Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بیک ٹائی

ابراہیم جلیس

بیک ٹائی

ابراہیم جلیس

MORE BYابراہیم جلیس

    آج سے پچاس سال آگے کا واقعہ ہے۔

    روس اور امریکہ کے درمیان تیسری بلکہ آخری جنگ عظیم چھڑگئی۔ یہ جنگ صرف ایک گھنٹے جاری رہی اور دونوں ملکوں نے دنیا میں جگہ جگہ دھما دھم ایٹم او مگاٹن بم برسائے۔ اس کے بعد نہ روس دنیا میں باقی رہا نہ امریکہ اور نہ دنیا کا کوئی اور ملک۔

    ساری دنیا کھنڈر بن کر رہ گئی اور ہر طرف انسانوں کی لاشیں ہی لاشیں پڑی تھیں۔

    ایک گھنٹے کے اندر ایک بھی متنفس اس دنیا میں زندہ نہیں رہا۔

    جب ایک گھنٹہ گذر گیا تو دنیا میں کسی جگہ ایک پہاڑ کے غار سے ایک انسان نما بندر نکلا۔ وہ بڑی دیر تک لاشوں کے درمیان گھومتارہا اور لاشوں کو جیبیں ٹٹول کر سگریٹیں جمع کرتا رہا اور سگریٹیں پیتا رہا۔

    اتنے میں ایک جگہ جھاڑیوںمیں سے کسی کے کراہنے کی آواز آئی۔ انسان نما بندر نے جھاڑیوں کو ہٹاکر دیکھنا چاہا تو جھاڑیوں میں سے آواز آئی؛

    ’’میری طرف نہ دیکھیو میں بالکل ننگی ہوں کہیں سے مجھے ایک ’انجیر‘ کا پتہ لادو۔‘‘

    انسان نما بندر چونک پڑا اور سوچنے لگا۔

    ’’انجیر کا پتہ۔‘‘

    کیا نئی دنیا کا آغاز بھی پرانی دنیا کے آغاز کی طرح ’’انجیر کے پتّے‘‘ ہی سے ہوگا؟‘‘

    یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے لباس کا آغاز انجیر کے پتّے ہی سے ہوا یعنی انجیر کا پتّہ ہی انسان کا اولیں لباس ہے جسے سب سے پہلے امّاں حوّا نے پہنا تھا۔

    اور اب بھی کسی کیبرے ہال سے لے کر کسی تفریحی ساحل تک موجودہ مہذب ترقی یافتہ عورت کو دیکھ کر یہ سوچنا بھی غلط نہیں ہے کہ

    انسان کے لباس کی انتہا بھی انجیر کا پتہ ہی ہوگا۔

    ایک چھوٹا سا انجیر کا پتّہ زمانے اور انسان کی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی کرکے کسی طرح نت نئے لباسوں میں تبدیل ہوگیاہے۔

    یہ کوٹ، پتلون، فراک، اسکرٹ، عربی جبّہ، برمی لنگی، جاپانی کیمونو، افریقی چادر، چائنا شرٹ، پاکستانی شیروانی، ہندوستانی دھوتی وغیرہ وغیرہ۔

    یہ سب بھی تو انجیر کے پتّے کی ارتقائی شکل ہیں۔

    جب تک عیسائی مذہب سیاست سے ہم آہنگ نہیں تھا اس وقت تک دنیا کی ہرقوم کا اپنا ایک الگ لباس ہوتا تھا۔ اب بھی جہاں جہاں عیسائی مذہب کسی قوم کی سیاست پر اثرانداز نہیں ہوا وہاں اب بھی اس قوم کا اپنا ایک مخصوص قومی لباس ہے۔

    لیکن جن ملکوں میں عیسائیت سیاست سے ہم آہنگ ہوکر پہونچی وہاں کا قومی لباس محمود غزنوی کے چہیتے غلام ایاز کے ’’لباس غلامی‘‘ کی طرح پرانے صندوق میں چھپا دیاگیا ہے جو کبھی کبھار عید کے تہوار پر محض پرانی یاد تازہ کرنے کے لیے نکالا جاتاہے۔

    چنانچہ عیسائیت کا لباس کوٹ پتلون اور نکٹائی اب ایک بین الاقوامی لباس بن گیا ہے جسے اب عیسائیوں کے علاوہ ہرمذہب، ہر ملک اور ہرقوم کے باشندے پہنتے ہیں۔

    جہاں تک کوٹ پتلون والے لباس کا تعلق ہے اسے دیکھ کر کسی شخص کی قومیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ہاں البتہ چہرے کے رنگ یا بولی جانے والی زبان سے پتہ لگایا جاسکتاہے کہ فلاں شخص امریکی ہے یا فلاں شخص پاکستانی۔

    لیکن یورپ اور امریکہ میں یہ اندازہ بھی مشکل ہے کیونکہ ان براعظموں کے ملکوں کے سارے باشندے تقریباً سفید فام ہوتے ہیں اور سب ہی کوٹ پتلون پہنتے اور نکٹائی باندھتے ہیں۔

    کوٹ پتلون اتنے عام ہوگئے ہیں کہ ان کے بارے میں دنیا کا ہر شخص جانتا ہے کہ یہ کوٹ ہے، یہ پتلون ہے، یہ نکٹائی ہے وغیرہ وغیرہ۔

    لیکن دنیا کی بعض اقوام کے مخصوص لباسوں کے بارے میں دوسری اقوام کے لوگ نہیں جانتے کہ فلاں لباس کا نام کیاہے؟

    خاص طور پر پاکستانی شیروانی اور ہندوستانی دھوتی کو یورپ اور امریکہ کے لوگ دیکھ کر بڑے متحیر ہوتے ہیں اور بالالتزام ان کے نام پوچھتے ہیں۔

    راقم الحروف کو ایک بار ہانگ کانگ کی ایک دعوت میں شرکت کا اتفاق ہوا جس میں سارے یورپی اور امریکی باشندے مدعو تھے۔ راقم الحروف نے انھیں اپنے قومی لباس شیروانی سے متعارف کرانے کے لئے شیروانی پہنی اور اس دعوت میں پہونچا تو ساری یورپی اور امریکی عورتیں راقم الحروف کو دیکھ کر کھلکھلاکر ہنس پڑیں۔

    راقم الحروف نے جب ایک لیڈی سے اس ہنسی کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا،

    ’’تم نے ہم عورتوںکا اسکرٹ پہنا ہے تو ظاہر ہے کہ ہمیں ہنسی آئے گی۔‘‘

    شیروانی کی تراش خراش مغربی ملکوں کی عورتوں کے فراک یا اسکرٹ سے بہت ملتی جلتی ہوتی ہے اس لئے شیروانی پر اسکرٹ کا دھوکہ ہونا لازمی ہے۔

    یہ تو خیر مغربی ملکوں کی عورتوں کی معصومیت تھی انہیں شیروانی کا نام معلوم نہیں تھا مگر ہم پاکستانی باشندے جو عرصہ دراز تک ہندوستانیوں کے ساتھ رہتے آئے ہیں، یہ ہمیں آج تک نہیں معلوم تھا۔

    ہندو لوگ دھوتی باندھ کر دھوتی کو جو پیچھے سے اڑس لیتے ہیں اس ’اڑسنے‘ کا کیا نام ہے؟

    اور اس کا نام ہمیں اب معلوم ہواہے اور اس طرح معلوم ہواکہ ایک امریکی نے ایک ہندو کو روک کر پوچھا،

    ’’یہ دھوتی کو تم نے اس طرح اڑس رکھا ہے، اس ’اڑسنے‘ کا نام کیاہے؟‘‘

    ہندو نے اس امریکی کی نکٹائی پکڑ کر پوچھا،

    ’’پہلے تم اس کا نام بتاؤ۔‘‘

    امریکی نے جواب دیا،

    ’’اسے نکٹائی کہتے ہیں۔‘‘

    تو ہندو نے دھوتی کی ’’اڑسن‘‘ کے باے میں بتایا کہ ’’اسے بیک ٹائی (BACK TIE) کہتے ہیں۔‘‘

    بیک ٹائی۔۔۔ بڑادلچسپ اور انوکھا نام ہے۔ اب تک چونکہ یہ نام آپ لوگوں کو معلوم نہیں تھا اس لئے ہم نے آپ کو بتادیا کہ کوئی پوچھے تو آپ نہ لاجواب ہوں اور نہ آپ کی ’’نک کٹائی‘‘ ہو۔

    ’’بیک ٹائی‘‘ کا نام تو معلوم ہوگیا لیکن آگے احتیاط لازم ہے کیونکہ ’’بیک ٹائی‘‘ کھولنے کا انجام لازمی طور پر ’’مارکٹائی‘‘ ہے۔

    اسی لئے احتیاط لازمی ہے۔

    مأخذ:

    اوپر شیروانی اندر پریشانی (Pg. 60)

    • مصنف: ابراہیم جلیس
      • ناشر: مکتبۂ علم وفن، دہلی
      • سن اشاعت: 1966

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے