Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زرد دھوپ کی چادر

نادیہ عنبر لودھی

زرد دھوپ کی چادر

نادیہ عنبر لودھی

MORE BYنادیہ عنبر لودھی

    پھر آپ نے کیا سوچا ہے ؟بدصورت مرد نے سوال پوچھا -

    اُس کا دل چاہا اس آدمی کو کھری کھری سنا دے لیکن مصلحت کے تحت خاموش رہی - وہ بظاہر ایک بدصورت مرد تھا - گہرا سانولا سیاہی مائل رنگ ، موٹے نقوش اور بے ڈول جسم -

    آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا -

    وہ گویا ہوا -

    بات دراصل یہ ہے کہ میں آپ کو وقت نہیں دے سکتی مجھ پر کافی ذمہ داریاں ہیں -اس نے بات ٹالنے کی کوشش کی -

    بس آپ مجھ سے دوستی کر لیجئے مجھے آپ کی بہت ضرورت ہے میر ی بیوی بیمار رہتی ہے -مرد بولا

    یہ میرے لیے ممکن نہیں ہے میرے بچے ہیں - شوہر کی ذمہ داریاں ہیں ۔ سسرال ہے جاب ہے -اس نے جوابا کہا -

    بس میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ کبھی کبھی آپ مجھ سے بات کرلیں میرے ساتھ کچھ وقت گزار لیں - میں ایک ایسا دوست چاہتا ہوں ۔ جس کا کبھی ہاتھ پکڑ لیا کبھی سینے سے لگا لیا - اس سے زیادہ کچھ نہیں۔مرد نے جال پھینکا - عورت کو اس کے شاطرانہ پن پر کراہت سی محسوس ہوئی - شادی شدہ افراد کا ناجائز تعلق قائم کرنا ِاس مرد کے نذدیک کچھ نہیں ہے - عورت نے دل میں سوچا -

    آپ بہت خوب صورت ہیں -ایک انجانی سی کشش ہے آپ کے وجود میں -آپ کی آنکھیں بہت خوب صورت ہیں -ابن ِآدم نے اپنا آزمودہ نسخہ چلانے کی سعی کی جو بری طرح سے ناکام ہوا -عورت فریب میں نہیں آئی-

    آپ کے والد تو حافظ قرآن تھے نا -عورت نے اپنی طرف سے غیرت دلانے کی کوشش کی -

    جی ہاں صرف حافظ نہیں تھے محدث بھی تھے -

    مرد نے جواب دیا -

    اتنے میں چھٹی کا وقت ہوگیا -

    اوکے اللہ حافظ میں گھر جارہی ہوں - یہ کہہ کر وہ دفتر سے نکل آئی-

    وہ دفتر میں ملازمت کرتی تھی اس کی ملازمت کو ابھی ایک سال کا عرصہ ہوا تھا -دفتر میں مردوں کی ریشہ خطمی کا مقابلہ وہ بہت تحمل سے کرتی تھی - یہ ملازمت اس کی ضرورت تھی -

    وہ شخص کسی نہ کسی بہانے سے اس کے ارد گرد منڈلاتا رہتا اور اسے دوستی کی آفر کرتا رہتا -

    دو تین دن کی خاموشی کے بعد وہ دوبارہ میدان میں اتر آیا -

    آپ مجھے اپنا نمبر دے دیں پلیز -مرد نے کہا - سوریمجھے اس کی اجازت نہیں ہے - اس نے کہا -

    اچھا پھر میں آپ کو سیل فون گفٹ کرونگا جس پر صرف آپ اور میں بات کریں گے رات گئے سمجھ گئی نا آپ -مرد نے آفر دی-

    نہیں میں معذرت چاہتی ہوں یہ ممکن نہیں ہے گھر پر سب ہوتے ہیں -اس نے مرد کو ٹالا - دل تو چاہ رہا تھا بے نقط سنا ڈالے - لیکن وہ کوئی تماشا نہیں چاہتی تھی -خاموشی سے فائل پر سر جھکا لیا - مرد بھی اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھ گیا -

    چند دن گزرگئے اس کی سرد مہری نے مرد کا ارادہ بدل دیا-

    دن یونہی گزر رہے تھے خاموش ،اداس اور بے رنگ -اپنے دو بچوں کو پالنا اس کی ذمہ داری تھی جسے وہ نبھانے کی پوری کوشش کررہی تھی - کہ وہ رات آگئی - ایک طوفانی رات ، اندھیرا ، تیز بارش اور طوفان زوروں پر تھا - وہ دونوں بچوں کے ساتھ بستر میں دبکی ہوئی تھی موسم ِ سرما کی آمد نے فضا میں خنکی پیدا کر دی تھی - رات کا تیسرا پہر تھا اچانک اس کی آنکھ کُھل گئ- کمرے میں کوئی تھا -ٹارچ کی باریک روشنی کی لکیر میں کو ئی الماری کے اندر جھانک رہا تھا - وہ ایک سفید پوش بیوہ تھی - چند ہزار روپے کے سوا گھر میں کچھ نہ تھا ۔ اس کے طلائی زیورات دوران ِعدت میں ہی ِبک گئے تھے -وہ دم سادھے پڑی رہی -اچانک نقاب پوش نے لائٹ ان کے چہروں پر کی اور جائزہ لینے لگا بچے سو رہے تھے اور وہ سونے کی اداکاری کررہی تھی - نقاب پوش اس کی حسین زلفوں دل کش خدوخال میں گم ہوکے رہ گیا - اس نے اس کے بھرے بھرے ہونٹوں کا بوسہ لیا اس کی نیت خراب ہو گئی اس نے اس کو بازوؤں میں بھرا اور اٹھا کے ساتھ والے کمرے میں لے گیا اس نے اسے صوفے پر لٹادیاتو عورت کا بے ترتیب لباس دعوت نظارہ دینے لگا - نقاب پوش اس پر جھکا اس نے بھربھری آواز میں التجا کی کہ اسے چھوڑ دے - لیکن وہ نہ مانا اس نے بہت منتیں کیں ہاتھ جوڑے مگر بے سود - نقاب پوش نے اس کی عصمت تار تار کی -عزت لوُٹی اور چلتا بنا -وہ سسکنے لگی - تھوڑی دیر بعد جب اس کے حواس بحال ہوۓ تو بیرونی دروازہ بند کرکے بچوں کے ساتھ آ کر لیٹ گئی -

    صبح بچوں کو اسکول بھیج کے وہ دوبارہ بستر میں لیٹ گئی - اس میں آج دفتر جانے کی ہمت نہیں تھی - زندگی مزیر بے رنگ لگنے لگی۔

    آہستہ آہستہ وقت گزرتا جارہا تھا وہ بھی زندگی میں دوبارہ مشغول ہو گئی -

    البتہ زندگی جلد ہی اس پر قہقہ لگانے والی تھی - تین چار ماہ کے بعد اس کی طبعیت گری گری رہنے لگی - جسے وہ تھکن سمجھ کے نظر انداز کرتی رہی آخر ایک دن وہ ڈاکٹر کے پاس چلی گئی- ڈاکٹر نے ٹسٹ کرواۓ اور اسے خوش خبری سنادی -وہ ماں بننے والی تھی نہ زمین پھٹی نہ آسمان گرا اس کے سر پر سارا جہان گر گیا -وہ کھڑی کی کھڑی رہ گئ پیر من من کے ہو گئے خود کو کھینچ کے گھر تک لائی اور بے حال ہو کے بستر پر گر گئ ایک اذان پھر دوسری پھر تیسری سب نمازیں قضا ہوتی گئیں -اس میں ہمت نہیں تھی ایسے بے دم پڑی تھی جیسے مر گئی ہو -

    وہ بی بی مریم نہیں تھی ایک کمزور ،بزدل ،گناہ گار ،خطاکار عورت تھی -تعفن زدہ معاشرے کی پروردہ تھی - بیوگی کی سفید چادر پر اس نے داغ نہیں لگنے دیا تھا - اس نے اپنے جذبات مار لیے تھے - خود میں خود کو دفن کرلیا تھا - لیکن آج تو چادر سر سے ہی کھینچ لی گئی تھی اور مکمل طور پر کیچڑ سے بھر گئی تھی - اب سر پر لینے کے قابل نہیں رہی تھی - کو ن سی بُکل میں خود کو چھپاۓ - کہاں جاۓ - کون تھا اس کا یہاں - اس کے پاس وقت بہت کم تھا -حمل ضائع کروانے کی مدت گزر چکی تھی اسے جلد از جلد کوئی حل ڈھونڈنا تھا -بچوں کے سالانہ امتحانات ہو رہے تھے- کاش نومبر کی وہ سرد شام اس کی زندگی میں نہ آئی ہوتی -کاش !

    اس نے بورڈنگ اسکول کا پتا کروایا اور دونوں بیٹے وہاں داخل کروادیے- اپنی بابت ملک سے باہر جانے کا بتایا اور چھ ماہ تک ملاقات نہ کرسکنے کا بھی بتایا -

    اس نے گھر کو لاک کیا اور ہمسایوں کو ملک سے باہر جانے کا کہہ کے وہاں سے ایک دور دراز کے شہر میں چلی آئی -

    یہاں کو ئی اس کا واقف نہیں تھا - جس دفتر میں وہ نوکری کرتی تھی اس کا ایک ذیلی دفتر یہاں تھا -اس نے اپنی بیوگی کو دفتر والوں سے چھپایا تھا -بیوہ عورت مال مفت کی طرح ہوتی ہے یہ ہی سوچ کر اس نے اپنے شوہر سے متعلق حقیقت چھپائی تھی جو آج اس کو فائدہ دے رہی تھی - گھر ، محلہ اور مکان بدلنا اس کی مجبوری تھی وہ مکان اس کے شوہر کا تھا اور اہل محلہ اس کی بیوگی سے واقف تھے -

    نئے شہر میں اس نے ایک کمرہ پےانگ گیسٹ کے طور پر لے لیا -سر سے پاؤں تک وہ خود کو عبایا میں ملبوس رکھتی چہرہ بھی مکمل چھپا کے رکھتی - بچوں سے فون پر رابطہ تھا اس نے ایک پرائیوٹ ہسپتال میں نام لکھوا لیا-ڈلیوری کا وقت آپہنچا-وہ تنہا تھی اس رات زبردستی کا مہمان ساتھ تھا

    اور آج اس مہمان کی نشانی -نشانی دینے والا کہیں بے خبر اور پرسکون بیٹھا تھا او وہ درد ِذہ سہ رہی تھی لذت کسی کا مقدر اور درد کسی کا - اس نے سوچ لیا تھا بچے پر ایک نظر بھی نہیں ڈالے گی - بدنامی کے اس پوٹلی کو خاموشی سے یہیں چھوڑ جاۓ گی -

    ساری رات تکلیف سہنے اور درد جھیلنے کے بعد اس نے صبح صادق ایک لڑکے کو جنم دیا-

    دو تین دن بعد ہمت جمع ہوئی تو وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی لوگوں کی نظروں سے بچتی بچاتی ٹیکسی میں بیٹھ کے گھر چلی آئی - بچہ ہسپتال کی نرسری میں تھا وہیں رہ گیا-ہسپتال میں اس نے فرضی پتا اور فون نمبر لکھوایا تھا -تین چار دن اس نے مزید وہی گزارے- دفتر سے وہ میٹرنیٹی لیو پر تھی -وہ اپنے شہر واپس چلی آئی -

    وقت گزرتا گیا بچے پر کیا گزری اس نے پلٹ کے خبر نہ لی - اس کے دونوں بیٹے پڑ ھ لکھ کے جوان ہوگئے اور بر سر روزگار بھی ہوگئے - بڑا بیٹا فوج میں چلا گیا وہ اس کے سر پر سہراسجانے کا خواب دیکھنے لگی - کبھی کسی طوفانی رات میں اسے وہ واقعہ اور بچہ یاد آتے تو وہ سوچتی کاش وہ بیٹا بھی میرے شوہر کی اولاد میں سے ہوتا تو آج میرے ساتھ ہوتا - وہ اسے کبھی نہیں بھول سکی - بڑا بیٹا ڈیوٹی کے دوران شہید ہوگیا -

    ابھی اس غم سے دل سنبھلا نہیں تھا کہ دوسرے کو بھی اجل نے آلیا -اسے کینسر جیسے موذی مرض نے آلیا -چھ ماہ میں اسکا دوسرابیٹابھی چل دیا - وہ تنہا رہ گئی بالکل تنہا - تنہائی اسے گھن کی طرح کھانے لگی

    چند ماہ گزرے - بیس سال بعد اس کے قدم اسی راستے پر تھے جس پر کبھی نہ پلٹنے کا پختہ ارادہ کیا تھا-زندگی نے اسے کمزور اور بوڑھا کردیا تھا-

    اسپتال سے بچے کے بارے میں پتا چلا کہ اسے ایدھی سنٹر بھیج دیا گیا تھا -ایدھی سنٹر گئی تو علم ہوا کہ پانچ سال کی عمر میں اسے ایک بے اولاد جوڑا لے گیا -اس نے اس جوڑے کا ایڈریس لیا اور ممکنہ پتے پر پہنچی -

    دستک کے جواب میں ایک پچاس سالہ شخص نے دروازہ کھولا - وہ آدمی اس عورت کو پہلی نظر ہی میں پہچان گیا -یہ وہی عورت تھی جس کی عزت اس نے ایک طوفانی رات میں لوُٹی تھی -آج بھی ویسی ہی دل کش تھی -اس دن وہ خود کو روک نہیں پایا تھا وہ چور تھا مگر زانی نہیں تھا یہ اس کا واحد گناہ تھا جس کی اس نے اللہ سے بہت توبہ مانگی اور چوری سے بھی تائب ہوگیا تھا-اس کی ضمیر نے اسے بہت ملامت کی تھی اور اس نے برائی کا راستہ چھوڑ دیا - اب وہ عزت دار آدمی تھا -

    جی فرمائیے آدمی نے کہا

    کیا گھر میں کوئی خاتون ہے وہ بولی وہ آدمی کو نہیں پہچان پائی تھی اس رات وہ آدمی خاموش رہا تھا وہ اس آدمی کی آواز نہیں سن سکی تھی اس آدمی نے چہرہ بھی کپڑے سے چھپا رکھا تھا -

    آج آدمی کے چہرے پر سفید داڑھی تھی سر پر نماز والی ٹوپی تھی -

    جی میری بیوی ہے اندر آج آجائیں -یہ کہہ کے مرد نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھادیا -

    ایک عورت اندر داخل ہوئی قریبا اس کی ہم عمر -

    اس نے عورت سے کہا کہ وہ اسے ایک کہانی سنانا چاہتی ہے -آدمی ساتھ والے کمرے کی دیوار سے لگ کر ان دونوں کی گفتگو سننے لگا -

    اس نے اپنی بیوگی ،نوکری ،طوفانی رات سے لے کے بچے کی پیدائش اور پھر دونوں لڑکوں کے انتقال تک کی کہانی سنائی -عورت کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے -دیوار سے لگا مرد بھی آبدیدہ ہوگیا -مرد کے گریہ میں اپنے گناہ کی ندامت کا غم بھی تھا گویا عمر میرا بیٹا ہے میرا اپنا خون -شاید میرے رب کو میر ی توبہ پسند آگئی تھی جو میرا بیٹا مجھے لوٹا دیا اس آدمی نے نے دل میں سوچا ۔

    آپ پہلی خاتون ہیں جس کو میں نے یہ سچائی بتائی ہے اور وہ عورت میں ہی ہوں جس کی یہ کہانی ہے -ایک لٹی ہوئی عورت- ایک تہی دست ماں -آج آپ سے اپنا بیٹا مانگتی ہے -میرا بیٹا مجھے دے دیں -ہر طوفانی رات میں نے اسے پکارا ہے -

    عمر ہمارا بیٹا نہیں ہے لیکن ہم نے اسے بہت محبت سے پالا ہے -اگر وہ آپ کے ساتھ جانا چاہے تو میں نہیں روکوں گی -آپ نے بہت دکھ اٹھائے ہیں میں آپ کو انکار نہیں کر سکتی - عورت نے اسے حوصلہ دیا - اتنی دیر میں باہر شور سنائی دیا

    امی ۔امی ایک بیس سالہ وجیہہ شوخ و شنگ نوجوان مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا -آپ یہاں ہیں ،میں آپ کو سارے گھر میں ڈھونڈ رہا ہوں وہ ماں سے لاڈ کرنے لگا -لڑکے نے بانہیں ماں کے گلے میں حمائل کیں اور ماں کا منہ چومنے لگا کہ اس کی نظر اس پہ پڑی اسلام علیکم آنٹی لڑکا بولا

    لفظ آنٹی نے اس کا دل چیر دیا - آج بیٹے کو پالنے والی جنم دینے والی سے زیادہ معتبر ہے -میں نے کون سا ماں ہونے کا حق ادا کیا-اس نے دل میں سوچا -

    لڑ کے کی ماں اٹھی اور اس نے سب کے لیے ڈائینگ ٹیبل پر کھانا چن دیا -کھانے کے دوران مرد کی نگاہ اس کے ہاتھوں پر پڑی - اسے وہ رات یاد آگئ یہ ہی ہاتھ اس عورت نے جوڑے تھے اور اسے روکنے کی بہت کوشش کی تھی -پچھتاوے کی ایک لہر نے مرد کے وجود کو غم زدہ کردیا -

    کھانے کے دوران لڑکا مسلسل چہکتا رہا اور وہ حسرت سے اسے دیکھتی رہی -

    آپ بہت دور سے سفر کرکے آئی ہیں آج کی رات ہمارے گھر پر گزار لیں عورت نے اس سے کہا اور وہ مان گئی -

    آدھی رات کو جب سب سوگئے تو وہ کمرے سے نکلی -کہ بیٹے کو جی بھر کے دیکھ لوں خدا جانے صبح میرے ساتھ جا سکے یا نہ جا سکے - لڑکے کے کمرے میں پہنچی اور اُسے تکنے لگی -

    تھوڑی دیر گزری -سسکیوں کی آواز سنائی دینے لگی -آدھی رات کو کون رو رہا ہے؟ اسے حیرت ہوئی -وہ آواز کی سمت بڑ ھی تو دیکھا کہ گھر کا مالک زار وقطار رو رہا ہے - وہ مسلسل معافی مانگ رہا تھا - پھر وہ ایک ایک کرکے اپنے سارے گناہ گنوا نے لگا اپنی چوریاں اپنی غلط کاریاں پھر طوفانی رات میں ایک عورت کا زنا بالجبر -پھر اپنی توبہ اور اس عورت کے بیٹے کو پالنے پر اس نے خدا کا شکر بھی ادا کیا -یہ سن کر اس پر تو پہاڑ آگرا - تو یہ وہی آدمی ہے - میری عفت کا لٹیرا ، میری روح کا قاتل -میری اولاد کا غاصب -اس کے نطفہ حرام کو اپنی کھوکھ میں رکھنا پڑا مجھے- پھر زمانے کے خوف سے دھتکارنا پڑا -اس سوچ نے اسے زندہ درگور کردیا -

    وہ خود کو گھسیٹتی ہوئی کمرے تک آئی -ہینڈ بیگ اٹھایا اور گھر سے نکل آئی -وہ بس اسٹینڈ پہنچی اور بس کے انتظار میں ویٹنگ روم میں بیٹھ گئی -اس آدمی سے بھیک مانگوں - جس کی بیس سال پہلے میں نے منتیں کی تھیں اور اسے ترس نہیں آیا تھا -آج اس درندے کے آگے ہاتھ پھیلاؤں -یہ ممکن نہیں تھا اس کے لیے -

    آنسو اسکے رخساروں پر بہنے لگے - وہ آج کے واپسی کے سفر میں بھی بیس سال پہلے کی طرح تنہا تھی بالکل تنہا -

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے