Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ذکیہ تاب زریںؔ

شہناز رحمن

ذکیہ تاب زریںؔ

شہناز رحمن

MORE BYشہناز رحمن

    مارچ کی ۱۵؍ تاریخ تھی۔ یونیوسٹی گیسٹ ہاؤس فل ہو چکا تھا۔ فنون لطیفہ پر سہ روزہ پروگرام ہونے والا تھا جس میں ملک وبیرون ملک سے اعلی درجہ کے نقاش وبت تراش، شاعر وادیب شرکت کرنے والے تھے، مہمان خصوصی کی آمد کا انتظار تھا۔ جس کے اہتمام میں پورے کیمپس کو اس طرح پھولوں سے سجایا گیا تھا گویا بہار کا موسم آگیا ہو۔ روشنی سے آنکھیں خیرہ ہو رہی تھیں۔ استقبال کے لئے سفید پوش والنٹئر نگاہیں فرش راہ کئے ہاتھ میں پھولوں کا گلدستہ لئے کھڑے تھے اور جگہ جگہ محرابوں پر سنہرے حروف میں مہمان خصوصی کا نام لکھا ہوا تھا۔ اس پروگرام میں بے نظیر نے بھی شرکت کی تھی جیسے ہی اس نے کیمپس میں قدم رکھا، جلتے بجھتے قمقموں سے سجایا گیا نام ذکیہ تاب زریں دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں اور اسے بے شمار بھولی بسری کہانیاں یاد آ گئیں۔ گردوپیش کی پرواکئے بغیر زور دے کر اس نے تین بار یہ نام دہرایا ذکیہ تاب زریں!

    ڈاکٹر ذوالفقار علی خاں کے دولت خانے پر ۲۵ سال کے طویل انتظار کے بعدآخر رونقیں آ ہی گئیں، عندلیب کی پیدائش بڑی تمناؤں، منتوں اور بخششوں کے بعد ہوئی تھی۔ وہ چار پانچ سال کی ہو گئی تب تک دور دور کے رشتہ دار اسے دیکھنے کی غرض سے آتے تھے۔ ڈاکٹر ذوالفقاراس کی تعلیم و تر بیت اور مستقبل کے سلسلے میں بہت سنجیدہ تھے۔ وہ بھی اپنے والد کی امیدوں کے مطابق ہمیشہ اسکول ٹاپ کرتی تھی۔ 4th کلاس کے بعد پرنسپل کے مشورہ اور عندلیب کی ذہانت کی وجہ سے اسے ہائی اسٹینڈرڈ کے اسکول میں منتقل کر دیا گیا۔ حد درجہ سنجیدگی، محنت اور ذہانت نے کم عمری میں ہی اسے غیرمعمولی بنا دیا تھا۔ لیکن جب اس کا داخلہ Jhon Saint School Nainital میں ہوا تو وہ ایک سال تک کسی کی توجہ کا مرکز نہ بن سکی اس پورے عرصہ میں اس کی دوستی کلاس کی صرف ایک لڑکی بدر منیر سے ہو سکی، جو اپنے نام کے مطابق بےحد خوبصورت تھی، جس کا اسے اندازہ بھی تھا۔ پھر دھیرے دھیرے ٹیچرز اور کلاس میٹ کو عندلیب کی ذہانت کا اندازہ ہونے لگا اور کلاس میں اس کی بھی شناخت بننے لگی۔ دوسال گزرتے گرزتے عندلیب پورے اسکول میں چھا گئی۔ لیکن ہر قدم پر بدر منیر اس خوش فہمی میں رہتی کہ عندلیب جو کچھ ہے اسی کی بدولت ہے اور اکثر ایسا ہوتا بھی کہ اسکول کے کلچرل پروگرام اور ڈرامہ وغیرہ میں بدر منیر کو مرکز میں رکھا جاتا۔ معصوم عمر کی اس رہ گزر میں عندلیب کو کبھی ان محرومیوں کا ادراک بھی نہ ہوا۔ وہ تو لٹریری پروگرام مصوری اور دوسرے دیگر پروگرام میں انعامات سے نوازے جانے پر خوش رہتی تھی۔

    لیکن جب ہائی اسکول کے Annual Function میں سون پری کا ڈرامہ اسٹیج پرپیش کرنے کے لئے تیاریاں ہورہی تھیں تو پری کا رول سب سے اچھا اور بہتر طریقے سے عندلیب ہی ادا کر سکتی تھی لیکن بدر منیر کو یہ رول دیا گیا جو بہت مشکل سے اس رول کو ادا کرنے میں کامیاب ہو سکی تھی۔ عندلیب کو اس بات کا شدت سے احساس ہوا مگر وہ بھی لمحاتی طور پر۔ مزید یہ کہ وہ بدر منیر کی کامیابی پر بہت خوش ہوئی اور مبارکباد بھی دی۔

    اسی درمیان ایک دن کلاس ٹیچر نے انھیں خوشخبری دی کہ ہم نے تم لوگوں کو pic nic پہ لے جانے کی پرمیشن لے لی ہے لیکن ہاں یہ پرمیشن میں نے خاص طور پر اس لئے لی ہے کہ تم لوگوں کو Environment والی یونٹ ٹھیک سے سمجھ میں آ جائے۔ نہ کہ صرف Enjoy کے لئے تم لوگ توپہلے ہی Annual Function میں بہت Enjoy کر چکے ہو۔ خیر سب لوگ خوشی خوشی Picnic پہ چلے گئے۔ وہاں پر سب نے Naina Devi Temple نینی تال Lake وغیرہ دیکھے۔

    لیکن عندلیب اور بدر منیر نظر یں بچاکر جھیل کو پار کرتے ہوئے وادیوں میں چلی گئیں اور وہاں وہ پھولوں اور پھلوں سے لدی ہوئی شاخوں کا معائنہ کرنے میں مگن تھیں کہ ان کی نظر ایک لڑکے پہ پڑی جو انھیں کا ہم عمر تھا۔

    وہ بھی ان دونوں کو دیکھ کر ان کی طرف بڑھنے لگا اور قریب آکر بڑی معصومیت سے پو چھا۔ تم لوگ یہاں کیا کر رہی ہو؟

    بدر منیر نے اس کا جواب دیے بغیربڑی بے باکی سے کہا اور تم کیا کر رہے ہو؟ ہم تو ہلدوانی سے picnic پر آئے ہیں۔

    پھر اس نے پوچھا۔ تمہارا نام کیا ہے۔ بدر منیر۔

    اور تمہارا؟ بدر منیر نے پوچھا۔ بےنظیر۔

    بےنظیر نے کہا تمہارا نام تو بہت اچھا ہے اور تمہارا بھی۔ بدر منیر نے کہا۔ عندلیب معصومیت اور سادگی کا بت بنی ان کی گفتگو سن رہی تھی تب تک دوسرے کلاس میٹز انھیں تلاش کرتے ہوئے آ گئے پھر وہ bye کہہ کر چلا گیا۔

    اب بدر منیر دوسرے دوستوں سے بے نظیر کے بارے میں بتارہی تھی کہ ارے، ہمیں تو یہاں ایک نیا دوست بھی مل گیا اس کی بات کاٹ کر عندلیب نے کہا وہ تمہارا دوست ہوگا میرا نہیں کیوں کہ اس نے تو میر ا نام بھی نہیں پوچھا۔۔۔

    اس کے جواب میں احساس کمتر ی کا عنصر نمایاں تھا۔

    وہاں سے آنے کے بعد سب Exam کی تیاریوں میں اتنا مصروف ہو گئے کہ اندازہ ہی نہیں ہوا کہ سارے دن کیسے گزر گئے اور چھٹی بھی ہو گئی۔

    گھر آکر عندلیب بالکل تنہا ہو گئی کیوں کہ اس کی والدہ اب اس دنیا میں نہیں رہی تھیں! اسی وجہ سے وہ بہت ہی بےچین ومضطرب رہنے لگی۔ ایسا لگ رہا تھا اس کی ساری ذہنیت اور صلاحیت سلب ہو گئی۔ اس کی اس حالت سے خوف کھا کر ڈاکٹر ذوالفقار علی نے اسے اپنے پاس بلا لیا جو کہ اس وقت اصفھان میڈیکل کالج ایران میں مقیم تھے۔ عندلیب ایران جانے سے پہلے ہی وہاں کی سلطنتوں کے عروج وزوال کی داستانیں پڑھ چکی تھی اور اس نے اپنے والد کی زبانی بھی بہت سی کہانیاں سنی تھیں اور اسے خود بھی تاریخ کے مطالعہ کا شوق تھا کیوں کی بچپن سے ہی اس کی والدہ سمجھایا کرتی تھیں کہ تاریخ کے مطالعہ سے غور وفکر کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور تخیل کو جولانیاں دکھانے کا موقع ملتا ہے۔ انھیں کی نصیحتوں کا نتیجہ تھا کہ وہ اتنی کم عمر ی میں ہی مطالعہ کے ذریعہ تخیلات کی دنیامیں ایران کی سیر کر چکی تھی۔

    عندلیب کے ایران پہنچنے کے بعد اس کے والد اسکول دکھانے کی غرض سے اسے Fatima Kermanshah College لے گئے۔ پورے کالج کی سیر کرنے کے بعد عندلیب یہاں کے ماحول سے بہت متاثر ہوئی۔

    دوسرے دن ذوالفقار صاحب جب ایڈمیشن کے لئے لے گئے تو اس نے کہا کہ ابو جان میرا نام چینج کروا دیجئے اور ایڈمیشن فارم پر میرا نام ذکیہ ڈال دیجئے۔

    ذوالفقار صاحب نے پوچھا: بیٹا کیا ہوا؟ تم نام کیوں تبدیل کروانا چاہ رہی کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے جواب دیا۔ مجھے یہ نام سوٹ نہیں کرتا۔

    کیوں بیٹے عندلیب اتنا خوبصورت نام ہے۔

    نہیں ابو جان بس۔۔۔ اس نے ضد کی۔

    ذوالفقار صاحب اس بڑی تبدیلی کی وجہ سمجھنے سے قاصر رہے چونکہ وہ ان کی لاڈلی تھی اس لئے اس کی خواہش کو رد نہیں کیا۔

    عندلیب کے جانے کے بعد بدر منیر کو اسکول میں بہت تنہائی محسوس ہونے لگی۔ اس نے بھی اپنے بڑے بھائی سے التجا کی ایران جانے کی۔ خیر وہ مان گئے اور ذوالفقار صاحب کے ایک دوست Fatima Kermanshah College Iran میں لکچرر تھے اس لئے ان کی تھوڑی سی سفارش سے بدر منیر کا بھی ایڈمیشن ہو گیا۔

    بدر منیر کو بھی اس پر تعجب ہوا کہ اتنا خوبصورت نام اس نے چینج کر دیا۔ لیکن رفتہ رفتہ اس نے بھی عندلیب کو ذکیہ کہنے کی عادت ڈال لی۔

    ایران آنے کے بعد ذکیہ کی شعر وادب اور تاریخ کے مطالعہ کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ وہ کورس کی کتابیں پڑھنے سے زیادہ ادبی محفلوں میں شرکت کرتی اور Fine Arts میں دلچسپی لیتی۔

    جب بھی گھوڑے گاڑی پر بیٹھ کر وہ اپنے والد کے ساتھ باغوں کے سیر کو جاتی تو گٹار ضرور ساتھ میں لے جاتی اور موسیقاروں کے ساتھ بیٹھ کر عالم لاہوت میں گم ہو جاتی۔ اس شاعرانہ مزاجی سے اس کی شخصیت اور زیادہ نکھر رہی تھی۔

    ذکیہ کے بہت زور دینے پر منیر نے بھی Music Club جوائن کر لیا۔ اتفاق یہ کہ ان کے گروپ میں سارے لڑکے تھے صرف یہی دو لڑکیاں تھیں۔ پہلے تو سارے لوگ بدر منیر پر ہی توجہ دیتے تھے مگر جب ایرانی کلا سیکل Music کا مقابلہ ہوا تو ذکیہ فرسٹ آئی۔ پھر تو سب اس کے آگے پیچھے گھومنے لگے۔ ہر طرف کالج میں بھی اور Music Class میں بھی ذکیہ کے ہی چرچے ہوتے مگر اس پر معصومیت اتنی غالب تھی کہ وہ ان شہرتوں اور نام ونمود سے بےنیاز رہی۔ کیوں کہ کامیابی، شہرت و چرچے اس کی ذات سے اس طرح جڑگئے تھے کہ اس نے کبھی گہرائی سے یہ سوچا ہی نہیں کہ ہر منزل کے ابتدائی مرحلہ میں سب بدر منیر کے شیدائی کیوں رہتے ہیں!

    ۲۵؍ اپریل کو اسکول کی طرف سے Farewell پارٹی تھی Tradition کے مطابق سارے طلباء کو ٹائیٹل دیا گیا تھا مگر ذکیہ کو Specially پرنسپل اور دوسرے ٹیچرز کی طرف سے Annual Achievements کے طور پر’’تاب‘‘ کا ٹائیٹل دیا گیا۔

    اور ٹائیٹل دینے سے پہلے پرنسپل نے کچھ اس طرح تمہید باندھی تھی کہ آج یہ تاب کا ٹائیٹل میں اس لڑکی کو دینا چاہتا ہوں جو بالکل اس کے قابل ہے اور حق دار بھی سب کی نظریں بدر منیر کی طرف اٹھ گئیں لیکن اگلے ہی لمحے انہوں نے یہ جملہ کہا کہ وہ ایک ایسی لڑکی ہے جس کی صورت اور رنگت میں نہیں بلکہ اس کی شخصیت میں تاب ہے اور پوری زندگی یہ ٹائیٹل اس کی شخصیت کو اور زیادہ تابناک بناتا رہےگا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک بہت ہی معنی خیز جملہ کہا۔ ’’انسانیت اور تعلیم کے لئے رنگ ونسل کوئی معنی نہیں رکھتا‘‘۔

    ’’اس دن ذکیہ بہت خوش تھی اور ذوالفقار علی خاں اپنی گو د میں اس کا سر رکھ کے پدرانہ محبت اور فخر سے باتیں کر رہے تھے انھوں نے پوچھا، بیٹا آگے کی تعلیم کے سلسلے میں تمہارا کیا خیال ہے‘‘۔

    ’’ایک فرمانبردار بیٹی کی طرح وہ کھڑی ہو گئی اور کہا، ابو جان آپ کی مرضی جہاں چاہیں ایڈمیشن کروا دیں‘‘

    اس نے خود سے کوئی خواہش ظاہر نہ کی۔ انھوں نے کہا نہیں بیٹے تمہارا شوق جہاں بھی جانے کا ہے تم بتاؤ اور تم کس Fieldمیں جانا چاہتی ہو۔

    ذکیہ نے خوشامد کرتے ہوئے کہا: ابو اتنی بڑی ہونے کے بعد جو لطف مجھے ان دوبرس میں آپ کے ساتھ رہ کر ملا ہے وشاید نہ کبھی ملا ہے اور نہ ملےگا۔ آپ نے تو امی جان کی ممتا کی کمی بھی پوری کردی۔ میں نے ابھی تک صرف کتابوں میں عراق اور بغداد کے بارے میں پڑھا تھا اور بغداد کی خوبصورتی صرف دا ستانوں، قصوں اورکہانیوں میں پڑھ کر تصور میں دیکھ لیا کرتی تھی لیکن آپ کی بدولت اس خوبصورت شہر کو دیکھ بھی لیا آپ دنیا کے سب سے اچھے ابو ہیں یہ کہہ کر وہ ان کے قدموں میں بیٹھ گئی۔

    اور ہاں ابو ہائفہ اسٹریٹ Tigris River یہ سب تو کمال کا ہے۔ کاش وہاں دوبارہ جاتی۔ اچھا ٹھیک ہے انشاء اللہ پھر کبھی موقع ملا تو چلیں گے۔ اس کے والد نے کہا۔

    اچھا ٹھیک ہے اب تم جلدی سے فیصلہ کر کے بتادو کہ تمہیں آگے کیا کرنا ہے اور ہاں اپنی دوست سے بھی پوچھ لینا۔

    لیکن بدر منیر کو تو پھر واپس جانا پڑا کیوں کہ اس کے بڑے بھائی اپنی فیملی کے ساتھ دوسری جگہ شفٹ ہوگئے تھے اور اس کی والدہ تنہا ہوگئی تھیں اس لئے بدر منیر کو اپنی آگے کی تعلیم کو ترک کرنا پڑا اور وہ گھر چلی گئی۔

    دوسرے دن صبح میں ذکیہ نے سب سے پہلے نہاکر ناشتہ تیار کیا اور لان میں پھول کی کیاریوں کے پاس ہی ایک ٹیبل اور Chair لگاکر ناشتہ لگا دیا۔ سورج کی کرنیں Green House سے چھن کر اس کے بالوں کو مزید سنہرا کر رہی تھیں اور وہ بالوں میں انگلیوں سے کنگھا کر رہی تھی جس سے وہ اور الجھ رہے تھے۔ اسی کشمکش میں تھی کہ کہا ں جانے کا فیصلہ کر ے کہ اس کے والد آ گئے انھوں نے سوا لیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ کوئی جواب نہ ملنے پر انھوں نے خود ہی کہا میں تو سوچ رہا ہوں کہ تمہیں Oxford University بھیج دوں۔پھر کیا تھا ذکیہ خوشی سے اچھل پڑی اور کہا ابو آپ نے تو میرے دل کی بات کہہ دی۔میں نے آپ کی بدولت بہت سے ملکوں کی سیر کی لیکن اب لگ رہا ہے یوروپ بھی دیکھ لوں گی! اب گویا ذکیہ کی آئندہ تعلیم کا فیصلہ ہو گیا تھا۔

    وہ سبک رفتاری سے ڈرائنگ روم میں آ گئی جیسے کوئی آرٹسٹ ایک اچھی تصویر سے لطف اندوز ہوکر خوشی محسوس کرتا ہے اس طرح ذکیہ آنے والے لمحوں کے خیال سے خوش ہو رہی تھی۔

    ذوالفقار صاحب نے کہا کہ ذکیہ بیٹا دو مہینے تمہارے پاس ہیں اتنے دن ساتھ رہ کر خوب سیر کر لو ورنہ اب تو تمہیں اتنی محنت کرنی ہوگی کہ سر اٹھانے کی فرصت نہیں ملےگی۔ سیر کرنا تو دور کی بات۔

    خیر دو مہینے گزر گئے اور جولائی کی دس تاریخ کو ذکیہ تاب بطور طالب علم University Oxford کا حصہ بن گئی۔

    ذکیہ کی جگہ اگر بدرمنیر جیسی خوبصورت لڑکی ہوتی تو یہاں آکر ایسے آزاد اور نئے ماحول میں یہی سوچتی کہ اس نئے ملک میں آکر کس سے دوستی کرے، کس کی دعوتوں کو قبول کرے، کیسے مقبولیت حاصل کرے، کس کا دل رکھے اور کس کا دل توڑے اپنی صبحیں اور شامیں کیسے گزارے یعنی بڑی شاندار اور پر لطف زندگی کا خواب دیکھتی مگر ذکیہ تاب تو اپنی آنکھوں سے ان تمام چیزوں کو دیکھنا چاہتی تھی جو وہ کتابوں میں پڑھ چکی تھی۔

    کالج میں پہلے ہی دن اس کی ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی جو اس کا کلاس میٹ اور Subject Mate بھی تھا اس کو دیکھ کر ذکیہ لاشعور میں کچھ تلاش کرنا چاہ رہی تھی اس کے چہرے پر کچھ خطوط ایسے تھے جو اسے ماضی میں لے جانے پر مجبور کر رہے تھے۔

    خیر! وہ سرجھٹک کر کلاس میں داخل ہو گئی، دونوں کا رول نمبر بھی ایک ساتھ تھا۔ جب کلاس میں سر آئے تو انھوں نے Attendance لی۔ انہوں نے ذکیہ کے بعد جارج فریڈاک کا نام لیا اس نے yes sir کہا۔ اس طرح ان دونوں کو ایک دوسرے کا نام معلوم ہو گیا پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی اور ذکیہ نے دل ہی دل میں کہا، اچھا ہوا اس شخص کا نام پوچھنے کی نوبت نہیں آئی۔

    ایک ہفتہ گزر گئے ایک ہی سیٹ پر بیٹھنے کے باوجود دونوں میں کوئی Introduction نہیں ہوا۔ ہر Monday کو ایک پیریڈ اردو ادب کا ہوتا تھا اور ماہر اردو Sir Rolf Russell کو یہ پیریڈ پڑھانے کے لئے دیا گیا جو کہ مثنویوں میں بڑی دلچسپی لیتے۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنی پسندیدہ مثنوی سحرالبیان پڑھائی۔ کلاس ختم ہونے کے بعد ذکیہ بالکل خاموش کہیں گم تھی اس خاموشی کو توڑنے کے لئے جارج نے کہا ہیلو۔۔۔ کیا تم کو مثنوی سمجھ میں آئی۔

    ذکیہ نے جواب دیا ہاں ہاں خوب اور ہاں! اس کے پردے میں اور بھی بہت سی باتیں سمجھ میں آ گئیں اور جو کچھ مجھے سمجھ میں آیا ہے وہی تمہیں بھی۔ یہ توتمہاری شکل بتا رہی ہے ۔مسٹر بےنظیر نینی تال ہلدوانی! تم نے اپنا نام کیوں تبدیل کر دیا تم نے کیا سوچا نام Change کر کے انگریز بن جاؤگے اتنا سمجھ لو نام بدل لینے سے قومیت نہیں بدلتی۔

    اوہ تو تمہیں میری شکل یاد ہے؟ اور ہاں۔۔۔ وہ تمہاری دوست بدر منیر کہاں ہے؟

    ذکیہ نے اس کے بارے میں ساری باتیں تفصیل سے بتائیں اور اس کے جانے کی وجہ بھی بتائی۔ اس کے بعد فریڈرک نے آرام واطمینان سے بیٹھ کر بہت سے سوال کئے اور بتاؤ تم یہاں کیسے آئی، نینی تال کے بعد تمہاری تعلیم کہاں ہوئی، یہ تمام سوالات ذکیہ پہ نشتربن کر برس رہے تھے۔

    گفتگو کرتے ہوئے وہ دونوں کینٹین چلے گئے۔ ظاہری طور پر خود کو تسلی دے رہی تھی کہ اسے ایک دوست مل گیا مگر باطن میں ایک کشمکش تھی کہ کیا وہ شخص جسے میں نے ایک دن دوست کہنے سے انکار کیا تھا اب اس سے دوستی کر کے نتیجہ کیا نکلےگا۔

    کینٹین سے آنے کے بعد بھی باتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ فریڈرک نے ذکیہ سے معذرت بھی کی۔ نینی تال کی وادیوں میں بدر منیر کے حسن کی مقناطیسی کشش میں اتنا کھو گیا تھا کہ تمہارا نام بھی پوچھنا ضروری نہیں سمجھا۔ اس نے تو معذرت کر کے چھٹکارا حاصل کر لیا اسے کیا معلوم کہ ذکیہ ان وادیوں میں اس کی اس ’’غیر معمولی مہربانی‘‘ کی وجہ سے ذکیہ تاب بن گئی۔

    اس کے معذرت کرنے پر ذکیہ نے کوئی جواب نہیں دیا وہ ماضی کے سمندر میں غوطہ زن تھی کہ فریڈرک نے اس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا! واؤ یار ذکیہ آج کی کلاس کتنی Interesting تھی، جب سر پڑھا رہے تھے میں تو خیالوں میں کھو گیا تھا اور ہاں اگر تمہاری دوست بدرمنیر ہوتی تو اور بھی مزا آتا۔ واقعی اس میں تو شہزادی بدر منیر کی ساری خوبیاں ہیں بلکہ وہ مثنوی والی بدرمنیر سے زیادہ خوبصورت ہے۔

    ذکیہ نے اس کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا اور تم بھی شہزادہ بےنظیر کی طرح بےمثال ہو۔ اس کا جملہ طنز سے بھرا ہوا تھا۔

    فریڈرک نے زور سے قہقہہ لگایا۔

    ذکیہ نے کہا سنو فریڈرک ابھی سورج غروب نہیں ہوا ہے اس کی ترچھی شعاعوں میں ابھی بھی غضب کی گرمی ہے۔ اس کے اس استعاراتی جملے کی معنی خیزیوں کو سمجھے بغیر فریڈرک نے جواب دیا تو ٹھیک ہے اب روم پہ چلنا چاہئے یا گارڈن میں؟

    ذکیہ کو Oxford آئے ہوئے چھ مہینے گزر چکے تھے اور یہاں کے انگریز لڑکوں اور لڑکیوں کا جائزہ لینے کے بعد اسے بڑی مایوسی ہوئی کیوں کہ ان سب کی زندگی اسے کھوکھلی معلوم ہوئی اور دھیرے دھیرے اسے یہ احساس ہونے لگا کہ فریڈرک بھی انھیں میں شامل ہے وہ اکثر اسے سمجھایا کرتی کہ زندگی کا فلسفہ صرف حسن میں پوشیدہ نہیں ہے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر زندگی کے نشیب و فراز دیکھنے کی کوشش کرو!

    ایک دن ذکیہ میکس فورسٹر ایسٹ مین کی کتاب Colours Of Life پڑھ رہی تھی کہ اسی درمیان جارج بھی کلاس میں آ گیا اور اس کے ہاتھ سے کتاب اچھالتے ہوئے کہا! کیا تم ہر وقت کتابیں پڑھ پڑھ کے ہمارے لئے آفت کھڑی کرتی رہتی ہو اور یہی وجہ ہے کہ صرف ٹیچر س ہی تم سے Impress ہیں اور کلاس کے باقی لوگ تم سے دور رہتے ہیں۔ یہ سن کر ذکیہ غصہ میں کھڑی ہو گئی اور کہا کہ ٓآپ نے صحیح فرمایا مسٹر جارج ‘‘پوری قوم اس سستے پن کا شکار ہے اور تم بھی اسی طرح کی سستی زندگی کے لئے مناسب ہو۔‘‘

    اس نے ذکیہ کو ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا اور کہا اچھا بتا ؤ پارٹی میں چلوگی؟ اس نے نفی میں سر ہلایا۔ ٹھیک ہے مت جاؤ! لیکن تم نے یہاں آکر اب تک کتنی پارٹیز اٹینڈ کی ہیں! ذکیہ نے کہا تم سے مطلب؟

    جی ہاں مطلب تو ہے۔

    بلاوجہ تم یہ Colours of Life جیسی کتابیں پڑھا کرتی ہو، یار! Enjoy Your Life اور خواہ مخواہ تم یہاں کے ماحول سے اکتا رہی ہو یار دوستی کرو اور دوست بناؤ اور ہاں اگر بدر منیر جیسی کوئی لڑکی مل جائے تو میرے پاس لے آنا ذکیہ نے پھر بھی غصہ سے کچھ جواب نہیں دیا! کچھ لمحے بعد صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ تم صرف چیزوں کو حاصل کر کے اور اسے اپنے تصرف میں لا کر بے نیاز ہو جانے والے شخص ہو تمہارے سامنے تو جارج ڈکنس کے ناول کا کردار ’’مسڑ ڈرٹ‘‘ بھی فیل ہے۔

    دن بدن دونوں کی دوستی گہری ہوتی جارہی تھی اور پھر ذرا سی نوک جھونک سے دونوں کے فاصلے بہت کم ہو رہے تھے اور فریڈرک اکثر کہتا کہ ذکیہ تمہاری دوستی دوسرے لڑکوں سے اس لئے نہیں ہے کہ وہ جب تمہارے سامنے آتے ہیں تو تمہاری آنکھوں کا رنگ بدل جاتا ہے اور اس میں پثر مردگی چھا جاتی ہے۔ جیسے کسی سانپ نے ڈسنے کے لئے اپنا پھن اٹھا دیا ہو۔

    ان ساری باتوں پہ ذکیہ چڑ جاتی۔ مگر فوراًہی وہ منا لیتا۔

    کلاس کا سارا کام ذکیہ کے ذمہ رہتا۔ فریڈرک کو صرف Exam دینے سے مطلب تھا۔ کبھی کبھی وہ ذکیہ کے اتنے ذمہ دار ہونے، اس کی مصوری اور ڈانس کی تعریف بھی کر دیا کرتا جو ذکیہ کی دلجوئی کے لئے کافی ہوتا۔

    ایک دن ذکیہ یونیورسٹی کے لیڈیز کلب سے نکلی تو سوچا گارڈن میں چلی جاؤں جب وہ گارڈن پہنچی تو دیکھا کہ Music Club کے کچھ اسٹوڈنس Guitar لئے بجا رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر ذکیہ کو ایران کے باغوں کا منظر یاد آ گیا۔ اسی درمیان فریڈرک نے ٹینس کورٹ سے واپس ہوتے ہوئے باغ کا رخ کیا ویسے تو باغ کا منظر پہلے ہی اپنی بہاروں سے یہاں پہ موجود لوگوں کو زخمی کر رہا تھا اور فریڈرک کے آجانے سے تو ذکیہ کی آنکھیں مزید چندھیا گئیں ایسا لگ رہا تھا کہ پوری فضا نغموں سے گونج اٹھی۔ فریڈرک کے وجود کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے خوابوں میں کھو گئی۔

    لیکن ذکیہ خوب سوچ سمجھ کر قدم رکھنے کی عادی تھی۔ ہمیشہ عقل کی سنتی اسی وجہ سے وہ اپنے دل کی بات سے آنکھوں کو بھی باخبر نہیں ہونے دیتی۔ زبان پہ آنا تو دور کی بات۔ اگر چہ وہ جذباتی لڑکی نہیں تھی، اس کی تربیت نے اسے بڑا ٹھنڈا دل ودماغ دیا تھا۔ لیکن اس نے شعر وادب میں حسن کے متعلق جو کچھ پڑھ رکھا تھا اس سے بہت متاثر تھی جیسے کوئی مصور فن کاری کے شاہکار سے متاثر ہوکر اسے ہر پہلو سے دیکھتا اور سوچتا ہو اور پھر اپنے تصورات میں ڈوب جاتا ہو۔ اسی طرح ذکیہ بھی ایک مصور تھی اس نے فریڈرک جیسے شاہکار کو ہر پہلو سے دیکھ لیا تھا۔

    مگر فریڈرک ایک مصور نہیں تھا اگر اس سے پوچھا جاتا کہ مصور کسے کہتے ہیں تو وہ اس لفظ کے مفہوم کو بھی صحیح سے بیان نہ کرپاتا اور یہی وجہ تھی کہ وہ ذکیہ کو سمجھ نہیں سکا تھا۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ کبھی کبھی پسندیدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ لیا کرتا وہ بھی شاید اس کی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے۔

    ذکیہ اتنی معصوم تھی کہ وہ جارج کے دوستانہ رویہ سے یہ سمجھتی تھی کہ اس کے دل میں بہت کچھ ہے مگر میری طرح اس کے الفاظ بھی زبان تک نہیں آتے۔ ’’اور یہ جھجھک تو فطرت کا تقاضا ہے‘‘ اور وہ تو کچھ مغرور بھی ہے بےنظیر جو ٹھہرا ویسے بھی ہزاروں بدر منیر اس کے آگے پیچھے گھومتی ہیں۔

    ذکیہ اپنی قابلیت کی وجہ سے پوری یونیورسٹی میں Talented Girl کے نام سے مشہور ہو چکی تھی اس کے ڈانس نے سب کو اتنا گرویدہ بنا لیا تھا کہ کسی بھی Cultural پروگرام کا آغاز اس کے بغیر نہیں ہوتا! ایک دن جب پروگرام میں جانے کئے تیار ہو رہی تھی ( اور یہ پروگرام دوسری یونیورسٹیوں سے Cultural مقابلہ کا تھا اسی لئے وہ تیار ہونے میں کچھ زیادہ وقت صرف کر رہی تھی ) کہ اسی درمیان فریڈرک نے اس کے بالوں کو چھوکر کہا کہ تمہارے بال تو بڑے خوبصورت ہیں اس نے دبی ہوئی مسکراہٹ سے کہا شکریہ !

    اب ذکیہ سوچنے پر مجبور تھی کہ اس کی تعریف میں جذبات کا اظہار تو نہیں تھا لیکن اگلے ہی جملے میں۔۔۔

    ذکیہ ایک ذہین لڑکی تھی اسے احساس تھا کہ اگر محبت کی چنگاری کو سلگنے دیا تو ایک دن بڑھتے بڑھتے یہ آگ اس کے سارے وجود پر چھا جائےگی اور پھر ناکامی کا ایک خوف دل کی گہرائیوں میں اترتا چلا گیا کیوں کہ اس نے ناکامی اب تک نہیں دیکھی تھی۔

    رفتہ رفتہ ذکیہ کو احساس ہونے لگا تھا کہ وہ فریڈرک کو پسند کرتی ہے اسے احساس تھا کہ فریڈرک حسن سے عقید ت رکھتا ہے کیوں کہ اس کو دیکھ کر ہی ایسا لگتا تھا کہ افلاطون و ارسطو کے حسن کا فلسفہ کتابوں سے نکل کر باہر آ گیا ہے۔

    جس سے ذکیہ محروم تھی فریڈرک کی نظر میں

    یونیورسٹی کے باہر افق پر سورج کی آخری سرخ روشنی بھی ڈوب چکی تھی۔ تارے کہیں کہیں نظر آنے لگے تھے، فریڈرک ذکیہ کے ساتھ میوزک کلب جانے کے لئے تیار ہو گیا کیونکہ ساتھ رہ کر اسے بھی تھوڑی سی دلچسپی ہو گئی تھی کبھی کبھی اس کے ساتھ لطف لینے کی غرض سے یونیورسٹی چرچ جاکر piano بھی بجا لیا کرتا۔

    جب یہ دونوں میوزک کلب پہنچے تو وہاں کا منظر ہی کچھ اور تھا، وہاں پہ کچھ عورتیں اور لڑکیاں بھی موجود تھیں جنھوں نے ذکیہ سے گیت کی فرمائش کی۔

    ان کے کہنے پر ذکیہ نے گانا شروع کر دیا اور پورے انہماک سے گانے لگی ۔ذکیہ کے دل کے جذبات اس کی آواز میں اترآئے اور وہ اس پوری فضا کا حصہ بن گئی تھی وہاں پہ بیٹھے سارے لوگ گیت میں ڈوبے ہوئے تھے آواز کے ساتھ ساتھ اس کی مخروطی انگلیوں کے زیروبم کو بھی دیکھ رہے تھے اس کی آنکھوں کی چمک میں ملی ہوئی مایوسی کو دیکھ کر (جو کبھی کبھی فریڈرک کی طرف اٹھ جا رہی تھیں) لڑکیاں زیرلب کہہ رہی تھیں کہ اس کا محبوب ضرور ہرجائی ہے۔

    ذکیہ کے گیت کا ایک ایک لفظ فریڈرک کی محبت میں ڈوبا ہوا تھا اور وہ صرف اپنے محبوب کے لئے گا رہی تھی ( جس سے فریڈرک یکسر بےنیاز تھا گیت ختم ہونے کے بعد لوگ مدہوشی سے باہر آ گئے اور دوسرے گیت کی فرمائش کرنے لگے لیکن رات بہت ہو گئی تھی۔

    وہ دونوں واپس لوٹے تو ٹھنڈ بڑھ گئی تھی، ستاروں کی آنکھیں شبنم میں بھیگی ہوئی تھیں۔

    دوسرے دن فریڈرک نے کہا آج تو تمہارے گیت نے جذباتی بنا دیا! لیکن میری محبوبہ تمہارے محبوب کی طرح نہیں ہوگی پہلی بات تو وہ مجموعہ خوبی ہوگی دوسرے وہ چندے آفتاب اور تمہاری طرح چندے ماہتاب۔ یہ سن کر ذکیہ کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔

    ایسا لگ رہا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے دھند چھا گئی اور ساری قوت سلب ہوگئی ہے۔ تلخیوں کا ایک سمندر اس کے سامنے ٹھاٹھیں مار رہا ہے اپنا وجود اسے کاک جیک کا مسخرہ محسوس ہو نے لگا۔

    ذکیہ نے کہا جارج فریڈرک تمہارے پاس خوبصورت دل نہیں جو جذبات کو سمجھ سکے۔ تم کہتے ہو کہ ہر حسین چیز کے شیدائی ہو لیکن سچ تو یہ ہے کہ تم نے کبھی حسن کو پہچانا ہی نہیں۔

    ’’ہائی اسکول میں پہلی بار تمہارے ہی رویہ نے مجھے عندلیب سے ذکیہ بنایا‘‘۔! فریڈرک کو محسوس ہوا کہ اس کے ذہن سے کوئی چیز نکل کر نیچے گر گئی۔

    اس کے بعد جو دو سال ایران میں گزرے انھیں Complexes کی مقناطیسی طاقت نے مجھے Oxford University کے ہر شعبہ میں آرٹسٹ، Talent Girl اور نہ جانے کن کن ناموں سے مشہور کر دیا۔

    اپنی ذات کو عشق کی آگ میں جلا کر سونا بنا لیا جائے تو کسی سہارے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔

    فریڈرک حواس باختہ کھڑا ذکیہ کی باتیں سن رہا تھا۔ اس کے چہرے کی رنگت اڑ گئی تھی، جسم کا نپ رہا تھا۔ ایک کے بعد ایک حیران کن بات اس کی سماعت سے ٹکرا رہی تھیں۔ اسے اس وقت صرف ذکیہ کی فکر تھی اسے سنبھالنے اور گھر لے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔

    ’’ذکیہ کی باتیں ابھی جاری تھیں واقعی فریڈرک تمہاری لائف میں کھوکھلے پن کے سوا کچھ نہیں۔ آج سے ہمارے راستے الگ ہیں اور ہاں! میں تمہاری احسان مند ہوں‘‘

    فریڈرک کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ آگے کچھ بات کر لے اور بتا ئے کہ وہ خود ہی راستہ الگ کر نے والا تھا کیوں کہ گھر سے اطلاع آ چکی ہے کہ جلد سے جلد India آ جائے۔

    نومبر کی ۲ تاریخ تھی سورج الیزبتھن Palaces نما مکانوں کے پیچھے سے جھانک رہا تھا اور ذکیہ ایسٹ مین کی Enjoy of Life پڑھنے میں اتنی محو تھی کہ اسے وقت کا احساس بھی نہیں ہوا کہ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی، فریڈرک اندر آیا وہ آخری لمحات خوشگوار بنانے کے غرض سے آیا تھا۔ ذکیہ بھی اس سے اس طرح مخاطب ہوئی کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اس سے اس کے حوصلے کا کمال ظاہر ہو رہا تھا۔ وہ تو تھی ہی حوصلہ مند۔

    فریڈرک نے کہا کہ کل صبح کی فلائٹ سے وہ انڈیا جا رہا ہے!

    اس خبر پر ذکیہ کو کوئی حیرانی نہیں ہوئی اور نہ ہی دل میں کوئی جنبش۔ اس نے جانے کی وجہ دریافت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔

    فریڈرک کو الوداع کہتے ہوئے اتنا کہا کہ میں اپنے سارے Achievements تمہیں Dedicate کرنا چاہتی ہوں کیوں کہ ان سب کا تعلق کہیں نہ کہیں لاشعوری طور پر تم سے ہے۔

    ذکیہ نے اپنی محبت کے خاطر جو قربانی دی تھی دل ہی دل میں اس کا جواز تلاش کر رہی تھی اس نے زبردستی ہونٹوں پہ مسکراہٹ لانے کی کوشش کی اور مسکراتے ہوئے فریڈرک کو الوداع کہا۔

    فریڈرک بھی الوداع کہہ کر آگے بڑھتا اور الوداعیہ نگاہوں سے ہرے بھرے درختوں کا جائزہ لیتا گیا۔ ہاں اسے اتنی حیرت ضرور ہوئی کہ آج یہاں پر اس قدر خاموشی کیوں ہے کوئی رقص، کوئی موسیقی کسی وائلن کی آواز کیوں نہیں؟ وہ مسلسل آگے بڑھتا گیا اس کی بےحسی نے اجازت نہیں دی کہ وہ پیچھے مڑکر ذکیہ کی طرف دیکھ لے۔

    ذکیہ کے لئے یہ رات بڑی تاریک تھی۔ چاند میں گویا گرہن لگ گیا، ہوا ئیں رک گئیں، ذکیہ نے ہواؤں کا رخ دیکھ کر چراغ جلا دیا۔

    فریڈرک کی زندگی نے بڑی آسانی سے رنگ بدل لیا لیکن ذکیہ کو نارمل ہونے میں کئی مہینے لگ گئے۔ اس کے بعد ماضی کی یادوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے لگی۔ اب ترقی کی منزلیں طے کرنا اس کے لئے اور زیادہ آسان ہو گیا تھا ۔وہ پہلے سے بھی زیادہ محنتی ہو گئی تھی۔ ہر قدم پر کامیابیاں خود اس کی منتظر رہتیں۔ South Asian Academic of Dramatic Art میں سینئر گولیو گرافر بن گئی تھی اس کے ہاتھوں کی بنی ہوئی Paintings کواتنا سراہا گیا اور اسے اتنی شہرت ملی کہ وہ یونیورسٹی میوزیم کا حصہ بن گئے۔

    ان تمام مصروفیات کو ایک طرف کر کے اس نے .P. G بھی کر لیا۔ .P. Gکی Thesis تیار کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے ایک ناول Up And Down of Life بھی لکھ لیا تھا جب ناول منظر عام پر آیا تو اسے ذکیہ تاب زریں کا خطاب دیا گیا۔

    ۲۵ سال کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد جب انڈیا سے اس کے نام Invitation کارڈ آیا تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہی ساتھ ہی حیرت بھی ہوئی کہ میری شہرت وہاں کی یونیورسٹیوں تک پہنچ گئی۔ اتنے عرصے بعد جب وہ انڈیا لوٹ رہی تھی دل میں طرح طرح کے جذبات امڈ رہے تھے کہ والد صاحب مجھے دیکھ کر کیا تأثر ظاہر کریں گے اور ان میں ایک جذبہ یہ بھی تھا کہ کہیں فریڈرک۔۔۔ پھر نفی میں سر ہلاکر سوچا وہ انڈیا میں کیسے رہ سکتا ہے عین ممکن ہے کہ وہ اپنی پسندیدہ یونیورسٹی ’’کولمبیا‘‘ میں کسی بڑے عہدے پر فائز ہو۔

    ذکیہ کو کیا معلوم کہ اسے راستہ میں چھوڑ کر وہ خود بھی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکا۔

    مارچ کی ۱۵ سولہ تاریخ تھی اور ذکیہ تاب زریں یونیورسٹی کے سہ روزہ Fine Arts پروگرام میں جلوہ افروز ہو چکی تھیں۔ بڑے لائق فائق آرٹسٹ اور پوری یونیورسٹی کے طلباء اور اساتذہ پروگرام میں شریک، ہر فرد ذکیہ تاب زریں کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھا۔ ہزاروں کی اس بھیڑ میں چاہتے ہوئے بھی بے نظیر ذکیہ کی پرچھائیں تک دیکھنے سے محروم رہا آخرکار پروگرام ختم ہو گیا اس تک رسائی نہیں ہوئی۔

    ۱۹؍ مارچ کی شام کو جب وہ ہمیشہ کے لئے یہاں نہ آنے کا ارادہ کر کے نکل رہی تھی تو آٹو گراف لینے والوں کا ایک جم غفیر تھا اسی درمیان ذکیہ کی نظر بدر منیر پہ پڑی جو فریڈرک کی بانہوں میں ہاتھ ڈالے کھڑی تھی۔

    ’’اتفاقاً ایک بار قسمت نے پھر جدائی کے دورا ہے پر لاکر کھڑا کر دیا۔ ہزاروں کا ہجوم، میڈیا، سیکیورٹی اس کے ارد گرد تھی وہ ان سب سے بےنیاز تنہا بدر منیر کو حسرت سے دیکھ رہی تھی اس کی آنکھوں میں اتنا کرب تھا کہ اس سے نکلا ہوا یک قطرہ بھی ہڈیوں کو پگھلا دینے کے لئے کافی تھا۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے