aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زندگی کا راز

اوپندر ناتھ اشک

زندگی کا راز

اوپندر ناتھ اشک

MORE BYاوپندر ناتھ اشک

    کہانی کی کہانی

    ’’دو دوستوں کی کہانی، جس میں نارائن ایک شاعر ہے اور شو دیال اس کے شعروں کو عملی جامہ پہنانے میں یقین رکھتا ہے۔ کارخانے میں ہڑتال ہوتی ہے تو مالک مزدوروں اور پولس کے بیچ فساد کرا دیتا ہے۔ اس کے بعد شو دیال اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مالک کی گاڑی پر فائرنگ کر دیتا ہے۔ شو دیال کو پولس پکڑ لے جاتی ہے۔ نارائن جیل میں شو سے ملنے جاتا ہے تو وہاں ان لوگوں کے بیچ کچھ ایسی باتیں ہوتی ہے کہ نارائن بھی شاعری چھوڑکر حقیقی دنیا میں اتر جاتا ہے۔‘‘

    (الوالعزم چیلے نے گورو سے پوچھا، مہاراج زندگی کا کیا راز ہے؟ گورو نے ایک بار آنکھیں کھول کر کہا۔‘‘موت!‘‘ اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔)

    دریا کے کنارے بیٹھا شب دیال اپنے خیالات کی دنیا میں کھو گیا تھا دور افق میں لال لال بدلیاں نیلی ہو گئی تھیں اور مٹیا لے رنگ نے آسمان پر پوری طرح اپنا تسلط جما لیا تھا۔ دریا کے کنارے، خمدار شیشم کی ٹہنیاں جیسے ابتدائے آفرینش سے دریا کی لہروں کو پکڑنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھیں اور لہریں امواج زندگی کی طرح متواتر بہے جار ہی تھیں۔

    اس وقت نارائن نے چپکے سے آ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔

    شب دیال کی محویت کے تار ٹوٹ گئے۔ اس نے سر اٹھا کر نارائن کی طرف دیکھا۔

    نارائن نے کہا، ’’اٹھو، رات ہو رہی ہے، چلوگے نہیں؟‘‘

    ’’چلونگا‘‘ اور یہ کہہ کر تھکے ہوئے شخص کی طرح شب دیال اٹھا اور نارائن کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چپ چاپ چل پڑا۔

    راستہ میں نارائن نے کہا، ’’کل سیٹھ رام لال کے کارخانہ میں زبردست ہڑتال ہوگی۔ چلوگے؟‘‘

    خواب کی سی حالت میں شب دیال نے مسکراکر کہا، ’’چلونگا۔ کیوں نہیں؟‘‘ اور پھر وہ اپنے خیالات کی دنیا میں محو ہو گیا۔

    نارائن صوبے کا مشہور شاعر تھا۔ اس تھوڑے سے عرصے ہی میں اس نے خاص و عام کے دل میں جگہ حاصل کر لی تھی۔ اس کے شعر ہر شخص کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے اور پڑھنے اور سننے والوں کو خوابوں کی ایک رنگین، رومان بھری دنیا میں لے جاتے تھے۔ جہاں ماضی، حال اور مستقبل کے بندھن ٹوٹ جاتے اور وہ سپنوں کی اس دنیا میں شعروں کی شراب پی کر مدہوش ہو رہتے۔

    شب دیال اس کا دوست تھا۔ دونوں بچپن سے ایک ساتھ کھیلے، کودے۔ پڑھے اور جوان ہوئے تھے۔ دونوں کے مذاق قریباً ایک جیسے تھے۔ دونوں خوابوں کی دنیا میں بسنے والے، دونوں شاعر مزاج! فرق صرف یہ تھا۔ کہ نارائن شعر کہتا تھا اور شب دیال سنتا تھا۔ نارائن صرف اس وقت تک اس رومان انگریز دنیا کی سیر کرتا جب تک اس کے جذبات الفاظ کی شکل اختیار نہ کرتے۔ شب دیال انہیں پڑھ پڑھ کر آٹھوں پہر جھوما کرتا۔ مطلب یہ، کہ ایک شعر کہتا اور بھول جاتا۔ دوسرا انہیں پڑھتا اور لوح دل پر نقش کر لیتا۔

    شہر کے باہر نئی سڑک پر سیٹھ رام لال کے کار خانے تھے۔ دو ر دور تک کارخانوں کی دیواریں چلی گئی تھیں۔ ایک طرف کپڑے کا کام ہوتا اور دوسری طرف ٹین کا اور ہزاروں مزدور ان دونوں دھند وں میں دن رات لگے رہتے تھے۔

    سنتے ہیں ان کے دادا بھیک مانگتے آئے تھے۔ لیکن قسمت تھی کہ لاکھوں کے مالک بن گئے۔ شروع شروع میں گلی محلوں سے پرانے ٹوٹے پھوٹے برتن اکٹھے کیا کرتے اور بازار میں کچھ نفع پر انہیں فروخت کر دیتے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے کسیروں کی دوکان کھولی۔ محنت اور دیانتداری سے کام کرتے تھے چل نکلی اور پہلے سال ہی کافی منافع رہا۔ پھر آپ ہر سال کام بڑھاتے رہے۔ حتٰی کہ آپ نے شہر کے باہر سستی زمین مول لے کر وہاں نہایت چھوٹے پیمانے پر بالٹیاں بنانے کا کام شروع کر دیا۔ اسی دوران میں جنگ عظیم شروع ہوئی۔ ان کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا۔ فوج میں بالٹیاں سپلائی کرنے کا ٹھیکہ انہیں مل گیا اور قلیل عرصہ کے اندر اندر ایک اچھے کارخانہ کے مالک بن گئے۔ لیکن اس ترقی سے ان کے دل پر میل تک نہیں آتی۔ ان کی سادگی اور تواضع اسی طرح قائم رہی اور محنت اور دیانت میں بھی مرتے دم تک فرق نہ آیا۔

    سیٹھ رام لال کے باپ نے بھی غریبی کے دن دیکھے تھے۔ اس لئے جب ان کے والد کارخانہ ان کے نام چھوڑکر مرے تو ان کے دماغ میں خلل نہیں آیا بلکہ اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہ ترقی کے راستہ پر گامزن رہے۔ اپنے باپ کے ساتھ انہوں نے مزدوروں کی طرح کام کیا تھا اور انہیں مزدوروں کے ساتھ ہمدردی بھی تھی۔ اس لئے ان کے عہد میں مزدوروں کو کبھی تکلیف نہیں ہوئی۔ بلکہ ان کے دکھ کو انہوں نے اپنا دکھ جانا۔ کام بھی ان کا بڑھا۔ سڑک کی دوسری طرف انہوں نے کپڑے کا ایک کارخانہ کھول دیا اور جس وقت مرے تو اپنے لڑکے رام لال کے لئے لاکھوں کی جائداد چھوڑ گئے تھے۔

    رام لال بچپن ہی سے سیٹھ پیدا ہوئے تھے۔ غریبی اور مفلسی کیا ہوتی ہے انہوں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ بچپن ہی سے انہوں نے دوسروں کو اپنے لئے کام کرتے پایا اور اس وقت جب ۳۰ سال ہی کی عمر میں وہ اپنے باپ کے فوت ہونے پر اتنی بڑی جائداد کے واحد مالک بن گئے۔ تو ان کے غرور اور تکبر کا ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ سمجھتے تھے۔ خدا نے انہیں دولت مند پیدا کیا ہے اور ان کے نیچے کام کرنے والوں کو غریب! پر ماتما کی خوشی اسی میں ہے کہ وہ ان کے لئے کام کریں اور وہ ان سے کام لیں۔ غریب مزدوروں سے انہیں کوئی ہمدردی نہ تھی۔ لیکن اس غرور اور تکبر میں انہوں نے روپیہ بگاڑ انہیں۔ اسے انہوں نے بڑھایا ہی۔ ہاں دھن دولت بڑھانے میں انہوں نے جائز اور ناجائز ذریعے کا کبھی خیال نہیں کیا۔ ۱۹۲۱ کی تحریک عدم تعاون میں انہوں نے خوب ہاتھ رنگے اور اب پھر جب نو دس سال بعد سودیشی کی تحریک کو فروغ مل رہا تھا۔ وہ اس کا پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ لیکن اسی وقت مزدوروں میں دس سال سے آہستہ آہستہ سلگتی ہوئی آگ بھڑک اٹھی تھی اور وہ ہڑتال کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے۔

    بات یہ تھی کہ اقتصادی کسادبازاری کا دور دورہ تھا اور سیٹھ صاحب نے اسی بہانے مزدور وں کے گلے پر چھری پھیرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ان کی تنخواہوں میں تخفیف کر دی گئی تھی۔ اگر یہ تخفیف اسی تناسب سے ہوتی، جس نسبت سے قیمتیں گری تھیں تو شائد مزدور برداشت کر لیتے لیکن یہ تھی ۳۰ فی صدی۔ اس لئے انہوں نے شور مچایا۔ مگر جب سیٹھ صاحب نے شور مچانے والوں کو نوکری ہی سے برطرف کر دیا۔تو ان کے صبر اور ضبط کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور مزدور یونین نے عام ہڑتال کا اعلان کر دیا۔

    سیٹھ صاحب نے پولیس کو بلا لیا تھا۔ ایک طرف پولیس کے سپاہی تھے مسلح اور باوردی۔ دوسری طرف مزدور تھے تار تار کپڑوں میں ملبوس اور غیرمسلح! ایک طرف طاقت کا مظاہرہ تھا۔ دوسری طرف بے کسی کی نمائش! جو مزدور مل کے اندر جانے کی کوشش کرتا وہ اس کی منت سماجت کر کے اسے کام پر جانے سے منع کرتے اور اگر اس پر بھی وہ نہ مانتا تو اس کے پاؤں پر سر رکھ دیتے۔ احاطے کے اندر کھڑے کھڑے سیٹھ رام لال دانت پیس پیس کر رہ جاتے۔

    کچھ دیر تک پکٹنگ پرامن طور پر جاری رہی۔ اسی دوران میں ایسے بھی مواقع آئے۔ جب معلوم ہوا کہ ان کا نظام ٹوٹ جائے گا۔ مزدوروں میں ایسے بھی تھے، جن کے پاس شام کے کھانے کے لئے دو پاؤ آٹا بھی نہ تھا اور یونین ابھی اتنی مضبوط نہ تھی مزدوروں کا ایک جتھا اندر جانے کے لئے مصرہوا۔ ہڑتالیوں کی منت سماجت، یہاں تک کہ ان کے پاؤں پڑنے کا بھی ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ تب ہڑتالی زمین پر لیٹ گئے۔ کہ جانا چاہو تو بھلے ہی ہمارے جسموں کو لتاڑتے ہوئے گزر جاؤ! اپنے ان بھایئوں کو، جو سب کے لئے لڑ رہے تھے۔ روندکر گزرنا انہیں منظور نہ ہوا۔ بھلے ہی بال بچے فاقوں مریں، بھلے ہی پانی پی پی کر گزارا کرنا پڑے۔ لیکن اتنا ظلم تو ان سے نہ ہو سکےگا اور وہ چپ چاپ واپس ہو گئے۔ ہڑتالیوں نے زور سے نعرہ بلند کیا، ’’مزدور زندہ باد‘‘ اور پکٹنگ بدستور زور شور سے جاری رہی۔

    سیٹھ صاحب پولیس سب انسپکٹر سے ملے۔ گپ چپ سرگوشیاں ہوئیں آخر واپس آکر انہوں نے اپنے نجی ملازموں کو اکٹھا کیا۔ ’’حق نمک ادا کرنے کا یہی وقت ہے‘‘ یہ بات انہوں نے ان کے ذہن نشین کر دی اور ایک ایک مہینہ کی تنخواہ زائد دینے کا وعدہ کیا اور انہیں کہا کہ وہ باہر چلے جائیں اور جب واپس آنے پر انہیں روکا جائے تو لڑ پڑیں۔ بلوہ کر دیں اور ہو سکے تو ایک دو اینٹیں سپاہیوں کی طرف بھی پھینک دیں۔

    وفادار نوکروں نے ایسا ہی کیا۔ پولیس پر اینٹیں پھینکی جائیں اور وہ خاموشی سے برداشت کر لے۔ تو پھر وہ پولیس کیسی؟ عدم تشدد ’’ہو سکتا ہے‘‘ ہڑتالیوں کا ہتھیار ہو، لیکن اس کا تو نہیں۔ اس کے پاس تو لاٹھی ہے اور اس حربہ کا استعمال کرنے میں۔ اس نے کوتا ہی نہیں کی۔

    پولیس کی لاٹھیوں کی جنبش ہوئی۔ بہتوں کے سر پھٹے، بہت زخمی ہوئے، بہت بھاگ گئے۔ لیکن اکثر لاٹھیاں کھاتے کھاتے، زخمی ہوتے ہوتے بھی وہیں لیٹ گئے۔

    بہت دیر سے شب دیال اور نارائن بھی تماشائیوں کی بھیڑ میں کھڑے تھے۔ جب مزدوروں کو زد و کوب کیا جانے لگا۔ تو شب دیال کے خواب جیسے منتشر ہو گئے۔ وہ اس نظارہ کی تاب نہ لا سکا اور اس نے نارائن کو کندھے سے پکڑا اور بھیڑ سے نکل گیا۔ اب کے نارائن جیسے خوابیدہ کی طرح اس کے سہارے چل پڑا۔

    اس دن کے بعد نارائن کی شاعری میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا، اس کی وہ رومان انگیز دنیا بکھر گئی۔ حقیقت کی تلخی کے اندھیرے نے، جانے کب اٹھ کر اس سنہرے سنسار کو ڈھک لیا۔ جانے کس طرح، جیسے کسی جادو کے اثر سے وہ غریبوں کا، مفلسوں او رمزدوروں کا شاعر بن گیا اور اس کے اشعار سرمایہ داروں کی عیش پرستیوں کا مرقع کھینچنے لگے۔ تصور کے میخانے میں خم کے خم لنڈھاتے، کسی پری پیکر نازنین کے ساتھ اجنبی سمندروں پر کشتی بڑھانے، بادلوں اور بجلیوں کے ہوائی گھروں میں اقامت گزیں ہونے اور اپنے پڑھنے والوں کو تخیل کی نئی نئی دنیاؤ ں کی سیر کرانے کی بجائے اب وہ ا نہیں مفلسوں کی جھونپڑیوں، مزدوروں کی کمین گاہوں، کسانوں کے کچے گھروں کی طرف لے جانے لگا۔ خواب دیکھنے والے کی بجائے وہ دفعتہ حقیقت نگا ربن گیا۔

    اس واقعہ کے دوسرے ہی دن اس نے جونظم سرمایہ دار کو مخاطب کر کے لکھی تھی۔ وہ روزانہ ’’مزدور‘‘ کے پہلے صفحے پر چھپی تھی اور پھر بیسیوں دوسرے اخباروں نے اسے نقل کیا تھا۔ نظم کا عنوان تھا ’’شمع‘‘ اور اس کا مطلب کچھ یوں تھا۔

    پروانوں کو اپنی تابناک لو میں جلائے جا!

    گناہوں کی تاریکی کو اپنی روشنی سے دور رکھنے کی کوشش کر!

    تو آگ ہے، کوئی تیرے نزدیک نہ آئےگا۔

    تو روشن ہے، کوئی تیرے گناہ نہ دیکھےگا۔

    لیکن یہ معصوم پروانے

    جلنے کے بعد تجھے بجھا دیں گے اور

    تیرے گناہوں کی تاریکی موت کے بعد تجھے ڈرائیگی!

    نارائن اپنے کمرے میں بیٹھا، نہ جانے کن خیالات میں گم تھا۔ کہ کسی نے اس کے کندھے پر آہستہ سے ہاتھ رکھا۔ نارائن نے اسی طرح بیٹھے بیٹھے اپنا ہاتھ نووارد کے ہاتھ پر پھیرا۔ آنے والے نے اس کی آنکھیں بند کر لیں۔

    نارائن قہقہہ مار کر ہنسا، ’’شبو تمہارا بچپن کبھی دور بھی ہوگا یا نہیں؟‘‘

    اور دوسرے لمحے شب دیال، نارائن کے سامنے تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ہلکا تبسم کھیل رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں سمندر کی گہرائی تھی۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا، ’’نارائن آج ہم نے نظم کہی ہے۔‘‘

    ’’تم نے نظم؟‘‘ اور نارائن کا قہقہہ کمرے میں گونج اٹھا، ’’لاؤ، دکھاؤ تو۔‘‘

    شب دیال نے جیب سے کاغذ نکال کر نارائن کے ہاتھ میں دے دیا اور وہ ہنستے ہنستے نظم پڑھنے لگا۔ لیکن جوں جوں پڑھتا گیا۔ اس کے چہرے سے مسرت مفقود ہوتی گئی اور جب نظم ختم ہو گئی تو اس کے چہرے پر تاریک بادل سا چھایا ہوا تھا۔

    نظم کیا تھی ایک منظوم افسانہ تھا۔ شب دیال کے دل میں اٹھتے ہوئے طوفان کا مظہر، پلاٹ مختصر تھا۔ ایک سادہ لوح جذباتی نوجوان سرمایہ داروں کے مظالم دیکھ کر مزدوروں کی تنظیم کرتا ہے۔ لیکن چونکہ سرمایہ دار کا ظلم روز بروز بڑھتا جاتا ہے۔ اس لئے مزدور اس کے بس میں نہیں رہتے۔ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دنیا چاہتے ہیں اور ایک دن سرمایہ دار پر حملہ کر دیتے ہیں۔ پولیس مزدوروں کے ساتھ اسے بھی گرفتار کر لیتی ہے۔ اسے پھانسی کا حکم ہوتا ہے۔ اس کے بیوی بچے، اس کے ناطے رشتے دار اس کے لئے روتے ہیں، لیکن وہ خوشی خوشی تختۂ دار پر چڑھ جاتا ہے۔

    نارائن کا دل کانپ گیا۔ اس نے شب دیال کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں ویسے ہی خلا میں، جیسے تصور کے کسی حسین منظر کا نظارہ کر رہی تھیں۔ نارائن نے ان کی گہرائیوں میں ڈوبنے کی کوشش کی۔ اچانک اسے شبہ ہوا، جیسے شب دیال اس کہانی کا ہیرو ہے اور وہ خود جرم کا ارتکاب کر کے آیا ہے۔ لیکن اس کے چہرہ پر وہی سادگی تھی۔ وہی سادہ لوحی اور پاکیزگی۔ جسے نارائن ہمیشہ سے دیکھنے کا عادی تھا۔ اس نے آہستہ سے پکارا،

    ’’شبو!‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’تمہیں معلوم ہے مجھے تم سے کتنی محبت ہے؟‘‘

    شب دیال ہنسا، ’’بھلا اس کے اظہار کی بھی ضرورت ہے۔‘‘

    نارائن نے لمبی سانس لی، ’’دیکھو شبو‘‘ اس نے کہا، ’’میرا کوئی بھائی نہیں بہن نہیں، رشتہ ناطہ کوئی بھی نہیں۔ سب کچھ تم ہی ہو۔ تم میرے بچپن کے دوست ہو، ہم جماعت ہو، ہم نشست ہو، خدا کے لئے کوئی ایسا کام نہ کرنا۔۔۔‘‘

    نارائن کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔

    شب دیال قہقہہ لگا کر ہنس اٹھا، ’’بھلا تمہیں یہ شبہہ کیسے ہوا؟‘‘

    نارائن خاموش، اس کی طرف دیکھتا رہا۔

    شب دیال نے پھر زبردستی ہنس کر کہا، ’’یہ کچھ بھی نہیں۔ میں کہتا ہوں۔ اس میں اصلیت کچھ بھی نہیں۔‘‘ اور وہ پھر ہنسا۔

    ’’اچھا ہے‘‘ لیکن۔۔۔

    ’’لیکن کیا؟‘‘

    ’’میں تمہارے بغیر شاید زندہ نہیں رہ سکتا شبو‘‘ اس نے اداس نظروں سے شب دیال کی طرف دیکھا۔

    ’’پاگل ہو گئے ہو نارائن۔‘‘ اور شب دیال ہنس اٹھا۔

    لیکن نارائن پاگل نہ تھا۔

    دوسرے دن صبح جونہی اس نے ’’روزانہ‘‘ اخبار ہاتھ میں لیا۔ سن رہ گیا۔ پہلے صفحہ پر ہی بڑے بڑے الفاظ میں لکھا تھا۔

    ’’مشہور کارخانہ دار سیٹھ رام لال کے قتل کا اقدام‘‘

    اور کئی ضمنی سرخیوں کے بعد خبر تھی۔

    ’’آج شام کے وقت جب سیٹھ رام لال کلب سے واپس آ رہے تھے۔ کمپنی باغ کے نزدیک ان کی موٹر پر فائر کئے گئے۔ موٹر کا ٹائر پھٹ گیا اور حملہ آوروں نے سیٹھ صاحب پر گولیاں چلائیں۔ لیکن ان کا ڈرائیور سیٹھ صاحب کو بچانے کے لئے کود پڑا اور حملہ آوروں کی گولیوں سے وہیں ڈھیر ہو گیا۔ موٹر کے شیشے ٹوٹ گئے اور سیٹھ صاحب کے کندھے پر بھی زخم آیا۔ حملہ آور مزدور ہیں۔‘‘

    نارائن کا ماتھا ٹھنکا۔ وہ شب دیال کے گھر کی طرف بھاگا۔ لیکن وہ وہاں موجود نہ تھا۔ شام کو اس نے سن لیا۔ شب دیال چار دوسرے ہمراہیوں کیساتھ گرفتار کر لیا گیا ہے۔

    گرمیوں کی دوپہر اپنی آگ جیسے لو کی لپٹوں سے شہر کو گھرکے ہوئے تھی۔ آگ کی جلن سے آبلہ پڑ جاتا ہے۔ لیکن دوپہر کی یہ لو ایسی تھی۔ کہ جسم اور جسم کی رگ رگ تک جھلس جاتی۔ لیکن آبلہ دکھائی نہ دیتا۔

    کمرہ بند کئے نارائن اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ صبح سے وہ یونہی پڑا تھا۔ نہانے نہ گیا تھا۔ ناشتہ کرنے نہ گیا تھا۔ کھانا کھانے نہ گیا تھا۔ جیسے اس کی تمام قوتیں ہی سلب ہو گئی تھیں۔ تبھی اسے ایک خط ملا۔ دستخط پہچان کر بیتابی سے اس نے کھولا۔ لکھا تھا۔

    بھائی نارائن۔

    محض شعر کہنے یا نظمیں لکھنے سے مفلسوں کی بھلائی نہیں ہو سکتی۔ اس کے لئے عملی کام کی ضرورت ہے۔ محض تصور کی سیر کرنے کی بجائے نارائن، حقیقی دنیا میں گھومنا کہیں زیادہ ضروری ہے۔ میں نے اپنے ارد گرد کے ماحول کا مطالعہ کیا ہے، اپنا لائحۂ عمل بھی میں نے بنا لیا ہے۔ شاید تم اس کی تائید نہ کرو۔ لیکن میں تو اسی پر عمل کرونگا۔

    شبو کسی فوری خوف سے متاثرہو کر نارائن نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر خط کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دئے۔ اس کی آنکھوں نے دیکھا۔ کہ پولیس اس کی بھی تلاشی لے رہی ہے اور اس خط کو اپنے قبضہ میں کر لیتی ہے اور اسے شب دیال کے خلاف استعمال کرتی ہے۔۔۔ وہ اٹھا۔ اس نے خط کے پرزوں کو اکٹھا کیا اور انہیں باہر باغ میں پھینک دیا اور پھر وہیں ایک چارپائی پر دھنس گیا اور لیٹ گیا۔ لیکن لیٹا رہنا اس کے لئے محال ہو گیا۔ وہ پھر اٹھا۔آہستہ آہستہ، دبے پاؤں نیچے باغ میں پہنچا اور سب پرزوں کو اکٹھا کرنے لگا۔ اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ جیسے وہ چوری کا اقدام کر رہا ہو۔ سب پرزوں کو جمع کر کے وہ واپس لے آیا۔ یہ پرزے پولیس کے کس کام کے تھے؟ لیکن اس کے لئے یہ سب کچھ تھے۔ یہ شب دیال کی نشانی تھے۔ اس شب دیال کی، جو قتل کے جرم میں ماخوذ تھا اور اس کا دوست تھا۔ بھائی تھا، رشتہ دار تھا، سب کچھ تھا۔

    کمرے میں پہنچ کر اس نے دونوں ہاتھوں میں جمع کئے ہوئے پرزوں کو چوم لیا اور انہیں اندر ٹرنک میں احتیاط سے بند کر آیا۔

    پھر وہ اسی طرح بے جان سا بستر پر لیٹ گیا۔

    جس طرح ٹھہرے ہوئے پانی میں اچانک کوئی چیز گرجانے سے ہل چل پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح شب دیال کی گرفتاری سے بھی نارائن کے دل میں ہل چل پیدا ہو گئی تھی۔ سوچ اور سمجھ کی توتیں جیسے اسے جواب دے گئی تھیں۔ لیکن جب اسی طرح بے دلی سے پڑے پڑے اسے چند دن گزر گئے اور صدمہ کا پہلا زور قدرے کم ہوا تو اس نے شب دیال سے ملاقات کی درخواست کی۔

    پولیس تحقیقات میں مصروف تھی۔ درخواست مختلف دفاتر سے ہوتی ہوئی سپرنٹنڈنٹ پولیس کے پاس آئی اور اس نے اسے نامنظور کر دیا۔

    نارائن کچھ دن اپنی درخواست کے جواب کا انتظار کرتا رہا۔ آخر ہار کر خود سپرنٹنڈنٹ سے ملا۔ انہوں نے کہا، ’’مجھے افسوس ہے میں ابھی تک آپ کی درخواست پر عمل نہیں کر سکتا۔

    نارائن افسردہ ہو کر گھر واپس آیا۔ گھر آکر اس نے ایک نظم لکھی ’’بیکسی‘‘ اور اس میں اس نے اپنا دل نکال کر رکھ دیا۔ دوسرے دن کئی اخباروں میں ایک ساتھ یہ نظم شائع ہوئی۔ کئی دن تک اسی نظم کا چرچا رہا۔ لوگوں نے نارائن کو 'مصور درد' کا خطاب دے دیا۔ نارائن ہنسا۔ نظموں سے کچھ نہ ہو گا۔ کچھ عمل کام کرنا چاہئے اور وہ باہر نکلا۔ مزدوروں کے لیڈروں سے ملا۔ پبلک کے سرکردہ سر برا ہوں سے ملا۔ اس نے کئی جلسوں میں تقریریں کیں۔ کئی جگہ نظمیں پڑھیں۔ اس تمام محنت کے نتیجے کے طور پر شب دیال اور اس کے ہمراہیوں کے مقدمہ کی پیروی کے لئے ایک ڈیفنس کمیٹی بنائی گئی۔ سارے صوبے سے چندہ اکٹھا کیا۔ صوبہ کے مشہور مشہور وکلا نے مقدمہ کی پیروی کی۔ چھ ماہ تک مقدم چلتا رہا۔ اسیسروں نے شب دیال کو بےگناہ اور دوسرے دو مزدوروں کو مجرم قرار دیا لیکن سشن جج نے اس ریمارک کے ساتھ، کہ شب دیال ہی اس سازش کا دماغ ہے۔ تینوں کو پھانسی کی سزادے دی، باقیوں کو رہا کر دیا گیا۔

    لوگ اس قدر انتہائی سزا کے لئے تیار نہ تھے۔ انہیں شب دیال کی رہائی کی امید تھی۔ نارائن تو گویا اسی امید کے سہارے زندہ تھا۔ جب اس نے سشن جج کا فیصلہ سنا تو کچھ لمحہ کے لئے سن وہیں کھڑا رہا۔ پھر وہ چپ چاپ گھر کی طرف چل پڑا۔ لیکن اس کی کمر جھک گئی تھی اور اگرچہ کسی نے محسوس نہں کیا۔ لیکن اس کے سیاہ بالوں میں کہیں کہیں سفید بال نمایاں ہو گئے تھے۔

    وہاں بھی جہاں یاس کی تاریکی پوری طرح مسلط ہوتی ہے۔ امیدکی کرن کبھی کبھی چمک جایا کرتی ہے۔ سشن جج کا فیصلہ سننے کے بعد نارائن بالکل مایوس ہو گیا تھا۔ لیکن پھر بھی، امید تھی، کہ اس کے تاریک دل میں کبھی کبھی چمک جاتی تھی۔ کون جانے ہائیکورٹ میں شب دیال بری ہو جائے؟ ڈیفنس کمیٹی نے ہائیکورٹ میں اپیل دائر کر دی تھی اور نارائن ناامیدی کے باوجود عدالت کی کار روائی کو دلچسپی سے پڑھتا تھا اور جوں جوں دن گزرتے جاتے تھے۔ امید کی وہ شعاع بڑھ کر، پھیل کر اس کے دل کو روشن کرتی جاتی تھی۔ ہائیکورٹ میں تو بارہا قتل کے مجرم بری ہو جاتے ہیں، پھر شب دیال سے تو یہ گناہ ہی نہیں ہوا۔ لیکن جب ہائیکورٹ نے اپیل خارج کر دی تو وہ سب روشنی جانے ایک دم کہاں مفقود ہو گئی اور اس کے دل میں پھر اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا اور پھر اس کی زندگی اس انسانی ڈھانچہ کی سی ہو گئی۔ جس کی روح قبض کر لی گئی ہو۔

    گویا اپنا سب کچھ لٹا کر نارائن ایک دن شب دیال سے جیل میں ملاقات کرنے گیا۔

    شب دیال کے چہرے پر وہی سادگی۔ وہی سادہ لوحی اور ہونٹوں پر وہی مسکراہٹ تھی۔ لیکن نارائن کو دیکھ کر اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ نہ وہ خوش مزاجی نہ بشاشت، نہ وہ زندگی نہ زندہ دلی۔ نہ وہ درد نہ غم جو آخری ایام میں اس نے اس کے چہرہ پر دیکھا تھا۔ کچھ بھی اسے نارائن کے پاس نظر نہ آیا۔ اس کی جوانی جیسے رخصت ہو گئی تھی۔ بال سفید ہو گئے تھے اور کمر جھک گئی تھی اور اس کا چہرہ تمام جذبات سے عاری تھا۔ شب دیال نہ سمجھ سکا کہ نارائن کیا سوچ رہا ہے، کون سی دنیا کے خواب دیکھ رہا ہے۔ چپ چاپ وہ آکر کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔ اچانک جیسے شب دیال کو مسکراتے دیکھ کر نارائن کے چہرے پر کچھ تازگی آئی اور اس نے درد بھرے لہجے میں پوچھا۔

    ’’شبو تم نے کیا کیا؟‘‘

    شبو ہنسا۔ اس نے کہا، ’’جو مناسب تھا نارائن‘‘

    نارائن کے چہرے پر بادل سا آ کر گزر گیا، ’’کیا کسی کے قتل سے اپنے ہاتھ رنگنا مناسب ہے؟‘‘

    ’’میں نے قتل نہیں کیا!‘‘

    ’’پھر!‘‘ اور نارائن نے اپنی پھٹی پھٹی آنکھیں شب دیال کے چہرے پر جما دیں۔

    شب دیال نے کہا، ’’میں نے صرف مزدوروں کو متحد اور منظم ہو کر ظلم کا مقابلہ کرنے کی تلقین دی تھی۔ انہوں نے تنگ آ کر ظالم کی ہستی ہی کو مٹا دینا بہتر سمجھا۔‘‘

    ’’لیکن تمہیں میرا خیال نہیں تھا شبو‘‘

    ’’لیکن تم بھی تو وہی کہتے تھے۔ تمہاری نظمیں بھی تو انہیں متحد اور منظم ہونے کی تلقین کرتی تھیں۔ میں نے صرف انہیں ہی عملی جامہ پہنایا ہے نارائن‘‘

    ’’لیکن میں نے قتل و غارت گری مچانے کے لیے کب کہا؟‘‘

    ’’میں نے بھی نہیں کہا‘‘

    ’’پھر یہ۔۔۔‘‘

    شب دیال نے بات کاٹ کر کہا، ’’نارائن تم مظلوم نہیں تم پر ظلم نہیں ہوتا۔ اس لئے تم ان جذبات کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ جو ظلم سہہ کر مظلوم کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ اپنے اپنے بنگلوں میں بجلی کے پنکھوں کے نیچے سونے والے، ان احساسات کو کیا سمجھیں گے۔ انہیں تو وہی سمجھ سکتا ہے جو ان میں رہتا ہے، ان کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔ میں نے اس درد کو محسوس کیا۔ اس ظلم کو محسوس کیا اور ان میں رہ کر انہیں منظم ہونے کے لئے کہا۔‘‘

    ’’لیکن منظم ہونے کے معنی تشدد کرنے کے تو نہیں‘‘

    ’’منظم گروہ کو قابو میں رکھنا مشکل ہے، خصوصااس وقت، جب وہ گروہ ناخواندہ اور گنوار لوگوں کا ہو۔‘‘

    ’’پھر تم اس راستہ گئے ہی کیوں؟‘‘ اور نارائن کی آنکھیں بھر آئیں۔

    شب دیال ہنسا، ’’گاڑی کے حادثوں کے ڈر سے کوئی اس میں چڑھنا تو نہیں چھوڑ دیتا نارائن۔ اگر بیدار ہوتے وقت برسوں کے غلام ضبط نہ رکھ سکیں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ انہیں بیدار ہی نہ کیا جائے‘‘

    ’’لیکن شبو زندہ رہ کر تم ان کے لئے کہیں زیادہ کام کر سکتے تھے؟‘‘

    ’’انسان مر کر جینے سے زیادہ کام کر جاتا ہے نارائن‘‘ تم نے ہی ایک بار یہ لکھا تھا۔ میں تو صرف تمہارے خیالات کو عملی جامہ پہناتا رہا ہوں!‘‘ اور وہ ہنسا ملاقات کا وقت ہو چکا تھا۔ نارائن نے رومال سے اپنی آنکھیں پونچھیں اور چپ چاپ باہر نکل آیا۔ لیکن تب اس کا چہرہ جذبات سے عاری نہ تھا۔ بلکہ اس پر آہنی ارادہ کے آثار جھلک رہے تھے۔

    گھر آکر اس نے اپنی نظموں کے تمام مسودے اکٹھے کئے اور انہیں آگ کے سپرد کر دیا۔ دوسرے دن مزدوروں نے دیکھا۔ یونین میں نارائن نے شب دیال کی جگہ سنبھالی ہے۔

    مأخذ:

    (Pg. 132)

    • مصنف: اوپندر ناتھ اشک
      • ناشر: اردو بک سٹال، لاہور
      • سن اشاعت: 1939

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے