aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زندگی اور موت کے درمیان

کوثر چاند پوری

زندگی اور موت کے درمیان

کوثر چاند پوری

MORE BYکوثر چاند پوری

    سیٹھ دھرم پال پر گزشتہ تین روز سے دل کے دورے پڑ رہے تھے۔ کئی مرتبہ چھاتی میں شدید درد ہو چکا تھا۔ ان کی عمر پچاس سے کچھ اوپر ہی تھی، ساری آرزوئیں پوری ہو چکی تھیں۔ سو برس تک زندہ رہنے کی خواہش کو اب وہ خود ناممکن خیال کرنے لگے تھے۔ موجودہ بیماری کے دوران میں ڈاکٹروں نے انھیں بالکل ہی نراش کر دیا تھا۔ الیکٹرو کارڈیوگرام دیکھ کر ان کی پیشانی پر حیرت و استعجاب سے بہت سی موٹی شکنیں ابھر آئی تھیں۔ شاید وہ اس بات پر تعجب کر رہے تھے کہ سیٹھ جی اب تک زندہ کیوں کر ہیں۔ انھیں تو پہلے ہی دورے میں ہلاک ہو جانا چاہیے تھا۔

    سیٹھ جی بہت اداس اور نڈھال سے پلنگ پر پڑے تھے۔ اچانک سینہ میں ہلکا سا درد اٹھا۔ آپ ہی آپ ان کا دایاں ہاتھ درد کی جگہ پر رکھا گیا۔ انہیں یوں لگا جیسے جیون بھر میں پہلی اور آخری بار کسی حسین اور جوان محبوب نے دلاسا دیا ہو۔ وہ کہہ رہا ہو، شری دھرم پال جی دنیا میں سدا کون زندہ رہتا ہے۔ بھاگوان اسی کو سمجھئے جو اطمینان اور شان سے پرلوک کو سدھار جائے، یہ سب چیزیں آپ حاصل کر سکتے ہیں۔ پھر مرنے سے کیوں ڈر لگتا ہے۔ بنگلہ تیار ہو چکا، لکزری کار بھی آ گئی۔ کشمیر سے راس کماری تک برسوں آپ کی فرم کا مال سپلائی ہوتا رہا ہے۔ انکم ٹیکس آفیسر کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا آرٹ آپ سے بہتر کون جانتا ہے۔ بینک بیلنس لاکھوں سے گزر کرکئی کروڑ تک پہنچ چکا ہے۔ اولاد کا غم ضرور تھا، سو شام ناتھ کو گود لے کر آپ نے اسے بھی احساس سے کھرچ ڈالا، کوئی تیرتھ نہیں جس کی یاترا کو آپ نہ گئے ہوں۔

    پھر موت سے کیا ڈرنا۔ شری دھرم پال جی بتائیے موت سے کیا ڈرنا؟ آخری جملے کی تکرار پر انھیں جھٹکا سا لگا، چونک پڑے، دھیرے سے بولے ساری امنگیں ابھی کہاں پوری ہوئیں، معاملہ وہی ہے کہ،

    بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے!

    ایک دم لاکھ روپے خرچ کرنے کی آرزو صرف اس لیے من میں گھٹی ہوئی ہے کہ سرکار نے خرچ پر ٹیکس لگا دیا ہے۔ موت ٹیکس تو شام آپ کو بھگتنا ہی پڑےگا، میں جیتے جی خرچ کا ٹیکس کیوں دوں۔ ایک روز جی چاہا تھا کہ ایک لاکھ ملک کی حفاظت کے لیے دے ڈالوں۔ چیک لکھا، پھر کینسل کر دیا۔ اس پر ٹیکس تو نہ لگتا پر سوچا رقم بہت بڑی ہے۔ قومی فنڈ میں دینے والے اور بہت ہیں، مجھے کوئی نیا لائسنس نہیں لینا۔ رہی اطمینان، شان اور عزت سے مرنے کی بات، سو اس بارے میں اب کچھ سوچنا ہی پڑےگا۔ بنگلہ میں بچھے ہوے اسی پلنگ پر جو سیٹھانی کو ایک بیٹا بھی نہ دے سکا، حینا تو کوئی بڑی بات نہیں، مگر اس پرانے ڈھنگ پر دن رات جنتا دم توڑتی رہتی ہے، میں اس طرح کیوں مروں۔ میری گنتی جنتا میں نہیں۔

    نہیں،

    بالکل نہیں۔

    ابھی منہ کی بات منہ ہی میں تھی کہ شام ناتھ نے پاس آکر دھیمی آواز میں کہا، بابوجی!

    کیا بات ہے؟ انہوں نے آنکھیں کھول کر آہستگی سے جواب دیا۔

    آپ کے لیے شہر کے بہت اچھے اور صاف ستھرے نرسنگ ہوم میں اسپیشل وارڈ کا انتظام کر لیا گیا ہے۔ یہاں ڈاکٹروں کو بلانے میں بہت دیر ہوجاتی ہے۔ وہاں گھنٹی بجاتے ہی نرس آئے گی۔ وہ ڈاکٹر کو فون کرےگی، فوراً ڈاکٹر آئےگا۔ اس کے علاوہ وہاں نرسیں ہوں گی، وارڈ بائے ہوں گے۔ گیس سلینڈر ہوگا، خون کی بوتلیں ہوں گی، اسپیشل نرسنگ کا انتظام بھی ہو چکا ہے۔ دونرسیں ہر وقت وارڈ میں موجود رہیں گی۔

    ہے بھگوان! اورخرچہ کیا بیٹھےگا؟

    مہینہ بھر میں زیادہ سے زیادہ چالیس پچاس ہزار، بہت زیادہ ہوا تو ایک لاکھ۔ ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ شام بابو گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ میں لندن اور امریکہ سے سیٹھ جی کے لیے انجکشن منگاؤں گا۔

    ٹھیک ہے۔ پر میں کہتا ہوں سب کچھ تمہارے ہی لیے ہے، پھر اتنی جلدی کیا ہے؟ نرسنگ ہوم میں مجھے کیوں مارنا چاہتے ہو، ایسی سائنٹیفک موت سے بہت ڈرتا ہوں۔

    بھگوان کا نام لو بابوجی، آپ کے لیے میں کوئی بری بات سوچ بھی نہیں سکتا۔ پنڈت کہتے ہیں کہ آپ ایک لاکھ روپیہ ایک دم سے خر چ کر ڈالیں تو سارے سنکٹ دور ہو سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اتنی رقم فوراً دان کر دینی چاہیے۔

    انھیں کہنے دو بیٹا، میں اتنا روپیہ دان نہیں کروں گا، تم کہتے ہو تو اپنے شریر پر لگا دوں گا، کایا بچانے کو مایا لٹا دینے میں کوئی دوس نہیں۔

    ٹھیک ہے بابوجی، میں نے کلکتہ سے آٹھ ہزار پر ایک روسی ڈاکٹر بلایا ہے۔ وہ دل تک بدل ڈالتا ہے۔

    ہے بھگوان! سیٹھ جی نے جلدی سے دل پر رکھا ہوا ہاتھ ہٹا لیا اور گہرے گہرے سانس لینے لگے۔

    اسی وقت ایمبولنس کار آ گئی اور ڈاکٹروں کی ایک پوری ٹیم کی نگرانی میں سیٹھ دھرم پال کو اسپیشل وارڈ میں پہنچا دیا گیا۔ کوالیفائڈ نرسیں بڑی بڑی اجرتوں پر ان کی دیکھ بھال کے لیے رکھ لی گئیں۔ سیٹھ دھرم پال کو لوہے کے تکیے کاسہارا دے کر آہنی پلنگ پر پڑے ہوئے ڈنلپ کے گدے پر نیم دراز حالت میں بٹھایا گیا تو انھیں ایسا لگا جیسے وہ زمین سے اٹھ کر چاند پر آ گئے ہوں جہاں کوئی چیز بدصورت اور نچلی سطح کی نہ ہو۔ انھوں نے پہلی ہی نگاہ میں نرسوں کے شگفتہ چہروں اور ان کے لباس کا، سیٹھانی کے غمگین اور جھریوں سے بھرے چہرے اور میلے کچیلے کپڑوں سے مقابلہ کیا، ان میں اپسرا اور ایک معمولی عورت کا سا فرق تھا۔ سیٹھ جی نے گھر اور وارڈ کی فضا کو نگاہوں میں تولنے کے بعد پھر ایک لمبا سانس لے کر پوچھا، چیک بک کہاں ہے شامو؟

    میرے بیگ میں۔ آپ کے سرہانے پانچ ہزار کے نوٹ رکھ دیے گئے ہیں۔

    دفعتاً سیٹھ دھرم پال کو پھر چھاتی میں درد محسوس ہوا۔ وہ بیہوش ہو گئے اورجب ہوش میں آئے تو دو خوبصورت نرسیں نازک ہاتھوں سے سینہ پر مساج کر رہی تھیں۔ ڈاکٹر سامنے کھڑا تھا۔ قریب ہی گیس سلینڈر رکھا تھا۔ گلوکوز کی بوتل اسٹینڈ پر الٹی ٹنگی تھی۔۔۔ اس میں سے ایک ایک بوند ٹپک کر کلائی کی رگ میں چھدی ہوئی سوئی کے ذریعہ خون میں ملتی جا رہی تھی۔

    مجھے کیا ہو گیا تھا؟

    کچھ نہیں۔ نرس نے اپسراؤں کی سی معصومیت کے ساتھ جواب دیا۔

    ڈاکٹرنے اسٹیتھیسکوپ لگاکر دل کی حرکات کا معائنہ کیا۔ نرس کو بلاکر بلڈپریشر اور ٹمپریچر لینے کی ہدایت کی۔ اس نے بی پی آپریٹس اٹھایا اور دھرم پال جی کی بازو کے گرد ربر لپیٹ کر نبض پر انگلیاں جمادیں، دوسری نرس نے تھرمامیٹر جھٹک کر میٹھی اور نغمہ ریز آواز میں کہا، منہ کھولیے!

    سیٹھ جی نے تھرمامیٹر منہ میں لے کر چباڈالا۔ نرس بگڑی نہیں، دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ بولی، بچہ بن گئے سیٹھ!

    اسی لمحہ سیٹھ جی کی کاپا پلٹ گئی۔ وہ کمزوری کے باوجود مسکرا دیے۔ نرس نے برجستہ کہا، ضدی بچہ روتا زیادہ ہے، ہنستا کم ہے۔

    سیٹھ جی رو نہ سکے، رونے کا فن سیٹھانی اچھا جانتی تھیں، جو ہنسنے کی جگہ بھی رودیتی تھیں۔ اس وقت بھی الگ کھڑی آنسو بہا رہی تھیں۔

    ڈاکٹر انگریزی میں نرسوں سے بات کر رہا تھا، نرسیں نرمی اور آہستگی سے جواب دے رہی تھیں۔ سیٹھ دھرم پال سوچ رہے تھے، اسے کہتے ہیں اطمینان، عزت اور شان، سورگ میں پہنچا دیا مجھے شامو نے۔ آرام ہو یا نہ ہو ٹھاٹھ تو ہیں۔ زمانہ وہ ہے کہ وزیر بھی موٹروں کے حادثے میں سڑک پر مر جاتے ہیں۔ میرے لیے یہاں مر جانا بھی خوشی کی بات ہے۔ ہے بھگوان! یہ سلسلہ ایک ہچکی سے ٹوٹ گیا۔

    شام چیک پر چیک کاٹ رہا تھا اور سیٹھ جی بغیر کچھ پوچھے دستخط کرتے جا رہے تھے۔ بہت سی چیزیں نرسنگ ہوم والوں نے خاص طور پر سیٹھ دھرم پال کے لیے منگائی تھیں۔

    ایک نئی وضع کی میز منگائی گئی تھی جو خودبخود حرکت کرتی تھی۔ دھرم پال جی اس پر لیٹ کر اسی کے سہارے آہستہ آہستہ ایک تختہ پر کھڑے ہو گئے۔ اسی طرح ان کا اسکرین کیا گیا۔ انھیں آپ تن کر کھڑے ہونے کی زحمت نہ ہوئی۔ میز پھر دھیرے دھیرے اپنی جگہ آ گئی اور سیٹھ جی آرام سے اسی پر لیٹے ہوئے نظر آئے۔ پندرہ دن بیت گئے۔ سیٹھ دھرم پال پر دل کا دورہ نہیں پڑا۔ ایک دن جب ان کی طبیعت بہت زیادہ بحال تھی، شام نے کہا،

    بابوجی بنگلہ پر آپ بیہوش ہو گئے تھے، اسی حالت میں یہاں لایا گیا۔ شہر میں تین مشہور ہارٹ اسپیشلسٹ ہیں، میں نے انھیں بلاکر آپ کو دکھایا۔ وہ اب تک دن میں تین مرتبہ معائنہ کر رہے ہیں۔ ایک ہندی پتریکا میں روزانہ بلیٹین چھپ رہا ہے، جس میں آپ کا پورا حال ہوتا ہے۔ میں کنکروں کی طرح روپیہ لٹا رہا ہوں، اب تک ڈیڑھ لاکھ پر پانی پھر چکا ہے۔ بتائیے آپ کی جان کے مقابلے میں روپے کی کیا حیثیت ہے بابوجی!

    رام رام، اتنا پیسہ پھونک ڈالا شامو!

    کوئی غم نہیں بابوجی!

    شام سیٹھ جی کا منہ بولا بیٹا ضرور تھا، مگر وہ اسے لے پالک ہی نہ سمجھتے تھے، بیٹوں کی سی محبت کرتے تھے۔ وہی ان کی جائداد کا مالک بننے والا تھا۔

    دھرم پال جی تین مہینے تک نرسنگ ہوم میں پڑے رہے۔ جب انھیں یقین ہو گیا کہ مرنے کے سارے امکانات دور ہو گئے تو شام سے بولے، خرچ بہت ہو رہا ہے، مجھے گھر لے چلو۔

    ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ ابھی نرسنگ ہوم ہی میں رہا جائے۔ بلڈپریشر نارمل نہیں ہوا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں اچانک بیماری کے لوٹ آنے کاخطرہ موجود ہے۔ یہاں جتنی سہولتیں ہیں، گھر پر اتنی میسر نہیں آ سکتیں۔

    دھرم پال جی کی آنکھوں میں ایک بار اور موت کی بھیانک تصویر ناچنے لگی۔ وہ روکر کہنے لگے، شام میں مرنا نہیں چاہتا، مجھے بچا لو، نرسنگ ہوم میں اس شان سے زندہ رہ سکتا ہوں تو مرنا کیا ضروری ہے۔

    گھبرائیے نہیں بابوجی، یہاں آپ کو موت سے بچانے کی ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے۔

    اور مصارف کی میزان کیا ہے؟

    ابھی تین لاکھ تک ہی پہنچی ہے۔

    ہش، پاپی، میں یہاں نہیں رہوں گا، فوراً گھر چلو۔

    ڈاکٹر اجازت نہیں دیں گے بابوجی۔

    گولی مارو انھیں، وہ تو کبھی مجھے نہ جانے دیں گے۔۔۔ اور ہاں شامو، یہ اخباروں میں کیسی خبریں چھپی ہیں، کل نرسیں کہہ رہی تھیں کہ روپے کی قیمت گر گئی۔

    ملک میں نہیں۔ ہمارے روپے پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ یہ سب کچھ باہر ہی باہر ہو رہا ہے، پھر سونے کا بھاؤ بہت چڑھ گیا ہے۔

    تب کوئی غم نہیں شامو، روپیہ آٹھ آنے کا بھی رہ جائے تو پروا نہیں، سونامیرے گھر میں بھرا پڑا ہے۔

    رات کو سیٹھ جی کا پرانا ایجنٹ اور دلال گیندا رام آیا تو دھرم پال جی نے خوش ہوکر کہا، سونے کا بھاؤ چڑھ گیا گیندا۔

    بہت زیادہ، جب ہی تو سرکار سونے کے اسٹاک پر جگہ جگہ چھاپے مار رہی ہے، کوئی سونا چھپا نہیں سکےگا۔۔۔ اور سرکار تو عجیب عجیب باتیں کر رہی ہے، وہ ان روگیوں پر صحت ٹیکس لگا رہی ہے، جو ہسپتال سے اچھے ہوکر گھر جائیں۔

    سچ!

    اس یگ میں کوئی بات جھوٹی نہیں، ابھی تو کہتے ہیں ۲۵ وصول کریں گے، کل کو نہ جانے کیا مانگنے لگیں۔ اگر یہی کہہ دیا کہ آدھا سونا دیتے جاؤ تو آپ کیا کر لیں گے۔

    گیندا رام چپ ہوا تو سیٹھ جی کے بدن میں سر سے پاؤں تک سنسنی سی دوڑ گئی۔ موت پر بھی ٹیکس اور صحت پر بھی، پھر کہاں جاؤں بھگوان؟ اسی وقت دھرم پال جی کی حالت بگڑ گئی، گھنٹہ بھر میں لگاتار تین دورے پڑے، تیسرے دورے کے بعد وہ بالکل نڈھال ہو گئے اور صحیح معنی میں موت اور زندگی کے عین وسط میں لٹکے رہے۔ ان کی دیکھ بھال اور دوادارو میں پہلے سے زیادہ دوڑدھوپ کی جا رہی تھی۔ ڈاکٹر جلدی جلدی بدلے جارہے تھے۔ روسی ڈاکٹر دل کا آپریشن کرنے کے لیے تیار تھا لیکن اس کی نوبت نہ آئی تھی کہ سیٹھ دھرم پال نے نرسنگ ہوم کے خوبصورت، روشن اور ہوادار کمرے کے در و دیوار پر آخری اور حسرت بھری نظر ڈالی اور گھبراکر بولے، شامو، مجھے یہاں سے لے چلو، جلدی، میں ایک پل نہیں ٹھہروں گا۔

    ڈاکٹر نے مجبور ہوکر اجازت دے دی، شام نے اسٹریچر پر ڈال کر انہیں چوتھی منزل سے نیچے لانے کے لیے لفٹ کابٹن دبایا، لفٹ ابھی آدھا راستہ ہی طے کر سکی تھی کہ چوتھی اور نچلی منزل کے بیچوں بیچ بجلی فیل ہو جانے کے باعث وہ رک کر کھڑی ہو گئی۔ اسی وقت دھرم پال جی کی روح جسم سے نکل بھاگی۔

    مأخذ:

    آوازوں کی صلیب (Pg. 162)

    • مصنف: کوثر چاند پوری
      • ناشر: حلقۂ فکر و شعور، دہلی
      • سن اشاعت: 1974

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے