Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

واپسی، دیوجانس، روانگی

انور سجاد

واپسی، دیوجانس، روانگی

انور سجاد

MORE BYانور سجاد

    شیشم کے اس پیڑ سے دور، بہت دور، صدیاں بعد پہلی مرتبہ شہر کی سب سے بری شاہراہ کے پچھمی سرے پر شور بلند ہوتا ہے، جس کی آواز فی الحال اس پیڑ کے آس پاس نہیں پہنچتی۔ پیڑ کی شاخوں پر پھدکتے، چیختے، چلاتے پرندوں میں تھورے تھوڑے وقفے بعد اور پرندوں کا اضافہ مسلسل ہوتا رہتا ہے۔

    اب وہ پرندہ، دائیں ٹانگ کو خم دے کر اپنے ننھے نوکیلے پنجے زمین میں گاڑ کر ذرا سا دبادیتا ہے، جس سے اس کی بائیں ٹانگ جو گھٹنے سے متورم ہے اور پیٹ، جو سانس سمیٹ کر لحظہ بھر کے لیے ساکت ہوگیا ہے، زمین پر گھسٹ جاتے ہیں، جس سے وہ پیڑ کے تنے کی جانب ایک تہائی انچ اور بڑھ جاتا ہے۔

    ایک دفعہ کاذکر ہے، چوٹ کھانے کے بعد وہ ساری ہمت سمیٹ کر اڑا تھا، اس جگہ آکر اس نے پیڑ کی سب سے باہر والی شاخ پر بیٹھنے کی کوشش کی تھی، لیکن دوچار ہاتھ دور ہی بے بس ہوکر زمین پر گرپڑا تھا۔

    بائیں پنجے کے تیز نوکیلے ناخن، زمین کی کھردری سطح پر تین متوازی لکیریں کھینچ دیتے ہیں۔ ایک تہائی انچ سرکنے کے بعد ہانپتا اپنی گردن زمین پررکھ دیتا ہے۔ اب اس کے بائیں بازو کے پر زمین پر پھیلے ہیں، دایاں بازو ٹوٹ کے پہلے جوڑ پر زاویہ معکوس بنا پیٹ کے ساتھ چپکا ہے، جس کے آخری سرے کے دوپر خاک میں اٹے زمین سے لگے ہیں، جن کے عین سامنے تین فٹ کے فاصلے پر ایک فلتھ ڈپو ہے، جس کے گول کناروں سے کوڑا کرکٹ ابلتا ابلتا اٹک گیا ہے۔ فلتھ ڈپو کے دروازے کانچلا حصہ زمین سے چند انچ اونچا ہے، اس حصے سے اور ادھ کھلے دروازے کے باقی کے حصے سے بھی فلتھ ابلتا ابلتا ابل گیا ہے۔

    شہر کی سب سے بڑی گزرگاہ کے پچھمی سرے سے دور، بہت دور، کنارے سے ذرا ہٹ کر شیشم کا بہت بڑا پیڑ ہے، جس کی شاخوں پر ناچتے، پھدکتے، چیختے چلاتے، پرندوں کے نیچے، فلتھ ڈپو سے تعفن اٹھ اٹھ کر شہر کی فضا میں پھیلتا ہے، اس سے ساری فضا مکدر نہیں ہوتی، اس تعفن کی سمت ہوا کا رخ متعین کرتی ہے۔

    پرندے کی چونچ کے رخ، جو زمین پر پڑی پڑی ذرا سی کھلتی ہے، ایک شخص فلتھ ڈپو کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا ہے۔ اس کی دائیں ٹانگ بالکل سوکھ چکی ہے، بائیں ٹانگ باکل صحت مند ہے۔ اس کی ایک بیساکھی زمین پر پڑی ہے، جس کا سرا پرندے کی جانب ہے۔ دوسری بیساکھی اس کی گود میں ہے۔ وہ غور سے اپنی دائیں ٹانگ کو دیکھتا مسکراتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں شرارت کی چمک اتر آتی ہے۔ وہ اپنی آنکھوں کے اندرونی کونے سیکڑ کر اپنے بائیں ہاتھ کے لمبے لمبے ناخنوں سے سوکھیا ماری ٹانگ کو کھجلاتا ہے۔ ٹانگ میں چھونے کی حس کو معدوم پاکر اس کے موٹے موٹے ہونٹ، گھنی داڑھی مونچھوں کے درمیان وا ہوجاتے ہیں، میلے میلے دانت ہنسی میں کھل جاتے ہیں۔ وہ دن میں کئی بار اپنی سوکھی ٹانگ کو کھجلاتا ہے اور حسیات کو معدوم پاکر اسی طرح اپنے جسم کو لرزادینے والی ہنسی میں پھٹ پڑتا ہے۔

    زمین کو سہلاتے ہوئے اس کا ہاتھ نرم نرم شے سے ٹکراتا ہے، وہ اس شے کو اٹھاکر دیکھتا ہے۔ ایک کتا، غالباً کسی قصاب کی دکان سے نرم نرم گوشت کا ٹکڑا منہ میں اٹھائے وہاں آجاتا ہے۔ اس ٹکڑے کو فلتھ ڈپو کے پاس زمین پر رکھ کر، ڈپو کی دیوار کو، جہاں وہ زمین میں پیوست ہوتی ہے، سونگھ کر اپنی پچھلی ٹانگ اٹھاتا ہے، پیشاب سے فارغ ہوکر مڑ کے اس جگہ دیکھتا ہے۔ اس کے حرصی دانت، اس کے موٹے موٹے ہونٹوں کو چیر کے گوشت میں پیوست ہوجاتے ہیں۔ کتا، اس سے اپنا مال چھیننے کا ارادہ ترک کرکے آگے بڑھ جاتا ہے۔ وہ گوشت کو ایک ہاتھ سے تھام کر، دوسرے ہاتھ سے، پھٹے ہوئے خاکی نیکر کے در سے خصیئے کھجلاتا ہے۔ پھر دونوں ہاتھوں سے گوشت کے ٹکڑے کو تھام کر جلدی جلدی کاٹنے چبانے نگلنے لگ جاتا ہے۔

    اس عمل کے دوران اس کی نظریں تین فٹ پرے زمین پر اس پرندے پر پڑتی ہیں۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ پرندہ اسے عجیب عجیب نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ وہ آخری نوالہ نگل کر اپنی آنکھوں کو سکیڑ کر پھیلاتا ہے۔ دونوں ہاتھوں سے بیساکھی کا بغل والاحصہ اٹھاکر، زمین والے حصے کو پرندے کے رخ زمین پر سرکاتا، پرندے کے پیٹ میں ہلکا سا کچوکا دیتا ہے۔ پرندہ یکدم صحت مند اور متورم ٹانگوں کے پنجے زمین میں گاڑ کر چونچ اٹھاتا ہے، پرے ہٹ جاتا ہے۔

    اب پرندے کے دونوں بازو سمٹ گئے ہیں۔ ٹوٹے ہوئے بازو کے جوڑ کانچلا حصہ خون میں لتھڑا ہے، جس پر مٹی جم گئی ہے۔ چونچ کھولے پرندہ یوں لرزنے لگتا ہے جیسے چھیڑا ہوا تار۔ درد سے نجات پانے کے لیے پرندہ، چونچ اور بھی کھولتا ہے لیکن درد، اس کی اس خواہش کو پوٹے ہی میں دبادیتا ہے۔

    اس کے عین اوپر شیشم کے پیڑ میں ناچتے، پھدکتے، چیختے چلاتے پرندوں کی تعداد میں تھوڑے تھورے وقفے بعد مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ گھنے پتوں والے شیشم کے اس پیڑ سے دور بہت دور صدیوں بعد پہلی مرتبہ شہر کی سب سے بڑی شاہراہ کے پچھمی سرے پر جو شور بلند ہوا تھا، اب اچھلتا کودتا، پھدکتا پھلانگتا، چیختا چنگھاڑتا، موج درموج، موج درموج، شہر کی شہ رگ کے وسط میں آکر دیواروں سے ٹکراتا ہے۔ کھلی دکانوں کے شیشے ٹوٹتے ہیں۔ دوسری کھلی دکانوں پر تالے پڑجاتے ہیں۔ سیلاب ہے کہ پھولے ہوئے پٹیوں، ہڈیوں پر منڈھی چمڑیوں، فیکٹریوں کے تیل کی بو اور دھوئیں سے اٹے نرخروں اور دفتروں کی فائلوں کی خاک چاٹتی زبانوں سے یوں ابلا ہے کہ تمام دیواریں اس کے سامنے خس و خاشاک ہیں۔

    موج درموج، موج درموج، شہر کی شہ رگ کے وسط میں باد مخالف کی دیواروں سے ٹکراؤ کی شوریدہ لہریں گھنے پتوں والے شیشم کے پیڑ میں لرزہ طاری کردیتی ہیں۔ وہ اپنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی کو اپنے بائیں کان میں ڈال کر زور سے ہلاتا ہے، پھر منہ میں ہوا بھر کے حلق میں کھلتی کانوں کی ٹیوبوں میں دھکیلتا ہے۔ بایاں کان ٹک کی آواز سے کھلتا ہے۔ شیشم کے پیڑ سے اترتی، لرزتی لہریں اس کے کان کے پردے سے ٹکراتی ہیں۔ باد مخالف کی دیواروں سے اس ہجوم کے ٹکراؤ سے پیدا شدہ لہریں اس کے بائیں کان کے پردے میں ارتعاش، مسلسل ارتعاش پیدا کردیتی ہیں۔ کان کا پردہ بالکل اسی طرح لرزنے لگتا ہے جیسے اس سے تین فٹ کے فاصلے پر لیٹے پرندے کاپیٹ، جیسے چھیڑا ہوا تار۔

    وہ اپنی دائیں ہتھیلی کو بائیں کان پر دباکے زور سے ہلاتا ہے، ہٹاتا ہے، پرندے کا پیٹ مسلسل لرزتا رہتا ہے۔ وہ دونوں ہاتھوں سے پھر بیساکھی کو اٹھاکر زمین والے سرے سے اب ذرا زور سے کچوکادیتا ہے۔ پرندہ اپنے پیٹ کے محور کے گرد مکمل گھوم کر پھر پہلے والی پوزیشن میں آجاتا ہے۔ وہ شخص اپنی سوکھی ٹانگ پر ہاتھ مار مار کر ہنستا ہے۔ پرندہ اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کو زمین میں جماکے پورے زور سے پر پھڑپھڑاتا ہے، ٹوٹا ہواپر لمحہ بھر کے لیے ہوا میں اٹھتا ہے۔ اس شخص کی ہنسی گلے میں اٹک جاتی ہے۔ اس کاہاتھ سوکھی ران پر جم جاتا ہے اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے پرندے کو زمین سے دو فٹ اوپر اڑکر ایک قدم کے فاصلے پر جاکر پھر گرتا دیکھتا ہے۔ اس شخص کی آنکھوں کے لال لال ڈورے اس کی پتلیوں کی دائیں بائیں کھنچے ہیں، وہ زور زور سے آنکھیں جھپکاتا ہے، پرندے کو غور سے دیکھتاہے۔

    فلتھ ڈپو کے ادھ کھلے دروازے سے ایک پلا دم ہلاتا نکلتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا، آکے اس شخص کی گود میں بیٹھ جاتا ہے، اس کی سوکھی ران کو چاٹنے لگتاہے۔ وہ شخص اپنے بائیں کان کی لرزش کو حلق میں دبانے کی کوشش کرتا ہے، پرندے کے پیٹ کی لرزش کو اپنے پپوٹوں میں سمیٹ کر آنکھیں موند لیتا ہے۔ فلتھ ڈپو کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگاکر پلے کی پشت پر ہاتھ پھیرنے لگتا ہے۔ پلا مسلسل اس کی ران کو چاٹے جاتا ہے۔ پلے کی زبان اس کی ران کے اندرونی حصے کو چاٹتی جب اس کے چڈے تک پہنچتی ہے تو وہاں کے بڑھے ہوئے بالوں کو بدذائقہ پاکر اس کی گود سے چھلانگ لگادیتا ہے۔ وہ جذبات سے عاری، پلے کو فٹ پاتھ پر جاتادیکھتا ہے، پھر پرندے کی جانب آنکھیں پلٹتا ہے۔

    پرندے کی نگاہیں اب مسلسل پیڑ کی ٹہنیوں میں ناچتے پھدکتے سیٹیاں بجاتے ساتھیوں پر جمی ہیں۔ ان میں شامل ہونے کی خواہش اس کے پوٹے میں یوں کانپتی ہے جیسے انتہائی گرمی میں پیاسی زبان۔ شورکاسیلاب ہے کہ تھمتا ہی نہیں وہ شخص پھر اپنے بائیں کان کو سہلانے کی خواہش کو ترک کرکے اپنے دونوں کانوں کو شور کی لہروں کے حوالے کردیتا ہے۔ شور، ہجوم کے ہیولے، ننگے بچوں کے پھولے ہوئے پیٹ، چمڑہ منڈھی ہڈیاں، دفتروں میں فائلوں کی گرد چاٹتی زبانیں، فیکٹریوں کے تیل کی بو اور دھوئیں سے اٹے نرخرے اس کے کانوں، اس کی آنکھوں سے داخل ہوکر اس کے دماغ میں اودھم مچادیتے ہیں۔ اس کے چہرے کاایک ایک ریشہ تن جاتا ہے، آنکھیں بھنچ جاتی ہیں۔ وہ فلتھ ڈپو کی دیوار سے اپنا سر ٹکرانے لگتاہے۔ اس کے نرخرے سے خرر خرر کی آوازیں نکلنے لگتی ہیں، زبان گرد سے لکڑی ہوجاتی ہے، پھولے ہوئے پیٹ اس کے پیٹ میں اترکے غبارے کی طرح پھولنے لگتے ہیں، پیٹ میں بڑھتے ہوئے خلا کااحساس اس کے سارے وجود پر محیط ہوجاتا ہے وہ بیٹھا بیٹھا فلتھ ڈپو کے دروازے کا ہینڈل تھام کر ہانپنے لگتا ہے۔

    باد مخالف کی پہلی مدافعتی دیوار کو توڑ کر سیلاب اس دیوار کے کچروں کو ٹھوکروں سے اچھالتا اب شیشم کے اس پیڑ کے قریب آپہنچا ہے جس کے گھنے پتوں والی ٹہنیوں میں اچھلتے کودتے پرندوں کا شور رفتہ رفتہ نقطۂ عروج کی طرف رواں دواں ہے۔ وہ درخت میں الجھی نظروں کو چھڑاتا ہے، کروٹ بدل کر لکڑی زبان، چھلے نرخرے، ابھرتے خلاؤں کے خلا، ان سب کو ایک ہاتھ سے اپنے پیٹ میں تھامتا، فلتھ ڈپو کے دروازے کی اوٹ سے شور کے منبع کی جانب دیکھتا ہے۔ سڑک کے کنارے لاریاں، جیپیں، ایک طرف کو ہٹ کر آگ بجھانے والی ٹینکی کی لاری، لوہے کے خود، سنگینیں جن کی دیوار کے پار پھول ہوئے پیٹ، لکڑی زبانیں، زخمی نرخرے اور ان سب کے سروں پر فضامیں لہراتے پوسٹروں، بینروں پر لکھے ہوئے لفظ جن سے منعکس دھوپ کی کرنوں کے صرف دو رنگ، قلم کی سیاہی، خون کی سرخی، جذبے کی حدت لیے، صرف ایک آواز، صرف ایک خیال جو صدیاں بعد حلق کی کال کوٹھڑی کی دیواروں کو توڑ کراب باد مخالف کی دوسری مدافعتی دیوار سے ٹکرانے کو تیار ہے کہ الٹی گڑی میخوں والے فل بوٹ، جن کی نوکیں صدیوں سے صحت مند سینوں کا لہو پیتی رہی ہیں، آج یہ سینے ان میخوں والے فل بوٹوں سے اپنا خون بہا چھینیں گے۔

    یہ آواز، یہ لفظ، یہ خیال، یہ منظر اس کی آنکھوں میں ساکت ہوجاتا ہے۔ اس کادل زور زور سے دھڑکنے لگتاہے۔ یک لخت اسے بڑی شدت سے بھوک لگتی ہے۔ اسے خود پر حیرت ہوتی ہے کہ پہلے کبھی یوں بھوک محسوس نہیں ہوئی تھی۔ غیرارادی طور پر اس کی نظریں پرندے کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔ اب پرندے نے ٹوٹا ہوا پر سمیٹ کر جسم کے ساتھ لگالیا ہے۔ پچھلی ٹانگیں تن چکی ہیں، اس کی گردن اسی طرح فضا میں اٹھی ہے، اس کی نظریں ابھی تک درخت کی ٹہنیوں پر جمی ہیں۔ وہ پھر اس اور دیکھتا ہے جہاں سیلاب دیواروں سے ٹکرانے کے لیے اپنی قوت مجتمع کر رہاہے۔ اس کی بھوک کی شدت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ آنکھوں میں ساکت منظر، خیال، لفظ، آوازپر دوبارہ یہ ساکت منظر ثبت ہوکر اس کی آنکھوں کو خیرہ کردیتا ہے۔ وہ جلدی سے فلتھ ڈپو کادروازہ کھول کر اپنی سوکھی ٹانگ گھسیٹتا، فلتھ ڈپو میں داخل ہوجاتا ہے اور فلتھ کو دونوں ہاتھوں سے بڑی تیزی کے ساتھ کھودنے لگتاہے۔ کوڑے کرکٹ کی تہوں میں گم شدہ کتابوں کے گلے سڑے اوراق، نیم ہضم شدہ لفظ، اپنے لمبے لمبے ناخنوں سے کھرچ کھرچ کر نکالتا ہے، سونگھتا ہے، دیکھتا چکھتا ہے پھر پھینک دیتا ہے کہ وہ ان کی بو، ان کی ہیئت، ان کی لذت سے واقف ہے۔ اس کی بھوک اب پیٹ سے نکل کر اس کے سارے وجود کو اپنے شکنجے میں لینے لگی ہے۔

    اس کے اس عمل کے دوران، دیوار کے ساتھ سیلاب کے ٹکرانے کی آواز اس دھماکے سے بلند ہوتی ہے کہ وہ چونک اٹھتا ہے۔ فلتھ کو وہیں چھوڑ کر جلدی جلدی رینگتا دروازے سے باہر نکل آتا ہے۔ بیساکھیوں کو زمین پر ٹکاکر فوراب اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور جائے تصادم کی جانب دیکھتا ہے۔ اس کے دیکھتے دیکھتے خود، سنگینیں، جیپیں اور آگ بجھانے والی ٹینک کی لاری حرکت میں آجاتی ہے۔ اس کی نظریں شہر کی شہہ رگ کے عین وسط میں پڑتی ہیں جہاں نوجوان بری طرح لاٹھیوں، بندوقوں کے دستوں سے پٹ رہے ہیں۔ وہ نوجوان جو ان کے بس میں نہیں آپاتے، ان پر خشت باری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

    اس شخص کی بھوک یک دم سلب ہوجاتی ہے۔ اس کادل اس کے کانوں میں کچھ اس تال سے بجنے لگتا ہے کہ پہلے کبھی نہیں بجاتھا۔ یک لخت سورج اور اس کے درمیان کوئی ٹھوس شے آجاتی ہے وہ پلٹ کر کہنے ہی لگتا ہے کہ ہٹ جاؤ مجھے حدت۔۔۔ کہ یہ سایہ ہٹتا ہے اور ایک نوجوان سڑک کے کنارے سے پتھر اکھاڑنے کی غرض سے جھکتا نظر آتا ہے۔ وہ ایک نظر پھر سڑک پر جاری تصادم کو دیکھتا ہے جہاں اسے لاٹھیوں سے زخمی ایک نوجوان کو اس کے ساتھی سہارا دے کر لے جاتے نظر آتے ہیں۔ خشت باری اور لاٹھیوں، بندوقوں کے دستوں کے وار بڑی شدومد سے جاری ہیں۔ وہ پلٹ کر پھر اس نوجوان کو دیکھتا ہے، جو سڑک کے کنارے سے پتھر اکھاڑنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ وہ شخص اپنے جسم کی ساری قوت کو سمیٹ کر اپنی ایک بیساکھی اس نوجوان کی طرف پھینک دیتاہے۔ نوجوان لپک کر بیساکھی کو اٹھالیتا ہے اور بیساکھی والے کی طرف دیکھے بغیر بیساکھی کو ہوامیں لہراتا، بھاگتا، بادمخالف پر پل پڑتا ہے۔

    تب شیشم کے گھنے پتوں والے پیڑ کے تنے کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے اس شخص کی نظریں زمین پر اس جگہ اٹھ جاتی ہیں، جہاں اب وہ پرندہ نہیں ہے۔ وہ درخت کی سب سے نچلی، باہر والی شاخ کی طرف دیکھتا ہے جہاں ایک ٹوٹے ہوئے پروالاپرندہ، اپنا ٹوٹا ہوا پر شاخ پر ٹکائے، زخموں سے بے خبر، دوسرے پرندوں کی آواز سے ہم آہنگ سیٹیاں بجارہا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے