Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کمیٹی بیٹھی ہے

ابراہیم جلیس

کمیٹی بیٹھی ہے

ابراہیم جلیس

MORE BYابراہیم جلیس

    جمہوری نظام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ کسی کام کو منظم طریقے پر اور سلیقے سے انجام دینے کے چند افراد پر مشتمل ایک ’’کمیٹی‘‘ قائم کی جاتی ہے۔

    مثال کے طورپر آپ کے محلّے میں مچھّر بہت ہوگئے ہیں اور آپ اپنے شہر کی میونسپلٹی سے شکایت کریں کہ

    ’’ہمارے محلّے میں مچھّر بہت ہوگئے ہیں۔‘‘

    تو میونسپل کمیٹی ایک دم ڈی ڈی ٹی کا پَمپ لے کر مچھّر مارنے آپ کے ساتھ آپ کے محلے میں نہیں جائے گی، بلکہ وہ چند افراد پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کردے گی۔

    کمیٹی ہو یا سب کمیٹی۔ سب کمیٹیوں کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ

    پہلے وہ بیٹھ جاتی ہیں۔

    ثبوت کے طورپر آٖپ نے یہ بارہا سُنا اور پڑھا ہوگا کہ ’’کمیٹی بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘

    یہ بات آپ نے کبھی نہیں سُنی ہوگی کہ ’’کمیٹی کھڑی ہوئی ہے۔‘‘ حالانکہ ایک کمیٹی ایسی بھی ہوتی ہے جس کا نام ’’اسٹینڈنگ‘‘ (STANDING) کمیٹی ہوتا ہے مگر دیکھیے گا تو یہ اسٹیڈنگ کمیٹی بھی بیٹھی ہوئی نظر آئے گی۔

    بیٹھنے کے بعد کمیٹی کا دوسرا کام کسی مسئلے پر غور کرنا ہوتا اور اس کے بعد اخباروں میں خبریں شائع ہوتی ہیں کہ

    ’’کمیٹی بیٹھی ہوئی ہے اور غور کررہی ہے۔‘‘

    کمیٹی جب غور کرتے کرتے تھک جاتی ہے یا اکتا جاتی ہے تو جن حکّام نے کمیٹی قائم کی ہے ان کے سامنے رپورٹ پیش کردیتی ہے، اس کے بعد اخباروں میں یوں خبر شائع ہوتی ہیں کہ،

    ’’ملک میں طالب علموں کی اسکول فیس بہت کم تھی جس کے باعث غریبوں کے بچّے بھی عام تعلیم حاصل کرنے لگے تھے اور ملک کے بڑے آدمیوں کے بچّوں کو اچھی ملازمتیں حاصل کرنے میں دشواری پیش آرہی تھی، اس لئے اس پر قابو پانے کے لئے ایک کمیٹی بٹھائی گئی جس نے تعلیمی فیس کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے مسئلہ پر خوب غورکیا اور اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کردی۔‘‘

    اب اگر حکومت کو یہ اعتراض ہو کہ حکومت نے فیس کم کرنے کے لئے کمیٹی قائم کی تھی لیکن کمیٹی نے فیس بڑھانے کے لئے رپورٹ پیش کی ہے تو حکومت کمیٹی کی اس غیرذمہ دارانہ حرکت کی چھان بین کرنے کے لئے ایک اور کمیٹی قائم کرے گی پھر یہ کمیٹی بیٹھے گی اور غور کرے گی کہ اس کمیٹی نے ایسی غلط رپورٹ کیوں پیش کی۔

    اور پھر وہ صحیح رپورٹ پیش کرے گی۔ اس کے بعد ایک اور کمیٹی قائم ہوگی جو دونوں کمیٹیوں کی رپورٹ پر غور کرنے بیٹھے گی۔

    اور کمیٹیوں کے بیٹھنے کا سلسلہ ایسا لمبا چلے گا کہ جس مسئلہ جو حل کرنے کے لئے کمیٹی یا کمیٹیاں ’’بیٹھیں گی‘‘ وہ مسئلہ ہی اس دنیا سے ’’اٹھ جائے گا۔‘‘

    جس طرح ہم اور آپ مُرغی کو انڈوں پر بٹھاتے ہیں، حکومت اسی طرح مسائل پر کمیٹیاں بٹھاتی ہے۔

    مرغی انڈے پر بیٹھی ہوئی ہے

    کمیٹی مسئلہ پر بیٹھی ہوئی ہے

    پھر وہی مثال۔ آپ کے محلّے میں مچھّر بہت ہوگئے ہیں۔ آپ نے میونسپل کمیٹی سے شکایت کی اور میونسپل کمیٹی نے آپ کی شکایت پر کمیٹی بٹھادی۔ اب کمیٹی ٹی پیتے ہوئے بیٹھی ہے۔ غور کررہی ہے اور رپورٹ تیار کررہی ہے۔

    اس دوران مچھّر اور زیادہ ہوگئے ہیں۔ لوگوں کو کاٹ کاٹ کر ملیریا میں مبتلا کررہے ہیں۔ آپ پھر میونسپل کمیٹی کے پاس اپنی شکایت لے جاتے ہیں کہ

    ’’حضور۔۔۔ وہ مچھّروں کی زیادتی کا آپ نے کچھ نہیں کیا؟‘‘

    تو جواب ملتاہے،

    ’’اجی، ہم نے کمیٹی بٹھادی ہے۔‘‘

    آپ عرض کرتے ہیں،

    ’’حضور! آٖپ نے تو کمیٹی بٹھادی مگر لوگ ملیریا میں مبتلا اس دُنیا سے اُٹھتے جارہے ہیں!‘‘

    تو جواب میں ایک اور کمیٹی بٹھادی جاتی ہے کہ وہ کمیٹی بیٹھے اور غور کرے کہ آیا واقعی لوگ ملیریا میں مبتلا اس دُنیا سے اٹھتے جارہے ہیں؟

    اگر شہر میں ملیریا کے مچھّر زیادہ ہیں!

    اگر ملک میں تعلیمی فیس زیاد ہے!

    اگر ملک میں مہنگائی زیادہ ہے!

    اگر ملک میں مَرد اتنے زیادہ ہیں کہ شادیوں کے لئے لڑکیاں ناکافی ہیں!

    تو اصول یہ کہتا ہے کہ فوراً مچھّر ماردوائیں لے کر نکلو اور سارے مچھّر ہلاک کردو۔ تعلیمی فیس ارزاں کردو۔ مہنگائی کا خاتمہ کردواور بیرونِ ملک سے لڑکیاں درآمد کرو۔

    لیکن ہوتا یہ ہے کہ کمیٹیاں بٹھادی جاتی ہیں۔ عوام تو پریشان کھڑے ہیں اور کمیٹی بیٹھی ہوئی ہے۔

    اِس بات سے شبہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کام کو خوش اسلوبی سے ٹالنا ہو تو کمیٹی بٹھادو۔

    کمیٹی بیٹھی کی بیٹھی رہے گی اور مسئلہ آپ سے آپ اُٹھ جائے گا۔

    ہم اکثر پُرانے زمانے کی عورتوں سے یہ ’’کوسنا‘‘ سنا کرتے تھے۔

    ’’خدا کرے تجھے ’’کمیٹی والے‘‘ لے جائیں۔‘‘

    اور ہم یہ سمجھتے تھے کہ کمیٹی والے سے مراد میونسپل کمیٹی والے ہیں جو لاوارث لاشیں اٹھا لے جاتے ہیں مگر اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’’کمیٹی والوں‘‘ سے مراد اسٹینڈنگ کمیٹی، سب کمیٹی، ایڈہاک کمیٹی وغیرہ ہیں۔ میونسپل کمیٹی نہیں۔

    اللہ کرے کہ ان ’’کمیٹیوں‘‘ کو (میونسپل) ’’کمیٹی والے‘‘ لے جائیں۔ جب تک یہ کمیٹیاں ’’بیٹھی‘‘ رہیں گی قوم کبھی ’’کھڑی‘‘ نہیں ہوگی۔

    ’’ان اللہ ماری کمیٹیوں نے تو قوم کا بیڑہ غرق کر رکھا ہے۔‘‘

    مأخذ:

    ہنسے اور پھنسے (Pg. 46)

    • مصنف: ابراہیم جلیس
      • ناشر: راجیو پرکاشن، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1978

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے