Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زون مال

دیپک کنول

زون مال

دیپک کنول

MORE BYدیپک کنول

    زون مال میری دادی کا نام تھا۔ کچھ لوگوں کو یہ نام بڑا عجیب سالگے گا مگر جب ہم اس نام کے معنی تلاش کرنے بیٹھ جائیں تو یہ نام بڑا رومانی اور شاعرانہ لگےگا۔ زون مال کشمیری میں چاند کی مالا کو کہتے ہیں۔ میرے خیال میں جب چاند ایک نیکلس کی طرح ہو جاتا ہے اُسی کو دیکھ کر کسی کو یہ نام سوجھا ہوگا۔ نام کے معنی جو بھی ہوں، حقیقت یہ تھی کہ میری دادی بڑی ہی وضعدار، قدآور اور نفاست پسند خاتون تھیں۔ اس گاوں کے بڑے بزرگوں نے دادی کا جلال بھی دیکھا ہے اور زوال بھی۔ جب وہ اس گھر میں دلہن بن کرآئی تھیں تب ہمارا گھرانہ اس علاقے کے امیر ترین خاندانواں میں شمار ہوتا تھا۔ ان کی ڈیوڑھی پر ہاتھی جھوما کرتے تھے۔ یہ بٹوارے سے قبل کی بات ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان دنوں ان کے پاس چار کریانے کی ہول سیل دکانیں تھیں۔ بڈگام کے پورے علاقے میں جتنے بھی چھوٹے موٹے دکاندار تھے وہ ان سے ہی مال خرید کر لے جایا کرتے تھے۔ ایسا اوج موج اور خوش بختی کا دور تھا کہ مٹی پکڑو سونا ہوتا تھا۔ زمینیں اتنی تھیں جن کا کوئی حساب ہی نہیں تھا۔ کچھ زمینیں مزارعے آباد کرتے تھے۔ کچھ زمینیں وہ خود کاشت کرتے تھے۔ گھر میں دو تین نوکر طلب پر رکھے گئے تھے جو کہ کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔ ایک لڑکا ڈنگروں کی دیکھ بھال کرنے کے لئے مقررتھا۔ گھر میں دودھ کی ندیاں بہتی تھیں۔ اس خاندان میں کل ملا کر چالیس افراد ایک ہی چھت کے نیچے مل جل کر رہا کرتے تھے۔ زمانہ سچائی اور سادگی کا تھا۔ چھل کپٹ، خودغرضی اور ریاکاری سے لوگ پاک وصاف تھے۔ تیرے میرے کا کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ ہر شخص میں بےریائی اور بے ساختگی تھی۔ سب لوگ یہی مان کر چلتے تھے کہ جو کچھ بھی ہے سب کا ہے۔ کسی نے اپنے نام پر الگ سے کوئی جائیداد کھڑی نہیں کی تھی۔ ہر چیز مشترک تھی۔ وہ کاروبار بھلے ہی الگ الگ سنبھالتے تھے مگر جو جتنا کما کر لاتا تھا گھر کے بڑے بزرگ کے سامنے لا کر رکھ دیتا تھا۔ ایک پیسے کی بھی ہیر پھیر نہیں ہو تی تھی۔ عورتیں بھی ایسی بیاہ کر لائے تھے جو رام جی کی گائیوں کی طرح تھیں۔ آجکل کی عورتوں کی طرح نہیں جو پہلی سہاگ رات سے ہی اپنے شوہر کے کان بھرنا شروع کر دیتی ہیں۔ گھر میں جتنی بھی بہوئیں تھیں سب کی سب دادی کا سمان کرتی تھیں اور اس کے آگے دب کے رہتی تھیں۔

    دادی گھر کی سب سے بڑی تھیں اس لئے گھر میں دادی کا حکم چلتا تھا۔ دادی کا ایسا دبدبہ تھا کہ اس کی رضاکے بنا پتا بھی نہیں ہلتا تھا۔ کھانا تو بہوئیں مل کر بناتی تھیں مگر پروسنا دادی کے ذمہ ہوتا تھا۔ جب تک دادی کھانے کو چھوتی نہیں تھیں، کسی کے منہ میں ایک دانہ نہیں جاتا تھا۔ دادی تھیں تو نری ان پڑھ مگر اس کی ذہانت کے آگے پڑھے لکھے لوگ بھی گھٹنے ٹیک دیتے تھے۔ دادی اکیلی میری دادی نہیں تھیں بلکہ پورے گاوں کی دادی تھی۔ ہندو ہو یا مسلمان دادی کو دادی کہہ کر ہی بلایا کرتا تھا۔

    کسی کے یہاں شادی بیاہ کی تقریب ہو تو دادی کی شرکت لازمی ہوتی تھی۔ دادی کے بنا کوئی بھی تقریب ادھوری سمجھی جاتی تھی۔ تیج تیوہار کے موقع پر دادی دو دو ہاتھوں سے دان پن کرتی تھیں۔ کوئی بھی اس کے در سے خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا۔ گھر میں ہر چیز کی فراوانی تھی اس لئے داددی دل کھول کر صدقہ خیرات کرتی تھیں۔ کوئی حاجت مند اگر رات کو در پر صدا لگاتا تھا تو دادی حاجت روای کرنے میں ایک پل کی بھی دیر نہیں کرتی تھیں۔

    دادی نے سخی کا دل پایا تھا۔ وہ ممتا کی مورت تھیں۔ وہ پیار کی گنگا تھیں۔ وہ اپنے پیار اور ممتا سے سب کوجل تھل کر دیتی تھیں۔ کسی کے گھر میں کوئی آفت افتاد پڑے تو سب سے پہلے دادی خیر خبر لینے پہونچ جایا کرتی تھیں۔ وہ قدمے درمے اور سخنے ان کی مدد کرتی تھیں۔ ان ہی گنوں کی وجہ سے وہ گاوں میں ہر دل عزیز تھیں۔ وہ جب بھی گھر سے کبھی باہر نکلتی تھیں تو راستے میں جو بھی ملتا تھا وہ تعظیم سے کھڑا ہو جاتا تھا۔ اتنی عزت و توقیر پاکر بھی وہ ہمیشہ اپنے جامے میں رہیں۔ کبھی اس نے اس بات کا غرور نہ کیا کہ وہ سب سے اعلی و ارفع ہے۔ وہ تو ہمیشہ عجز و انکسار کا پیکر بنی رہیں۔ گھر میں کبھی کسی نے دادی سے اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ جب دادا تھے تب بھی نہیں، اور جب دادا نہ رہے تب بھی نہیں۔

    میں نے دادا کو دیکھا نہیں۔ وہ تو میرے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ دادی کو بیحد چاہتے تھے۔ وہ دادی کے بنا ایک پل بھی نہیں رہ سکتے تھے۔ دادی نے ان پڑھ اور گنوار ہوکر بھی جس طرح گھر کو سنبھالا تھا، ان سب چیزوں کو دیکھ کر وہ دادی کے گرویدہ ہو کے رہ گئے تھے۔ دادا تھوڑے سے کنجوس تھے۔ یہ دادی تھیں جنہوں نے دادا کو بدل کے رکھ دیا تھا اور دادی ہی کی طرح ان کا بھی ہاتھ کشادہ ہو گیا تھا۔ اصل میں مرد کو بدلنا عورت کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو گھر کو جنت بنا سکتی ہے چاہے تو جہنم۔

    یہ تھی خوشحال دور کی کہانی۔ اس کے بعد وہ دور آیا جب سب کچھ لٹ گیا۔ قبائلیوں نے کشمیر پر حملہ کر دیا۔ اقلیتی فرقے کے لوگ اپنی زمین جائیداد چھوڑ کر نقلمکانی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ قبائلیوں نے ہمارے گھر سے سب کچھ لوٹ لیا۔ کسی شر پسند نے اس لوٹ پاٹ کے بعد گھر میں آگ لگا دی۔ دکانیں اپنے ہی لوگوں نے لوٹ لیں۔ ہمارا پریوار ایک سال تک سری نگر میں پناہ لینے پر مجبور ہو گیا۔ ایک سال کے بعد گھر کا شیرازہ ہی بکھر گیا۔ گھر کے تیا پانچے ہو گئے۔ دادی اور اس کا اپنا پریوار پھرسے گاوں میں بسنے کے لئے آ گیا جب کہ دادی کے جیٹھ اور دیور اپنے اپنے پریوار لے کر سری نگر میں ہی بس گئے۔ انہوں نے اپنے اپنے حصے کی زمینیں بیچ ڈالیں اور اپنا اپنا کاروبار شروع کیا۔ میرے والد کو سرکاری نوکری مل گئی جب کہ میرے چاچا نے خاندانی پیشے کو ہی اپنا لیا۔ وہ اپنے ہی گاوں میں دکانداری کرنے لگا۔ اب وہ ٹھاٹ بھاٹ تو نہیں تھے۔ بس جیسے تیسے گزر بسر ہوتی تھی۔ دادی جس کا ہاتھ ہمیشہ کھلا رہا تھا اب اُس حالت میں نہ تھیں کہ کسی غریب محتاج کی مدد کر پاتیں۔ ایسے موقع پر وہ جسطرح کے رنج و محن اور کرب سے گزرتی تھیں وہ نا قابل بیان تھا۔ وہ بیتے دنوں کو یاد کرکے چھاجوں رویا کرتی تھیں۔

    گھر میں میرے سمیت کل ملا کر آٹھ بچے تھے۔ سب سے بڑا میں تھا۔ سب بچوں میں دادی نے مجھے ہی حرز جاں بنا کے رکھا تھا۔ وہ کوئی بھی بات مجھ سے چھپاکے نہیں رکھتی تھیں۔ اب دادی کی وہ قدر منزلت نہ رہ گئی تھیں جس کی وہ عادی تھیں۔ اب بہو ئیں رام جی کی گائیں نہیں تھیں بلکہ وہ شیرنیاں بن کر رہ گئی تھیں۔ وہ اب زبان دراز ہونے لگی تھیں۔ دادی ان سے کچھ کہتیں تو وہ جواب میں پتھر سا دے مارتیں۔ اگر کبھی دادی کا دل کچھ کھانے کو کرتا تو وہ اسے گھنٹوں ترساتی تھیں۔ بیٹوں سے کچھ کہتیں تو وہ ماں کی طرفداری کرنے کی بجائے بیویوں کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے اور دادی کو ہی غلط ٹھہراتے تھے۔ یہ سب دیکھ کر دادی من مسوس کر رہ جاتیں۔

    دادی پیر فقیروں کو بہت مانتی تھیں۔ جب دادا حیات تھے تب وہ ان کے ساتھ مقدوم صاحب کے آستانے پر ماتھا ٹیکنے جایا کرتی تھیں۔ ایسے صوفی سنتوں کے دربار میں جاکر اس کے من کو بڑا سکون ملتا تھا۔ دادا چلے گئے۔ حالات بدل گئے۔ سب کچھ زیر و زبر ہوکے رہ گیا۔ ساری امنگیں تو مر گئیں بس ایک ہی خواہش ان کے دل میں سالوں پلتی رہی کہ وہ نند ریشی کے آستانے پر مرنے سے پہلے ایک بار ماتھا ٹیک کے آ جائے۔ نند ریشی کی زیارت گاہ ہمارے گاوں سے بہت دور تھی۔ وہاں تک پہونچنے کے لئے دوبسیں بدلنی پڑتی تھیں۔ پتا جی اور چاچا کو تو ان کاموں کے لئے فرصت ہی نہیں تھی۔ آئے دن وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا لیتے تھے۔ میں اُنکی اس بے رخی کو دیکھکر کڑھ کے رہ جاتا تھا۔ ایک دن میں نے فیصلہ کیا کہ میں دادی کو لے کر جاوں گا۔ جب میں نے دادی سے چلنے کے لئے کہا تو وہ جھٹ پٹ تیار ہو گئی۔ میں پتا جی سے ذاد راہ لے کر دادی کو لے کے نکل گیا۔ دادی آسانی سے چل پھر نہیں سکتی تھیں۔ انہیں چلنے کے لئے سالوں سے سہارے کی ضرورت پڑتی تھی۔ یا تو وہ لاٹھی کے سہارے چلتی تھیں یا کسی کے کاندھے پر بوجھ ڈال کر۔ اس نے اپنی لاٹھی تھامی اور ایک ہاتھ میرے کاندھے پر رکھ کر اور ایک ہاتھ میں لاٹھی تھام کر وہ میرے ہمراہ چلنے لگی۔ ہم نے پہلے سر نگر جانے والی بس پکڑ ی۔ گاڑی مسافروں سے ٹھسا ٹھس بھری پڑی تھی مگر دادی کو دیکھ کر کئی مسافروں نے اپنی اپنی سیٹ خالی کردی۔ دادی ایک نوجوان کی سیٹ پر اطمینان سے بیٹھ گئی۔ اس کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ ایسی شادماں دکھائی دے رہی تھی جیسے اسے کوئی غیبی خزانہ مل گیا ہو۔

    ہم گھر سے آٹھ بجے نکلے تھے۔ بارہ بجے کے قریب ہم چرار شریف پہونچے۔ چرار شریف کی زمین پر قدم رکھ کر دادی پھولے نہیں سما رہی تھیں۔ ایسی مسرت اور ایسا نور میں نے پہلی بار اس کے چہرے پر دیکھا تھا۔ وہ باربار مجھے ایسی نظروں سے نہارتی جا رہی تھیں جیسے وہ میری بلائیاں لے رہی ہو۔ اس کے برسوں کا سپنا پورا ہوا تھا۔ ہم کشاں کشاں نند ریشی کے آستانے تک پہونچ گئے۔ وہاں پرزائرین کا ایک ہجوم تھا۔ میں جیسے تیسے اس بھیڑ میں سے دادی کو کھینچتے ہوئے آستانے کی چوکھٹ تک لے گیا۔ جونہی ہم نے اندر جانے کی کوشش کی تو ایک متولی نے ہمیں اندر جانے سے روک لیا۔ بولا عورتوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے اور غیرمسلموں کو تو بالکل ہی نہیں۔ دادی کا دل ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو کے رہ گیا۔ اس نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو کہ کیا اس کے نند ریشی کا بھی بٹوارہ ہو گیا۔ اس نے متولی سے کوئی حجت نہ کی۔ بس نم آلودہ آنکھوں سے آکاش کی طرف دیکھا اور پھر آستانے کی چوکھٹ کو چوم کر وہ وہاں سے ہٹ گئی۔ اس کے بعد ہم سڑک کے کنارے جاکے بیٹھ گئے۔

    جگہ جگہ گرم گرم پراٹھے، سنگھاڑے اور پیاز کے پکوڑوں کی خوشبو ناک میں گھستے ہی من مچلنے لگتا تھا۔ دادی ساتھ نہ ہوتیں تو میں ایک دو چیزوں کا مزہ ضرور لے لیتا مگر دادی کے ڈر سے میں اپنے من کو مار کے بیٹھ گیا۔ دادی کو اندر نہ جانے کا کوئی ملال نہ تھا۔ وہ تو اتنی سی بات سے ہی خوش تھی کہ اس کے من کی مراد پوری ہو چکی تھی اور اس نے اپنے نند ریشی کی چوکھٹ کو چوم لیا تھا۔

    ہم رات کودیر سے گھر پہونچے۔ دادی تو تھکان سے نڈھال تھی۔ سارے بچے اس کے گرد گول بنا کے بیٹھ گئے اور بار بار اس سے پوچھتے رہے کہ وہ ان کے لئے کیا لائی ہے۔ دادی ان کے سروں پر باری باری ہاتھ پھیر کر کہتی۔

    ”میں تم سب کے لئے ڈھیر ساری خوشیاں اور سکھ شانتی لے کر آئی ہوں۔“

    اس رات دادی جلدی سو گئی۔ صبح جب وہ جاگی تو اس کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ اس نے مجھے پاس بلایا اور بڑی شادمانی کے ساتھ بولی۔

    ”پتا ہے آج میرے سپنے میں کون آیا؟“

    ”کون آیا دادی؟“

    ”میرے سپنے میں نند ریشی آیا تھا۔ کہنے لگا تم خود کیوں چلی آئی۔ مجھے کیوں نہیں اپنے پاس بلا لیا۔ میں تمہارے پاس خود چل کے آ جاتا۔“

    ماں اور چاچی نے جب سپنے کی بات سنی تو وہ عجیب سا منہ بنا کر دادی کا مذاق اڑانے لگیں۔ دادی قسمیں کھاتی رہی کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہی ہے مگر وہ کہاں ماننے والی تھیں۔ کہنے لگیں کہ یہ لن ترانیاں اپنے پاس ہی رہنے دیجئے۔ کسی اور نے سن لیا تو وہ سمجھے گا کہ آپکا دماغ چل گیا ہے۔ دادی کیا کہتیں۔ وہ تو بس اپنے آنسو پی کر رہ گئیں۔

    ایک دن کیا ہوا۔ ہمارے ہی پڑوس میں رحیم چاچا رہتے تھے۔ پیشے سے نائی تھے۔ کوئی لگی بندھی آمدنی تو تھی نہیں اس لئے گاوں میں گھوم گھوم کربال بنایا کرتے تھے۔ اس کام کے عوض جو چار پیسے مل جایا کرتے تھے اُسی سے گھر کا گزارہ ہوتا تھا۔ رحیم چاچا نسوار پھانکنے کے عادی تھے۔ دادی کو بھی نسوار سونگھنے کی لت لگ چکی تھی۔ جب بھی وہ دادی سے ملنے آتے تھے تو تھوڑی بہت نسوار دادی کو دے کر جایا کرتے تھے۔ نسوار کی ایک چٹکی دادی کو نہال کرکے رکھ دیتی تھی۔ ایک دن وہ آشفتہ حال جب دادی سے ملنے آ گئے تو اس کے چہرے کو دیکھ کر دادی چونکی۔ گھبرا کے پوچھا۔

    ”کیا بات ہے رحیما۔ یہ تمہارے چہرے پر ہوائیں کیوں اڑ رہی ہیں؟“

    رحیم چاچا رو پڑے۔ روتے روتے کہنے لگے۔

    ”دادی مجھ پر بڑی آفت آ گئی ہے۔ سات بیٹیوں میں ایک بیٹا اللہ نے مانگ مانگ کر دیا تھا وہی جان کنی کے عالم میں پڑا ہے۔ اگر اسے کچھ ہو گیا تومیں کہیں کا نہیں رہوں گا۔“

    ”یہ تو تم نے بڑی بری خبر سنائی مجھے“ دادی نے افسوس جتاتے ہوئے کہا، ”پر یہ تو بتا کہ تو اسے کسی ڈاکدر کے پاس لے کے نہیں گیا؟“

    ”لے کے گیا تھا دادی۔ اس نے کہا اپریشن کرنا پڑے گا۔ کم سے کم ہزار روپے کا خرچہ آئےگا۔ تم سے تو میری حالت چھپی نہیں ہے۔ یہاں روز پانی پینے کے لئے کنواں کھودتا ہوں تب جاکے پیاس بھجتی ہے۔ ایسے میں ننگی کیا نہائے کیا نچوڑے۔ بس ایک آخری آس سمجھ کر تمہارے پاس آیا ہوں تم ہی میرے بچے کی جان بچا سکتی ہو۔“

    دادی بڑے سنکھٹ میں پڑ گئی۔ وہ رحیم چاچا کو خالی ہاتھ لوٹا کر اس کا دل توڑنا نہیں چاہتی تھیں۔ بڑا سوچ بچار کیا اس نے۔ اسے یاد آیا کہ دادا کے مرنے کے بعد اس نے اپنے سارے گہنے اتار کے رکھ دئے تھے۔ کچھ بہو ئیں بہانے بہانے سے لے کے گئیں تھیں۔ کچھ زیور اُسنے اپنے پوتوں کے لئے بچا کے رکھے تھے۔ وہرحیم چاچا کو برامدے میں بٹھا کر خود اپنے کمرے میں چلی گئی اور ایک کونے میں پڑے اپنے زنگ آلودہ ٹرنک کھول کے بیٹھ گئی۔ اس کے ہاتھ وہ پوٹلی لگی جسمیں اس نے اپنے بچے ہوئے گہنے چھپا کے رکھے تھے۔ اس نے ہڑ بڑاہٹ میں وہ پوٹلی اس اندیشے سے کھول کے بھی نہیں دیکھی کہ کہیں بڑی یا چھوٹی بہو دیکھ نہ لے۔ وہ اس پوٹلی کو سب سے چھپاتے ہوئے باہر چلی آئی۔ باہر رحیم چاچا امید و بیم کی حالت میں بیٹھا تھا۔ وہ اسے پوٹلی تھماتے ہوئے بولی۔

    ”یہی پونجی بچی تھی میرے پاس۔ سوچا تھا کہ جب بنٹو کی دلہن آئےگی تو اسے یہ سب سونپ دوں گی۔ اب تم پر بپتا پڑی ہے تو سب سے پہلے مجھے تمہارے بارے میں سوچنا ہے۔ بنٹو کی جب ہوگی تب دیکھی جائےگی۔“

    رحیم چاچا نے جھٹ سے پوٹلی لے کر جیب میں چھپا لی۔ اتفاق سے چاچی وہاں سے گزری۔ اس نے رحیم چاچا کو پوٹلی چھپاتے ہوئے دیکھا۔ وہ اپنیجیٹھانی کو بلا کر باہر لے آئی۔ جب تک وہ باہر آکے رحیم چاچا سے باز پرس کرتیں، رحیم چاچا وہاں سے چھو منتر ہو چکا تھا۔ چاچی کے چہرے کا رنگ اڑ چکا تھا۔ اس کی چوری پکڑی گئی تھی۔ دونوں بہوئیں تھانیدار بن کر اس سے اس پوٹلی کے بارے میں پوچھ تاچھ کرنے لگیں۔ دادی سے کوئی جواب نہیں بن پڑ رہا تھا۔

    رات کو جب پتا جی اور چاچا گھر لوٹے تو وہ ایسے واویلا کرنے لگیں جیسے گھر پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ اب کے پتا جی اور چاچا باری باری دادای سے سوال کرنے لگے کہ اس نے رحیم چاچا کو ایسی کیا قیمتی شے تھما دی جو وہ چھپا کر بھاگ گیا۔ دادی انجان بنی رہی مگر اس کے جواب سے کسی کی بھی تسلی نہیں ہوئی۔ اگلے روز کیا ہوا کہ جب رحیم چاچا وہ زیور سونار کو بیچنے چلا گیا تو سونار کو کچھ شک ہوا۔ اس نے رحیم چاچا کو دکان میں بٹھا دیا اور خود اندر جاکر لڑکے کو پولیس چوکی میں دوڑا دیا۔ پولیس ترت پھرت آ گئی اور انہوں نے رحیم چاچا کو دبوچ لیا۔ اس پر چوری کو الزام لگا یا گیا۔ رحیم چاچا انہی یقین دلاتا رہا کہ اس نے چوری نہیں کی ہے بلکہ یہ سارے گہنے اسے زونہ مال نے اپنی مرضی سے دئے ہیں۔ تھانیدار نے چاچا کو تھانے میں طلب کیا۔ چاچا نے جب اتنے سارے گہنے دیکھے تو وہ دنگ رہ گیا۔ اس نے رحیم چاچا پر چوری کا الزام لگا دیا۔ رحیم چاچا بار بارایک ہی بات دہرائے جا رہا تھا کہ اس نے کوئی چوری نہیں کی ہے۔ اگر انہیں اُسکی بات کا یقین نہیں تو وہ ایک بار زونہ مال سے بھی پوچھ لیں۔ تھانیدار اس کی بات سننے کے لئے تیار نہ تھا۔

    جب چاچا نے گھر میں گہنوں کی بات بتا دی تو گھر میں ہنگامہ مچ گیا۔ ماں دادی پر چوٹ کرتے ہوئے بولی۔

    ”اسے کہتے ہیں آس پاس برسے، دلی پڑے ترسے۔ ہم پائی پائی کو ترس رہے ہیں جب کہ ہماری ساسوجی غیروں پرخزانے لٹا رہی ہیں۔ رام رام کیسا زمانہ آ گیا۔“

    ”بھابی اسے کہتے ہیں کہ گھر کے پیروں کو تیل کا ملیدہ۔“ چاچی نے لقمہ دیا۔ ماں اور شیر ہو گئیں۔ اُس نے پتا جی کی طرف غضب ناک نظروں سے دیکھا۔ پتا جی ڈھیلے پڑگئے۔ انہوں نے دادی کو سمجھاتے ہوئے کہا۔

    ”ماں تم میں خرابی کیا ہے کہ تم بہت جلد دوسروں کی باتوں میں آ جاتی ہو۔ ارے یہ وہ لوگ ہیں جو آنکھ سے کاجل چرائیں اور آنکھ کو پتا بھی نہ چلے۔ میں اس رحیم حجام کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ ایک نمبر کا مکار اور جھوٹا ہے وہ۔ آئے دن کسی نہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتا رہتا ہے۔ اب جو ہوا سو ہوا۔ اگر پولیس پوچھ گچھ کرنے آ جائے تو ان سے صاف کہہ دینا کہ میں نے اسے یہ گہنے نہیں دئے۔ تبھی یہ گہنے ہمیں واپس مل جائیں گے“

    دادی چپ کی مورت بنی بیٹھی رہی۔ چاچا ماں کے پہلو میں بیٹھ کر بولے۔

    ”یہ مت بھولو ماں کہ پندرہ بیس ہزار کے گہنے ہیں۔ اتنی رقم سے تو میں دو لڑکیاں بیاہ سکتا ہوں۔“

    اگلے روزپولیس رحیم چاچا کو پکڑ کر ہمارے گھر پر لے آئی۔ پولیس دیکھ کر بچے کونوں میں دبک کر رہ گئے۔ بہوئیں اگلے محاز پر مستعد کھڑی تھیں۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ دادی کہیں نرم پڑ جائے اور گھر کا مال کسی غیر کے ہاتھ لگ جائے۔ پتا جی اور چاچا بھی دادی کو گھیر کے بیٹھے تھے۔ اتنے میں تھانیدار حیم چاچا کو ہتھکڑی میں باندھ کر اندر لے آیا۔ وہ یتیموں جیسی صورت بنائے دادی کے آگے کھڑا تھا۔ دادی کو اس غریب پر ترس آیا۔ ساتھ ہی اس کے بچے کا خیال آکے من ڈولنے لگا۔ تھانیدار نے بڑے ادب سے دادای سے سوال کیا۔

    ”دادی یہ بندہ کہتا ہے کہ جو گہنے اس سے برامد ہوئے وہ آپ نے اسے دئے۔ کیا یہ سچ ہے؟“

    گھر کا ہر فرد دادی کی طرف بھوکی نظروں سے دیکھنے لگا۔ دادی کو لگا جیسے یہ سب لوگ اسے کچا ہی کھا جائیں گے۔ وہ دھرم سنکٹھ میں پڑ گئی تھیں۔ ایک طرف یہ غریب تھا اور دوسری طرف اس کا اپنا پریوار تھا۔ وہ اگر اپنے پریوار کو خوش کرنے کے لئے جھوٹ بولے تو اس غریب پر آفت آئےگی اور اگر وہ سچ بولے تو اس کا پریوار اسصدمے سے ٹوٹ جائےگا۔ وہ کیا کرے کیا نہ کرے اس کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ بڑی دیر کے بعد دادی نے وہی کیا جو اس کے ایمان نے کہا۔ اس نے تھانیدار سے کہا کہ اس نے اپنی مرضی سے وہ سارے زیور رحیم چاچا کو دئے ہیں۔ سبھی صدمے میں رہ گئے۔ دادی نے سب کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ بہوں کا بس چلتا تو وہ دادی کا منہ نوچ لیتیں۔ پولیس نے رحیم چاچا کو آزاد کر دیا۔ وہ دادی کے قدموں میں گر کر رو پڑا۔

    دادی کے اس فیصلے نے گھر میں تناو کی صورت پیدا کر دی۔ ہفتوں تک دادی سے کسی نے بات نہیں کی۔ کئی بار تو اسے بے خواب و خوار ہی رات گزارنی پڑیدادی رات رات بھر روتی رہی۔ کسی نے اس کی اشک شوئی نہیں کی اور نہ ہی اس کی دلجوئی کی۔ میں یہ سب دیکھ کے کڑھ کے رہ جاتا تھا۔ دادی اندر ہی اندر گھلتی جا رہی تھیں۔ افسوس کہ اس کا پرسان حال کرنے والا کوئی نہ تھا۔

    رحیم چاچا کو گہنے بیچ کر سترہ ہزار روپے ملے تھے۔ اس زمانے میں یہ بہت بڑی رقم مانی جاتی تھی۔ ایک طرح سے تو اس کے پو بارہ ہو گئے تھے۔ ایک دن وہ سویرے سویرے ہی دادی کے پاس پہونچا اور جیب سے نوٹوں کی گڑی نکال کر دادی کے سامنے رکھ دی۔ دادی نے حیران ہو کے پوچھا، ”یہ کیا ہے؟‘‘

    ”دادی یہ تمہاری امانت ہے۔ مجھے جتنے پیسے درکار تھے۔ وہ میں نے لے لئے۔ اب جو یہ بچی ہوئی رقم ہے اس پر میرا کوئی حق نہیں بنتا ہے۔ یہ تمہاری ہے۔“

    ”دی ہوئی چیز واپس نہیں لی جاتی پگلے۔ میں نے جو کچھ تمہیں دیا ہے وہ اب تمہارا ہے۔ بس ایک کرپا کرنا مجھ پر۔ جب میں اس سنسار سے چلی جاوں تو میری ارتھی کو کاندھا دینے ضرور آنا۔“

    رحیم چاچا دادی کی عظمت کے آگے سربہ سجدہ ہوکر رونے لگا۔ دادای اسے بچے کی طرح سہلانے لگی۔ ایسی تھی میری دادی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے