Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یخ رات کا ایک ٹکڑا

مبین مرزا

یخ رات کا ایک ٹکڑا

مبین مرزا

MORE BYمبین مرزا

    تو عزیزو، میں تمھیں اس یخ رات کا واقعہ سنا رہا ہوں جو برسوں بلکہ دہائیوں سے میری یادوں کی کٹھالی میں پڑی ہے اور اس کی ٹھنڈک آج بھی میری ریڑھ کی ہڈیوں میں سرسراتی ہے، بلکہ ٹھنڈک ہی نہیں، اس کا گاڑھا دودھیا دُھواں جس میں ایک خوش بو بھی شامل ہے، آج بھی میرے سینے میں بھرا ہوا ہے۔ لیکن سب سے پہلے میں تمھیں یہ بتا دوں کہ جو کچھ میں سنا رہا ہوں، یہ حرف بہ حرف سچا واقعہ ہے اور میں خود اس واقعے کا ایک کردار ہوں۔ اگرچہ اس واقعے میں میری حیثیت بہت معمولی ہے، لیکن اس کے بڑے بڑے اور غیرمعمولی کرداروں کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے اور میں ان کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں اور بتا سکتا ہوں۔ یہ کردار عجیب ہیں اور ان کی واردات بھی۔ اور آج میں تم سے یہی واردات بیان کرنے بیٹھا ہوں۔

    جیسا کہ میں نے ابھی کہا، یہ ایک سچا واقعہ ہے۔ مجھے من گھڑت باتیں بنانے اور کہانیاں سنانے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ اس کی وجہ بھی صاف صاف بتائے دیتا ہوں۔ اصل میں میرے ساتھ ماجرا یہ گزرا کہ میں نے اپنا پورا بچپن کہانیاں سنتے اور جوانی کہانیاں پڑھتے اور اس سے آگے کی عمر کہانیاں دیکھتے ہوئے گزاری ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں کچھ کرداروں سے بہت مانوس ہوگیا، یہاں تک کہ ان میں سے بعض کو اپنے بہت قریب محسوس کرنے لگا، اتنا کہ وہ کبھی کبھی مجھے اپنے بالکل آس پاس محسوس ہوتے اور یہ خیال گزرتا، جیسے وہ کسی بھی وقت میرے سامنے آجائیں گے اور مجھے وہ ساری باتیں بتانے لگیں گے، جن میں سے کچھ میں پہلے سے جانتا ہوں اور جو نہیں جانتا، ان کو جاننے کی تڑپ دل میں لیے پھرتا ہوں۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہو سکا۔ اس انتظار میں میرابہت سا وقت خراب ہو گیا۔ بس اسی وجہ سے مجھے قصہ سازوں اور کہانی بازوں سے چڑ ہو گئی۔

    خیر، اگر بات صرف اتنی ہوتی تو بھی کچھ دن بعد میں اس مسئلے کو ذہن سے جھٹک دیتا اور میرا غصہ ختم ہوجاتا، لیکن میں نے اچانک محسوس کرنا شروع کیا کہ یہ قصہ بازی کرنے والے بہت بکواسی اور نامعقول لوگ ہوتے ہیں۔ انھیں لت پڑی ہوتی ہے اس دنیا کو اور اس کے لوگوں کو الٹا سیدھا کرکے دیکھنے کی۔ اسی لیے یہ جیتے جاگتے لوگوں کو کردار بنا کر ان کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہتے ہیں۔

    میں نے اکثر کہانیوں میں دیکھا کہ زندگی ہی کی طرح ان میں بھی بڑی بے حسی کے ساتھ وہ لوگ عزت دار بن کر بڑے مقام پر آن بیٹھے یا پھر ان کو لا کر بٹھا دیا گیا جو خود اپنے دلال تھے اور ضمیروں کا بیوپار کرتے تھے۔ اسی طرح بعض کہانیوں میں پوری سفاکی کے ساتھ وہ مرد مار دیے گئے جنھیں زندہ رہنا چاہیے تھا اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ وہ عورتیں ستی ساوتری بن گئیں یا پھر بنا دی گئیں جو اندر سے گندگی میں سَنی ہوئی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھی ہوا کہ ایسی ایسی عورتوں کو بازار کی رونق کر دیا گیا جن کے دل حقیقت میں پارسائی کی دولت سے مالا مال تھے اور وہ جنھیں اپنے جسم کی لذت سے اتنا بھی سروکار نہیں تھا جتنا پر جھٹکتے پرندے کو اپنے پروں سے جھڑنے والی گرد سے ہوتا ہے۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بازار میں ہوتے ہوئے بھی وہ عورتیں بازاری ہو ہی نہیں سکتی تھیں۔ میں یہ بات مانتا ہوں، خدا کی بنائی ہوئی اس کائنات میں اس کے پیدا کیے ہوئے لوگوں کی تقدیر اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ ان کے نصیب میں جو چاہتا ہے، وہی لکھتا ہے اور آئندہ بھی وہی لکھتا رہےگا۔ میں اس کی مشیت کے رازوں کو نہیں جانتا، جان ہی نہیں سکتا مگر مانتا بہرحال ہوں۔

    اس لیے میں خدا اور اس کے بندوں اور ان کی دنیا کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔ البتہ یہ سوال ضرور کرتا ہوں کہ جن کرداروں کی قسمت کسی قصہ گو کے ہاتھ میں ہوتی ہے، وہ آخر ان کے ساتھ خدا جیسی بے نیازی کا معاملہ کیوں کرتا ہے؟ وہ خود انسان ہے تو پھر اسے انسانوں کے دکھ درد کا احساس بھی ضرور ہونا چاہیے۔ اگر اسے احساس ہوتا ہے تو پھر وہ یہ کھلواڑ کیوں کرتا ہے؟ کیا واقعی طاقت اور اختیار انسان کو بھی بے نیازی سکھا دیتے ہیں؟ کاش میں کہانی کار ہوتا۔ اگر واقعی ہوتا تو خدا کی اس دُکھ بھری بستی کے سامنے، اس کے پیچھے یا دائیں یا پھر بائیں خوش قسمت اور خوش حال لوگوں کی بہت سی نہ سہی، کم سے کم ایک ہنستی مسکراتی دنیا ضرور آباد کرتا۔ افسوس، کہانی کہنا مجھے نہیں آتا۔ کہانی کہنا تو دور کی بات ہے، مجھے تو ایک کردار تک سوچنا نہیں آتا، حتیٰ کہ خود اپنا کردار بھی نہیں۔ اگر وہی آ گیا ہوتا تو میں کم سے کم چھوٹی موٹی ہی سہی مگر ایک اچھی دنیا ضرور بناتا اور ایک کردار کی کہانی ضرور لکھتا۔

    اگر میں کہانی لکھتا تو وہ کہاں سے اور کیسے شروع ہوتی، اس کی بابت میں کچھ ٹھیک سے نہیں کہہ سکتا۔ ممکن ہے کہ وہ جاڑوں کی اسی رات سے شروع ہوتی جس کا میں نے ابھی ذکر کیا۔ اس کہانی کو میں اس یخ رات کے ایک منجمد ہو جانے والے ٹکڑے کی طرح تم لوگوں کے آگے لا رکھتا۔ اس لیے کہ اس پوری رات اور آگے چل کر اس کی کوکھ سے پھوٹتے سارے بڑے بڑے واقعات کو ایک ہی قصے میں سمیٹنا شاید کسی ماہر قصہ گو کے بس میں بھی نہ ہوتا۔ اس لیے کہ مجھے آج تک یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ جو ایک یخ رات بہت برس پہلے یا شاید ایک صدی پہلے یا شاید اس سے بھی کچھ اور پہلے اس پھولوں والی کوٹھی میں اتری تھی اور پھر ہمیشہ کے لیے وہیں ٹھہر گئی تھی، اس کا وہ ایک ٹکڑا جو دھویں اور خوش بو میں لپٹا ہوا تھا، منجمد ہو کر پھولوں والی کوٹھی کی تقدیر بن گیا تھا۔ یہ رات وہاں کیوں اتری تھی، میں نہیں جانتا۔ ہاں، میں نے اس کو وہاں ٹھہرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس وقت میری بینائی اچھی تھی، اتنی اچھی کہ میں اس دھواں بھرے اندھیرے کمرے میں مشرقی دیوار کے ساتھ لگی چارپائی کو صاف دیکھ سکتا تھا۔ چارپائی پر خالہ فہمی لیٹی ہوئی تھیں۔ خالہ فہمیدہ کو ڈیوڑھی کے سارے گھروں میں فہمی پکارا جاتا اور سارے بچے انھیں خالہ فہمی کہتے تھے۔ ایک صرف میرے نانا تھے جو ہمیشہ انھیں پورے نام سے پکارتے تھے۔

    نانا اسکول ماسٹر تھے۔ میں نے تو خیر انھیں کبھی اسکول جاتے نہیں دیکھا، وہ بہت پہلے ریٹائر ہوگئے تھے۔ البتہ میری ماں اور نانی نے بتایا تھا کہ وہ اسکول ماسٹر تھے۔ وہ اکثر ان کی باتیں کرتیں اور بتایا کرتیں کہ انھوں نے بمبئی، بڑودہ اور کرنال کے مختلف سرکاری اسکولوں میں پڑھایا تھا۔ جب پاکستان بنا تو وہ لاہور آ گئے۔ یہاں انھیں شاہدرہ کے ایک اسکول میں لگا دیا گیا تھا جہاں کئی سال تک وہ ہیڈ ماسٹر رہے۔ شاہدرہ اب تو لاہور ہی کا حصہ بن چکا ہے۔ بمبئی، کراچی اور دلّی کی طرح شہر لاہور نے بھی خود کو دُور دُور تک پھیلا لیا ہے۔ ماں کہتی ہے، شاہدرہ اس وقت لاہور کی ایک مضافاتی بستی تھی، بہت کم آبادی والی ایک پرسکون جگہ۔ نانی نے بتایا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد وہ لوگ کچھ عرصے مہاجر کیمپ میں رہے۔ اس کے بعد بھگوان پورہ جسے اب بہت لوگ اسلام پورہ کہتے ہیں، میں ایک چھوٹا سا مکان رہنے کو مل گیا۔ نانا وہاں سے روزانہ سائیکل پر شاہدرہ جاتے اور ڈھلتی شام کے ساتھ گھر واپس آ جاتے۔

    ایک دن آکر انھوں نے نانی سے کہا کہ گھر کا سامان سمیٹ لیں اور پھر دو دن بعد وہ سب شاہدرہ منتقل ہو گئے، جہاں انھیں ایک کشادہ مکان مل گیا تھا۔ میں بہت چھوٹا رہا ہوں گا، جب اس مکان میں ماں کے ساتھ گیا تھا۔ اس کا نقشہ میرے حافظے میں آج بھی پوری طرح محفوظ ہے۔ اس کا لکڑی کا دروازہ کچھ زیادہ بڑا نہیں تھا اور اندر کی طرف ایک نیم تاریک گلی میں کھلتا تھا۔ گلی شاید پندرہ بیس گز کی رہی ہوگی۔ اس سے آگے بہت کشادہ صحن تھا، جس کے جنوبی رخ پر غسل خانہ تھا اور آگے دو کمرے تھے جن میں سے ایک بیٹھک کے طور پر استعمال ہوتا تھا اور دوسرا شاید پہلے مہمانوں کے لیے تھا مگر بعد میں نانا اسی کمرے میں اٹھ آئے تھے۔ شمالی رخ پر دو بڑے بڑے کمرے تھے جو گھر والوں کے استعمال میں تھے۔ صحن کے مشرقی و مغربی دونوں کناروں پر چوڑی چوڑی کیاریاں تھیں۔ ان میں امرود اور مالٹے کے پیڑ، چنبیلی، سدا بہار، گلاب، گیندے اور رات کی رانی کے پودے تھے۔ مغربی کیاری کے اس کونے پر جہاں کمرے بنے ہوئے تھے، کدو کی بیل تھی جو برآمدے میں بنے زینے کے ساتھ اوپر چھت تک چلی گئی تھی۔ مکان کے کمرے کشادہ اور ان کی چھتیں بہت اونچی تھیں۔ شمالی رخ کے کمروں کے برآمدے کے حاشیے سے زینہ اوپر جاتا تھا جو دونوں کمروں کی جڑواں چھت پر کھلتا تھا۔ چھت پر مردانہ قد سے ذرا اوپر تک اٹھی چار دیواری کھنچی ہوئی تھی جس میں صحن کے رخ پر چوڑے پٹ کا دریچہ تھا۔ میں نے اس دریچے کو کبھی کھلا ہوا نہیں دیکھا۔ اس کی کنڈی پر بھی گرد اور زنگ کی ملی جلی سی تہ جمی ہوئی تھی جو بتاتی تھی کہ مکینوں کو اسے کھولنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ اسی لیے جب میں نے خالہ فہمی کے واقعے کا سنا تو مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ آخر وہاں وہ واقعہ کیسے ہوا۔ لیکن کہنے والے تو یہی کہتے تھے کہ واقعہ وہیں ہوا تھا۔

    خیر، یہ تو بعد کی بات ہے۔ میں بتا رہا تھا کہ اس رات مشرقی دیوار کے ساتھ لگی چارپائی کو میں اس دھواں بھرے کمرے میں صاف دیکھ سکتا تھا۔ چارپائی پر خالہ فہمی بالکل سیدھی لیٹی تھیں۔ وہ پاؤں سے کاندھوں تک نیلے سفید خانوں والا اونی کھیس اوڑھے ہوئے تھیں۔ آنکھیں بند تھیں، لیکن میں جب بھی ان کے چہرے پر نظر ڈالتا تو مجھے یوں لگتا جیسے ان کی پلکیں ذرا کی ذرا لرزتی اور پھر ساکت ہو جاتی ہیں۔ ان کی سانس کبھی کبھی کھنچ کے آنے لگتی، لیکن پھر جلد ہی ہموار ہو جاتی۔ ویسے آج وہ بہت بہتر نظر آ رہی تھیں اور دو دن سے تو ان کی آواز بھی نہیں بدلی تھی اور انھیں جھٹکے بھی نہیں لگ رہے تھے۔ اس وقت ان کی چارپائی کے پاس سرھانے کی طرف ابو اور پائینتی کی طرف جھولے ماموں بیٹھے تھے۔

    جھولے ماموں خالہ فہمی کے سب سے چھوٹے بھائی یعنی میرے چھوٹے ماموں تھے۔ وہ اس وقت کالج میں پڑھا کرتے تھے۔ ہفتے کے ہفتے چھٹی کے دو دن وہ اپنی آپا یعنی میری ماں کے پاس گزارنے آ جایا کرتے۔ ان دنوں وہ ڈیوڑھی کے سارے بچوں کو ساتھ لے کر گھمانے اور جھولے دلانے جاتے تھے۔ گھر میں بھی بچوں کو ٹانگوں پر بٹھا کر اکثر جھولے دلاتے تھے۔ اس لیے سب بچے انھیں جھولے ماموں پکارتے تھے۔ جھولے ماموں اپنی دونوں بہنوں یعنی میری ماں اور خالہ فہمی سے بہت لاڈ کرتے تھے اور وہ دونوں بھی ان پر جان چھڑکتی تھیں۔ جب سے خالہ فہمی علاج کے لیے پھولوں والی کوٹھی آئی تھیں، وہ بھی ساتھ ہی اٹھ آئے تھے اور تب سے یہیں تھے۔ اس وقت وہ خالہ فہمی کی پائینتی آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے۔ ابو نے ایک گھٹنا کھڑا کیا ہوا تھا اور اس پر ٹھوڑی ٹکائے دیر سے زمین پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ میں نے کئی بار ان کی طرف دیکھا، وہ مسلسل اسی طرح بیٹھے تھے، شاید کسی گہری سوچ میں تھے۔ میں ان کے دائیں طرف کچھ فاصلے پر تھا۔ میرے آگے بڑا سا تسلا رکھا تھا، تسلے میں وہی چھوٹی انگیٹھی روشن تھی جو پہلے جاڑے کے دنوں میں جب دادی اماں زندہ تھیں تو ان کے کمرے میں رکھی رہتی تھی۔ انگیٹھی کے دوسری طرف عامل صاحب بیٹھے تھے۔ انھوں نے دونوں بازو سیدھے تان کر گھٹنوں پر دھرے ہوئے تھے۔ بائیں ہاتھ کی مٹھی سختی سے بند تھی۔ دائیں ہاتھ کا انگوٹھا انگشت شہادت پر تھا اور باقی انگلیاں بند تھیں۔ وہ آنکھیں موندے تیز تیز کچھ پڑھ رہے تھے۔

    میں نے ایک بار پھر کمرے میں نظر دوڑائی۔ روشنیُ گل تھی، صرف انگیٹھی کمرے کی تاریکی کو سہار رہی تھی۔ کمرے میں دھواں بھرا ہوا تھا لیکن اس میں ایک خوش بو بھی تھی جس کی وجہ سے دم نہیں گھٹ رہا تھا۔ چھت کے قریب بنے روشن دان میں سے رِس رِس کے دھواں باہر جا رہا تھا۔ میری نگاہیں پلٹیں اور خالہ فہمی کے چہرے پر رکیں۔ تب مجھے لگا ان کی پلکیں مسلسل تیزی سے لرز رہی ہیں اور گردن میں تناؤ پیدا ہو رہا ہے اور جیسے وہ سر اٹھا رہی ہیں۔ میں نے انھیں دو ایک بار دورہ ہونے سے پہلے کی کیفیت میں دیکھا تھا۔ اس وقت ان پر کچھ ایسی ہی کیفیت محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے گھبرا کے ابو کی طرف دیکھا اور انھیں خالہ کی طرف متوجہ کرنا چاہا۔ وہ اسی طرح ٹھوڑی گھٹنے پر ٹکائے زمین کو گھور رہے تھے۔ میری نظریں عامل صاحب کی طرف لپکیں عین اسی لمحے عامل صاحب گونج دار آواز میں دھاڑے، ’’آ پہنچے آنے والے!‘‘ جواب میں غوں، غوں، خرا جیسی آواز خالہ فہمی کے گلے سے نکلی۔

    عامل صاحب نے آنکھیں موندے موندے بایاں ہاتھ بلند کیا۔ میں سمجھ گیا، یہ اشارہ میرے لیے تھا۔ لہٰذا فوراً دی گئی ہدایت کے مطابق میں نے سیدھے ہاتھ کی مٹھی بنا کر انگوٹھا سامنے کیا اور نظریں اس پر جما لیں۔

    ’’آجاؤ آ جاؤ، تمھارا ہی انتظار تھا۔‘‘ عامل صاحب نے کہا۔

    ’’خررررر خوں خا خا خا۔‘‘ خالہ فہمی پر آنے والوں نے جواب دیا۔

    ’’ٹھیک ہے، بس اب فیصلے کی گھڑی آگئی۔‘‘ عامل صاحب بولے۔

    میری نگاہیں انگوٹھے کے ناخن پر جمی ہوئی تھیں جو ٹی وی اسکرین کی طرح روشن ہو چکا تھا اور اب اس پر مختلف مناظر گزر رہے تھے۔ کبھی لگتا رنگ برنگ بگولے رقص کر رہے ہیں، کبھی لگتا لق و دق صحرا ہے جو دور، آگے اپنے آخری سرے پر دھواں بن کر اٹھ رہا ہے اور آسمان سے ملتا چلا جا رہا ہے۔ کبھی سمندر دکھائی دیتا اور لگتا کہ پہاڑ جیسی لہر دوڑتی چلی آ رہی ہے اور کبھی لگتا چٹیل میدان ہے جس میں دھواں دھار بارش ہو رہی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی شے مجھے ڈرا نہیں رہی تھی، بلکہ میں پورے سکون سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس لیے کہ عمل شروع ہونے سے پہلے عامل صاحب نے مجھے اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ کیا کیا ہوگا اور کس طرح ہوگا۔ انھوں نے کوٹھی کے سب بچوں میں سے میرا انتخاب یہ کہہ کر کیا تھا کہ یہ بچہ سمجھ دار بھی ہے اور بہادر بھی۔ اس معرکے میں یہی میرا ساتھ دے سکتا ہے۔ ویسے تو وہ پچھلی دو راتوں سے خالہ فہمی کا علاج کر رہے تھے اور اب سے پہلے ان کے ساتھ صرف جھولے ماموں کمرے میں خالہ فہمی کے پاس ہوتے تھے، لیکن آج مجھے اور ابو کو بھی بٹھا لیا گیا تھا۔ عامل صاحب کا کہنا تھا کہ آج خالہ فہمی پر آنے والے آسیب سے ان کا آخری معرکہ ہوگا۔ تو بس اب وہ مرحلہ آ چکا تھا۔

    اس وقت میرا بہت جی چاہ رہا تھا کہ میں خالہ فہمی کو دیکھوں کہ انھیں دورہ تو نہیں ہو رہا، لیکن عامل صاحب نے سختی سے تاکید کی ہوئی تھی کہ عمل شروع ہونے کے بعد مجھے اپنے انگوٹھے کے ناخن اور انگیٹھی کی آگ کے سوا کسی طرف نگاہ نہیں اٹھانی۔ اس لیے میری نظریں ایک جگہ رکی ہوئی تھیں۔ ویسے تو مجھے بالکل خوف نہیں تھا، لیکن اچانک یہ لگا جیسے میری پیٹھ پر کچھ سرسرایا ہے اور برف جیسی ٹھنڈی لہر تیزی سے میری ریڑھ کی ہڈی میں دوڑتی چلی گئی۔ ذرا سی دیر میں لگا ماتھے پر پسینا ہے۔ میں نے دوسرے ہاتھ سے ماتھا پونچھا جو تر بہ تر تھا۔ مجھے جھرجھری آ گئی۔ پھر مجھے عامل صاحب کے الفاظ یاد آ گئے، ’’یہ بچہ سمجھ دار بھی ہے اور بہادر بھی۔۔۔‘‘ میں نے دل ہی دل میں اپنی ہمت بندھائی اور انگوٹھے پر نظریں گاڑ دیں۔ وہاں اب ایک بڑا سا شعلہ رقص کر رہا تھا جو دائیں بائیں ڈول رہا تھا اور کبھی رک کر ایک دم گول گھومنے لگتا تھا، یہ بالکل وہی انداز تھا جیسے میں نے ایک بار داتا دربار پر ملنگوں کو رقص کرتے دیکھا تھا۔ وہ اسی طرح کبھی ایک جگہ کھڑے ہوکر دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے دائیں بائیں ڈولتے اور کبھی دائرہ وار گھومنے لگتے تھے، بالکل اسی طرح جیسے ہم مٹی کے لٹو بنا کر گھماتے تھے جو گول گول گھومتے ہوئے خود ہی دائیں بائیں ڈولنے لگتے اور پھر گر جاتے تھے۔

    خالہ فہمی کی گہری گہری سانسوں کی آواز رہ رہ کر آ رہی تھی۔ عامل صاحب تیزی سے کچھ پڑھ رہے تھے لیکن ان کی آواز اتنی کم تھی کہ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر میں ایک لفظ ’ہو‘ سنائی دیتا تھا جو بلند آواز میں وہ ایک جھٹکے سے کہتے تھے۔ میرے انگوٹھے کے ناخن پر شعلے کا رقص بدستور جاری تھا۔ یکایک عامل صاحب کی ’ہو‘ جلدی جلدی سنائی دینے لگی۔ پھر انھوں نے کچھ اٹھا کر انگیٹھی میں ڈالا جس سے ایک بار پھر تیزی سے دُھواں اٹھنے لگا اور کمرے میں خوش بو پھیل گئی۔ تب انھوں نے گونج دار نعرے کی آواز میں ’یا ہو‘ کہا اور اس کے ساتھ ہی مجھے محسوس ہوا جیسے چھوٹی چھوٹی کنکریاں میرے سر، ماتھے، چہرے، سینے اور ہاتھ پر آکر لگیں۔ میں ایک لمحے کے لیے ہلا لیکن پھر سنبھل گیا۔

    ’’بس اب تیرا کھیل ختم!‘‘ عامل صاحب کی آواز آئی۔

    جواباً خالہ فہمی نے گہری سانس لی۔

    ’’بس میں نے کہہ دیا، اب تیرا کھیل ختم۔‘‘

    خالہ فہمی نے پھر گہری سانس لی۔

    ’’میں تجھے پھونک ڈالوں گا، بھسم کر دوں گا۔‘‘ عامل صاحب نے سخت غصے سے کہا۔

    ’’ہا ہا ہا۔ ہا ہا ہا ہا۔ ہا ہا ہا ہا ہا!‘‘ اس بار خالہ فہمی نے عامل صاحب جیسی گونج دار مردانہ آواز میں قہقہہ لگایا۔

    میری ٹانگیں کانپنے لگیں۔ میں نے دو بار اس سے پہلے بھی انھیں دورے کی حالت میں دیکھا تھا۔ اس وقت ان کی آنکھیں سختی سے مچی ہوتیں اور وہ اسی طرح رعب دار مردانہ آواز میں باتیں کرتی اور قہقہے لگاتی تھیں۔ ان کا چہرہ بالکل سفید پڑ جاتا، ہونٹ کاسنی ہو جاتے، گردن کبھی سختی سے تن جاتی اور سر تکیے سے اٹھ کر ہوا میں معلق ہو جاتا۔ کبھی وہ تکیے پر رکھے سر کو تیزی سے دائیں بائیں زور زور سے پٹخنے لگتیں اور ان کے بال چہرے پر بکھر جاتے۔ تب ایسا لگتا جیسے وہ عورت نہیں سچ مچ کوئی بلا ہیں، ویسی ہی جیسی پھوپھی اماں کی کہانیوں میں پہلوٹھی کے بچے کو اٹھا کر لے جانے کے لیے آتی تھی۔

    اس وقت میری آنکھیں تو اپنے انگوٹھے پر تھیں، لیکن دھیان خالہ فہمی کی طرف لگا ہوا تھا اور میرے ذہن میں ان کی دورے والی شبیہیں بن رہی تھیں۔ اچانک میں نے انگوٹھے پر غور کیا تو وہاں شعلہ اب کچھ اس طرح ناچ رہا تھا جیسے داتا دربار کے ملنگ دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے سر کو آگے پیچھے جھٹکتے ہوئے ناچتے ہیں۔ عامل صاحب نے ایک بار پھر انگیٹھی میں دھواں اٹھانے والی کوئی چیز ڈالی اور چھوٹی چھوٹی کنکریاں اچھال دیں۔ اب میں سمجھ گیا کہ یہ ماش کی دال کے دانے تھے جو انھوں نے عمل شروع کرنے سے پہلے ایک سینی میں اپنے پاس رکھ لیے تھے۔

    ’’جلاکر راکھ کردوں گا، چھوڑوں گا نہیں تجھے۔‘‘ انھوں نے جلالی آواز میں کہا۔

    ’’یہ لڑکی ختم ہو جائےگی بس، اور کچھ نہیں ہوگا۔ ہا ہا ہا ہا!‘‘ خالہ فہمی نے اتنی ہی بلند آواز میں جواب دیا۔

    ’’تو اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ میں تجھے چٹکی میں مسل کے پھینک دوں گا۔‘‘

    ’’ہا ہا ہا۔ ہا ہا ہا ہا، لے دیکھ ہم کیا کر سکتے ہیں۔‘‘ خالہ فہمی نے جھلّا کے فوراً جواب دیا اور اس کے ساتھ ہی بستر پر مچھلی کی طرح تڑپنے اور اچھل اچھل کر ایسے گرنے لگیں جیسے کوئی انھیں اٹھا اٹھا کر پٹخ رہا ہو۔ سرھانے کی طرف بیٹھے ہوئے ابو نے ان کا ہاتھ تھام کر روکنا چاہا تو انھوں نے اتنی زور سے ان کا ہاتھ جھٹکا کہ وہ خود ہل گئے۔ جھولے ماموں نے ان کی ٹانگ پر ہاتھ رکھا تو اتنی زور سے انھیں ٹانگ پڑی کہ وہ عامل صاحب سے آ ٹکرائے۔

    ’’ٹھہر خبیث، خنزیر! مزہ چکھاتا ہوں میں تجھے۔‘‘ عامل صاحب دھاڑے اور تیز تیز کچھ پڑھنے لگے۔ اسی دوران انھوں نے ماش کی دال کی مٹھی بھر کے خالہ پر اچھالی۔ خالہ کو ایک دم قرار آ گیا اور وہ بے سدھ بستر پر ڈھیر ہو گئیں اور تیز تیز سانسیں لینے لگیں۔

    ’’ختم کر دوں گا میں تجھے، بھسم کردوں گا۔‘‘ عامل صاحب پھنکارے۔

    یہ سنتے ہی خالہ کو جیسے ایک دفعہ پھر بجلی کا جھٹکا لگا اور وہ پہلے سے زیادہ شدت سے اچھل اچھل کر گرنے لگیں۔ میرا دل تو جیسے اب حلق میں آ گیا تھا۔ پورے جسم پر لرزہ طاری تھا۔ تب میں نے پریشانی اور دکھ کے ساتھ سوچا کہ عامل صاحب خالہ فہمی کو نہیں بچا پائیں گے۔ وہ لوگ انھیں واقعی ختم کردیں گے۔ میرا دل بھر آیا۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا آ گیا۔ جی چاہا اٹھ کر خالہ سے لپٹ جاؤں لیکن ہمت نہ ہوئی۔ پاؤں جیسے زمین میں گڑے ہوئے تھے۔

    ’’تم کیوں اس غریب کی جان کے دشمن ہو گئے؟ جان بخشی کردو اس کی۔ چھوڑ دو اس کا پیچھا، چھوڑ دو۔‘‘ عامل صاحب نے کہا۔ ان کی آواز میں اس بار غصّے کے بجائے مصالحت تھی۔

    ’’نہیں، اس طرح نہیں۔‘‘ خالہ فہمی نے اسی طرح تڑپتے ہوئے کہا۔

    ’’پھر کس طرح؟ کیا چاہتے ہو تم؟‘‘ عامل صاحب نے ایک بار پھر بلند آواز میں پوچھا۔

    ’’ہمیں نذرانہ چاہیے اور آئندہ کی ضمانت۔‘‘ خالہ فہمی نے جواب دیا۔

    ’’کیا نذرانہ چاہتے ہو اور کیسی ضمانت؟‘‘ عامل صاحب نے پوچھا۔

    ’’دو کالے بکرے اسی درخت کے تنے کے پاس ذبح کیے جائیں جہاں یہ ہمارے پاس آئی تھی۔ اور یہ آئندہ کبھی منہ اندھیرے اور دن چھپے اس درخت کے نیچے نہ جائے۔‘‘ خالہ فہمی کا لہجہ اور آواز مجھے اس وقت بالکل اپنے اسکول کے پی ٹی ماسٹر صاحب جیسا لگ رہا تھا۔

    ’’نذرانہ دے دیا جائےگا اور یہ بھی اس درخت کے نیچے آئندہ نہیں جائےگی۔ بس ختم کرو بات۔‘‘

    ’’یہ چالیس دن تک کوئی خوش بو، مسی، دنداسا اور کاجل استعمال نہیں کرےگی۔‘‘

    ’’منظور ہے، تم اب اس کی جان چھوڑ دو۔‘‘ عامل صاحب پوری طرح مصالحت پر اتر آئے تھے۔

    ’’اس کی سپرداری کون لےگا؟‘‘ خالہ فہمی نے پوچھا۔ اب انھیں بہت حد تک قرار آ گیا تھا۔ جھولے ماموں نے اٹھ کر ان کے اوپر چادر ڈالی اور پھر اپنی جگہ پر اسی طرح آلتی پالتی مار کے بیٹھ گئے۔

    ’’اس کا بھائی یہاں بیٹھا ہے، یہ ہے اس کا سپردار۔‘‘ عامل صاحب نے کہا اورجھولے ماموں کو آگے خالہ فہمی کے قریب آنے کا اشارہ کیا۔

    ’’نہیں، بھائی سپردار نہیں ہو سکتا، کسی اور کو لے کر آ۔‘‘ خالہ فہمی نے کہا۔

    ’’ٹھیک ہے، یہ اس کا بہنوئی بھی ادھری ہے۔‘‘

    ’’بھائی بہنوئی کے سوا کوئی نہیں ہے اس کا دنیا میں؟‘‘ خالہ فہمی نے سختی سے ڈانٹا۔

    عامل صاحب نے پہلے جھولے ماموں اور پھر ابو کی طرف دیکھا۔ ابو نے سر ہلایا اور دبے پاؤں اٹھ کر کمرے سے باہر چلے گئے۔

    ’’ابھی آ رہا ہے سپردار۔‘‘ عامل صاحب نے بلند آواز میں کہا، ’’تم وعدہ کرو کہ آئندہ اسے کبھی نہیں ستاؤگے، پھر کبھی اس پر نہیں آؤگے۔‘‘

    ’’ہم نے کہہ دیا ہے نا کہ جا رہے ہیں، تو بس سمجھ لے جا رہے ہیں۔ دوبارہ نہیں آئیں گے، اگر اس نے عہد نہ توڑا۔ اور تجھے بھی منہ نہیں لگائیں گے۔‘‘ خالہ فہمی اسی طرح مردانہ آواز میں بول رہی تھیں، لیکن اب وہ غصے میں نہیں تھیں۔

    دروازہ کھلا اور ابو کمرے میں داخل ہوئے، ان کے پیچھے پیچھے تایاجی بھی۔ میرا دھیان اب انگوٹھے سے زیادہ کمرے کی پوری صورتِ حال پر تھا۔ تایاجی میرے برابر آکے بیٹھے تو عامل صاحب بولے، ’’آ گیا ہے سپردار! یہ اس کی ضمانت لیتا ہے۔‘‘

    ’’کون ہے یہ؟‘‘ خالہ فہمی نے ڈپٹ کے پوچھا۔

    ’’جھولے ماموں نے آگے ہوکر عامل صاحب کے کان میں کچھ کہا تو وہ بولے، ’’عزیز ہے اس کا مگر باپ، بھائی، بہنوئی نہیں ہے۔‘‘

    ’’نام پکار سپردار کا۔‘‘ خالہ فہمی نے تحکم سے کہا۔

    جھولے ماموں نے آہستہ سے عامل صاحب کو تایاجی کا نام بتایا تو انھوں نے فوراً پکار کر کہا، ’’کمال الدین۔۔۔‘‘

    عامل صاحب کی بات ابھی پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ خالہ فہمی گرج کر بولیں، ’’کمال الدین ولد حاجی جمال الدین!‘‘

    مجھے بہت حیرانی ہوئی۔ میں نے اپنے دادا کا نام گھر میں سنا تو تھا، لیکن خالہ فہمی۔ میرا مطلب ہے کہ ان پر آنے والے میرے دادا کا نام کیسے جانتے ہیں، وہ تو میرے ابو کی شادی سے بھی پہلے فوت ہو گئے تھے۔ میں حیرت سے خالہ کو دیکھ رہا تھا، جو اب سکون سے چادر اوڑھے لیٹی تھیں۔ میں نے دیکھا، ابو نے سر ہلا کر عامل صاحب کو دادا کے نام کی تصدیق کی۔

    ’’ہاں کمال الدین ولد حاجی جمال الدین!‘‘ عامل صاحب نے جواب دیا۔

    ’’کمال الدین ولد حاجی جمال الدین! تمھیں اس لڑکی کی سپرداری منظور ہے؟‘‘ خالہ فہمی نے بلند آواز میں پوچھا۔

    تایاجی نے پہلے عامل صاحب کی طرف دیکھا، پھر جھولے ماموں کی طرف۔ دونوں نے سر ہلا کے اشارہ کیا تو انھوں نے کہا، ’’جی مجھے منظور ہے۔‘‘

    ’’ہم جانتے ہیں تم عہددار آدمی ہو۔ بازو تھامو اس لڑکی کا اور اس کے سپردار بنو۔‘‘ خالہ فہمی نے کہا اور پھر ان کا داہنا ہاتھ چادر سے باہر نکل کر ہوا میں بلند ہو گیا۔

    تایاجی نے ایک بار پھر تذبذب سے عامل صاحب اور جھولے ماموں کی طرف دیکھا۔ دونوں نے پھر گردن ہلائی، لیکن تایاجی اسی طرح اپنی جگہ بیٹھے رہے۔ ابو پہلے انھیں دیکھتے رہے، پھر انھوں نے قریب ہوکر ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھا تو تایاجی جیسے چونکے۔ ابو نے انھیں چارپائی کی طرف جانے کا اشارہ کیا۔ تایاجی سرک کر چارپائی کے قریب ہوئے تو خالہ فہمی نے پھر بلند آواز میں کہا، ’’کمال الدین! اس لڑکی کے سپردار ہو تو اس کا ہاتھ تھام لو۔‘‘

    تایاجی نے پھر سوالیہ نظروں سے جھولے ماموں کی طرف دیکھا۔ انھوں نے سر ہلا کر ہاں کہا تو تایاجی نے سر جھکا لیا مگر اگلے ہی لمحے انھوں نے سر اٹھایا، خالہ فہمی کی طرف دیکھا اور پھر داہنا ہاتھ بڑھا کر ان کی کلائی پکڑ لی۔ خالہ فہمی کو جیسے ایک دم تیز کرنٹ لگا، وہ پورے وجود سے ہل کر رہ گئیں۔ ان کے ہڑبڑا کر ہلنے سے تایاجی کی ان کی کلائی پر گرفت کم زور پڑی ہوگی مگر انھوں نے پل کی پل میں سنبھلتے ہوئے گرفت مضبوط کرلی۔ میرے دل میں خیال آیا کہ خالہ فہمی ان سے کلائی چھڑانے کی کوشش کریں گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ خالہ اب بالکل پرسکون ہوکر لیٹی تھیں، بس ان کی سانس ناہموار تھی۔ کبھی کھینچ کر لمبی لمبی سانسیں لینے لگتیں اور کبھی تیز تیز۔ عامل صاحب اس وقت بلند آواز سے کچھ ورد کر رہے تھے۔ پھر انھوں نے میری طرف دیکھا اور انگوٹھے پر نظریں جمانے کو کہا، جس سے میرا دھیان بالکل ہٹ چکا تھا۔

    میں ایک بار پھر اپنے انگوٹھے کا ناخن دیکھنے لگا۔ وہاں تو اب چٹیل میدان کا منظر تھا اور دور تک دھول اڑتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ عامل صاحب کا ورد کچھ دیر جاری رہا، پھر انھوں نے تین بار نعرہ لگاتے ہوئے ’حق ہو‘ کہا اور وہیں سے بیٹھے بیٹھے تین بار چھو کرکے خالہ فہمی پر دم کیا۔ میری طرف دیکھ کر بولے، ’’حال دے بچہ!‘‘ مجھے سمجھ نہ آیا کہ کیا کہہ رہے ہیں، میں نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو بولے، ’’تو کیا کہتا ہے؟ تیرے انگوٹھے کا پردہ کیا گواہی دیتا ہے؟‘‘

    میں نے انگوٹھے پر نظریں جمائیں اور جواب دیا، ’’لگ رہا ہے جیسے دھول اڑ رہی ہے۔‘‘

    ’’ہاں، دھول ہی تو اڑنی ہے اب، قافلہ جو روانہ ہو گیا ہے۔ چلے گئے ہیں جانے والے۔‘‘ پھر انھوں نے ایک نظر خالہ فہمی پر ڈالی، تایاجی کی طرف دیکھا، پھر جھولے ماموں کو اور آخر میں ابو کو دیکھ کر بولے، ’’مبارک ہو، خلاصی ہوگئی۔ نئی زندگی مبارک ہو بچی کی۔‘‘ عامل صاحب کے لہجے میں خوشی سے زیادہ فتح مندی کا اظہار تھا۔

    جھولے ماموں جو گومگو کی کیفیت میں خالہ فہمی کو دیکھ رہے تھے، عامل صاحب کی طرف مڑے اور بولے، ’’میری بجیا بالکل ٹھیک ہوگئی ہے عامل صاحب؟ اب اسے کبھی دورہ۔۔۔ میرا مطلب ہے یہ اب بالکل ٹھیک۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے ان کی آواز بھرا گئی اور وہ بولتے بولتے چپ ہو گئے۔ اگلے ہی لمحے ان کی آنکھوں سے موٹے موٹے موتی ڈھلنے لگے۔ میری آنکھیں بھی ایک دم بھر آئیں۔

    ابو جو تھوڑے فاصلے پر بیٹھے تھے، کھسک کر ان کے قریب ہوئے اور ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔ جھولے ماموں نے دونوں ہاتھوں سے آنکھیں پونچھیں اور بولے، ’’دولھا بھائی! بجیا اب بالکل ٹھیک رہےگی نا۔‘‘ پھر خود ہی انھوں نے دو بار اثبات میں سر ہلایا اور بولے، ’’بڑی تکلیف اٹھائی ہے بچاری نے۔‘‘

    عامل صاحب جو خاموشی سے بیٹھے تھے یا شاید کچھ پڑھ رہے تھے، میری طرف متوجہ ہوئے، ’’ہاں کاکا بول، گزر گیا قافلہ۔ گرد بیٹھ گئی ہے؟‘‘

    میں نے انگوٹھا دیکھا، وہاں تو اب کچھ تھا ہی نہیں۔ ’’اب تو کچھ نظر ہی نہیں آ رہا۔‘‘ میں نے انھیں بتایا۔

    ’’جب کوئی ہے ہی نہیں تو نظر کیسے آئےگا۔ ختم ہو گیا سب کھیل۔ جاچکے ہیں جانے والے۔‘‘ انھوں نے فاتحانہ انداز میں کہا۔ پھر انھوں نے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھا اور اٹھ کر خالہ فہمی پر پھونکا اور پھر میرے پاس آئے اور مجھ پر پھونکا۔ انھوں نے تایاجی کی طرف دیکھ کر گردن سے اشارہ کیا تو انھوں نے خالہ فہمی کا بازو اتنے آرام سے چارپائی پر رکھا جیسے وہ بہت نازک کانچ کی کوئی شے ہو۔

    عامل صاحب میرے رو بہ رو تھے۔ انھوں نے ہنس کر میری پیٹھ تھپتھپائی اور بولے، ’’شیرو بچہ ہے، شیرو!‘‘ مجھے اس وقت یوں لگ رہا تھا جیسے میں کسی بہت بڑے معرکے کو سر کرکے لوٹا ہوں۔ کچھ عجیب سی کیفیت تھی، خوشی، حیرت اور بے یقینی سے مملو عجیب سی کیفیت۔ عامل صاحب نے پوچھا، ’’کوئی بوجھ تو نہیں لگ رہا کسی کندھے پر؟‘‘

    یک بہ یک مجھے لگا جیسے سخت بوجھ سے میرے دونوں کاندھے ڈھلکے جاتے ہیں۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو انھوں نے پوچھا، ’’کس کندھے پر بوجھ ہے؟‘‘

    ’’دونوں طرف ہے اور بہت زیادہ ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

    ’’اچھا‘‘ کہہ کر انھوں نے دونوں کاندھوں پر اپنے ہاتھ جمائے اور پھر کچھ پڑھ کر پہلے دائیں طرف پھونکا اور شانہ ٹھونکا اور پھر بائیں طرف۔ یہ عمل انھوں نے تین بار دہرایا۔ اس کے بعد میرے سر پر ہاتھ رکھ کے کچھ پڑھا اور سارے جسم پر دم کیا۔ پھر مجھ سے پوچھا، ’’اب بتا، ہٹ گیا بوجھ؟‘‘

    میں نے کاندھے اچکائے، لگا جیسے اب کچھ نہیں ہے۔ البتہ گردن میں پیچھے کی طرف درد کی ٹیس سی اٹھی۔ میں نے بتایا۔ انھوں نے داہنے ہاتھ کی انگلیوں پر کچھ پڑھ کے پھونکا اور ان انگلیوں کی پوریں نرمی سے میری گردن کے پچھلے حصے پر پھیریں۔ مجھے گدگدی سی ہوئی اور میں ہنس دیا۔ انھوں نے میرے ہنسنے پر کوئی دھیان نہ دیا، اپنا عمل کرتے رہے۔ پھر مجھ سے دائیں بائیں اور اوپر نیچے گردن گھمانے کو کہا۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ تب انھوں نے درد کا پوچھا اور میں نے محسوس کیا کہ اب درد نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ ابو سے مخاطب ہوئے، ’’بھائی غیاث الدین، اس گھر سے اب ہر بلا نکال کے پھینک دی ہے میں نے، آپ کی دعا سے۔‘‘

    ’’آپ نے بڑی مہربانی کی۔‘‘ ابو نے جواب دیا اور میری طرف دیکھ کر بولے، ’’تم بالکل ٹھیک ہو؟ کچھ محسوس تو نہیں ہو رہا؟‘‘

    مجھ سے پہلے عامل صاحب بولے، ’’نہیں اب کچھ محسوس نہیں ہوگا اس بچے کو، جو اس پر ٹک گیا تھا، اس کو بھی دیس نکالا دے دیا ہے میں نے۔‘‘ انھوں نے فاخرانہ انداز میں کہا اور پھر مجھ سے پوچھا، ’’بول کاکا، اب تو کہیں بوجھ یا تکلیف نہیں ہے؟‘‘

    میں خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا، اس لیے فوراً نفی میں گردن ہلا دی۔ تایاجی نے مسکرا کے میری طرف دیکھا اور دونوں بازوؤں میں بھر کے سینے سے لگایا اور میری پیشانی پر بوسہ دیا۔ ان کے اس لاڈ سے تو جیسے میں پھولے نہیں سما رہا تھا۔

    جس ڈیوڑھی میں ہم لوگ رہتے تھے، اس میں چار گھر تھے۔ ایک تایاجی کا، دوسرا ہمارا، تیسرے گھر میں پھوپھی شیدو اپنے پانچ بچوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان کے میاں مشرقی پاکستان میں تھے۔ پھوپھی حالات کی خرابی کی وجہ سے بچوں کو لے کر آ گئی تھیں۔ پھوپھا وہیں اپنا خاندانی کاروبار دیکھ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ حالات ٹھیک ہوگئے تو وہ بیوی بچوں کو واپس بلا لیں گے ورنہ کاروبار بیچ کر مغربی پاکستان چلے آئیں گے۔ چوتھے گھر میں پھوپھی آپا اکیلی رہتی تھیں۔ ان کا گھر دوسرے گھروں سے چھوٹا تھا۔ میں نے ایک بار اپنی ماں کو کہتے سنا تھا کہ پاکستان آتے ہوئے ان کے میاں شہید ہو گئے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے شادی نہیں کی۔ ان کے اپنے بچے نہیں تھے، البتہ دو سگے بھائی تھے جو ہماری کوٹھی سے کچھ دُور ایک ہی مکان میں رہتے تھے۔ پھوپھی آپا، ان کے بجائے ہمارے ساتھ رہتی تھیں۔ گھر کے سب بڑے انھیں آپا بلاتے تھے اور سارے بچے پھوپھی آپا۔ پھوپھی شیدو اور پھوپھی آپا دونوں تایاجی سے بڑی تھیں اور ان کے سر بھی سفید ہو گئے تھے، پر میں نے ان میں سے کسی کو تایاجی یا اپنے ابو کا نام لیتے نہیں دیکھا تھا۔ تایاجی کو وہ اور ان کے ساتھ ساتھ میری ماں بھی بھائی صاحب پکارتیں اور میرے ابو کو وہ چھوٹے بھیا بلاتی تھیں۔ ابو بھی تایاجی کو بھائی صاحب ہی کہتے تھے، بلکہ دھیان پڑتا ہے کہ میں نے جسے بھی دیکھا، تایاجی کو بھائی صاحب ہی بلاتے دیکھا۔ تایاجی تھے بھی دبنگ قسم کے آدمی۔ میں نے انھیں غصّے میں تو کبھی نہیں دیکھا لیکن وہ لیے دیے رہنے والے آدمی تھے۔ جب وہ شام کو اپنے دفتر سے واپس آتے اور کوٹھی کے احاطے میں قدم رکھتے تو بس اس کی فضا ہی بدل جاتی۔ وہ ہنستے، قہقہے بھی لگاتے اور ہم سب بچوں سے محبت سے پیش آتے تھے، لیکن ان کا رعب سب پر قائم تھا۔ اس رات جب انھوں نے میری طرف مسکراکے دیکھا اور گود میں بھر لیا تو مجھے اپنی اہمیت کا اندازہ ہوا اور پنے آپ پر فخر ہونے لگا۔ تایاجی مجھے ذرا دیر گود میں لیے بیٹھے رہے، پھر انھوں نے ابو کی طرف دیکھا اور بولے، ’’بہت وقت ہو گیا، اٹھو اب تم لوگ کچھ اپنے کھانے کا کرو۔‘‘

    ’’جی بھائی صاحب!‘‘ ابو نے جواب دیا، پھر عامل صاحب کی طرف دیکھ کر بولے، ’’کھانا لگوا لوں؟‘‘

    ’’ضرور لگوا لیں بھائی غیاث الدین، اب تو کھانا حلال ہو گیا ہے میدان مارنے کے بعد۔‘‘ یہ کہہ کر عامل صاحب نے اپنی بھاری بھرکم آواز میں چھوٹا سا قہقہہ لگایا۔

    مجھے گود میں لیے تایاجی اٹھے تو میں نے دیکھا کہ خالہ فہمی کی گردن کو ذرا سی جنبش ہوئی، پھر ان کی پلکیں لرزیں۔ میرے دل سے بے چینی کی لہر گزری کہ کہیں پھر خدانخواستہ۔۔۔ لیکن وہ اسی طرح اطمینان سے لیٹی رہیں۔ ابو بھی ہمارے ساتھ ہی اٹھ کر باہر آ رہے تھے کہ جھولے ماموں نے ہاتھ پکڑ کر بٹھایا، ’’آپ بیٹھیے، میں کھانا چنوا کے آپ لوگوں کو بلاتا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ہمارے پیچھے کمرے سے باہر آ گئے۔

    دالان سے گزر کے ہمارے گھر کے سامنے پہنچے تو تایاجی پہلے بلند آواز سے کھنکارے، یہ ان کا مخصوص انداز تھا۔ وہ اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے بھی یوں ہی کھنکارتے اور پھر بچوں میں کسی کا نام پکارتے۔ اس وقت بھی انھوں نے آواز دی، ’’بنو! کہاں ہو تم؟‘‘ وہ میری ماں کو بنّو بلاتے تھے۔ ماں ’’جی بھائی صاحب‘‘ کہتی اور سر پر آنچل درست کرتی ہوئی کمرے سے باہر آئیں۔

    ’’بھئی تمھارے نواب نے تو آج کمال ہی کر دیا۔‘‘ انھوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

    ’’ایسا کیا کر آیا بھائی صاحب؟‘‘

    ’’ارے یہ پوچھو کیا نہیں کر آیا؟ بھئی اس نے بڑی بہادری سے اپنی خالہ کو عامل صاحب کے ساتھ مل کر ظالموں کے پنجے سے چھڑایا ہے۔‘‘

    ’’اچھا، ماشاء اللہ ماشاء اللہ۔ فہمی ٹھیک ہو جائےگی نا بھائی صاحب؟‘‘ ماں یہ پوچھتے ہوئے روہانسی ہو گئیں۔

    ’’ہو کیا جائےگی۔ ہو گئی خدا کے فضل سے۔ عامل صاحب کہہ رہے تھے، بس اب نجات مل گئی اس لڑکی کو بلاؤں سے۔ اور اس میں تمھارے بیٹے کی بہادری اور محنت بھی شامل ہے۔‘‘

    ماں پھسک پھسک کے رونے لگیں۔

    ’’اے بنو! تم تو بہادر لڑکی ہو اور بہادر بیٹے کی ماں بھی ہو تو پھر تم کیوں۔۔۔ اور اب تو اللہ کے کرم سے مسئلہ بھی ختم ہوگیا۔‘‘ انھوں نے آگے بڑھ کر ماں کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولے، ’’کرم کر دیا اللہ نے۔‘‘

    ماں نے دو پٹے سے آنکھیں اور ناک پونچھی اور بھر ائی ہوئی آواز میں ’جی‘ کہا۔

    ’’اچھی بیٹی!‘‘ تایاجی نے ماں کا سر تھپکا اور بولے، ’’تمھاری بھابی یہاں ہیں یا سامنے؟ بھئی اب دسترخوان پر کھانا چن دو۔‘‘ وہ جانے کو ہوئے، لیکن پھر پلٹے، ’’اچھا لو، اب اپنے نواب کو سنبھالو۔‘‘ انھوں نے مجھے ماں کے پاس اتارا اور اپنے گھر کی طرف چل دیے۔

    اس رات کے بعد تو گھر کی فضا ہی اور تھی۔ میں بچوں میں اپنی سیانپت بگھارتا اور رعب گانٹھتا پھرتا تھا کہ اس رات یہ ہوا اور یہ ہوا۔ بلکہ بچوں ہی میں کیا، بڑوں پہ بھی میری دھاک بیٹھ گئی تھی۔ ماں، خالہ فہمی، تائی جی، پھوپھی شیدو اور پھوپھی آپا۔ کون تھا جو مجھے دلارتا پچکارتا اور اس رات کا قصہ بار بار نہ سنتا تھا۔ میں اس رات ہونے والا سارا واقعہ پہلے لمحے سے، تایاجی کی ہاتھ پکڑ کر سپرداری کرنے تک ایک ماہر قصہ گو کے انداز میں سناتا تھا۔ سب یہ قصہ سنتے اور جیسے دانتوں تلے انگلیاں دبا لیتے۔ خالہ فہمی کا تو لاڈ ہی ختم نہیں ہو رہا تھا۔ وہ تو بس رہ رہ کر میری بلائیں لیتی اور مجھے اپنے سے لپٹاتی تھیں۔

    کئی دن پوری کوٹھی اس داستانوی فضا میں رہی۔ ویسے تو یہ معمول ہی تھا کہ اپنے اپنے کام کاج سمیٹ کر کوٹھی کی خواتین ڈیوڑھی میں آبیٹھتی تھیں، لیکن ان دنوں تو سب جیسے ایک ہی جگہ پر ہر وقت اکٹھے رہتے تھے۔ خالہ فہمی اور میں سب کی توجہ کا محور بنے ہوئے تھے۔ خالہ کی طبیعت اب بالکل ٹھیک تھی۔ انھیں دورہ ہوتا، نہ آواز بدلتی اور نہ ہی جھٹکے لگتے۔ اب وہ مسلسل نہائی دھوئی، صاف ستھری اور کنگھی چوٹی کیے رہتیں۔ ان کا رنگ میری ماں سے تو کم تھا، پر بنی ٹھنی رہنے سے وہ اب مجھے ایسی لگتیں جیسے میرے اسکول کی سائنس کی استانی تھیں۔ ویسے تو اب پوری کوٹھی ان کا خیال رکھ رہی تھی، لیکن ماں اور تائی جی تو جیسے پل پل ان کی صورت دیکھتی تھیں۔ کیا کر رہی ہیں، کیا کھا رہی ہیں، کب سو رہی ہیں، کب ہنس رہی ہیں۔ غرض ایک ایک بات پر دھیان تھا ان دونوں کا۔ ادھر دن ڈھلنے لگا اور ادھر تائی جی نے یا ماں نے آواز لگائی، ’’فہمی! کہاں ہو بچی؟ دونوں وقت مل رہے ہیں، چلو محمود کو لے کر کمرے میں چلی جاؤ۔‘‘ بس یہ سنتے ہی خالہ نے مجھے آواز دی اور ہم دونوں کمرے میں جا پہنچے۔ اور ہمارے پیچھے پیچھے ایک ایک کرکے ساری بچہ پارٹی۔ بس پھر وہیں منڈلی جم جاتی۔

    جمعے کے روز سب نماز پڑھ کے لوٹے تو گھر میں حسبِ معمول دسترخوان پر کھانا چنا ہوا تھا۔ کھانا کھا کے ہماری بچہ پارٹی کھیلنے کا منصوبہ بنا رہی تھی کہ تایاجی نے مجھے آواز دی اور کہا، ’’اپنی اماں کو بتا کر آؤ کہ تایاجی کے ساتھ بازار جا رہا ہوں۔‘‘ میں نے ماں کو بتایا اور ان کے ساتھ ہولیا۔ وہ پہلے منڈی گئے، وہاں سے پھل خریدے، پھر بازار میں ایک دُکان پر رک کر بسکٹ اور ٹافیوں کے پیکٹ خریدے اور برابر کی دکان سے جاکر کوئی اور چیز لائے۔ گھر واپس آکر انھوں نے پھلوں کا ٹوکرا میری ماں کے پاس بھجوایا اور کہا کہ پھلوں کی چاٹ بنا لیں۔ پھر بسکٹ اور ٹافیوں والا تھیلا مجھے تھماتے ہوئے کہا، ’’اپنی تائی کو دو اور کہنا کہ سب بچوں کو بانٹ دیں۔‘‘ میں تھیلا لے کر چلا تھا کہ انھوں نے واپس بلایا، ’’یہ بعد میں دے کر آنا۔ لو، پہلے یہ اپنی خالہ کو دے آؤ۔‘‘ انھوں نے جیب سے کاغذ کی تھیلی نکال کر مجھے تھمائی۔ وہ اپنا اسکوٹر اسٹینڈ پر کھڑا کرنے لگے اور میں خالہ کی طرف دوڑا۔

    خالہ مسہری پر بیٹھی کوئی رسالہ پڑھ رہی تھیں۔ میں نے تھیلی بڑھائی تو انھوں نے پوچھا، ’’کیا ہے؟‘‘

    میں نے کاندھے اچکائے تو بولیں، ’’ارے تو کہاں سے اٹھا لائے میرے گڈے؟‘‘

    ’’تایاجی نے دی ہے یہ تھیلی؟‘‘

    ’’تایاجی نے۔؟‘‘ خالہ کی آواز میں حیرت اور خوشی نمایاں تھی، ’’اچھا۔ کیا ہے اس میں؟‘‘ انھوں نے تھیلی کھولی تو اس میں چوٹی تھی جس کی لڑیوں میں سنہرے تار گوندھے تھے۔ ’’بہت اچھی ہے یہ تو۔ بہت پیاری۔‘‘

    انھوں نے چوٹی اپنے ہاتھ پر پھیلا کر دیکھی، ’’بہت پیاری۔ تمھاری طرح۔‘‘ انھوں نے لاڈ سے میرا گال سہلایا۔

    اگلے روز جب میں اسکول سے واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ خالہ نے وہی چوٹی بالوں میں گوندھی ہوئی ہے۔ ان کے سنہرے لمبے بال چوٹی میں گوندھے ہوئے بہت اچھے لگ رہے تھے۔ وہ بات کرتے کرتے جب سر ہلاتیں تو ان کی چوٹی لہرا کے اچھلتی۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت اچھا لگتا۔ خالہ کا سر اکثر دوپٹے سے ڈھکا رہتا تھا، لیکن اس دن میں نے دیکھا کہ وہ جب سر گھماتیں یا گردن موڑتیں تو ان کا دوپٹا ڈھلک جاتا اور چوٹی چمکتی لہراتی سامنے آ جاتی۔

    اس وقت ماں عصر کی نماز کے لیے غسل خانے میں وضو کو گئی تھیں جب تایاجی نے دروازے کے پاس آ کے کھنکارا اور انھیں پکارا۔ میں باہر لپکا اور بتایا کہ ماں وضو کرتی ہیں۔ وہ اندر آتے آتے رک گئے، ’’اچھا پھر آتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پلٹ گئے۔

    ابھی انھوں نے قدم بڑھایا ہی ہوگا کہ خالہ کی آواز آئی، ’’آداب! آپ آجایئے اندر، آپا ابھی آتی ہیں۔‘‘

    تایاجی واپس مڑے، ’’خوش رہو، کیسی ہو تم؟‘‘

    ’’ہم اچھے ہیں، اللہ کا شکر ہے، آپ آجایئے نا۔‘‘

    ’’ہاں چلو، ہم بنّو کے پاس تمھاری خیریت ہی تو پوچھنے کو آئے تھے۔‘‘

    ’’جی بہت شکریہ۔ ہم بالکل ٹھیک ہیں اب۔‘‘

    اتنے میں ماں وضو کرکے آ گئیں۔ تایاجی کو دیکھ کر آداب کیا اور چائے کا پوچھا۔

    ’’نہیں بھئی، اسکوٹر سے اتر کے سیدھے تمھاری طرف آ گئے، ہاتھ منہ نہیں دھویا ابھی۔‘‘

    ’’بھائی صاحب! یہاں دھو لیجیے۔‘‘ ماں نے کہا۔

    ’’جیتی رہو، پھر آئیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ خالہ کی طرف دیکھا، بولے، ’’اب تم اپنا خیال رکھنا۔‘‘

    ’’جی ہم رکھ رہے ہیں۔‘‘ خالہ نے کہا۔

    ’’اچھا بنّو! چل دیے ہم۔‘‘ تایاجی نے ماں سے کہا۔

    ’’میں تو کہہ رہی تھی بھائی صاحب بیٹھتے، یہ بھی آتے ہی ہوں گے۔‘‘

    ’’ہاں پھر آئیں گے۔ اچھا یوں کرو، غیاث آجائیں تو ہمیں کہلوا دینا، پھر اسی کے ساتھ آکے چائے پیتے ہیں۔‘‘

    ’’جی اچھا بھائی صاحب!‘‘ ماں خوش ہو گئیں۔

    تایاجی جانے کو مڑے ہی تھے کہ میرے دل کو جانے کیوں یہ خواہش ہوئی کہ تایاجی کسی طرح دیکھ لیں کہ خالہ نے ان کی دی ہوئی چوٹی بالوں میں گوندھی ہوئی ہے۔ ٹھیک اسی لمحے خالہ نے سر جھکا کر انھیں آداب کہا اور ماں کی طرف یوں گھومیں کہ ان کی چوٹی لہرائی، دوپٹا سر سے ڈھلا اور اور چوٹی لشکارے دینے لگی۔ میں نے دیکھا، تایاجی کی نظر پل بھر کو ان کی چوٹی پر رکی۔ مجھے لگا ان کے چہرے پر خوشی کی ایک لہر سی گزری، مگر یہ لہر اتنی ہلکی اور نرم تھی کہ اسے کوئی اور محسوس نہیں کر سکتا تھا، پر خالہ نے اسے ضرور دیکھ لیا تھا اور پھر یہی لہر مجھے ان کے چہرے پر کھیلتی دکھائی دی۔ تایاجی اور خالہ فہمی ایک ہی لہر سے شرابور تھے، گویا۔ پر یہ بات مجھے بہت بعد کو معلوم ہوئی اور اس وقت تک کتنے ہی طوفان گزر چکے تھے۔

    خالہ کی طبیعت واقعی اب بالکل ٹھیک تھی اور وہ ہر وقت خوش نظر آتیں، ہنستی بولتی رہتیں۔ گھر کے کام کاج میں وہ صرف میری ماں کا ہاتھ ہی نہ بٹاتیں، بلکہ بڑی اماں کے ساتھ بھی کام میں لگ جاتیں اور ان سے نمٹتیں تو کبھی پھوپھی شیدو اور کبھی پھوپھی آپا کے ساتھ سنگھوانے سمیٹنے میں مصروف نظر آتیں۔ وہ ہمیشہ کی ایسی ہی تھیں۔ یوں کہنا چاہیے کہ وہ تو بس ان کے دوروں کے دن تھے جب میں نے انھیں بستر پر دیکھا، ورنہ وہ جب بھی ہمارے گھر آتیں، دوڑ دوڑ کے سارے کام کرتیں اور سب کا ہاتھ بٹاتیں۔ اب پھر وہی دن لوٹ آئے تھے۔

    اسکول سے آنے کے بعد ہم بچے پہلے کھانا کھاتے اور پھر کھیلنے کے لیے دالان میں اکٹھے ہو جاتے۔ خالہ فہمی بھی ہمارے ساتھ کھیلتیں، بلکہ ان دنوں تو جھولے ماموں بھی اپنے کالج سے سیدھے ہمارے یہاں چلے آتے۔ خوب خوب ہلا گلا، رونق میلا رہتا۔ برف پانی، چور سپاہی، گیٹے اور ٹاپو۔ بس کھیلتے کھیلتے شام ہو جاتی۔ تب ہم سب بچے اپنا اپنا اسکول کا کام لے کر بیٹھتے اور خالہ فہمی کسی کو سبق پڑھاتیں، کسی کو یاد کراتیں، کسی کو املا کراتیں اور کسی کے پہاڑے چلتے۔ رات کے کھانے تک سب کے کام نمٹ جاتے۔ اس کے بعد وہ سارے بچوں کو کھانے کے لیے لے کر بیٹھ جاتیں۔ دسترخوان لگ جاتے۔ اب وہ مزے مزے کی باتیں کیے جا رہی ہیں اور ہم سب بچے کھانا کھا رہے ہیں۔ کس کی رکابی میں ترکاری نہیں ہے، کون ٹھیک سے لقمے نہیں بنا رہا، کس نے ابھی آدھی روٹی بھی نہیں کھائی۔ باتیں کرتے اور ہنستے ہنساتے ان سب چیزوں کا بھی انھیں پورا دھیان رہتا تھا۔ یہ روز کا معمول تھا، پر کیا مجال کہ اس میں خالہ فہمی سے کوئی کوتاہی ہو یا کسی روز ان سے تھکاوٹ یا اکتاہٹ کا اظہار ہو۔ ہاں پھر ایک دن مجھے لگا کہ وہ اسکول سے آنے کے بعد ہمارے ساتھ کھیلی تو ہیں پر وہ بات نہیں جو روز ہوتی ہے۔ کھانا بھی انھوں نے سب بچوں کو کھلایا اور ہنستے بولتے ہوئے ہی کھلایا۔ پر کوئی بات ضرور تھی جو وہ روز جیسی محسوس نہیں ہو رہی تھیں۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید ان کی طبیعت بوجھل ہے۔ میرا دل ڈرا کہیں خدانخواستہ دورے کی شکایت نہ ہو۔

    عشا کی نماز کے بعد ماں ابھی مصلے پر بیٹھی تسبیح کرتی تھیں کہ خالہ ان کے پاس جا بیٹھیں۔ ’’آپا! میرا بالکل جی نہیں چاہ رہا ابھی واپس جانے کو۔‘‘ انھوں نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈالیں۔

    ’’میرا بھی دل نہیں کرتا ابھی تجھے واپس بھیجنے کو، پر بڑے بھیا نے کہلوایا ہے میرے گڈے!‘‘ ماں نے لاڈ سے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور گال تھپتھپا کر بولیں، ’’تو فکر نہ کر۔ اگلے ہفتے میں خود اماں سے ملنے آؤں گی تو ان سے کہہ کے تجھے پھر ساتھ لے آؤں گی۔‘‘

    ’’اگلے ہفتے!‘‘ خالہ فہمی نے ماں کا چہرہ دیکھا جیسے تصدیق چاہتی ہوں۔

    ’’ہاں، اگلے ہفتے، بالکل پکا۔‘‘ ماں نے چمکارا۔

    ’’پر آپا، اگلا ہفتہ تو ابھی بہت دور ہے؟‘‘

    اماں ہنس دیں اور انھیں گلے سے لگا لیا۔ خالہ نے بھی خود کو پورا ماں کی گود میں ڈال دیا۔ گھڑی بھر بعد الگ ہوئیں اور بولیں، ’’آپا لے آئیں گی نا آپ مجھے واپس؟‘‘

    ’’ہاں میرے گڈے ضرور۔‘‘

    ’’دیر تو نہیں ہو جائےگی نا آپا!‘‘

    ماں نے نفی میں گردن ہلائی، پھر چمکارا، پیٹھ سہلائی۔

    کوٹھی تو خالہ کے جاتے ہی بھائیں بھائیں کرنے لگی تھی، حالاں کہ باقی سب لوگ وہیں تھے اور سارے کام اسی طرح ہو رہے تھے، لیکن ایسا لگتا تھا جیسے ساری رونق ان کے ساتھ ہی رخصت ہو گئی تھی۔ اس روز تو، لیکن جیسے عجیب سا ہو رہا تھا سب کچھ۔ اسکول سے آتے ہوئے جب تانگے والے نے مزنگ چنگی سے جیل روڈ کی طرف تانگا موڑا تو مجھے ایکا ایکی اس قدر وحشت ہونے لگی اور دل ایسا گھبرایا کہ بس سب کچھ چھوڑ کر کہیں بھاگ ہی جاؤں۔ اپنی گلی کے آگے تانگے سے اتر کے گھر تک آنا دوبھر ہو گیا۔ گھر میں داخل ہوا تو وحشت کچھ سوا ہو گئی۔ ایسی یبوست اس سے پہلے تو میں نے کبھی گھر میں نہ دیکھی تھی۔ پھوپھی شیدو اور پھوپھی آپا ڈیوڑھی میں بیٹھی تھیں۔ میری چھوٹی بہن اسکول سے آ چکی تھی، لیکن ابھی اسکول ہی کے کپڑوں میں تھی۔ ماں دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ میں نے ابھی دالان آدھا ہی پار کیا ہوگا کہ تایاجی اپنے گھر سے باہر آئے اور ان کے پیچھے پیچھے تائی جی۔ میں نے سلام کیا۔ تایاجی کا چہرہ ستا ہوا تھا۔ تھکن اور تکلیف کی ملی جلی کیفیت تھی۔ انھوں نے مجھے اپنے سے لگایا، پیٹھ سہلائی اور کچھ کہے سنے بغیر باہر چلے گئے۔

    چھوٹی بہن پھوپھی آپا کے پاس سے اٹھ کر میری طرف آ رہی تھی، ’’تم نے منہ ہاتھ دھو کر کپڑے کیوں نہ بدلے؟ اماں کہاں ہیں؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔

    اس نے نفی میں سر ہلا کر لاعلمی کا اظہار کیا۔

    ’’وہ تمھاری نانی اماں کی طرف گئی ہیں۔ تم لوگ منہ ہاتھ دھو کے کپڑے بدلو، میں اتنے کھانا چنتی ہوں۔‘‘ پھوپھی آپا نے کہا۔

    ’’نانی اماں کے ہاں۔ پر اکیلی کیوں گئی ہیں؟‘‘ میں نے حیرت آمیز تشویش سے پوچھا۔

    ’’اکیلی نہیں گئیں، تمھارے ابو بھی گئے ہیں ساتھ اور ابھی تم نے دیکھا تو ہے، تمھارے تایاجی بھی گئے ہیں۔‘‘

    ’’لیکن ہمیں کیوں نہیں لے کر گئیں وہ؟‘‘

    ’’آ جائیں گی وہ یا تم دونوں بعد میں چلے جانا۔ چلو بس اب جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر آجاؤ اور کھانا کھالو۔ بھوک لگی ہوگی میرے بچوں کو۔‘‘ پھوپھی آپا نے کہا۔ اتنی دیر میں تائی جی بھی وہیں آ گئیں۔ ان کا چہرہ بھی اترا ہوا تھا۔ انھوں نے آکر ہم دونوں بہن بھائی کو چمکارا، لیکن منہ سے کچھ نہ بولیں۔

    مجھے کچھ سمجھ نہ آیا، لیکن ایک دم بہت رونا آنے لگا۔

    اماں رات کو واپس آئیں تو ان کی آنکھیں سوجی اور چہرہ اترا ہوا تھا۔میں نے انھیں دیکھا تو ان کی طرف لپکا اور شکایت کی، ’’آپ ہمیں کیوں نہیں لے کر گئیں؟‘‘

    انھوں نے نرمی اور خاموشی سے مجھے اپنے سے لگا لیا۔ ذرا کی ذرا ان کا پورا وجود لرزا۔ وہ دھیرے دھیرے چل کر چوکی پر جا بیٹھیں۔ چہرے سے لگتا تھا، بہت برداشت سے کام لے رہی تھیں، میں انھیں ایک ٹک تک رہا تھا۔

    انھوں نے میری طرف دیکھا اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا، ’’تمھاری خالہ چلی گئیں۔‘‘ اتنے میں تائی جی کمرے میں داخل ہوئیں اور چوکی پر بیٹھتے ہوئے انھوں نے ماں کو گلے سے لگا لیا۔ ماں ان کے گلے لگیں تو یوں پھوٹ پھوٹ کر روئیں جیسے رونے کے لیے انھی کے کاندھے کی تو منتظر تھیں۔

    خالہ کہاں چلی گئیں۔ کیا مر گئیں۔ لیکن کیوں؟ اچانک کیسے؟ کیا پھر ان پر وہ آ گئے تھے؟ کیا انھوں نے عامل صاحب کی ہدایات پر عمل نہیں کیا تھا؟ کیا عامل صاحب کا عمل پورا نہیں ہوا تھا؟ کیا ان کا عمل خالہ فہمی پر الٹ گیا اور اسی وجہ سے وہ مر گئیں؟ میں بھی تو اس عمل میں عامل صاحب کے ساتھ شریک تھا، تو کیا اسی طرح اب میں بھی جلد ہی مر جاؤں گا؟ اس وقت میرے چھوٹے سے ذہن میں یہ اور ایسے ہی بہت سے دوسرے سوالات بری طرح دھما چوکڑی مچائے رہتے تھے۔ میرے پاس ان میں سے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ خود کو میں جو بھی جواب دیتا، اس سے دل کو اطمینان نہیں ہوتا تھا بلکہ الٹا اور دل بوجھل ہوجاتا اور وحشت بڑھ جاتی۔ اس بارے میں پوری کوٹھی میں اور تو کسی سے کچھ کہا سنا نہیں جا سکتا تھا سوائے ماں کے۔ ان سے میں نے کئی بار بات کرنی چاہی لیکن اب وہ مسلسل چپ رہنے لگی تھیں۔ ایک آدھ بار میرے پوچھنے پر انھوں نے بس اتنا کہا، ’’بس میرے لال، اس کا وقت پورا ہو گیا، اتنی ہی لکھوا کے لائی تھی وہ بچاری۔‘‘

    ’’لیکن اماں! انھیں ہوا کیا تھا گھر جا کے؟ یہاں تو وہ بالکل ٹھیک ہو گئی تھیں۔‘‘

    ’’ہونا کیا تھا بچے! بس گھڑی آ گئی تھی اس کی۔‘‘

    ’’اماں! خالہ کو وہاں جا کے پھر دورے پڑنے لگے تھے کیا؟‘‘

    ’’ہاں، دورے ہی میں تو وہ نیچے گری تھی۔‘‘

    ’’کہاں سے گری تھیں؟‘‘ میرا دل دھک سے رہ گیا۔

    ’’اوپر چھت پر تھی۔ کھڑکی کھول کر صفائی کر رہی تھی۔ بس ہو گیا دورہ۔ وہاں سے سر کے بل۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اماں کی آواز بھرائی اور وہ ڈوپٹہ منہ پہ رکھ کے رونے لگیں۔ میں بھی رونے لگا۔ ذرا دیر میں ماں نے آنکھیں پونچھ کر ڈوپٹہ منہ سے ہٹایا۔ مجھے روتا دیکھ کر انھوں نے مجھے سینے سے لگایا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ اس گھڑی میری آنکھیں برستیں، لیکن دل سوچتا تھا۔ اوپر چھت پر جا کر انھوں نے وہ کھڑکی آخر کھولی ہی کیوں تھی؟ میں نے تو کبھی اس کھڑکی کو کھلا ہوا نہیں دیکھا تھا، اس وقت بھی نہیں جب جھولے ماموں اور ابو وہاں پتنگ اڑا رہے تھے۔ ماں، خالہ اور ہم سب بچے ان کی پتنگ کو اوپر بڑھتا اور پیچ لگاتا دیکھ کر اچھلتے اور اودھم مچاتے تھے۔ ہم سب اوپر تھے، لیکن کھڑکی کسی نے نہیں کھولی تھی۔ اسے کھولنے کا تو کسی کو خیال ہی نہیں آتا تھا، پھر خالہ نے کیوں کھولی وہ کھڑکی؟ خالہ جب گری ہوں گی تو انھیں کیسا لگا ہوگا؟ کتنی تکلیف ہوئی ہوگی چوٹ لگنے سے۔

    خالہ کو دورہ ہوا تھا تو اس کا مطلب یہ ہوا نا کہ عامل صاحب نے اس رات جن سے انھیں چھٹکارا دلایا تھا، انھوں نے ہی واپس آکر ان کی جان لے لی، لیکن ایسا کیوں ہوا؟ کیا خالہ نے ان کی ہدایات پر عمل نہیں کیا؟ کہیں وہ کسی دن پھر اسی درخت کے۔۔۔ یا انھوں نے مہندی تو نہیں لگا لی تھی؟ میرے چھوٹے سے ذہن میں جیسے سوالوں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔

    یہ سب سوال اس دن ایک دم گرد کی طرح بیٹھ گئے جب میں نے پھوپھی شیدو کو پھوپھی آپا سے کہتے سنا کہ فہمی کو اس کے دونوں بڑے بھائیوں نے کرنٹ دے کر ختم کر دیا۔ مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ یہ میں کیا سن رہا ہوں، واقعی سن رہا ہوں یا کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ لیکن یہ خواب نہیں تھا۔ پھوپھی شیدو یہ بات سچ مچ پھوپھی آپا کو بتا رہی تھیں۔ شام کا وقت تھا، ماں نے معمول بنا لیا تھا کہ وہ عصر کی نماز کے بعد قرآن لے کر بیٹھ جاتیں اور پھر مغرب پڑھ کر مصلے سے اٹھتی تھیں۔ اس وقت وہ قرآن پڑھ رہی تھیں۔ ہم سب بچے ڈیوڑھی میں پھوپھی شیدو کے گھر کے آگے اپنا اپنا اسکول کا کام لیے بیٹھے تھے۔ اچانک میرے کانوں میں خالہ فہمی کا نام پڑا۔ پھوپھی شیدو کہہ رہی تھیں، ’’فہمی کے دونوں بڑے بھائیوں نے اسی بات پر تاؤ کھایا اور کہا کہ پورے خاندان کی عزت خاک میں ملا دی۔ چھوٹے والے نے بہن کی طرف داری کی اور اس کے حق میں بولا بھی، پر آپا تم جانو، بڑے تو بڑے ہی ہوتے ہیں۔ انھی کی چلتی ہے، گھر گرہستی ہو چاہے بھائی برادری ہو۔ پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فہمی کے منہ سے کچھ نکل گیا ہو۔ کہہ دیا ہو اس نے کہ میں تو اب اسی نام پہ بیٹھی عمر گزار دوں گی، پر کسی اور کے نام کی ڈولی نہ اٹھےگی۔ یہ عمر بھی تو ایسی ہوتی ہے کہ بس ایک بار جی میں کچھ سما جائے تو آدمی مرنے کو تیار ہو جاتا ہے، پر بات سے نہیں ہٹتا۔ ہائے ہائے کیسی دو گھڑی کی آئی، توبہ ہے مالک!‘‘ پھوپھی شیدو نے ہاتھ ملے، پھر کانوں کی لویں چھوئیں۔

    ’’میرا تو کلیجا دھنسا جا رہا ہے شیدو تمھاری بات سن کر۔ کیسی ہنس مکھ بچی تھی۔ کیسے دوڑ دوڑ کے کام کرتی، کیسے خوشی خوشی سب کا ہاتھ بٹاتی۔ کچھ بھی نہ سوچا دیکھا ظالموں نے۔‘‘ پھوپھی آپا نے ماتھے پہ ہاتھ رکھا جیسے چکر آ گیا ہو انھیں۔

    ’’ہاں آپا، سنا ہے ایک بھائی نے ہاتھ پاؤں باندھے، دوسرے نے کرنٹ دے دیا۔ گھڑی کی گھڑی میں ختم ہو گئی ہوگی بچی تو۔ نہ خون نے جوش مارا، نہ رشتے نے ہاتھ روکا۔ دل ہی پتھر ہو گئے ہوں گے بھائیوں کے۔‘‘ پھوپھی شیدو نفی میں سر ہلا ہلاکر افسوس کرتی تھیں۔

    پھوپھی آپا کو جھرجھری آ گئی۔

    میں بیٹھا تو وہیں تھا اس وقت، لیکن یک بہ یک دل و دماغ میں تو دوسری ہی کوئی دنیا آن بسی تھی۔ جیسے سنیما ہال کے پردے پر آن کی آن میں منظر بدلتے ہیں اسی طرح میرے ذہن کے پردے پر بھی اس وقت یوں پل کی پل میں نقشے بنتے اور بگڑتے تھے۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا، کہاں ہوں، کیا ہو رہا ہے؟ خدا جانے کب اور کیسے وہاں سے اٹھ کر ماں کے پاس آیا۔ یہ خیال جیسے تیر نیم کش کی طرح سینے میں اتر گیا تھا کہ خالہ فہمی کو کرنٹ دے کر مار دیا گیا ہے۔ مگر کیوں؟ اس کا کوئی جواب ذہن میں آتا تھا اور نہ یہ سمجھ میں آتا تھا کہ کس سے پوچھوں، آخر ایسا کیوں کیا گیا؟

    یوں تو میں اسکول بھی جاتا تھا، مولوی صاحب سے بھی پڑھتا تھا، گھر سے باہر بھی نکلتا تھا، ماں کسی کام کو کہتیں تو وہ بھی کرتا۔ مُنیا کو کھلاتا اور اس کے اسکول کا کام بھی دیکھتا، پر جیسے اب میں، میں نہیں رہا تھا۔ کسی کام میں جی لگتا، نہ کوئی چیز اچھی لگتی۔ ہر وقت خالہ فہمی یاد آتیں اور ذہن میں نقشہ سا کھنچ جاتا کہ ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انھیں کرنٹ لگایا جا رہا ہے۔ کھانے پینے سے میراجی بالکل اچاٹ ہوگیا تھا۔ کچھ کھایا ہی نہ جاتا۔ ماں کو میری حالت پر تشویش ہونے لگی۔ انھوں نے ابو سے کہا کہ مجھے حکیم صاحب کو دکھا کے لائیں، سوکھتا جا رہا ہوں میں۔ ابو دکھا کر بھی لائے، پر مجھے کچھ خاص افاقہ نہ ہوا۔ ماں میری طرف سے پریشان تھیں۔ کبھی قرآن پڑھ کے پانی پر دم کرکے مجھے پلاتیں، کبھی پڑھ پڑھ کر مجھ پر پھونکتیں۔ میرے جی میں کئی بار آئی کہ ان سے خالہ فہمی کا پوچھوں، لیکن ہمت ہی نہیں ہوئی۔

    اس دن میں بخار میں بےسدھ پڑا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر میں غشی کے دورے ہو رہے تھے۔ ماں پڑھ پڑھ کر مجھ پر پھونکے جاتیں اور ٹھنڈی پٹیاں میرے ماتھے اور ہاتھ پاؤں پر رکھ رہی تھیں۔ اسی کیفیت میں جانے کیسے میں نے ان سے پوچھ لیا، ’’اماں خالہ فہمی کو کرنٹ دے کر ماموں نے کیوں مار دیا؟‘‘ اس سوال پر پہلے تو ماں کے منہ پر ہلدی سی کھنڈی اور پھر ذرا کی ذرامیں ان کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ وہ ایک ٹک مجھے دیکھتی رہیں اور پھر سہمی ہوئی آواز میں بولیں، ’’تجھ سے یہ کس نے کہا بچے؟‘‘

    ’’میں نے سنا ہے اماں۔ پر کیوں مارا ماموں نے انھیں، ہیں اماں؟‘‘

    ’’کہاں سے سن لیا تو نے میرے بچے۔ مجھے بتا، یہ ہوا کہاں سے آ گئی تجھ تک؟‘‘

    میں چپ رہا۔

    ’’بول نا میرے چاند، کس نے کہا تجھ سے؟‘‘ انھوں نے تڑپ کر میرا ہاتھ پکڑا۔ خدا جانے اس وقت مجھے بخار زیادہ تھا یا پھر اس بات سے ان کے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ گئے تھے، مجھے ان کا ہاتھ بالکل برف کا ڈلا معلوم ہو رہا تھا۔ چپ پا کر انھوں نے دوسرا ہاتھ میرے ماتھے پر رکھا۔ وہ بھی اسی طرح برف ہو رہا تھا۔

    میں نے ان کی طرف دیکھا، ان کا چہرہ بالکل پھیکا پڑ گیا تھا۔ مجھے خیال آیا، جب تک میں بتاؤں گا نہیں، وہ تکلیف کے اس احساس سے نکل نہیں پائیں گی، سو میں نے انھیں پھوپھی شیدو اور پھوپھی آپا کی گفتگو کا بتا دیا۔ وہ ایک لمحے کو بالکل چپ ہو گئیں، لیکن اگلے ہی لمحے بلک کے رو دیں۔ مجھے بھی ایسے ہی رونا آنے لگا۔ ذرا سی دیر میں وہ سنبھلیں اور مجھے بھینچ کے سینے سے لگا لیا، پھر بولیں، ’’بس، اس کا وقت پورا ہو گیا تھا۔ کون کیا سمجھتا ہے اور کیا کہتا ہے، اس سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں۔ نہ کسی کی بات سننی ہے اور نہ آئندہ ایسی کوئی بات کسی سے کرنی ہے۔‘‘ انھوں نے ماتھے پر ہاتھ پھیرا اور پھر ہاتھ سے میرے سر میں کنگھی کرتے ہوئے بولیں، ’’بچے! یہ گھٹنا کھولوں تو یہ بھی میرا ہے اور یہ کھولوں تو یہ بھی میرا۔ سو میرے لال، پردہ ہی بھلا، چپ رہنا ہی اچھا ہے۔ جانے والی تو واپس آنے سے رہی۔‘‘

    ادھر بات طول کھینچے جاتی ہے مسلسل اور ادھر یہ رات ڈھلان اترتے اترتے آخر اب صبحِ کاذب کی وادی تک آ پہنچی۔ وقت مٹھی کی ریت کی طرح پھسلے چلا جاتا ہے اور بات رہی جاتی ہے۔ سو، اب میں اس قصے کو مختصر کرتا اور اپنی بات سمیٹتا ہوں۔ نہیں، میرے عزیزو! یہ بات نہیں کہ میں یہ قصہ سناتے سناتے اکتا گیا ہوں۔ سچ پوچھو تو میرے تو دل کی بر آئی کہ تم کو یہ ماجرا سناتا اور جانے کتنے زمانوں سے دل پہ دھرا بوجھ ہٹاتا ہوں۔ پر عزیزو! آج تک ساری بھلا کون کہہ سکا ہے اور ساری بھلا کب کوئی سن سکا ہے۔ ہم سبھی یہاں اپنے اپنے حصے کی کہتے ہیں اور اپنے ہی اپنے حصے کی سن کر چلے جاتے ہیں۔ باقی رہے نام اللہ کا۔

    بہرحال تو میں تم کو بتا رہا تھا کہ بخار کی ہذیانی کیفیت میں ماں کے سامنے میرے منہ سے وہ بات نکل گئی جو میری جان کا روگ بنی ہوئی تھی۔ تس پر ماں نے مجھے سمجھایا کہ چپ ہی رہنا اچھا ہے۔ سو، اب خدا جانے ماں کی اس پردہ رکھنے والی بات کا اثر تھا یا پھر وہ میری شرحِ صدر کا لمحہ تھا کہ میرے دل کو قرار آ گیا۔ ذہن جو غبار سے اٹ گیا تھا، صاف ہونے لگا، طبیعت بحال ہوتی چلی گئی۔ کوٹھی کی رونق تو خالہ فہمی کے جانے سے ہی ماند پڑ گئی تھی، لیکن اکثر ان کا ذکر ہوتا تھا۔ پھر ایک دم ان کا ذکر بالکل ختم ہو گیا، جیسے وہ کوٹھی میں کبھی آئی ہی نہیں تھیں۔ اب میں سوچتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ خالہ فہمی نے آکر پوری کوٹھی کے رگ و پے میں ایک الگ ہی طرح سے زندگی کی برقی رو سی دوڑا دی تھی۔ پھر جب وہ گئیں تو کوٹھی ٹھٹھر کے رہ گئی اور ان کی موت کی خبر نے تو جیسے کوٹھی کو سن سا کر دیا تھا، لیکن کچھ عرصے بعد جیسے اب پھر کوٹھی جاگنے لگی تھی۔ دن رات ویسے تو نہیں رہے تھے، پر زندگی کا چلن کوٹھی میں دھیرے دھیرے لوٹ آیا تھا۔

    ایک رات جب ماں نے مجھے اور منیا کو ابھی کھانے پر بٹھایا ہی تھا اور ابو اپنے کام سے نہیں لوٹے تھے، دروازے پر تایاجی کے کھنکھارنے کی آواز آئی۔ میں ابھی چونک کر یہی سوچ رہا تھا کہ یہ واقعی تایاجی کی آواز ہے اور وہ سچ مچ ہمارے گھر آئے ہیں کہ انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں ’’بنّو‘‘ کہہ کر ماں کو آواز دی۔ خالہ فہمی کے فوت ہونے کے بعد سے کوٹھی میں عجیب سا تناؤ آ گیا تھا۔ لوگوں کا آپس میں اٹھنا بیٹھنا نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔ ماں تو اب بالکل کسی دوسرے گھر نہیں جا رہی تھی۔ کبھی کبھار ڈیوڑھی میں پھوپھی آپا اور پھوپھی شیدو سے کھڑی ہوکر بات کر لیتی تھی، وہ بھی بس گھڑی دو گھڑی۔ ہاں تائی جی برابر ماں کے پاس آتی رہتی تھیں، لیکن تایاجی اس واقعے کے بعد پہلی بار ہمارے یہاں آئے تھے۔ اس وقت ماں چنگیری میں سے روٹی نکال کر مجھے دے رہی تھی۔ تایاجی کی آواز پر چونکی اور چنگیری جوں کی توں چھوڑ، وہ سر پہ ڈوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھی۔ اتنی دیر میں تایاجی اندر آ چکے تھے۔ ابو بھی ان کے ساتھ تھے۔ ماں نے سلام کیا۔ تایاجی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اتنی دیر میں منیا اور میں بھی اٹھ کر آگے بڑھے اور سلام کیا۔ انھوں نے ہم دونوں کو دائیں بائیں اپنے سے لگا لیا، پھر ماں سے بولے، ’’اچھا بنو، ہم سعودیہ جا رہے ہیں۔ اب وہیں رہیں گے۔ قسمت میں ہوا تو پھر ملیں گے۔ خدا تمھیں بچوں کی خوشیاں دکھائے۔‘‘

    ماں تایاجی کے آگے گھونگھٹ تو نہیں کاڑھتی تھیں، پھر بھی ان کا ڈوپٹہ کچھ آگے چہرے تک آیا رہتا تھا۔ وہ بات کرتے ہوئے بھی ان سے نظریں نہیں ملاتی تھیں، لیکن یہ بات سن کر وہ ایسے ہڑبڑائیں کہ پہلے انھوں نے تایاجی کی طرف دیکھا اور پھر ان کے پیچھے کھڑے اپنے شوہر کی طرف۔

    ابو ان کی نظروں کا سوال سمجھتے ہوئے بولے، ’’بھائی صاحب رات کی گاڑی سے کراچی جا رہے ہیں اور وہاں سے پرسوں سعودی عرب چلے جائیں گے، وہیں کام کریں گے۔‘‘

    ماں کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہے۔ اس نے خالی خالی نظروں سے ایک بار پھر تایاجی کی طرف دیکھا اور بولی، ’’مگر کیوں بھائی صاحب؟‘‘

    ’’بھئی اللہ اپنے گھر رہنے کو بلا رہا ہے، اس لیے جا رہے ہیں بس۔‘‘ پھر انھوں نے کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی اور بولے، ’’اچھا اب وقت ہو گیا ہے، ہم چل دیے۔‘‘ جاتے جاتے وہ مڑے ماں کے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا، ’’تم سمجھ دار ہو، اپنا اور بچوں کا خیال رکھنا۔ مالک تمھاری خوشیوں کی حفاظت فرمائے۔‘‘

    ماں نے ’جی‘ کہا اور ایک دم چہکو پہکو رونے لگیں۔

    ’’نہ، جی چھوٹا نہیں کرتے۔ خدا خیر رکھے، جیے تو پھر ملیں گے۔‘‘ تایاجی نے دلاسا دیا۔

    ماں سنبھلنے کے بجائے اور رونے لگی۔ اتنے میں تائی جی بھی وہیں آ گئیں۔ انھوں نے بڑھ کر ماں کو بازو میں بھر کر کاندھے سے لگا لیا۔

    تایاجی کے جانے کے بعد تو کوٹھی جیسے بالکل خالی ہو گئی۔ ماں تو ویسے ہی پھوپھی آپا، پھوپھی شیدو کے یہاں نہیں جا رہی تھیں۔ وہ دونوں تو پہلے بھی کم آتی تھیں ہمارے یہاں، اور اب تو بالکل ہی نہیں آ رہی تھیں۔ ماں کا آنا جانا تو تائی جی کے یہاں بھی نہیں تھا، پر وہ متواتر دوسرے چوتھے ماں کے پاس آکر بیٹھتیں اور ان کی خبر گیری کرتیں۔ حق یہ ہے کہ تایاجی کے جانے کے بعد وہ سب کی خبر گیری کر رہی تھیں۔ یہ بھی مگر سچی بات ہے کہ تایاجی کے جانے کے بعد کوٹھی تو کوٹھی نہیں رہ گئی تھی، حالاں کہ تائی جی سب کو اسی طرح جوڑے رکھنے کی کوشش کر رہی تھیں، پر صاف لگ رہا تھا کہ کوٹھی اب کچھ اور ہوتی چلی جا رہی ہے۔

    ایک دن میں اسکول سے آنے کے بعد ڈیوڑھی میں مُنیا کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ گھر کے اندر سے ماں کے تیز تیز بولنے کی آواز آنے لگی۔ میں اٹھ کے لپکا۔ ماں اور تائی جی چوکی پر آمنے سامنے بیٹھی تھیں۔ ماں کے چہرے پر سخت تناؤ تھا۔ رنگ اڑا اڑا سا اور ہونٹ کاسنی ہو رہے تھے۔ جب میں پہنچا تو تائی جی ان سے کہہ رہی تھیں، ’’پر اس میں کوئی گناہ تو نہیں تھا۔‘‘ مجھے آتا دیکھ کر وہ ایک دم چپ ہو گئیں۔ ماں نے بھی مجھے دیکھا لیکن وہ تو جیسے کسی اور ہی کیفیت میں تھی۔ البتہ تائی جی نے مجھے دیکھا، اپنے پاس بلایا، بولیں، ’’چھوٹی بہن کہاں ہے بیٹے؟‘‘

    ’’منیا باہر ڈیوڑھی میں ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

    انھوں نے چمکارتے ہوئے میری کمر پر ہاتھ پھیرا اور بولیں، ’’ہم تمھاری اماں سے بات کر رہے ہیں۔ تم بھی باہر بہن کے ساتھ کھیلو۔‘‘

    میں نے اثبات میں سر ہلایا اور من من بھر کے پاؤں اٹھاتا باہر چلا آیا۔ میرا دھیان، لیکن ماں اور تائی جی کی طرف ہی لگا ہوا تھا اور میں جاننا چاہتا تھا کہ ان کے درمیان کیا بات ہو رہی ہے۔ باہر آکر میں نے منیا کو لیا اور بالکل اپنے دروازے کے سامنے آن بیٹھا۔ اب میں ذرا دھیان لگا کر اندر کی باتیں سن سکتا تھا۔ ماں کی غصیلی آواز آ رہی تھی، ’’بھابی فہمی تو بچی تھی مگر بھائی صاحب تو سمجھ دار تھے۔ میں تو یہی کہوں گی کہ سارا قصور ان کا ہے۔‘‘

    ’’قصور کیسا بنو؟ انھوں نے کچھ برا تھوڑی چاہا تھا۔ انھوں نے تو ہاتھ تھامنے کی ہی کوشش کی تھی نا؟ تم خدا لگتی کہو، کیا اس میں کوئی برائی ہے؟ بنّو، اس بات سے تو اللہ بھی راضی اور اس کا رسول بھی راضی۔ فساد تو، برا مت ماننا، تمھارے بھائیوں نے کیا۔ جان لے لی انھوں نے بچی کی۔ بدی پر تو وہ اتر آئے نا۔‘‘ تائی جی نے اپنے مخصوص نرم لہجے میں کہا۔

    ’’بھابی، میں نہ بھائیوں کی طرف داری کرنا چاہتی ہوں، نہ میں ان سے خوش ہوں۔ میں تو ان منحوسوں کی شکل بھی اب نہیں دیکھنا چاہتی۔ مر گئے میرے لیے تو وہ جیتے جی۔ ان کم بختوں کی تو غیرت نے جان لے لی اس معصوم بچی کی۔ پر بھابی، بھائی صاحب نے بھی بڑا ظلم کیا۔ نہ وہ قدم بڑھاتے، نہ فہمی کی جان جاتی۔‘‘

    ’’بنو، یقین کرو، انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ وہ تو ظلم کرنے والے آدمی ہی نہیں ہیں۔‘‘

    ’’بھابی، میں آپ کی عظمت کو سلام کرتی ہوں، آپ بڑی شوہر پرست بیوی ہیں۔‘‘ ماں نے جیسے چٹخ کر کہا، ’’آفرین ہے آپ پر، شوہر بیس سال چھوٹی لڑکی پر ڈورے ڈال رہا ہے، اس سے نکاح کا منصوبہ بنا رہا ہے اور آپ ہیں کہ اسے قصوروار سمجھنے کو تیار ہی نہیں۔ بڑی عظیم ہیں بھابی آپ واقعی۔‘‘ ماں کے لہجے کی تلخی کو صاف محسوس کیا جا سکتا تھا۔

    ’’تمھیں غصہ ہے ابھی، اس لیے تم مسئلہ نہیں سمجھ رہیں۔ ٹھیک ہے ابھی نہیں، کچھ وقت بعد ذرا ٹھنڈے دل سے اس مسئلے پر سوچنا، تمھاری سمجھ میں آ جائےگا کہ تمھارے بھائی صاحب کچھ غلط نہیں کر رہے تھے۔ یہ میں ان کی طرف داری نہیں کر رہی، تمھیں سچائی بتا رہی ہوں۔ اس میں ان کا ر*ّتی ماشہ قصور نہیں ہے، میری بہن، میری گڑیا، میں سچ کہتی ہوں تم سے۔‘‘

    ’’نہیں، یہ کبھی میری سمجھ میں نہیں آئےگا۔ میں ہمیشہ بھائی صاحب کو قصوروار سمجھتی رہوں گی۔‘‘ ماں نے تنک کر کہا۔

    ’’دیکھو بنو! میں تمھیں آخری بات اور بتا دیتی ہوں، اس کے بعد جو تمھارا ایمان کہے، تم وہ مانو۔ اسی رات جب عامل صاحب نے فہمی کے جن اتارے تھے اور تمھارے بھائی صاحب کو فہمی کا سپردار بنایا گیا تھا تو رات ہی کو انھوں نے پورا واقعہ مجھے بتا دیا تھا۔ پھر بعد میں بھی وہ فہمی کے بارے میں مجھے سب کچھ بتاتے رہے۔ فہمی نے انھیں اپنا آئیڈیل کر لیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ وہ ان سے عمر میں بیس برس سے زیادہ چھوٹی ہے۔ وہ اس کے سلسلے میں پریشان تھے۔ میں تمھیں سچ بتاؤں، وہ اس بارے میں تم سے بات بھی کرنا چاہتے تھے، پر میں نے منع کیا کہ ابھی نہیں۔ میرا خیال تھا کہ فہمی واپس اپنے ماں باپ کے پاس جائےگی تو میں خود تم سے ساری بات کر لوں گی۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ مجھے فہمی سے ان کے نکاح پر بھی کوئی اعتراض نہ تھا۔ بھئی جب اللہ نے اور اس کے رسول نے ایک کام کی اجازت دی تو میں کون ہوتی ہوں منع کرنے والی۔‘‘ بڑی اماں نے ذرا توقف کیا پھر نرمی سے بولیں، ’’بنو! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ فہمی باپ کے گھر جاکر اناؤں کی بھینٹ چڑھ جائے گی تو میں اسے کبھی نہ جانے دیتی، چاہے کچھ بھی ہو جاتا، میں اسے اپنے پیچھے کرتی اور سب کے آگے آکر کھڑی ہو جاتی۔‘‘

    تائی جی کی اس بات کے بعد اندر سے دیر تک کوئی آواز نہیں آئی، نہ تائی جی کی اور نہ ہی ماں کی۔ سناٹے کی تکلیف سے گھبرا کے میں تھوڑی دیر بعد منیا کو لے کر جب گھر میں داخل ہوا تو ماں پھوٹ پھوٹ کے روتی تھیں۔ تائی جی نے انھیں دونوں بازوؤں میں بھرا ہوا تھا۔ ان کی اپنی آنکھیں بھی برستی تھیں۔

    تایاجی واپس آنے کے لیے نہیں گئے تھے۔ ممکن ہے کہ پہلے ان کا ارادہ ہو کہ کچھ عرصے بعد وہ واپس آجائیں گے، لیکن پھر وقت نے، حالات نے یا کسی اور شے نے واپسی کے خیال کو ان کے ذہن سے نکال دیا ہو۔ بیس برس گزر گئے، وہ ایک بار بھی نہیں آئے اور شاید اب کبھی آئیں گے بھی نہیں۔ جانے کے پانچ برس بعد انھوں نے پہلی بار تائی جی اور اپنے تینوں بچوں کو حج کے موقعے پر بلایا تھا۔ تین ساڑھے تین مہینے بعد یہ لوگ واپس آ گئے۔ پھر دو سال بعد انھوں نے دوبارہ بلایا۔ اس طرح یہ معمول بن گیا۔ وہ ڈیڑھ دو سال بعد اپنی فیملی کو بلا لیتے۔ یہ لوگ کچھ عرصے ان کے پاس رہ کر واپس آ جاتے۔ اسی دوران ان کی دونوں بیٹیوں کے رشتے آئے۔ دونوں کی شادی انھوں نے اپنے پاس بلا کر کی۔ ایسا انھوں نے کیوں کیا، یہ ایک الگ قصہ ہے جو پھر کبھی سناؤں گا کہ اس قصے میں بھی بڑے پھیر ہیں۔ بہرحال، ایک بیاہ کر آسٹریلیا چلی گئی اور دوسری دبئی۔ بیٹے کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اسے سعودی عرب ہی میں نوکری مل گئی۔ چار برس پہلے تائی جی ان کے پاس عمرے کے لیے گئی ہوئی تھیں جب روضۂ رسول پر سلام کرکے باہر آتے ہوئے انھیں چکر آیا اور وہ گر پڑیں۔ ایمبولینس میں ڈال کر اسپتال لے جایا گیا، لیکن ان کی روح پرواز کر چکی تھی۔

    ماں، تائی جی کو اور تایاجی کو اکثر یاد کرتی ہیں، یاد کرتے کرتے رونے لگتی ہیں۔ کبھی ابو اور کبھی میں ان کی تایاجی سے فون پر بات کرا دیتے ہیں تو وہ سلام کے بعد بس دو جملے ان سے کہتی ہیں، ’’بھائی صاحب! بھابی اور آپ بہت یاد آتے ہیں۔ خدا آپ کو سلامت رکھے۔‘‘ اس کے سوا میں نے انھیں کبھی کچھ کہتے نہیں سنا، لیکن جس دن ان کی تایاجی سے فون پر بات ہو جاتی ہے، اس کے بعد کئی روز تک جانے کیوں بات بے بات ان کی پلکیں بھیگتی رہتی ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے