہیں۔ چاروں طرف بڑے بڑے صاحب لوگ اپنے خول میں بند۔ بند کمرہ، بند کھڑ کی یہاں تک کہ ذہن کے دروازوں پر بھی بڑے بڑے قفل لٹکے پڑے ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے یہ ترکیب نکالی کہ کبھی کوئی ڈرائیور، کبھی اردلی تو کبھی پھیری کرنے والوں کو بلا کر بات کرتے۔ ان کا حال چال دریافت کرتے اور گھما پھرا کر بچوں کی تعلیم پر بات ختم کرتے اس طرح ان کا دل بھی بہل جاتا اور وہ تعلیم کی روشنی بھی پھیلانے میں مددگار ثابت ہوتے۔

    ’’لاسن۔۔۔ لاسن۔‘‘

    یہ آواز میری روح سے چپک گئی ہے۔ وہ جب بھی آتا، ابا کو دیکھ کر پر نام کرتا اور اگر وہ نظر نہ آتے تو کسی سے بھی یہ ضرور پوچھ لیتا۔

    ’’آج کل بابا نہیں دکھ رہے ہیں گاؤں گیلن ہیں کا؟‘‘

    اسے بھی ابا سے ایک عجیب سارشتہ قائم ہو گیا ہے۔

    ایک بار تو اپنے لڑکے کو لے کر آیا اور ابا کا پاؤں چھو کر بولا:

    ’’اسے بھی آپ کا آشیر واد دلانے دیا ہوں۔ آ پ کی یاد سے یہ اب اسکول جانے لگا ہے۔ خوب من لگاکر پڑھتا ہے، آپ اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیں تو اس کا جیون سپھل ہو جائے۔‘‘

    ابا گدگد ہو گئے۔ اس بچے کو اپنے پاس بٹھایا۔ ناشتہ کروایا اور میرے بچوں کے کچھ پہنے ہوئے کپڑے بھی اسے دلوائے۔ وہ اس بچے سے اتنی محبت سے پیش آئے گویا برسوں سے جانتے ہوں۔ وہ بچہ بھی نہال ہو گیا۔ جاتے وقت بچے کی جیب میں ابا کا ہاتھ گیا۔ انہوں نے کیا دیا یہ تو وہی جانیں، لیکن اس لہسن بیچنے والے نے بچے کے گلے میں جھولتے تعویذ کو ہاتھ میں لے کر ابا سے کہا:

    ’’بابا یہ تعویذ دیکھ رہے ہیں اس میں کوئی جنتر نہیں ہے بلکہ اس میں آپ کا اشیرواد بند ہے۔‘‘

    ابا حیرت زدہ، میں بھی چونکا پھر اس نے کہا:

    ’’آپ نے اس دن جو سوکا نوٹ دیا تھا، اسے ہی اس کا لے کپڑے میں سی کر اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے۔ یہ اسی اشیرواد کا پھل ہے یہ بچہ اپنے کلاس میں بہت اچھا کر رہا ہے۔‘‘

    میں اس کی عقیدت دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ وہ ان کے چرن میں بیٹھتے ہوئے بولا:

    ’’بابا۔ میرے سرپہ بھی اپنا ہاتھ رکھ دیجئے۔ جس دن آپ کا اشیرواد ملتا ہے اس دن میری ٹوکری جلد خالی ہو جاتی ہے اور آمدنی بھی بہت ہوتی ہے۔‘‘

    ابا نے بڑے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:

    ’’اللہ تم کو زندگی کے ہر موڑ پر کامیاب کرے اور تمہاری زندگی خوشیوں سے بھر دے۔‘‘

    اس کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں اور اس کا بچہ بھی ابا کے پیروں سے لپٹ گیا۔

    جب بچہ جانے لگا تو ابا نے پوچھا:

    ’’بیٹا تمہارا نام تو پوچھا ہی نہیں۔‘‘ بچہ ہاتھ جوڑ کر بولا:

    ’’بابا میرا نام رام دلارے ہے‘‘ ابا مسکرائے پھر بولے:

    ’’اے لہسن والے۔ تم نے بھی آج تک اپنا نام نہیں بتایا۔‘‘

    ’’بابا۔ رام پیارے۔‘‘

    ’’واہ واہ بہت اچھا نام ہے۔ بھگوان کا نام اپنے نام کے ساتھ جوڑنا بہت شبھ ہوتا ہے۔ بھگوان کرے تم ہر حال میں رام دلارے اور رام پیارے بنے رہو۔‘‘

    وہ دونوں چلے گئے لیکن ابا بہت دیر تک گم صم بنے رہے۔ پتہ نہیں ان کے من میں کیا چل رہا تھا میں کچھ بھی سمجھ نہیں پایا۔ تھوڑی دیر تک وہ چپ رہے پھر کتاب کے صفحات میں گم ہو گئے۔

    ابا نے کتابوں کو اپنی تنہائی کا ساتھی بنا رکھا تھا۔ میرے پاس الماری میں بہت سی کتابیں تھیں جو ان کی خوراک بنتیں۔ یہ پڑھنے کی عادت انہیں تنہائی سے بچاتی تھی وہ ہر ٹاپک پر پڑھتے اور کبھی کبھی مجھ سے بحث بھی کرتے اور اپنی رائے بھی دیتے۔ سچ پوچھئے تو یہ کتابیں ہی تھیں جو انہیں میرے پاس روکے رکھتیں۔

    اس کے بعد سے تو وہ دونوں باپ بیٹا اس گھر کے فرد سے ہو گئے۔ ایک بار ابا نے رام دلارے کو روک لیا کہ کل اتوار ہے یہیں رہ جاؤ۔ وہ بھی میرے بچوں کے ساتھ مل کر کافی خوش ہوا۔ ابا کے پاس زیادہ رہنے کے بجائے وہ بچوں کے ساتھ ہی ٹی وی پر کارٹون دیکھتا رہا کہ اس پر ایک نئی دنیا کا انکشاف ہو رہا تھا۔

    دوسرے دن جب وہ جانے لگا تو تھیلا بھر کے کپڑے ملے۔ ایک جوڑا ابا کی جانب سے نیا ملا تھا، باقی بچوں کے پہنے ہوئے تھے۔

    ’’لاسن۔۔۔ لاسن۔‘‘

    یہ آواز پھر میری سماعت سے ٹکرائی ہے اور لاشعوری طور پر میں باہر نکل آیا ہوں۔ رام پیارے سر پر بڑی سی ٹوکری میں لہسن رکھے کھڑا ہے۔ ابا کے کہنے پر لہسن کے ساتھ وہ ادرک اور ہلدی بھی رکھنے لگا ہے۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی وہ ٹوکری سر پر رکھے رکھے ہی ایک ہاتھ سے پر نام کرتا ہے، پھر میری جانب دیکھتے ہوئے کہتا ہے:

    ’’بابا کو ادھر بہت دنوں سے نہیں دیکھ رہے ہیں۔ ان کا آشیر واد نہیں مل رہا ہے تو میری ٹوکری بھی خالی نہیں ہو پا رہی ہے۔‘‘

    میں خاموش رہتا ہوں اسے کوئی جواب نہیں دے پاتا۔ وہ پھر پوچھتا ہے:

    ’’بابا گاؤں سے کب تک آ رہے ہیں؟‘‘

    میں اس سوال کا بھی جواب نہیں دے پاتا، صرف ٹکٹکی لگائے اسے دیکھ رہا ہوں ۔ وہ میری خاموشی اور نظروں کے سونے پن سے کچھ کچھ تاڑ جاتا ہے اور سر پر رکھی ٹوکری زمین پر پٹختے ہوئے میرا پاؤں پکڑ کر زور سے چیخ اٹھتا ہے:

    ’’بابا گزرگیلن ہیں کا؟‘‘

    میں پھر بھی کچھ نہیں کہہ پاتا۔ تھوڑی دیر تک وہ سبکتا رہتا ہے، پھر میرا پاؤں پکڑ کر گڑگڑانے لگتاہے:

    ’’حضور۔ تنی ہمرے سر پر اپنا ہاتھ دھر کر آشیرواد دے دیں۔ ہم یہ سوچ کر تسلی کر لیں گے کہ یہ بابا کے ہی ہاتھ با۔‘‘

    میں اس کی اندھی عقیدت کو کوئی نام نہیں دے پاتا۔ ایک بہت بڑا سوال اچانک میرے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔

    ’’میں ابا کی اس وراثت کو سنبھال پاؤں گا کیا۔۔۔؟!‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے