Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زندگی یہاں اور وہاں

نرمل ورما

زندگی یہاں اور وہاں

نرمل ورما

MORE BYنرمل ورما

    کہانی کی کہانی

    دو کرداروں کی مدد سے اس کہانی میں دکھ اور سکھ کے فلسفہ کو بیان کیا گیا ہے۔ کہانی کا کردار کہتا ہے کہ کیا کوئی ایسی چیز ہے جس پر انگلی رکھ کر کہا جا سکے کہ یہ سکھ ہے، یہ تشفی ہے۔ ایک جگہ کہتا ہے کہ دکھ میں کوئی ڈر نہیں ہوتا لیکن ہم جسے سکھ کہتے ہیں وہ ہمیشہ خطروں سے بھرا رہتا ہے۔ کرداروں کی ناسٹیلجائی کیفیت کہانی کو معنوی طور پر اور دبیز بناتی ہے۔

    اور تب فون کی گھنٹی بجی۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ وہی ہے۔ بھاگتا ہوا میز کے پاس آیا۔ ’’ہیلو!‘‘ اس نے کہا، ’’میں ہوں۔‘‘ دوسری طرف خاموشی رہی۔ ’’ہیلو۔۔۔‘‘ جیسے وہ اس کی ڈری سہمی آواز سن رہی ہو۔ ’’ہیلو۔۔۔ ہیلو۔۔۔! اس نے تھوک نگلتے ہوئے کہا، ’’کون ہیں۔۔۔ آپ کون ہیں؟۔۔۔‘‘

    اس نے فون پر نگاہ ڈالی۔ خالی دیوار۔ جنوری کا مہینہ، ایک کھڑکی جس کا پردہ اٹھا ہوا تھا۔ ’’میں دس تک گنتی گنوں گا۔‘‘ اس نے سوچا اور اس درمیان کچھ نہیں بولوں گا۔ وہ فون رکھ دےگی اور خطرہ ٹل جائےگا۔ ہوا بھی یہی۔۔۔ دوسری طرف سناٹا ہو گیا لیکن دوسرے ہی لمحے اس کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی۔ فون کے سیاہ سناٹے کا راز لیتی ہوئی ’’فیٹی تم سن رہے ہو؟ بولتے کیوں نہیں؟ یہ تم کیا بڑبڑا رہے ہو۔ مجھے سنائی نہیں دے رہا ہے۔‘‘

    ’’میں گنتی گن رہا تھا۔‘‘ اس نے کھسیانی سی آواز میں کہا۔

    ’’کیا کہا؟ گنتی؟‘‘ وہ دھیرے سے ہنسی۔ ایک مجہول سی مسکراہٹ، جو فون کے اندر ایک سہمی ہوئی چڑیا کی طرح گردش کر رہی تھی۔ ’’سنوآج میں تمہارے گھر نہیں آ سکوں گی۔۔۔ لائبریری میں ہی رہوں گی۔‘‘ اس نے کہا، ’’کیا تم وہاں آ سکتے ہو؟‘‘ جی میں آیا کہہ دوں کہ آج مجھے کام ہے۔ مگر وہ میرا جھوٹ پکڑ لےگی۔ گھر میں اکیلے رہنا بھی کوئی کام ہے؟ وہ یقین نہیں کرےگی۔ سوچےگی میں پھر اسے ستا رہا ہوں۔ کیسی عجیب سی بات ہے کہ جب آپ لوگوں سے کہیں کہ آپ اکیلے رہنا چاہتے ہیں تو یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ گھر میں اکیلے رہتے ہیں، وہ کبھی آپ کا یقین نہیں کرتے۔ اگر آپ خالی ہوں تو خالی کیسے رہ سکتے ہیں؟

    کوئی فائدہ نہیں۔ اس نے فون کو دونوں ہاتھو ں سے پکڑ لیا۔ جیسے یہ اس کا چھوٹا ساسر ہو۔ شانوں پر گرتے بال، ماتھے پر سیاہ ٹیکہ، دو پھپھکتی سی آنکھیں۔ نہیں نہیں میں خالی ہوں۔ میں آؤں گا۔ کناٹ پلیس میں ایک کام بھی ہے۔ اسے نمٹاکر سیدھا چلا آؤں گا۔ کیا کہا؟ زرا زور سے بولو، مجھے کچھ نہیں سنائی دے رہا ہے۔‘‘

    ’’میں دن بھر لائبریری میں رہوں گی۔‘‘ اس کی آواز اچانک بہت دھیمی پڑ گئی۔ جیسے گردش کرتی ہوئی چڑیا بہت تھک گئی ہو اور نڈھال ہوکر پڑ رہی ہو۔ ’’تم کسی بھی وقت آ سکتے ہو، مجھے۔۔۔‘‘ ایک لمحے کے لیے وہ ٹھٹکی، ’’مجھے تم سے کچھ کام ہے۔ مجھے۔۔۔‘‘ اب کے وہ خاموش ہو گئی۔ وہ فون کے سناٹے پر پھیلا ہوا اس کی آواز کا زرد رنگ دیکھ سکتا تھا۔۔۔ ڈوبتا ہوا۔۔۔ اپنی گونج کی تصویر دیوار پر کھینچتا ہوا۔۔۔

    ’’کیا تم اب بھی وہاں ہو؟‘‘

    پتہ نہیں وہ کیا سوچتی ہوگی وہ پوچھتی نہیں تھی، دیکھتی بھی نہیں تھی بس بیچ کا راستہ نکال لیتی تھی۔ دیکھنے اور پوچھنے کے درمیان جسے وہ ’’جاننا‘‘ کہتے تھے۔ لیکن کبھی کبھی وہ بھول جاتی اور سوچتی کہ وہ اس کے ساتھ ہے۔ اچانک لال بتی جل جاتی اور وہ ٹھٹک جاتی۔ پیچھے مڑ کر دیکھتی تو وہ کہیں دکھائی نہ دیتا اور بعد میں جب وہ اس سے ملتی تو یہ پوچھنے کی بھی جرأت نہ کر پاتی کہ وہ کہاں تھا۔

    وہ دوسرے دن (پھر) فون کرتی۔ وہ گھر ہی میں ہوتا۔ اس کا گھر میں رہنا یقینی بات تھی۔ ایک ٹھوس حقیقت۔ اس میں کسی شک کی گنجائش نہ تھی کہ وہ فون کرے اور وہ گھر میں نہ ہو۔ وہ ہمیشہ کناٹ پلیس کی ایک تنگ گلی کے بوتھ سے فون کرتی تھی۔ اس کے ڈائل گھماتے ہی گھنٹی بجنے لگتی۔ وہ بوتھ کے شیشے کے باہر دیکھنے لگتی۔ اگست کی بھیگی روشنی، کناٹ پلیس کے درخت، لان پر بیٹھے ہوئے لوگ۔۔۔ وہ سیڑھیاں اتر رہا ہوگا۔ اتنا بڑا اکیلا گھر۔ خالی کمرے۔ فون کی گھنٹی جیسے کسی اجاڑ گرجاگھر میں دعا کر رہی ہو اور پتھروں سے ٹکراکر واپس لوٹ آئی ہو۔ بارش کے دنوں میں بوتھ کے شیشوں پر پانی کے قطرے سے بن جاتے۔ دھندھلے دھندھلے بادل چھتوں پر اڑتے رہتے۔ دلی ایک ٹمٹماتا ہوا دیا نظر آتی۔ دھند پر تیرتا ہوا۔ ’’ہیلو۔۔۔ ہیلو۔۔۔ میں ہوں اور تم۔۔۔؟‘‘

    ’’میں یہاں ہوں۔‘‘

    ’’یہاں اپنے کمرے میں۔ یہاں جون کی شامیں بری نہیں ہوتیں۔۔۔ آسمان سے گرد جھڑتی رہتی ہے اور سورج الگ تھلگ کونے میں سلگتا رہتا ہے۔ وہ لائبریری کے ایک کونے میں بیٹھی رہتی اور وہ۔۔۔ اپنے چھت والے کمرے میں۔ اب کوئی فون نہیں آئےگا۔ وہ مطمئن ہوکر بیٹھ جاتا اور اندھیرا کر لیتا اور پنکھے کی ہوا میں اس کی ساری تکلیف پسینے کے ساتھ خشک ہو جاتی۔

    اب کوئی نہیں آئےگا۔۔۔ وہ جا چکی ہے؟ اس نے اسے جاتے دیکھا ہے۔ وہ مہینے کو الٹا گننے لگتا ہے اور جنوری پر آکر رک جاتا ہے۔ ہمیشہ ایک ہی مہینے پر جیسے بیگائیل کی گولی ادھر ادھر ٹکراکر بار بار ایک ہی سوراخ میں گھس جاتی ہو۔ سردیوں کے دن تھے اور وہ باہر اندھیرے میں کھڑا تھا۔ اس کے کمرے کی بتی جل رہی تھی۔ وہ ٹھٹھر رہا تھا۔ یہ نیند کا وقت نہیں تھا لیکن نیند ہی کی طرح خواب آور تھا۔ وہ جھاڑیوں کے پیچھے کھڑا اس کے کمرے کو دیکھ رہا ہے۔ نیبو کی جھاڑی اور ایک چھوٹا سا لان۔۔۔ خالی اور اجاڑ۔ اب وہاں کوئی نہیں رہتا۔

    یقین نہیں آتا کہ میں وہی آدمی ہوں جو چار مہینے پہلے تھا۔ میں اس کے گھر کے باہر اندھیرے میں کھڑاتھا۔ فیٹی! تم وہی ہو۔ سچ تم وہی ہو، بالکل نہیں بدلے میں (ہی) وہی شخص ہوں جو پینتیس سال پہلے اس دنیا میں آیا تھا۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو فوراً مجھے پہچان لیتے۔ اگر برسوں بعد بھی آپ گھر لوٹ کر آئیں تب بھی وہ فوراً پہچان لیتے تھے۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ آپ کہاں سے لوٹ کر آئے ہیں۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے کہ اتنی تکلیف سہہ کر انہوں نے جسے پیدا کیا وہ بڑا ہوکر اتنی مصیبتیں برداشت کر سکتا ہے۔ اس لیے وہ دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ اپنے بچوں سے پہلے ہی اٹھ جاتے ہیں۔۔۔ ختم ہو جاتے ہیں۔۔۔ مرجاتے ہیں اور بچے؟ انہیں کوئی جلدی نہیں۔ ایک خالی مکان اور نہ ختم ہونے والا وقت۔ میں انہیں میں سے ہوں۔ میں بچارہ گیا ہوں۔ مجھے کوئی جلدی نہیں۔

    شروع میں ایسا نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ عجلت میں رہتا تھا۔ جب وہ اکیلا ہوتا تب بھی محسوس ہوتا جیسے کوئی اس کے ساتھ ہے۔ ایک کتے کی طرح اس کے پیچھے گھسٹتا چلا جا رہا ہے۔ چلتے چلتے اچانک وہ کبھی بیچ سڑک پر کھڑا ہو جاتا جیسے اس نے کسی کو دیکھ لیا ہو۔ پیڑ کے نیچے کوئی عجیب الہیئت سا کیڑا، دھوپ میں نہاتی ہوئی کوئی تتلی، پیانو سے نکلتی ہوئی کوئی دھن، جسے سن کر وہ بنگلے کی دیوار سے لگ کر کھڑا ہو جاتا اور مسکرانے لگتا اور تب مجھے ایک عجیب سا وہم ہونے لگتا کہ(شاید) وہ ان اکیلے لوگوں میں سے ہے جو اکیلا ہونے پر بھی ساری دنیا کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھے شدید خواہش ہوتی کہ ایک بار میں دیوار پر چڑھ کر اس کے اکیلے پن میں جھانک کر دیکھ سکوں۔۔۔ وہ کس سے بولتا ہے۔ کہاں جاتا ہے اور کیوں اچانک مسکرانے لگتا ہے۔

    لیکن میں لائبریری میں بیٹھی رہتی اور اسے دور سے دیکھا کرتی۔ جب کبھی میں لکھتے لکھتے تھک جاتی تو میز پر اپنا ماتھا ٹکا دیتی۔ اپنی تھیسس کو بھول جاتی اور ان دنوں کے بارے میں سوچنے لگتی جب میں شہر میں گھوما کرتی تھی۔ دلی بڑا شہر تھا لیکن کچھ ایسی جگہیں بھی تھیں جہاں ایک دو چہرے بار بار دکھائی دے جاتے تھے۔ میں گھر سے باہر نکلتی اسی طرح جس طرح کچھ لوگ جوا کھیلنے نکلتے ہیں یا ریس کورس چلے جاتے ہیں۔ کیا ان کے ہاتھ میں صحیح پتہ آتا ہے؟ کیا انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کون سا گھوڑا سب سے آگے نکلےگا۔ میں خود سے کھیلنے لگتی۔۔۔ کیا وہ اس کنسرٹ میں آئےگا۔

    مجھے وہم گزرتا کہ اتوار کے دن نیشنل میوزیم کے ہال میں وہ بھی کہیں پیچھے کھڑا ہے اور ساتویں صدی کے کسی مجسمے کو دیکھ رہا ہے۔ وہ اچانک کسی بھیڑ سے باہر آتے ہوئے دکھائی دے جاتا یا جاڑے کی راتوں میں دیر تک چلنے والی کسی موسیقی کی بزم میں نظر آ جاتا اور تب میری مراد پوری ہو جاتی اور میں ٹیکسی کی تلاش میں ایک طرف کھڑی رہتی اور وہ سڑک پار والے بس اسٹینڈ کی طرف، جہاں اسکوٹر کھڑے رہتے، جاتا ہوا نظر آجاتا۔

    دلی بھی عجیب شہر ہے۔ یہاں کچھ ایسے مقام ہیں جہاں ایک رواں انجمن کے اراکین ہمیشہ نظر آ جاتے ہیں گو وہ ایک دوسرے کونہیں جانتے لیکن ہمیشہ ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں۔ وہ اندھیرے ہال میں ایک ساتھ تالیاں بجاتے ہیں، ایک دوسرے کو ہاتھ نہیں لگاتے، بس تماشہ ختم ہوتے ہی اپنے اپنے گوشوں میں چلے جاتے ہیں۔

    پھر گرمیاں آئیں اور لوگ دوسرے شہروں کی طرف جانے لگے۔ مسوری، نینی تال، شملہ، بالکل ان موسمی پرندوں کی طرح جو موسم بدل جانے پر اپنے آشیانوں کو چھوڑ کر کہیں اور نکل جاتے ہیں۔ دلی کی سڑکوں پر بھیڑ اب بھی نظر آتی تھی لیکن وہ لوگ جنہیں ہم جانتے تھے اب کہیں نہیں دکھائی دیتے تھے۔ کھیل گھر بند ہو جاتے۔ میوزیم کی راہداریاں ویران نظر آتیں۔ یوں لگتا جیسے باہر کا وقت بھی اندر کے اونگھتے ہوئے مجسموں کی نیند میں شامل ہو گیا ہو۔

    ایک روز ایک عجیب واقعہ ہوا۔ میں لائبریری میں پیچھے کی نشست پر بیٹھی تھی جہاں روشن دان سے آتی ہوئی روشنی سیدھی میز پر پڑتی تھی۔ ایک چڑیا روشن دان کے شیشے پر تنکے جمع کر رہی تھی اور اس کی پرچھائیں ٹھیک میرے ان کاغذوں پر پڑ رہی تھی جن پر میں اپنے نوٹس لکھ رہی تھی۔ مجھے اس منظر کی تفصیل اچھی طرح یاد ہے، کیونکہ اچانک مجھے یوں محسوس ہوا تھا کہ جیسے کوئی میرے اور اس چڑیا کے درمیان آکر کھڑا ہو گیا ہو اور اس چڑیا کو اپنی آڑ میں چھپا لیا ہو۔ جب میں نے سر اٹھایا تو وہ نظر آیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب میں نے اسے پہلی بار اتنے قریب سے دیکھا تھا۔

    وہ ساکت کھڑا رہا جیسے وہ غلط راستے پر ہو اور واپس مڑنا چاہتا ہو۔۔۔ کیا میں آپ کے کام میں مخل ہو رہا ہوں؟ میں نے نفی میں سر ہلایا اور جلدی سے کاغذ سمیٹ لیے۔ جیسے میں انہیں اس کی آنکھوں سے بچانا چاہ رہی ہوں۔ لیکن اس کی آنکھیں مجھ پر ٹکی ہوئی تھیں اور ان میں دور کہیں غمگساری کا سایہ نظر آتا تھا۔ میں مسکرانے لگی، ’’کیا کچھ کام ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اس نے ایک مڑاتڑا کاغذ میرے نوٹس کے رجسٹر پر رکھ دیا۔ میں نے اس کاغذ کو دیکھتے ہی پہچان لیا کہ وہ کوئی بیان، کوئی استغاثہ یا کوئی کھلا خط جیسی چیز ہے۔ ایسی چیزیں ان دنوں بہت نکلا کرتی تھیں۔ میں اس کاغذ کو توجہ سے پڑھنے لگی۔ لیکن میرا دھیان اسی کی طرف تھا۔ وہ اب بھی کھڑا تھا۔

    ’’مجھے کیا کرنا ہوگا؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’کچھ نہیں۔‘‘ اس نے کہا، ’’اگر آپ اس سے متفق ہیں تو دستخط کر دیجیے۔‘‘

    ’’اس کا فائدہ؟‘‘ میں نے اسے چڑھاتے ہوئے کہا تاکہ وہ پوری طرح کھل سکے۔

    ’’کیوں نہیں۔‘‘ اس نے کہا، ’’بشرطیکہ ہم انہیں ناانصافی کااحسا س دلا سکیں۔۔۔‘‘ کوئی اور یہ بات کہتا تو مجھے ہنسی آ جاتی۔ وہ لائبریری کے نیم اندھیرے میں چپ کھڑا تھا اور باہر جون کی تپتی ہوئی شام تھی جس میں ہوا کا بنس تک نہ تھا۔ ایسے وقت میں حق اور ناانصافی کی بات مجھے ہمالہ کی چوٹی کی طرح معلوم پڑی۔ ٹھنڈی، سفید اور مقدس۔۔۔ ہماری دسترس سے دور۔ کچھ لفظ اچانک بھیڑ سے الگ ہوجاتے ہیں۔ کھوئے ہوئے لاوارث، ٹھہرے پانی میں الگ الگ پتھرو ں کی طرح سالم، سڈول اور چمکیلے۔ محبت کے، گناہ کے، خدا کے، جھوٹ کے، ناانصافی کے اور موت کے لفظ۔ میں نے جلدی سے کاغذ اٹھایا اور دوسرے ناموں کے نیچے اپنا نام لکھنے لگی اور اسی وقت میرے ذہن میں ایک عجیب و غریب خیال آیا کہ میں اس سے پھر ملوں گی۔ کسی اور دن۔۔۔ کیونکہ میرا نام ٹھیک ایک دوسرے کے نام کے نیچے تھا جسے اذیت کہتے ہیں۔

    لیکن یہ بات بہت بعد میں میری سمجھ میں آئی۔ اس دن تک میں نے اسے نہیں سمجھا تھا۔

    ان دنوں وہ اکثر ملاکرتے تھے۔ دلی میں جون کا مہینہ ایک ضیا بار چمک لے کر آتا تھا۔ دھول کے میلے پردے پر سورج ایک شمع کی مانند پگھلتا رہتا اور کوئی بادل ایک پتنگے کی طرح اٹھ کر اسے ڈھک لیتا۔ ایک لمحے کے لیے شہر پر اندھیرا چھا جاتا اور ایک سیال سفیدی لائبریری میں در آتی۔ وہ بڑے ہال میں روشنیاں کر دیتے اور دروازے کھول دیتے اور وہ ٹھنڈی ٹھنڈی میز پر اپنی تھکی ہوئی آنکھیں موند لیتی۔

    وہ گھر کی سیڑھیوں سے اترنے لگتا۔ راستے میں بہت سی سڑکیں آتیں لیکن وہ انہیں چھوڑ کر کناٹ پلیس کی تنگ گلی میں مڑجاتا اور تاریک گلی میں چلتا رہتا۔ باہر دھوپ میں عورتیں پانی سے بھیگی ہوئی تازہ مولیاں کھاتی رہتیں اور ان کے دوسری طرف گل مہر کے پیڑ دھوپ میں دہکتے رہتے۔

    دو گلیاروں کے بیچ سڑکیں آتیں اور انہیں پار کرتے ہوئے وہ اس کا ہاتھ پکڑ لیتی اور اس وقت تک پکڑے رہتی جب تک وہ دونوں تاریک راہ داری میں داخل نہ ہو جاتے۔ پہلی بار انہوں نے ایک دوسرے کو اسی طرح ڈرتے ڈرتے چھوا تھا۔ کبھی راستے پر کبھی سڑک پار کرتے ہوئے لیکن یہ ٹھیک نہ تھا۔ یہ تو ایک طرح کی بدشگونی تھی جس کا سایہ آخر تک منڈلاتا رہتا ہے اور بعد میں جب ہم تنہا سڑک پار کرتے ہیں تو پرانے لمس کی یاد میں یہ سایہ خلامیں ڈولتا رہتا ہے۔ اس اپاہج کی طرح جسے رہ رہ کر اپنے کٹے ہوئے اعضا کی یاد آتی رہتی ہے۔ یہ بہت معمولی موت ہے۔ لوگ بہت دھیرے دھیرے مرتے ہیں۔

    میں ابھی نہیں مروں گا۔ فیٹی نے سوچا۔ میرے باپ ستر سال کی عمر میں مرے تھے اور ماں ابھی کچھ سال پہلے تک زندہ تھی۔ ہمارے خاندان میں لوگ بڑی لمبی عمر تک دنیا کو بھوگتے ہیں۔ مرنے کے بعد بھی وہ معدوم نہیں ہوتے۔ وہ یہیں رہتے ہیں لیکن کسی کام میں دخل نہیں دیتے۔ بولتے نہیں۔ لیکن جب میری کوئی چیز کھو جاتی ہے اور مجھے اس کا دکھ ہوتا ہے تو وہ اچانک تاریک گوشے سے باہر نکل آتے ہیں اور اپنی جھولی میں میری کھوئی ہوئی چیز اور میرے دکھ ڈال لیتے ہیں۔ وہ میرے جینے میں نہیں لیکن میری موت میں ضرور شریک ہونا چاہتے ہیں۔ جیسے وہ میرے کانوں میں سرگوشی کر رہے ہوں۔۔۔ ڈرو نہیں تم بےشک ہمیں بھلا دو مگر ہم تمہیں نہیں بھلا سکتے۔

    وہ تاریک راہ داری سے باہر نکل آیا۔ باہر نکلتے ہی اس کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ ایک لمحے کے لیے اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دیا۔ پھر دھیرے دھیرے کسی نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا،

    Do you need cheap Air Ticket to Nepal?

    نیپال؟ اس نے آنکھیں کھول دیں اور ہنسنے لگا۔ اس کی نگاہ میں کئی ماہ پہلے کا منظر گھوم گیا جب وہ ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ ’’وہ تمہیں غیرملکی سمجھتے تھے۔‘‘ اس نے کہا، ’’جب تم میرے ساتھ نہیں ہوتی ہو تو کوئی مجھ سے ڈالر مانگتا ہے اور نہ کوئی نیپال کا ٹکٹ پیش کرتا ہے۔ یہ سب کچھ وہ تمہیں میرے ساتھ دیکھ کر ہی کرتے ہیں۔

    ’’مجھے دیکھ کر؟‘‘ وہ حیران ہوتے ہوئے کہتی یا شدید حیران ہونے کی اداکاری کرتی۔ پھر اپنا اسکارف کھول کر بالوں کو سمیٹ لیتی۔ وہ کافی لمبے قد کی لڑکی تھی۔ عینک کے پیچھے اس کی ڈری ڈری آنکھوں سے بے چینی جھانکتی رہتی۔ اس کے کاندھے پر تھیلا لٹکا رہتا اور اس میں ایک نیلی فائل، فل اسکیپ کاغذ اور لائبریری کی کتابیں بھری رہتیں۔ خدا معلوم اس تھیلے میں اور کیا کیا بھرا رہتا تھا۔

    ’’تم نے ٹکٹ لے کیوں نہیں لیا؟‘‘ اس نے ہنستے ہوئے آنکھیں اوپر اٹھائیں۔

    ’’اتنے کم پیسوں میں نیپال گھوم سکتے ہو۔‘‘

    ’’سنو!ہم اگلی گرمیوں میں وہاں چل سکتے ہیں۔‘‘ اس نے فرط مسرت سے کہہ ڈالا۔

    ’’اگلی گرمیوں میں؟‘‘ اس کی آواز میں خفیف سی حیرت تھی۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب اس کی تھیسس تکمیل کے مراحل میں تھی اور ان دنوں وہ نہ تو سردیوں کے بارے میں سوچتی تھی نہ گرمیوں کے بارے میں۔ بس لائبریری سے گھر اور گھر سے لائبریری۔ یہی اس کا معمول تھا۔ کتنی چھوٹی دنیا تھی اور ساتھ ہی کتنی بڑی بھی۔ نیپال ان دنیاؤں کے بیچ اسے ایک خواب سا معلوم ہوتا تھا۔ لیکن اس وقت کناٹ پلیس کے تاریک گلیارے میں چلتے ہوئے اسے عجیب سا سکھ ملا کہ وہ اس دنیا سے باہر جا سکتی ہے، نکل سکتی ہے۔۔۔

    سکھ؟ کیا کوئی ایسی چیز ہے جس پر انگلی رکھ کر کہا جا سکے کہ یہ سکھ ہے۔ یہ تشفی ہے؟ فیٹی ایک کھمبے کے سہارے کھڑا ہو گیا۔ باہر کناٹ پیلس کا فوارہ دیوالی کے انار کی طرح لگ رہا تھا۔ چھنتی ہوئی دھوپ میں سفید پھوار اوپر اٹھ رہی تھی، نیچے گر رہی تھی۔ نہیں سکھ ہوتا کہیں نہیں ہے صرف اپنی تکلیف میں اسے اس وقت محسوس کیا جا سکتا ہے جب تمہیں یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ جون ہے اور وہ جنوری تھا۔ تم نے سوچا تھا کہ اس کے چلے جانے کے بعد تم اس شہر میں نہیں رہوگے لیکن تم زندہ ہو اور سانس لے رہے ہو۔۔۔ آدمی کی کھال کتنی موٹی ہوتی ہے کہ سب کچھ برداشت کر لیتا ہے۔ اس کی کھال پانی میں ڈوب کر ایک کتے کی طرح باہر آ جاتی ہے جو یکبارگی اپنا جسم جھنجھوڑ کر سب کچھ جھاڑ دیتا ہے۔ پانی کا اندھیرا کتنی دیر یاد رہ سکتا ہے؟

    وہ اسٹیٹسمین کی بلڈنگ کے سامنے چلا آیا اور وہاں کھڑے ہوکر اس بات کا انتظار کرنے لگا کہ کب لال روشنی ہری روشنی میں تبدیل ہوتی ہے۔ اوپر طوطوں کا ایک غول کرزن روڈ کے درختوں سے اُڑ کر منٹو روڈ کے پل پر ہوا میں ایک قطار سی بناتا ہوا پرواز کر رہا تھا۔

    ایک بار پل کے اوپر سے ریل گزر رہی تھی اور وہ پل کے نیچے سے گزرنے والی بس میں بیٹھے تھے۔ ’’تم نے کچھ مانگا؟‘‘ اس نے بے چینی سے میری طرف دیکھا، ’’اس وقت تم جو کچھ مانگوگے وہ مل جائےگا۔۔۔‘‘ میں ہنسنے لگا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ ان چیزوں میں یقین رکھتی ہے۔ ’’جلدی مانگو نہیں تو ریل گزر جائےگی!‘‘ ایک لمحے کے لیے ہم دونوں چپ بیٹھے رہے اور بس پل سے باہر نکل آئی۔ وہ برسات کی شام تھی اور ایک منجمد سی روشنی اس کے چہرے پر گر رہی تھی۔ ’’بولو تم نے کیا مانگا تھا؟‘‘ اس نے اداس نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے منہ موڑ لیا اور بس کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔

    اس شام جب منٹو برج کے اوپر سے ریل گزر رہی تھی، ان دونوں نے ایک ہی مراد مانگی تھی۔ ایک دوسرے سے الگ ہونے کی۔ وہ جتنا زیادہ ایک دوسرے کو چاہتے تھے اتنا ہی ایک دوسرے سے چھٹکارا پانے کے لیے بےچین تھے۔ جیسے ایک دوسرے کو چاہنا کوئی گناہ ہو، کوئی برا خواب ہو۔ اسی وقت ہری بتی روشن ہوئی اور وہ سڑک پار کرتا ہوا کرزن روڈ کے زرد اور خاک آلود درختوں کے نیچے چلا آیا۔ درختوں کے سائے میں چلتے ہوئے اسے اچانک یاد آیا کہ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ جس کے پاس ہے اسے اور بھی دیا جائےگا اور جس کے پاس کچھ نہیں ہے، اس سے وہ بھی لے لیا جائےگا جو کچھ اس کے پاس ہے۔ پتہ نہیں اس کا مطلب کیا تھا۔

    میں ابھی جاؤں گا اور اس سے یہی پوچھوں گا اور اسی وقت میرے تصور میں دھندلی سی تصویر ابھر آتی ہے۔ وہ لائبریری کے ایک کونے میں بیٹھی ہوگی۔ اپنے ریسرچ کے کاغذات میں ڈوبی ہوئی۔ وہ سوچ رہی ہوگی کہ اب میں نہیں جاؤں گا۔ وہ دوبارہ فون کرےگی اور گھر میں کوئی نہیں ہوگا۔ گھر کے سونے کمروں میں فون کی گھنٹی بے وجہ بجتی رہےگی کیونکہ میں تو یہاں ہوں کرزن روڈ ک ے پیڑوں کے نیچے اور اوپر طوطوں کا جھنڈ شام کی دھوپ میں منٹوبرج کی طرف جا رہا ہے۔ بائیبل کا صرف ایک جملہ دہراتا ہوا، ’’۔۔۔ جس کے پاس ہے۔۔۔ جس کے پاس نہیں ہے۔‘‘

    وہ ایک طرح کا کھیل تھا جسے وہ دونوں کھیلتے تھے۔ خاص کر ان دنوں جب وہ بہت تھک جاتی اور لائبریری سے سیدھے اس کے کمرے میں آکر لیٹ جاتی۔ وہ اپنے کمرے کے دروازے کھول دیتا تھا۔ نیچے کے کمروں میں سناٹا رہتا اور وہ بند رہتے۔ صرف چھت کھلی رہتی۔ جون کا اندھیرا چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں آتا تھا اور ہر ٹکڑے پر ڈھیر سے تارے بچھے رہتے۔ وہ دونوں ان تاروں کو دروازے پر اترتا ہوا دیکھتے رہتے۔ وہ ایک کھیل تھا۔ ایک طلسم اور شعبدہ۔۔۔ جہاں وہ دونوں ایک لفظ بھی کہے بغیر ایک دوسرے کی خواہش کو بھانپ لیتے تھے۔ کچھ لوگ اس عمل کو ٹیلی پیتھی کہتے ہیں۔ وہ دونوں جب کمرے میں آتے تھے تو وہ تھکی اور نڈھال سی اندھیرے میں آنکھیں موندکر لیٹ جاتی تھی اور وہ ہیٹر پر پانی رکھ دیتا۔ پھر اس کے پاس آکر بیٹھ جاتا۔ دونوں اندھیرے میں ایک دوسرے کی سانسیں سننے لگتے۔

    ’’سنو!‘‘ اس نے سر اٹھاکر کہا، ’’میں نے کبھی تمہارے باپ کو نہیں دیکھا۔‘‘

    ’’تمہیں شاید معلوم نہیں، وہ مر گئے۔‘‘

    ’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ اس نے کہا، ’’لیکن تم نے کبھی ان کی تصویر بھی نہیں دکھائی۔‘‘

    وہ اٹھ بیٹھتی اور کھیل شروع ہو جاتا۔ بڑا عجیب سا کھیل تھا۔ کیونکہ کچھ دیر کے لیے ہم ایک دوسرے کو بالکل بھول جاتے اور اس لمحے سے آزاد ہوکر ایک دوسرے زمانے میں چلے جاتے تھے جہاں میرا گھر دھیرے دھیرے جاگنے لگتا تھا۔ بند کمروں کے دروازے کھل جاتے جیسے وہ ایک عجائب خانہ ہواور میں اس کا گائڈ ہوں۔ وہ چپ چاپ آنکھیں پھاڑے ہر چیز کو دیکھنے لگتی۔۔۔میں ایک الماری کھولتا پھر دوسری۔۔۔پتہ نہیں وہ تصویر کہاں تھی جو تیس سال پہلے لی گئی تھی۔ ڈھونڈتے وقت دوسری چیزیں نکل آتیں۔ میں انہیں چھپانے کی کوشش کرتا اور وہ میرا ہاتھ ہٹا دیتی۔ مجھے یاد ہے وہ ماں کی نتھ کو بہت دھیان سے دیکھا کرتی تھی اور میں اس نتھ سے نفرت کرتا تھا کیونکہ اس نتھ نے ماں کی ساری ناک چھیل ڈالی تھی۔ الماری کے دوسرے کونے میں میرے باپ کے نقلی دانت رکھے تھے۔ میں نے انہیں اسی گلاس میں سنبھال کر رکھا تھا جس میں میرے باپ ان دانتوں کو نکال کر رکھتے تھے۔ دانتوں کے بیچ اب بھی ڈبل روٹی کے ٹکڑے پھنسے تھے جو انہوں نے پچھلی رات ہی کھائے تھے۔

    ’’مرنے سے ایک رات قبل؟‘‘ اس نے پوچھا۔ وہ میرے پیچھے کھڑی تھی۔ اس کا ہاتھ میرے کندھے پر تھا جیسے وہ مجھے پناہ دینے کی کوشش کر رہی ہو لیکن میں اس کی پناہ سے باہر تھا۔ میں برسوں سے اس گھر میں اکیلا رہ رہا تھا۔ اس کے کونے کونے کو جانتا تھا۔ مجھے کسی پناہ کی ضرورت نہیں تھی۔

    ’’یہ پلنگ دیکھ رہی ہو۔۔۔اور یہ بستر۔‘‘ اس نے کہا، ’’وہ یہاں لیٹتے تھے اور میں اوپر سوتا تھا۔ وہاں اوپر سائبان میں جہاں تم آتی ہو۔‘‘

    میں اس کے پیچھے چلتی گئی۔ وہ ایک وسیع ہال تھا جہاں کونے میں ایک تپائی رکھی تھی اور پیچھے کپڑوں کی وارڈروب۔ اس نے کھڑکی کھولی اور اسی وقت روشنی کا سیلاب یوں اندر چلا آیا جیسے برسوں سے اندر آنے کا منتظر ہو۔ روشنی بستر پر پڑ رہی تھی۔ ایک طرف اٹھا ہوا تکیہ، دو کمبل، بیچ میں ایک گڈھا جیسے کوئی بستر میں لیٹا ہو اور ابھی ابھی باہر گیا ہو۔

    ’’یہ ہے ان کا بستر؟‘‘

    میں نے اس کی طرف دیکھا اور میرا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میں نے کسی بھوت کو دیکھا ہو۔ کونے میں کھڑا مسکراتا ہوا۔ مجھے اچانک یاد آیا کہ میرا باپ سڑک پر اکیلے چلتے ہوئے اسی طرح مسکراتا تھا، جیسے اس نے اندر کی دنیا سے باہر آتے وقت کسی غیرمرئی شے کو دیکھ لیا ہو۔ وہ ٹھٹک جاتا اور اپنے آپ سے باتیں کرنے لگتا۔

    ’’فیٹی!‘‘ میں نے اس کا شانہ ہلایا۔ اس نے میری طرف دیکھا جیسے میں کوئی شیشے کی دیوار ہوں اور وہ میرے اندر سے گزر کر میرے آرپار دیکھ رہا ہو۔

    ’’ہاں۔ وہ یہیں مرے تھے۔‘‘ اس نے کہا۔ میں ان کی تپائی پر دوا رکھ دیتا تھا، پیشاب کی بوتل صاف کر دیتا تھا اور سرہانے کی کھڑکی کھول دیتا تھا۔ تم جانتی ہو دلی میں اگست کی راتیں کتنی صاف ہوتی ہیں۔ سونے سے پہلے وہ آسمان پر ستاروں کی کہکشاں دیکھتے تھے۔ انہیں کبھی نیند کی گولیوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ تاروں کے درمیان سفید لکیر پر چلتے ہوئے مجھے نیند آ جاتی ہے۔ میری طرف حیرت سے مت دیکھو۔ وہ واقعی عجیب و غریب شخص تھے۔ جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ میں لکھتا ہوں تو ایک دن انہوں نے مجھے اپنا رجسٹر دکھایا، مرنے سے دودن پہلے please turn to page 97 انہوں نے کہا۔ وہ اپنے بچوں سے ہمیشہ انگریزی میں بات کرتے تھے۔ میں نے رجسٹر میں ان کا بتایا ہوا صفحہ کھولا تو وہ پورا کا پورا سادہ تھا۔ صرف پیشانی پر لکھا تھا Life here and here after میں نے ان کی طرف دیکھا تو وہ مسکرانے لگے۔

    ’’یہ ٹائیٹل ہے۔ انہوں نے کہا، جب بیٹھنے کے لائق ہو جاؤں گا تو سب کچھ لکھ ڈالوں گا۔ میں بڑی حد تک انہیں پر پڑا ہوں۔ میری بڑی بہن مجھ سے کہا کرتی تھی کہ میرے اور بابو کے درمیان ایک بہت مہین اور باریک سی ڈوری ہے جو ان کی دنیا کو مجھ سے الگ کر دیتی ہے۔ جس دن میں وہ ڈوری کاٹ دوں گامیں وہیں نظر آؤں گا جہاں وہ ہیں۔ گناہوں اور آلودگیوں سے پاک زمین پر۔‘‘

    ’’بٹی! ادھر دیکھو۔ یہ ہے تصویر۔ اب تم انہیں دیکھ سکتی ہو۔‘‘

    ادھر نہیں۔۔۔ ادھر۔ کھڑکی کے پاس آ جاؤ۔ روشنی میں دیکھو۔ اس وقت میری عمر کوئی سات برس کی رہی ہوگی۔ تم ہنسوگی لیکن سچ بات یہ ہے کہ میں اس روز دن بھر روتا رہا۔ میں نے سوچا میرا آخری وقت آ پہنچا ہے۔ میرا یہ عقیدہ غلط تھا کہ تصویر کھنچواتے ہی میرے اندر کا پھرنا (یہ ماں کا ہی لفظ تھا جسے شاید وہ روح کے معنی میں استعمال کرتی تھی۔ کبھی کبھی میں غصے میں کھانا کھانا چھوڑ دیتا تھا تو وہ مجھے ڈراتی تھی کہ جب میں سو جاؤں گا تو میرا پھرنا میرے جسم سے نکل کر باورچی خانے میں چلا جائےگا اور رات بھر بھوکا پیاسا منڈلاتا رہےگا۔) مجھے چھوڑ کر تصویر پر چپک جائےگا۔ اسی طرح جس طرح کوئی مردہ تتلی البم کے کاغذ پر چپک جاتی ہے۔ مجھے ڈر تھا کہ میں تصویر میں آتے ہی اس دنیا سے اٹھ جاؤں گا، اس لیے کہ آدمی ایک ہی وقت میں دو جگہوں پر موجود نہیں رہ سکتا۔

    یہی وجہ ہے کہ میں اس طرح متوحش، بدحواس اور غمگین نگاہوں سے دنیا کو دیکھ رہا ہوں۔ میری ماں کرسی پر بیٹھی ہے اور بابو اس کے پیچھے کھڑے ہیں۔ میں آگے ہوں نہ پیچھے۔ بلکہ ان دونوں سے الگ اپنا ہاتھ کرسی کے ہتھے پر ٹکائے ہوئے اپنی دشوار منزل کی طرف دیکھ رہا ہوں۔ موٹے بچے یوں بھی کافی غم زدہ نظر آتے ہیں۔ انہیں دنوں کا ملا ہوا نام آج تک چلا آ رہا ہے۔ تمہیں یاد ہے جب میں لائبریری میں استغاثہ لے کر آیا تھا تب تم نے سوچا تھا کہ جیسے میں کوئی۔۔۔‘‘

    وہ میری باتیں سننے کے بجائے کھوئی ہوئی آنکھوں سے ان تین انوکھے انسانوں کودیکھ رہی تھی جو تیس سال پہلے کی تصویر میں سانس لے رہے تھے۔ اس کی طرف گھور رہے تھے جیسے پوچھ رہے ہوں کہ یہ اجنبی لڑکی کون ہے جو ان کے گھر میں چلی آئی ہے اور کھڑکی کی روشنی میں ان کے اندھیرے کی تھاہ لے رہی ہے Life here and here after کون سی زندگی یہاں والی یا وہاں والی جہاں وہ ہیں۔ جب میں روشنی کرنے کے لیے اٹھنے لگا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے بٹھا دیا۔ اسے کمرے میں اندھیرے کا دھیرے دھیرے پھیلنا اچھا لگتا تھا۔ جون کی جاتی ہوئی زرد دھوپ بستر پر بکھر جاتی اور میں اس کے گھٹنوں پر سرٹکاکر لیٹ جاتا اور سوچنے لگتا پتہ نہیں وہ۔۔۔بابو اور ماں کے بارے میں کیا سوچ رہی ہوگی۔ جب کسی لڑکی کو بہت چاہا جانے لگتا ہے تو اندر کی پرتیں کھل جاتی ہیں اور ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں اس کے ہونٹوں پر ایک تحقیر آمیز مسکراہٹ نہ پھیل جائے۔ ایک عمر کے بعد وہ (ماں باپ) تمہارے لیے ایک کھلے ہوئے زخم کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر وہ زندہ ہیں تو اپنی عزت کو مٹی میں ملا سکتا ہے۔

    ’’سنو!‘‘ اس نے دھیرے سے کہا اور اس کی آواز سن کر میرا دل دھڑکنے لگا۔ میں اس کی آواز کو پہچانتا تھا۔ جب اسے تلخ و تند کہنا ہوتا تھا تو اس کا لہجہ اچانک نرم پڑ جاتا تھا۔

    ’’فیٹی!‘‘ اس نے کہا، ’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم اتنے بدل جاؤگے۔‘‘

    ’’کس طرح؟ کیسے؟‘‘ میں نے کہا۔

    ’’تصویر میں تم بالکل بےگناہ دکھائی دیتے ہو۔‘‘

    اس نے یہی لفظ کہا تھا۔ بےگناہ۔ جسے سن کر مجھے محسوس ہوا کہ جیسے میں غلاظت میں سنا ہوا ہوں۔ تیس سال کے گناہ، جھوٹ اور فریب۔ میں ہنسنے لگا۔

    ’’ارا یہ تصویر تیس سال پہلے کی ہے۔ اس وقت میں سات برس کا تھا۔‘‘

    ’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’تمہیں کچھ نہیں معلوم۔‘‘ میرا جسم غصہ سے کانپ رہا تھا۔ اس نے میرا سر اپنے گھٹنوں پر سے اس طرح ہٹا دیا جیسے مجھے چھوت کی بیماری ہو۔ جی چاہا کہ اٹھ کر کمرے میں روشنی کر دوں اور اک باراس کی آنکھوں سے پھر خود کو دیکھوں۔ لیکن میں اٹھا نہیں۔ اندھیرے میں بیٹھا رہا۔ مجھے شک ہوا کہ وہ مجھے دیکھ رہی ہے۔ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ہم اندھیرے میں دوسرے کو دیکھ نہیں پاتے ہیں لیکن یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ دوسرا ہمیں دیکھ رہا ہے، تول رہا ہے، پرکھ رہا ہے۔ لیکن ایسے وقت ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ اس طرح کے دیکھنے سے ہمیں کوئی بھی چیز نہیں بچا سکتی۔ وہ شاید سمجھ گئی۔ اس نے اندھیرے میں ہاتھ بڑھایا اور میرا چہرہ ٹٹولنے لگی۔ میں نے اسے بیچ ہی میں پکڑ لیا۔

    ’’سنو!‘‘ اس نے کہا، ’’کیا تم سچ مچ مجھے چاہتے ہو۔ کیا میں تم پر بھروسہ کر سکتی ہوں۔‘‘

    وہ اتنا مایوسانہ، اتنا کربناک، اتنا بھرپور سوال تھا کہ میں نے جلدی سے اس کا ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹادیا۔ جیسے اچانک کسی نے سرعام مجھ سے پوچھ لیا ہو۔ فیٹی!کیا تم خدا پر یقین رکھتے ہو؟ دل میں ایک احمقانہ خیال یہ بھی آتا ہے کہ اگر اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے تو تم زندہ نہیں ہو بلکہ بہت سال پہلے مر چکے ہو۔ اس وقت جب تمہاری تصویر کھینچی گئی تھی، تمہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ تمہارا پھرنا کہیں اور ہے اور تم نے اسے راستے میں کہاں گرا دیا؟ میں نے اندھیرے میں اسے پکڑکر اپنے پاس گھسیٹ لیا۔ ہم دونوں دیر تک ان ڈرے ہوئے بچوں کی طرح بیٹھے رہے جو راستہ بھول کر فٹ پاتھ پر بیٹھ جاتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ شاید کوئی ہاتھ پکڑ کر انہیں گھر تک پہنچا آئے۔

    گھر کہیں نہیں تھا۔ دکھ تھا۔ بانجھ دکھ۔ جس کا کوئی حاصل نہیں۔ جو ایک دوسرے سے ٹکراکر ختم ہو جاتا ہے اور ہم اس وقت تک نہیں دیکھ پاتے جب تک رشتوں کا آدھا حصہ پانی میں ڈوب نہیں جاتا۔ اس وقت ہم گھبرا جاتے ہیں۔ دہشت کے عالم میں پانی الٹنے لگتے ہیں لیکن حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا! جتنا دکھ ہم پانی سے باہر نکالتے ہیں اس سے کہیں زیادہ سوراخ سے اندر چلا آتا ہے اور ہم بار بار وہیں لوٹ آتے ہیں۔ ایک کمرہ، باپ کا گھر، بستر، ماں کی خالی کرسی اور جون کا مہینہ۔ وہ لائبریری میں بیٹھی رہتی اور فیٹی جھوٹ اور انصاف کے بارے میں بیان تیار کرتا رہتا یا کوئی ایسی چیز جو کسی طرح سوراخ کو بند کر سکے، بہتے ہوئے پانی کو روک سکے۔

    پھر جولائی کا مہینہ آیا اور مجھے معلوم ہوا کہ سکھ کیا ہوتا ہے۔ کبھی دلی کا آسمان جولائی کے مہینے میں دیکھا ہے۔ ٹیلی فون بوتھ کے شیشے کے باہر جب بادلوں کے پیچھے روشنی کا ہلکا سا زرد دھبہ دکھائی دیتا ہے۔ نہیں دکھائی نہیں دیتا صرف محسوس ہوتا ہے کہ کوئی چیز چمک رہی ہے۔ یہ سورج ہے۔ سورج کا چھوٹا سا روشن ہیولیٰ۔ ہمارا سکھ بالکل ایسا ہی تھا۔ ایک ٹمٹماتی ہوئی روشنی کا وہم، فریب اور حقیقت کے درمیان بھاگتا ہوا ایک سایہ۔ وہ میرے گھر کے اوپر ٹھہر جاتا اور ہم اپنی چٹائی اور چادر باہر لے آتے۔ بارش کی تھوڑی سی بوندیں چھت پر کی دھول کو صاف کر دیتیں اور ایک سوندھا، دودھ کی رنگت کا دھواں ہوا میں پھیلنے لگتا۔ ہم چھت پر اکیلے لیٹے رہتے۔ مجھے اس بات کا بالکل ڈر نہیں تھا کہ کوئی ہمارے سکھ میں خلل ڈالےگا۔ اس لیے کہ ماں باپ تو برسوں پہلے مرچکے تھے اور سارے کمرے، الماریاں اور مکان کی چھت میرے حوالے کر گئے تھے۔

    کھانے کی فکر بھی نہیں تھی۔ وہ اپنا ناشتے دان ساتھ لاتی اور اسے میرے ہیٹر پر رکھ دیتی جس میں انڈے کی بھجیا، آلو، ٹوسٹ سبھی کچھ ہوتا اور جب کبھی اس کی ماں بہت خوش ہوتی تو اس میں مٹرپلاؤ بھی رکھ دیتی۔ میرے پاس سوکھی چیزیں ہوتی تھیں۔ ڈبل روٹی، پنیر اور مچھلی کے ڈبے وغیرہ۔ کبھی کبھی تو میں اسے حیرت میں ڈال دیتا جب اس کی آنکھوں پر رومال باندھ کر (کہ وہ اندر نہ دیکھ سکے) اسے زبردستی باہر چھت پر بٹھا دیتا اور پنیر کا آملیٹ بناکر اس کے سامنے رکھ دیتا۔ وہ آملیٹ کھانے لگتی اور حیران ہوکر میری طرف منہ اٹھا دیتی، میں اس کی آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی کھول دیتا تاکہ وہ مجھے اچھی طرح دیکھ سکے۔

    ’’کس نے سکھایا تم کو۔۔۔؟‘‘ اس نے پوچھا۔ جیسے آملیٹ بنانا دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہو۔

    ’’کسی نے نہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’جب میں ولایت میں تھا تو سب کچھ خود بناتا تھا۔‘‘

    ’’خود بناتے تھے؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ کیوں؟‘‘ میں نہیں جانتا تھا کہ اتنی معمولی بات کا اس پر اتنا اثر ہوگا۔

    ’’میں کچھ بھی نہیں بنا سکتی۔‘‘ اس نے کہا اور میرے پہلو سے لگ کر اس طرح بیٹھ گئی کہ اس کے جسم کا صرف آدھا حصہ دکھائی دے سکتا تھا۔ آدھی پیشانی، پلکوں کے بال اور کھلے ہوئے ہونٹ۔ جیسے بچے کچھ سوچتے وقت منھ کھول دیتے ہیں۔

    ’’تمہارا کیا خیال ہے۔ اگر میں باہر جاؤں تو سب کچھ خود کر سکتی ہوں؟‘‘

    ’’باہر کہاں؟‘‘

    ’’کہیں بھی۔ اس ملک کے باہر نہیں بلکہ اپنے گھر کے باہر۔‘‘

    ’’کیا اپنا گھر چھوڑ دوگی؟ میں نے دھیرے سے اس کا سر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھا جو میرے چہرے پر جمی تھیں۔ اچانک اس کا دل بیٹھنے لگا۔ وہ بڑا نازک وقت ہوتا تھا جب وہ اپنے خول میں سمٹ جاتی تھی۔ مجھے کچھ پتہ نہ چل پاتا کہ وہ کیا سوچ رہی ہے۔ یوں معلوم ہوتا جیسے اس کادل تو میرے پاس ہو لیکن خود وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہو۔ بالکل ان جانوروں کی طرح جو خطرے کی آہٹ پاتے ہی اپنا رنگ بدل لیتے ہیں اور پیڑ پودوں میں موجود ہوتے ہوئے بھی دکھائی نہیں دیتے۔

    ’’ارا۔۔۔!‘‘ میں اسے ٹہوکا دیتا اور وہ اپنے خول سے باہر نکل آتی۔ حیرت سے چاروں طرف دیکھنے لگتی گویا سمجھ نہ پا رہی ہو کہ اس وقت کہاں ہے۔ اپنے گھر میں یا میرے کمرے کی چھت پر۔ وہ کمرے کے اندر جاتی لیکن روشنی نہ کرتی۔ کمرے میں ایک مہین سی خاک رنگ روشنی رینگتی رہتی۔۔۔جولائی کی روشنی جو ستاروں سے چھنتی ہوئی اندر تک پھیل جاتی ہے۔ باہر سے میں اسے دیکھتا۔ اس کا سر ایک خواب ناک سا دائرہ معلوم ہوتا۔

    مونہہ میں دبے کلپ، کرسی پرکتابوں کے بیچ اس کی جینس، کرتا، تھیلا اور تھیلے میں رکھی نیلی فائل، جس کے کاغذ باہر نکلے رہتے۔ اب لگتا ہے کہ جولائی کی ایک شام کو جو کچھ دیکھا تھا وہ غلط تھا۔ دھوکا۔۔۔کیونکہ جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو سب شامیں ایک یاد بن جاتی ہیں اور ہمیں وہم ہوتا ہے کہ وہ سب جولائی کی ایک شام کو ہوا تھا جب کہ اس میں اگست، ستمبر اور اکتوبر کے بھی سارے لمحے شامل ہوتے ہیں۔ بالکل ایک پرانے Fossil کی طرح جو اوپر سے صرف ایک پتھر سا نظر آتا ہے لیکن جس میں گزری ہوئی صدیو ں کی تمام ہڈیاں پرت در پرت جمع ہوتی رہتی ہیں۔

    وہ روشنی کردیتی اور دروازے سے باہر جھانکنے لگتی۔

    فیٹی! وہ پکارتی اور میں چپ رہتا اور چھت کے تاریک گوشے میں خاموش پڑا رہتا۔ فیٹی! وہ دوبارہ بلاتی اور کوئی جواب نہ پاکر باہر آ جاتی۔ ادھر ادھر دیکھتی اور پھر پانی کی ٹنکی کے سامنے آ کھڑی ہوتی۔ نل کی ٹونٹی کھول دیتی اور اپنے کرتے کی آستینوں کو الٹ کر منہ دھونے لگتی۔ میں دیکھتا کہ کس طرح پانی اس کے چہرے پر بہتا ہوا اس کی ناک کی نوک پر ایک چمکتے ہوئے قطرے کی صورت میں ٹھہر جاتا۔ گویا وہ کوئی رکا ہوا آنسو ہو۔۔۔میں اس کے قریب پہنچ جاتا اور وہ چونک کر پلٹ پڑتی۔ میرے تپتے ہوئے ہونٹ اس کے بھیگے ہوئے چہرے کی ٹھنڈک کو جذب کرنے لگتے۔۔۔دکھ میں کوئی ڈر نہیں ہوتا لیکن جسے ہم سکھ کہتے ہیں وہ ہمیشہ خطروں سے بھرا رہتا ہے۔ اس کے جانے کاوقت ہوتا تو ہم دونوں کو یوں لگتا جیسے کوئی ہمیں ٹکڑوں میں بانٹ رہا ہو، تار تار کر رہا ہو۔ حالانکہ ہم دونوں ایک ہی شہر میں رہتے تھے۔ میں تالا چابی ڈھونڈنے لگتا اور وہ ناشتے دان کا خالی ڈبہ اپنے اس جھولے میں ڈال دیتی جس میں اس کے کاغذات بے ترتیبی سے پڑے رہتے۔

    ’’فیٹی!‘‘ اس نے کہا، ’’تم بیٹھے رہو میں چلی جاؤں گی۔ ابھی دیر نہیں ہوئی ہے۔‘‘

    ’’معلوم ہے کیا بجاہے؟ میں ایک ہاتھ میں اس کا تھیلا سنبھا لتا اور دوسرے ہاتھ سے ٹارچ جلاکر زینے سے اترنے لگتا۔ دیوار پر اس کا باریک سایہ میرا تعاقب کرتا۔ اترتے وقت آدھے راستے پر وہ ٹھٹک جاتی۔ سارا گھر خالی! وہ اس گھر کے کونے کونے سے واقف تھی۔ میں نے اسے سب کچھ دکھا دیا تھا۔ وہ کمرہ جہاں بڑی بہن شادی سے پہلے رہتی تھی، داہنی طرف کا وہ کمرہ جہاں بابو کا انتقال ہوا تھا، پیچھے والی کھڑکی جہاں سے ستاروں کی کہکشاں دکھائی دیتی تھی۔۔۔اور پرانی اور بوسیدہ سی ایک آرام کرسی۔

    وہ سیڑھیوں پر کھڑی تھی۔ سفید اور مبہوت برآمدے کی روشنی اس کے بالوں پر پڑ رہی تھی۔ وہ باہر جاتے وقت ہمیشہ اس کرسی کو دیکھا کرتی تھی جو چھجے کے بالکل بیچ میں پڑی رہتی تھی۔ ’’تمہیں یاد ہے؟‘‘ وہ دھیمی آواز میں پوچھتی، ’’ہاں!‘‘ میں کہتا، ’’میں یہیں کھڑا تھا۔ وہ اسی کرسی پر بیٹھی تھیں۔‘‘

    ’’ان کے آخری الفاظ کیا تھے؟‘‘

    ’’کون سے آخری الفاظ؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھا۔

    ’’جب تم ولایت جا رہے تھے تو انہوں نے کیا کہا تھا۔‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’تمہیں کئی بار بتا چکا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’میں دوبارہ سننا چاتی ہوں۔ تم باہر جا رہے تھے اور وہ برآمدے میں بیٹھی ہوئی تمہیں باہر جاتے د یکھ رہی تھیں۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔ جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہو۔

    ’’انہوں نے ٹکٹ کے بارے میں پوچھا تھا کہ میں نے اسے جیب میں رکھا ہے یا پرس میں۔‘‘ میں نے کہا، ’’انہیں ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا تھا کہ میں اپنا ٹکٹ کھودوں گا۔‘‘ لمحہ بھر وہ خالی کرسی کو دیکھتی رہی۔

    ’’اور تم نے انہیں کھو دیا۔‘‘

    ’’وہ بہت بوڑھی تھیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’انہیں کچھ یاد نہیں رہتا تھا۔‘‘

    ’’فیٹی۔۔۔!‘‘ اس کی آواز میں تھرتھری تھی، ’’ان کی موت اکیلے گھر میں ہوئی تھی؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں حیرت اور خوف سے کھلی تھیں۔۔۔میرے سامنے ایک آئینہ ہے۔۔۔لمبے درختوں سے گھری وکٹوریہ اسٹریٹ اور بیچ میں ایک چھوٹا سا پارک، پارک میں کھیلتے ہوئے بچے اور اوپر اڑتے ہوئے بادل۔ لندن کا زرد اجالا۔۔۔اور ہاتھ میں ایک کیبل لیے بنچ پر بیٹھا ہوا میں۔ سرخ کاغذ کا ایک ٹکڑا جس سے پانچ سیاہ لفظ جھانک رہے ہیں۔ ‘Mother died without any pain’ میں ان لفظوں کو بار بار دہرا رہا ہوں۔ without any pain, without pain اس تبتی فقیر کی طرح جو دعاکی چرخی گھماتا ہوا ایک ایسے دانے پر پہنچ جاتا ہے جہاں سچ ہے، خدا ہے، ایک بھیانک سناٹا۔ ایک طلسم خانہ ‘Wonder Land’ جس کے اندر ایلس نے جھانکا ہوگا، دیکھا ہوگا کہ کوئی دروازہ دوسری دنیا کو جاتا ہے۔۔۔

    ’’اکیلے میں! ہاں اکیلے میں۔‘‘ میں نے کہا، ’’مگر بغیر کسی تکلیف کے Without any pain انہیں آخری وقت کوئی تکلیف نہیں تھی۔ ارا۔ ان کے آخری دن تنہائی میں گزرے لیکن سکھ میں گزرے۔ یہ بتاتے وقت مجھے محسوس ہوا کہ وہ رو رہی ہے، تھر تھر کانپ رہی ہے۔ میں اسے چھونے کے لیے آگے بڑھتا اور وہ مجھے پیچھے ڈھکیل دیتی اور دیوار سے لگ کر مجبور نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگتی۔ ایک عجیب سی نفرت سے۔ ایسی نفرت جس میں ایک شدید حقارت اور سفاکی چھپی رہتی ہے۔

    ’’تم یہاں کیوں رہ رہے ہو فیٹی! یہ گھر بیچ کیوں نہیں دیتے۔‘‘ وہ کہتی، ’’یہ تمہارے باپ کا گھر ہے اور تم اس سے جونک کی طرح چمٹے ہوئے ہو۔‘‘ وہ دھیرے دھیرے اس زخم کو چھیڑنے لگتی جس میں سے رہ رہ کر ٹیس اٹھنے لگتی ہے۔ وہ زخم کریدتی رہتی، ’’جاتے کیوں نہیں۔ نہیں جاتے اس لیے کہ تم یہاں محفوظ ہو۔‘‘ وہ روتے روتے ہنسنے لگتی۔ مجھے چمکارنے لگتی۔ فیٹی ڈیر۔ ڈیر فیٹی اور میں ان باتوں کی تاب نہ لا پاتا۔ میں اس کے سامنے اس ادھ موئے جانور کی طرح ہو جاتا جس کادھڑ کچل دیا جاتا ہے اور دُم تڑپتی رہتی ہے۔ اس کا دکھ گھر کے کسی کونے میں غائب ہو جاتا اور وہ الماری میں رکھی ہوئی چیزوں کے پیچھے جاکر چھپ جاتا۔ بابو کے دانت، ماں کی نتھ، شاعری کے مجموعے ’’اسٹیٹمنٹ‘‘، ریکارڈ۔ اپنے کو بچانے کے لیے اس نے کتنی چیزیں جمع کر رکھی تھیں۔ لیکن وہ اسے ان چیزوں کے پیچھے سے باہر نکال لاتی جس طرح ہم کسی چھپکلی یا کسی چھچھوندر کو دوڑا دوڑا کر اور پیر پٹک پٹک کر تاریک اور محفوظ کونوں سے نکال کر اس دنیا کے بے رحم اجالے میں لے آتے ہیں۔

    وہ باہر نکل آتی۔ باہر جہاں مکانوں کی چھتوں پر جولائی کی راتوں کی سیاہی پھیلی رہتی۔ وہ آٹو رکشا میں بیٹھتی اور اس کے گھر سے دور بھاگنے لگتی۔ کناٹ پلیس، انڈیاگیٹ، پرانا قلعہ ایک ایک کرکے سب گزر جاتے۔ آسمان پر صرف بادل نظر آتے یاچھٹکے ہوئے تارے جو جولائی کی راتوں میں دھلے ہوئے بٹنوں کی طرح چمکتے تھے۔ نہ ریل گاڑی نہ کوئی پل جس کے نیچے سے گزرتے ہوئے وہ کوئی مراد مانگ سکتی۔

    اس نے چابی باہر نکالی، دروازے کا تالا کھولا اور اندر چلی آئی۔ چھوٹا سا لان، نیبو کے پیڑ اور اینٹوں کی دیوار۔ یہ تھا اس کا گھر۔ کھڑکیاں کھلی تھیں۔ پاپا ٹیلی ویژن دیکھ رہے ہوں گے۔ ماں کپڑوں پر استری کر رہی ہوں گی۔ دونوں سمجھ جاتے کہ وہ آ گئی ہے لیکن اس کے کمرے میں آنے کی ان کی ہمت نہ ہوتی۔ وہ باورچی خانے میں جاکر ناشتے دان رکھتی، منہ دھوتی اور بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی جاتی۔ پھر کوئی ریکارڈ لگا دیتی اور کپڑے تبدیل کیے بغیر اپنے بستر پر دراز ہو جاتی۔ وقت گزرتا جاتا۔

    اگست کے کھلے ہوئے دن اور ستمبر کی اداس روشنی۔ جھاڑیاں، گھاس اور پیڑ اپنا رنگ بدلنے لگتے۔ وہ تکیے پر سر رکھ کر اپنی تھکی ہوئی آنکھیں موند لیتی۔ پھر کچھ دیر بعد دبے پاؤں ہال والے کمرے میں جاتی۔ اوپر پاپا اور ممی سو رہے ہوتے۔ وہ روشنی نہ کرتی۔ سارے فون نمبر اسے معلوم تھے۔ وہ اندھیرے میں ڈائل گھماتی اور دوسری طرف گھنٹی کی آواز سنائی دینے لگتی۔ وہ سو رہا ہوگا۔ ویران گھر کے سائے میں فون کی گھنٹی گونج رہی ہوگی۔ ہیلو۔۔۔ہیلو۔۔۔فیٹی کی آواز اسے چونکا دیتی۔ وہ بے حس و حرکت کھڑی رہتی۔ ہیلو۔۔۔ ہیلو۔۔۔ہیلو۔۔۔اور پھر سناٹا چھا جاتا۔ وہ ریسیور رکھ دیتا اور وہ فون پر دھیرے سے کہتی، ’’فیٹی میں ہوں۔ میں صرف تمہاری آواز سننا چاہتی تھی۔۔۔‘‘

    وہ نومبر کا مہینہ تھا۔ اس کی آواز دلی کی فضاؤں میں گونجنے لگتی۔ چلتے ہوئے لوگ لمحہ بھر کے لیے ٹھٹک جاتے اور سوچنے لگتے کون ہے یہ فیٹی۔ لیکن شہر کی ہوا میں اتنے نام، اتنی سانسیں، اتنے آنسو بہتے رہتے کہ یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا کہ کس کا نام کس نے پکارا ہے۔ لوگ سر ہلاکر آگے بڑھ جاتے۔ اس کی آواز کو بھول جاتے اور بھیڑ میں گم ہو جاتے لیکن وہ کبھی نہ بھول پاتی۔ یہ میرا راز ہے۔ وہ سوچتی۔ میرا سب سے بڑا راز۔ سب سے بڑا طلسم۔ فیٹی! مجھے دیکھو تب تمہیں محسوس ہوگا کہ تم سب سے بڑی پاکھنڈی، جھوٹی، ہپو کریٹ، دنیا کی سب سے بڑی ہپو کریٹ لڑکی کو دیکھ رہے ہو۔ تم ہنس رہے ہو۔ لیکن ٹھہرو! تمہیں کچھ دکھانا چاہتی ہوں۔ یہ میری پوٹلی ہے۔ ہنسو نہیں۔ کھولو۔ کھول کر دیکھو۔ نہیں یہ تھیسس کے نوٹس ہیں۔ انہیں الگ کر دو۔ یہ شاعری سے متعلق پنگوین کی مختصر کتابیں نہیں ہیں۔ پیسواو، انااخمانود، نرودا۔ نہیں یہ نہیں۔ یہ کاغذ، یہ نوٹس، یہ سانٹس نہیں۔ پھر، پھر کیا؟

    سنو! تمہارے گھر سے جب میں اپنے گھر لوٹتی ہوں تو بہت دیر تک نیچے لان میں کھڑی رہتی ہوں۔ اندھیرے میں دیکھتی ہوں۔ زرد اینٹوں کی دیوار، ہری کھڑکیاں، کھڑکیو ں پر جھولتی ہوئی بیلیں۔ پوراایک بنگلا، ایک پورا مکان۔ جانتے ہو۔۔۔وہ اسے میرے لیے چھوڑ جائیں گے۔ میں کھلی آنکھوں سے ان کھڑکیوں اور ہوا میں سرسراتے ان پردوں کو دیکھتی ہوں۔ اب وہ کھانے کے کمرے میں بیٹھے ہوں گے۔ وہ خالی پلیٹوں کے سامنے اس وقت تک بیٹھے رہتے ہیں جب تک میں آنہیں جاتی۔ اپنی اکلوتی بیٹی کے انتظار میں۔ آدھے جاگتے، آدھے سوئے ہوئے۔

    فیٹی! جس طرح تم اپنے ماں باپ کے بارے میں سوچتے ہو اسی طرح وہ میرے بارے میں سوچتے ہیں۔ ایک دن جب وہ نہیں رہیں گے، میں ان کے وصیت نامے سے ایک سانپ کی طرح باہر نکلوں گی۔ وہ سانپ جو ساری املاک اور اثاثے پر پھن پھیلاکر اسے ڈس لیتا ہے۔ (یہ سانپ) ایک ایسا کیڑا ہے جو زندگی بھر ان کے بزرگوں کے خون سے چمٹا رہتا ہے اور ان کے مر جانے پر کونوں میں جاکر ان کی ہڈیوں کو اس وقت تک چاٹتا رہتا ہے، جب تک وہ بالکل صاف نہیں ہو جاتیں۔ ایک دن انہیں ہڈیوں پر بیٹھ کر جن پر خون اور گوشت کا نشان تک باقی نہیں، میں ان لوگوں میں مل جاؤں گی جوہر جگہ موجود ہیں۔

    نینی تال اور مسوری کی سڑکوں پر تم نے انہیں گھوڑوں پر سواری کرتے دیکھا نہیں۔ وہ بولتے ہیں، لکھتے ہیں، تصویروں میں رنگ بھرتے ہیں۔ میں انہیں میں ہوں۔ وہ بازار و لوگ نہیں ہیں۔ میں ان سے الگ نہیں ہوں۔ وہ کتنی صاف، بے داغ اور کتنی چمک دار ہڈیوں پر بیٹھے ہیں۔ فیٹی میں انہیں میں شامل ہوں۔ ان سے الگ نہیں ہوں۔ میں باغ کے اجلے نیلے اندھیرے میں سب دیکھتی ہوں اور بھاگنے لگتی ہوں۔ میں چیختی ہوں فیٹی۔ بھاگتے ہوئے دروازے کے پاس آتی ہوں لیکن دروازے کا تالا بند ہے اور تم باہر سڑک پر ہو۔ اپنے گھر لوٹ رہے ہو۔ میں اندھیرے میں دیکھتی ہوں اور تب مجھے وہ دوپہر یاد آتی ہے جب تم لائبریری میں آئے تھے۔ تم ایک اسٹیٹمنٹ لے کر آئے تھے، میں تمہیں اکثر دلی کی سڑکوں پر دیکھا کرتی تھی، پیڑوں کے نیچے، گھاس کے اسکوائر پر، اس کنسرٹ میں۔۔۔جس میں مینوہن پہلی بار ہندستان آئے تھے۔ میں تمہیں دیکھا کرتی تھی اور سوچتی تھی، نہیں سوچتی کچھ نہیں تھی (بلکہ) حیران سی ہوجاتی تھی کہ کس طرح کچھ لوگ دوسروں کی نجات کے لیے گھومتے ہیں۔ وہ غیر معمولی لوگ ہوتے ہوں گے۔ پرم ہنس، مدرٹریسا، مارٹن لوتھر کنگ۔۔۔وہ اپنا ہاتھ دوسرے کے شانے پر رکھتے ہوں گے اور سب کچھ بدل جاتا ہوگا۔

    اس دن جب میں نے تمہیں لائبریری میں دیکھا تو سوچا کہ تمہارے کاغذ پر اپنا نام لکھوں گی اور ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پاجاؤں گی۔ پھر میں نے تمہیں دیکھا اور اچانک خیال آیا کہ میں تم سے زیادہ خوش قسمت ہوں۔ کسی بھی وقت اپنا گھر چھوڑ کر دلّی سے باہر جا سکتی ہوں۔ دوسری طرح سے دیکھو تم مجھ سے کہیں زیادہ قسمت والے ہو۔ تمہاری اپنی بصیرتیں ہیں۔ ذرا سا سوئچ دباؤ اور وہ چمکنے لگتی ہیں۔ روشنی کے یہ دائرے جنہیں تم کسی بھی وقت باہر نکال سکتے ہو، بڑے قرینے سے سجاتے ہو۔ پورا ایک میوزیم ہے جو کرزن روڈ سے لندن کی وکٹوریہ پارک تک پھیلا ہے۔ نہیں سچ مچ تم مجھ سے کہیں زیادہ خوش قسمت ہو۔ ایک دن تم اپنے گھر کے کسی کونے میں ان لمحوں کی پوٹلی بھی رکھ لوگے جو میں نے تمہارے ساتھ گزارے تھے۔

    یہ پوٹلی وہ اپنے ساتھ لائی ہے۔ جانے سے پہلے وہ اسے دے دینا چاہتی ہے۔ اس پوٹلی میں مارچ کے پتے ہیں اور جولائی کی راتیں اور گل مہر کے پھول ہیں جومئی کے شروع میں کناٹ پلیس میں دہکتے تھے۔ کتابوں کی دکانیں ہیں اور ٹیلی فون کا بوتھ ہے۔۔۔منٹو برج ہے جس کے نیچے ایک دوپہر میں انہوں نے ایک دوسرے سے نجات حاصل کرنے کی دعا کی تھی۔

    کیا کوئی ایسی اذیت ہے جو اس شہر کے کونے سے باہر نہیں آتی۔

    وہ لائبریری سے باہر آئی تو دروازے پر فیٹی دکھائی دیا۔ فیٹی لپک کر اس کے پاس آیا۔ اس کا دل بیٹھنے لگا۔

    ’’تم کب آئے؟‘‘ اس نے بہت نحیف آواز میں پوچھا۔

    ’’میں دیر سے کھڑا ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’تم لکھنے میں مصروف تھیں۔ میں باہر سے تمہیں دیکھ رہا تھا۔‘‘

    ’’میں تمہیں کولکھ رہی تھی۔‘‘ اس نے کہا اور فیٹی دھیرے سے ہنسنے لگا۔

    ’’مجھے لکھ رہی تھیں؟ دکھاؤ۔‘‘

    ’’ابھی نہیں۔‘‘ اس نے اپنا سر اس کے سینے میں چھپا لیا۔ اس سے اس کو بہت سکون ملتا تھا جیسے دن بھر کی تھکی ماندی چڑیا اپنے گھونسلے میں دبک جاتی ہے۔

    ’’کیا لکھ رہی تھیں؟‘‘ اس نے اس کے بالوں پر اپنا منہ رکھ دیا۔

    ’’ایک بھید، ایک راز۔‘‘ اس نے کہا، ’’ایک معمہ۔‘‘

    ’’تم نے مجھے اسی لیے بلایا تھا۔‘‘ فیٹی نے اس کا چہرہ اٹھایا اور تب وہ دنگ رہ گیا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں جیسے وہ روکر اٹھی ہو یا بخار میں مبتلا ہو یا پھر نیند میں چل رہی ہو۔

    ’’اِرا!‘‘ اس نے کہا۔

    ’’شی۔۔۔‘‘ ارا نے اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، ’’چلو!‘‘ اس نے کہا، ’’وہ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔‘‘

    وہ باہر چلے آئے۔ کرزن روڈ کی روشنیاں جنوری کے کہرے میں جگنوؤں کی طرح چمک رہی تھیں۔ فیٹی نے اس کا تھیلا اپنے کندھے پر لٹکایا۔ وہ غور سے اسے دیکھنے لگی۔ وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسا اس نے اسے پہلی بار دیکھا تھا۔ چھوٹے پیروں میں پیشاوری چپل، کالی کارڈ رائے کی پینٹ، لمبا ڈھیلا براؤن سوئٹر جو ہمیشہ نیچے سے پھٹ جاتا تھا اور وہ اسے کالے دھاگے سے سی لیا کرتی تھی۔

    ’’اسکوٹر لوگی؟‘‘ فیٹی نے پوچھا۔

    ’’نہیں پیدل چلیں گے۔۔۔میں تم سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔۔۔‘‘

    ’’ارا۔۔۔کیا بات ہے؟‘‘ وہ بیچ سڑک پر ٹھٹک گیا۔ ارا چلتی رہی۔ سر پر اسکارف باندھے، سلیٹی رنگ کا کرتا پہنے، ماتھے پر کالی بندیا لگائے۔ اس نے دل کی دھڑکنوں کو یوں روک لیا جیسے کوئی تیراک کودنے سے پہلے اپنے سینے میں سانس روک لیتا ہے۔ یہی پل ہے۔ اس نے سوچا۔ یہی موقع ہے اگر میں ابھی نہیں کودی تو زندگی بھر کنارے کھڑی رہوں گی۔

    ’’فیٹی!‘‘ اس نے ایک قدم آگے بڑھایا۔ پھر دوسرا۔ پھر اس نے فیٹی کا سوئٹر پکڑ لیا۔ وہ آگے بڑھی اور آنکھیں موندلیں۔ اب وہ ہوا میں اٹھ چکی تھی۔ وہ کود رہی تھی۔

    ’’میں دلّی چھوڑ رہی ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔

    وہ ساکت تھی۔ سب کچھ ساکت تھا۔ جنوری کی اس شام میں وہ چپ چاپ چلتے ہوئے انڈیا گیٹ کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔

    ’’کب؟‘‘ فیٹی نے پوچھا، ’’کہاں جاؤگی؟‘‘

    وہ کھڑی ہو گئی۔ دھند کے درمیان پہلی جنگ عظیم میں مرنے والے کسی نامعلوم سپاہی کی یاد میں ایک لو جل رہی تھی۔ ’’میں نے ابھی کچھ نہیں سوچا اس (ارا) نے کہا، ’’ہندوستان بہت بڑا ہے۔‘‘ دھیرے سے ہنستے ہوئے اس نے فیٹی کا ہاتھ پکڑ لیا۔

    ’’میں کہیں بھی جا سکتی ہوں۔‘‘

    ’’گھر چھوڑ دوگی۔‘‘

    ایک لمحہ کے لیے وہ اس ویران سڑک پر ٹھٹک گئی۔ اسے یاد آیا کہ اس وقت ماں اپنے کمرے میں استری کر رہی ہوں گی۔ کھانے کی میز پر تین پلیٹیں لگی ہوں گی۔ پاپا ٹیلی ویژن دیکھ رہے ہوں گے۔ میں ان سب کو چھوڑ رہی ہوں۔ اب نہ گھر ہوگا نہ ان کا پیسہ۔ میں کہیں بھی رہوں گی بھوکی نہیں مروں گی۔ میں محفوظ ہوں بالکل محفوظ۔ شاید مایوسی کے عالم میں اس نے انڈیا گیٹ کو دیکھا۔ ہلکی چاندنی میں وہ ریت کا ایک ڈوہ جان پڑتا تھا۔ چاروں طرف لمبی لمبی گھاس، ہلتے ہوئے پیڑ۔

    ’’فیٹی!‘‘ اس نے کہا، ’’میری ایک بات مانوگے؟‘‘

    ’’کیا ارا؟‘‘ اس نے بہت دھیمے لہجے میں پوچھا۔

    قدرے توقف کے بعد اس نے کہا، ’’تم کبھی اپنا گھر نہ چھوڑنا۔‘‘

    ’’لیکن اس دن تو۔۔۔‘‘ اس نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے جملہ پورا کیا، ’’تم مجھ سے باہر جانے کے لیے کہہ رہی تھیں۔‘‘

    ’’باہر؟‘‘

    ’’باہر۔ باہر کی دنیا میں۔‘‘

    ’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ اس نے سرہلاتے ہوئے فیٹی کے ماتھے پر پڑے ہوئے بالوں کو ہٹایا اور کہا، ’’تب میں نہیں جانتی تھی کہ وہ تمہیں میں رہتے ہیں۔ وہ گھر ہی میں ہیں۔‘‘

    ’’وہ کون؟‘‘ فیٹی نے جھجکتے ہوئے کہا، ’’ارا! وہ تو کب کے مر گئے۔‘‘

    ’’مرگئے۔‘‘ وہ دھیرے سے ہنسی، ’’برآمدے میں رکھی کرسی، بستر کے عقب میں آسمان، ستاروں کی کہکہشاں۔۔۔وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

    ’’فیٹی مجھے دیکھو۔‘‘ اس نے اپنا چہرہ اوپر اٹھاکر سانس لینا چاہی لیکن پھر اسے روک لیا اور زرد چاندنی میں اپنی نظریں اوپر اٹھاتے ہوئے کہا، ’’کیا میں زندہ ہوں؟‘‘

    دھند اوپر کی طرف اٹھی اور پیڑ سر سرانے لگے۔ رات کی ہوا میں جینا، مرنا، گھر چھوڑنا سب کچھ ناممکن سا معلوم ہوا۔

    ’’فیٹی!‘‘ اس نے کہا، ’’تمہارے باپ کا ایک رجسٹر تھاجس میں وہ کچھ لکھنا چاہتے تھے۔۔۔تمہیں یاد ہے؟‘‘

    فیٹی نے اوپر دیکھا۔ دھند کے پار تارے چھٹک رہے تھے۔ ایک باریک سا اجالا پیڑوں کی چوٹیوں پر بکھرا ہوا تھا۔ لائف ہیئر اینڈ ہیئر آفٹر۔ کیا دونوں ایک ساتھ ایک ہی دنیا میں نہیں ہیں۔ زندگی یہاں اور وہاں۔ وہ ہمارے ساتھ جی رہے ہیں اور ہم ان کے مرنے میں شامل ہیں؟‘‘

    ارا اب اس کے ساتھ اپنے گھر کے سامنے کھڑی تھی۔ پھاٹک کھلا تھا۔ دونوں طرف یوکلپٹس کے پیڑ او ربیچ میں بجری والی سڑک اور ایک نیبو کی جھاڑی۔

    ’’فیٹی تمہیں یاد ہے۔‘‘

    ’’کیا بٹی؟‘‘ کبھی کبھی وہ پیار سے اسے بٹی کہا کرتا تھا۔ ایک بے سہارا بچی جو اس کا ہاتھ پکڑ کر دلی کی سڑکیں پار کیا کرتی تھی۔

    ’’کیا یاد ہے؟‘‘ اس نے پوچھا اور اسی وقت اس نے د یکھا کہ ارا پھاٹک کا پلا پکڑ کر اندر کہیں اندھیرے میں جھانک رہی ہے۔

    ’’ایک بار اور کہو۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’کیا؟‘‘

    ’’جو ابھی کہا تھا۔‘‘

    ’’بٹّی!‘‘

    اس نے فیٹی کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں فیٹی کے چہرے کو ڈھونڈنے لگیں۔ ’’ہم پچھلی جنوری میں ملے تھے۔ میں نے تمہیں فون کیا تھا تو تم گنتی گن رہے تھے۔ پورے بارہ مہینے۔۔۔‘‘

    لان کی خاک آلود نم روشنی میں وہ اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔

    ’’تم آج کیا لکھ رہی تھیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’لائبریری میں‘‘ اس نے فیٹی کے دونوں ہاتھوں سے اپنے رخساروں کو ڈھک لیا، اسی طرح جس طرح ماچس کی لَو کو روشن رکھنے کے لیے ہم اسے ہاتھوں سے ڈھک لیتے ہیں اور وہ جلنے بجھنے کے سے عالم میں ہوا میں جھلملاتی رہتی ہے۔

    ’’ایک اسٹیٹمنٹ۔‘‘ اس نے کہا، ’’ایک درخواست، جومیں اپنے نام لکھ رہی تھی۔ پھر مجھے اچانک پتہ چلا کہ جب کوئی اعتراف گناہ کرتا ہے تو یہ اعتراف اپنے لیے نہیں بلکہ خدا کے لیے بھی ہوتا ہے اور مجھے محسوس ہوا کہ تم بھی اس میں شامل ہو۔ ایک سال پہلے بھی ایک اسٹیٹمنٹ پر میں نے اپنا نام لکھا تھا۔ جانتے ہو میرے نام کے اوپر کس کا نام تھا؟‘‘

    ’’کس کابٹی؟‘‘

    ’’اذیت کا۔‘‘ اس نے دھیرے سے کہا، ’’جب تم باہر جانے لگے تو میں نے سوچاکہ میں تم سے پھر ملوں گی۔۔۔‘‘

    اندھیرے میں چابیوں کے کھنکنے کی آواز آئی۔ دونوں الگ ہو گئے۔ لالٹین کی روشنی میں چوکیدار کا چہرہ دکھائی دیا۔

    ’’بی بی جی گیٹ بند کرنا ہوگا۔‘‘ اس نے کہا اور محبت آمیز نگاہوں سے فیٹی کی طرف دیکھا۔ وہ ان دونوں کو ایک عرصے سے دیکھتا آ رہا تھا۔ فیٹی نے اس کا تھیلا کاندھے سے اتارا۔ وہ تھیلا جس میں تھیسس کی فائلیں، کتابیں اور ان سب کے نیچے ایک ناشتے دان دبا رہتا تھا۔

    ’’تم آؤگے؟‘‘ اس نے چپکے سے پوچھا تاکہ چوکیدار اس کی آواز نہ سن سکے۔

    ’’میں تمہیں دیکھوں گی۔‘‘

    گیٹ بند ہو جانے کے بعد بھی وہ وہیں کھڑا رہا اور بجری والی سڑک پر اس کے چلنے کی آواز سنتا رہا۔ پھر وہ بھاگنے لگا۔ بنگلے کے احاطے کے باہر ایک تنگ سا راستہ تھا۔ وہاں سے اس کا کمرہ دکھائی دیتا تھا۔ چھت پر ایک روشنی کا دیا۔ گھر لوٹنے سے پہلے وہ ہمیشہ اسے دیکھا کرتا تھا۔

    کئی برس بعد وہ مکان خالی ہو گیا۔ اب وہاں دوسرے لوگ رہتے ہیں لیکن فیٹی جب بھی ادھر سے گزرتا ہے ایک لمحے کے لیے تاریک گلی میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جیسے برسوں پہلے کھڑا ہوجاتا تھا۔ وہی ہوا میں جھومتے ہوئے یوکلپٹس کے پیڑ، نیبو کی جھاڑی، لان کے اوپر اس کا کمرہ۔۔۔وہ انتظار کرنے لگتا ہے۔ اب وہ آئی ہوگی، کمرے کی بتی جلائی ہوگی، اب کوئی ریکارڈ لگاکر بستر پر لیٹ گئی ہوگی۔ ایک نورانی سی آواز اینٹوں کی دیوار سے کانچ کے ٹکڑوں پر پھسلتی ہوئی اس کے پاس آتی اور اس سے لپٹ کر سرگوشی کرتی، ’’فیٹی! میں یہاں ہوں۔۔۔یہاں۔۔۔میں یہاں ہوں۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے