Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زمین

MORE BYمسرور جہاں

    راحت بی بی زمین تھیں اور سیٹھ داؤد آسمان۔ زمین اور آسمان کے ملاپ کی داستان بھی عجیب تھی۔ سیٹھ داؤد کے باپ جب مرے، تو وہ بہت کم عمر تھے۔ ایسے میں ہمدردوں اور بہی خواہوں کی بھیڑ یکایک اُن کے گرد رہنے لگی، جو بالکل اچانک برساتی کیڑوں کی مانند پیدا ہوگئے تھے اور پھر ان ہمدردوں نے سیٹھ جی کو عیش و طرب کے نشے میں ایسا سرشار کرایا کہ انہیں دنیا ہی میں جنت نظر آنے لگی۔ بازاری عورتیں تو کسی گنتی میں نہ تھیں۔ ہر رات ان کی خلوتوں کو رنگین بنانے کے لیے ایک نئی حسینہ پیش کی جاتی تھی اور اس کا سلسلہ کسی نہ کسی رئیس اور نواب سے جوڑ کر اس کی قیمت میں دھڑلے سے اضافہ کردیا جاتا تھا۔ پھر یہ ساری رقم ان ہی بہی خواہوں کی جیب میں چلی جاتی تھی۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ شرفاء سیٹھ داؤد کا نام سن کر کانوں پر ہاتھ رکھتے تھے۔ کوئی انہیں اپنی بیٹی دینے کو تیار نہیں تھا۔

    سیٹھ جی کے نمک حلال منشی نے ایک دن ان کو سمجھایا، ’’سیٹھ جی!اپنے برابر والوں کا خیال چھوڑیے۔ ان لوگوں کے دماغ پیسے نے خراب کررکھے ہیں۔ ہمیں تو اصل مطلب ’زمین‘ سے ہے، نہ کہ ’زر‘ سے۔ زمین اچھی ہو تو کیسا بھی بیج ڈالیے، پودا اچھا ہی نکلے گا۔ اور ایسی زمین تو رؤساء سے زیادہ غریب شرفاء میں آسانی سے مل جاتی ہے۔‘‘ سیٹھ داؤد کی سمجھ میں بات آگئی اور انہوں نے منشی جی کو کھوج کی اجازت دے دی۔ منشی جی نے جلد ہی یہ زمین تلاش کرلی۔

    مولوی نورالٰہی کی صاحب زادی راحت بی بی غربت کی وجہ سے ابھی تک کنواری بیٹھی تھیں۔ نہایت نیک اور شریف بی بی تھیں۔ آج تک کسی نے ان کے کورے پنڈے کارواں بھی نہیں دیکھا تھا۔ پھر خاندان ایسا جس کی بزرگی کا شہرہ دور دورتک تھا۔ منشی جی نے مولوی صاحب کو ایسی پٹی پڑھائی کہ وہ سیٹھ جی سے راحت بی بی کا عقد کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ اور یوں راحت بی بی سیٹھ جی کی عالی شان کوٹھی میں بیاہ کر آگئیں۔ ساتھ ہی وہ اپنے بوسیدہ گھر کی یادیں بھی لیتی آئیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ہمیشہ میاں کو ’’آسما ن‘‘ سمجھا اور خود کو ’’زمین۔‘‘ نہ کبھی اچھا کھایا، نہ اچھا پہنا، نہ زروزیور کی خواہش کی۔ سیٹھ جی مردان خانے میں حسب دستور رنگ رلیاں مناتے رہے اور راحت بی بی کی دنیا کوٹھی کے اندر باورچی خانے میں سمٹ کر رہ گئی۔ وہ شوہر کی فرمائش پر کانٹا گلی مچھلی، نیل گائے کے کباب، ورقی پراٹھے اور شاہی ٹکڑے پکاتی رہیں۔ میاں کسی وقت ترنگ میں آکر ان کے پکائے ہوئے کھانوں کی تعریف کردیتے تو وہ نہال ہوجاتیں۔

    سیٹھ داؤد اس وقت تک راحت بی بی کے پاس آتے رہے جب تک انہیں ولی عہد کی آمد کا یقین نہ ہوگیا۔ اس کے بعد تو خود راحت بی بی قسمیں کھا کر کہتی تھیں کہ وہ اور سیٹھ جی بھائی بہن جیسے ہیں۔ جس زمین کو اتنی تگ و دو کے بعد حاصل کیا گیا تھا، وہ ایک پودے کی بارآوری کے بعد ہی ناقص قرار دے دی گئی۔ راحت بی بی کو اس کا چنداں غم نہیں تھا۔ وہ ننھے داراب کو کلیجے سے لگاکر سب کچھ بھول جاتی تھیں۔ جب تک داراب چھوٹا رہا، ان کی آغوش میں پلتا رہا۔ پانچ سال کا ہوا تو سیٹھ جی نے اس کا داخلہ پہاڑ کے اسکول میں کرادیا۔ راحت بی بی مسوس کر رہ گئیں۔

    لمبی چھٹیوں میں بھی سیٹھ جی اسے گھر بلانے کے بجائے اس کے اتالیق اور گارجین مسٹر تھامس کے ساتھ دوسرے مقامات پر بغرض تفریح بھیج دیتے تھے۔ اس طرح ماں بیٹے کے درمیان برسوں کا طویل فاصلہ حائل ہوگیا۔ داراب کے سینئر کیمبرج کرلینے کے بعد سیٹھ جی نے اسے واپس بلالیا۔ اب ان کی صحت خراب رہنے لگی تھی اور سیٹھ صاحب چاہتے تھے کہ وہ ان کے کاروبار کو سمجھ لے اور اپنے گھر بار کا ہوجائے۔

    سیٹھ جی نے داراب کی شادی ایک اونچے گھرانے میں کردی۔ اس وقت اس کی عمر صرف اٹھارہ یا انیس سال تھی اور اس کی دلہن بلقیس چودہ سال کی الہڑ لڑکی تھی۔ دونوں میں میاں بیوی والی کوئی بات نہیں تھی۔ خوب خوب کھیل ہوتا۔ ساتھ ہی دھینگا مشتی ہوتی۔ تکیوں سے وہ جنگ ہوتی کہ سارے کمرے میں سیمل کی روئی اڑتی پھرتی۔ راحت بی بی لاکھ منع کرتیں لیکن ان کی کون سنتا تھا۔ بلقیس نے تو گھونگھٹ اٹھاکر انہیں باورچی خانے ہی میں دیکھا تھا۔ وہ دن رات چولہے میں سرکھپاتیں، نوکروں سے زیادہ کام کرتی تھیں۔ اس لیے وہ بھی ان کو ایک کام کرنے والی سے زیادہ اہمیت نہ دے سکی۔

    رہے داراب، تو وہ بھی کون سا ماں کو سمجھتے تھے؟ جو بیوی کو کسی بات پر فہمائش کرتے۔ بلقیس مالدار گھرانے کی مغرور لڑکی تھی۔ کام کاج کے سلسلے میں وہ اکثر راحت بی بی کو ڈانٹا پھٹکارا کرتی تھی۔ اور بے چاری راحت بی بی، انہوں نے تو روزِ اول سے ہی خود کو حقیر سمجھ رکھا تھا۔ چنانچہ وہ بہو کے مقابلے میں بھی دب کر رہیں۔ نہ کبھی بیٹے سے اپنا حق طلب کیا، نہ اپنے رتبے کا واسطہ دے کر عزت و محبت اور اچھے سلوک کی طالب ہوئیں۔

    ایک دن بلقیس کی کچھ سہیلیاں آگئیں۔ راحت بی بی نے محلے کے حلوائی سے قرض سامان لاکر ناشتے کی کشتی ان کے سامنے لگائی تو ایک سہیلی نے کہا، ’’سچ بلقیس! ملازم کے معاملے میں تم بڑی خوش نصیب ہو۔ یہاں تو اتنے دن میں چار ملازم بدل چکی ہوں اور اب پانچواں بھی بھاگنے کے لیے پرتول رہا ہے۔ تمہارے یہاں برسوں سے بس ایک ہی ملازمہ دیکھ رہی ہوں۔‘‘

    قریب تھا کہ راحت بی بی کے ہاتھ سے پانی کا جگ چھوٹ جائے لیکن وہ کمالِ ضبط سے کام لے کر سنبھل گئیں اور وہاں سے چلی گئیں۔ بلقیس نے کیا کہا، وہ نہ سن سکیں۔ باورچی خانے میں جاکر گیلی لکڑیوں کو پھونکے مار کر سلگانے لگیں۔ آنکھوں میں کڑوا کسیلا دھواں بھرگیا اور جھر جھر کرکے آنسو بہنے لگے۔ یہ سچ تھا کہ وہ ایک غریب گھر کی کم مایہ لڑکی تھیں لیکن سیٹھ داؤد نے کبھی کسی دوست یا رشتہ دار کے سامنے ان کی بے عزتی تو نہیں کی تھی۔ جب بھی کسی نے ان کے پکائے ہوئے کھانے کی تعریف کی، سیٹھ جی نے ہنس کر کہہ دیا، ’’بھئی! تعریف تو بیگم صاحب کی ہے، جنہوں نے اتنا لذیذ کھانا پکایا ہے۔‘‘ اونچے خاندان والی بہو اپنی عزت بنانے کے لیے ان کا ملازمہ کہلایا جانا زیادہ پسند کرتی تھی، اپنی ساس بتانے میں شاید اس کی بے عزتی ہوتی تھی۔ اور سچ بھی ہے۔ پیوند لگی معمولی شلوار، پرانی قمیص اور دھجی سا دوپٹہ پہنے وہ ایک ملازمہ ہی تو لگتی تھیں۔

    ایک ایک کرکے بلقیس کے یہاں پانچ لڑکیاں ہوگئیں۔ راحت بی بی نے نمازوں میں بلک بلک کر پوتے کے لیے دعائیں مانگیں۔ مسجدوں میں چراغ جلائے، پیروں فقیروں کی دہلیز کی دھول لے ڈالی، تب کہیں پوتے کی صورت دکھائی دی۔ شباب کو د یکھ کر انہیں داراب کا بچپن یاد آجاتا تھااور وہ اس کو کلیجے سے لگاکر اپنا سارا دکھ اور ساری مصیبت بھول جاتی تھیں۔ شباب سے ان کی محبت دیکھ کر بلقیس کو اچھا تو نہیں لگا لیکن پکانے والی کے ساتھ ایک آیا کی ضرورت پوری ہو رہی تھی۔ اس لیے وہ مخالفت نہ کرسکی اور یوں شباب دادی کے گلے کا ہار بن گیا۔

    داراب کو لڑکیوں کی بہت فکر رہتی تھی، جوامر بیل کی سی بڑھتی چلی آرہی تھیں۔ نہ ابھی کسی کا دان جہیز بنا تھا، نہ کہیں سے نسبت کا کائی سلسلہ ہوا تھا۔ بلقیس کی فضول خرچیوں کا وہی حال تھا۔ اگر وہ انہیں روکتے ٹوکتے تو لڑائی جھگڑا ہوجاتا تھا اور وہ اپنے مالدار گھرانے کا یوں طعنہ دیتیں، جیسے داراب ان کے میکے کی کمائی سے گھر چلا رہا ہو۔ بات بس اتنی تھی کہ بلقیس کے مالدار لیکن کنجوس باپ اپنی بیٹی کو پچیس روپیہ ماہوار جیب خرچ کے نام سے د یتے تھے اور ذرا سا سہارا یہ بھی تھا کہ ان کی جائداد میں بھی بلقیس کو حصہ ملے گا۔ حالانکہ انہوں نے چپکے چپکے اپنا سارا پیسہ اور کل جائداد اپنی داشتہ شگوفہ کے نام کردی تھی اور بلقیس بس دھوکے ہی میں تھی۔

    لڑکیاں سب ماں کے نقش قدم پر تھیں۔ تیز طرار اور زبان دراز۔ ہر وقت راحت بی بی پر حکم چلایا کرتیں۔ انہیں تو غریب راحت بی بی کو دادی کہنا بھی گوارہ نہیں تھا۔ وہ انہیں راحت بوا کہتی تھیں۔ اس بدتمیزی پر نہ ماں نے منع کیا، نہ باپ نے ٹوکااور روز بروز ان کا حوصلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ ہر چند سیٹھ جی کی زندگی میں راحت بی بی نے کبھی ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کیا تھا لیکن اَب اپنے جگر کے ٹکڑوں کا ایسا برتاؤ وہ برداشت نہیں کرسکیں۔ وہ اَندر ہی اَندر ٹوٹ کر رہ گئیں۔ اُن کا دبلا پتلا جسم سوکھ کر کانٹا ہوگیا تھا، جسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا بس ہاتھ لگاتے ہی ڈھیر ہوجائے گا۔

    داراب کاروبار کے سلسلے میں گھر سے باہر تھے۔ بڑی لڑکی شائستہ نے اپنی سہیلیوں کی دعوت کی۔ راحت بی بی سارے دن چولھے میں لگی کھانا پکاتی رہیں۔ شام تک ان کی ہمت بالکل ہی جواب دے گئی۔ بخار تو ایک ہفتے سے آرہا تھا۔ بس کسی طرح خود کو کھینچ کھانچ کر کام کر رہی تھیں۔ آج اتنا زیادہ کام پڑا تو بستر سے لگ گئیں اور بالکل غافل ہوگئیں۔ اتنے میں شائستہ نے بڑے تحکمانہ لہجے میں آواز دی، ’’راحت بوا! کھانا لگادو۔‘‘ تاکہ ذرا سہیلیاں بھی سن لیں کہ ان کے گھر کا کام نوکر چاکر کرتے ہیں لیکن اس وقت جواب کون دیتا؟ راحت بی بی تو غافل پڑی تھیں۔

    شباب باہر سے آیا تو دادی کو اس طرح پڑے دیکھ کر وہ ان کے پاس آیا۔ صبح ہی تو دادی اماں نے بتایا تھا کہ بخار آگیا ہے۔ جلدی سے ان کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر بخار کا اندازہ کیا۔ پھر خوش ہوکر کہنے لگا، ’’دادی اماں! اٹھیے نا! بخار تو اتر بھی گیا‘‘ ۔ سچ مچ راحت بی بی کا جسم ٹھنڈا پڑا تھا۔ پیشانی پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ شباب نے ان کی گردن کے نیچے ہاتھ ڈال کر انہیں اٹھانا چاہا لیکن وہ تو سوکھی ٹہنی کی مانند ڈھے گئیں اور شائستہ جو غصے میں بھنبھناتی ہوئی آگے بڑھی تھی، اچانک تھم گئی اور پھر چیخ اٹھی، ’’ممی! ممی! راحت بوا! مر گئیں راحت بوا۔‘‘

    داراب کو اطلاع دی گئی۔ وہ آئے تو راحت بی بی کا کمزور و ناتواں جسم منوں مٹی کے نیچے چھپا دیا گیا۔ زمین۔۔۔ آج زمین سے مل کر اسی کاایک حصہ بن گئی تھی۔ لیکن یہ زمین پستیوں سے کتنی بلند تھی، کتنی عظیم تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے