Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خط لکھیں گے۔۔۔

فکر تونسوی

خط لکھیں گے۔۔۔

فکر تونسوی

MORE BYفکر تونسوی

     

    آنریبل ادگھاٹن سنگھ جی کے نام

    وزیر صاحب قبلہ! 

    کل آپ نے جوتیوں کی دوکان کا ادگھاٹن کرتے ہوئے ایک شعر پڑھاتھا، 

    جب بھی کسی نے محبوب کا نام لیا
    ہم نے دل اور جگر دونوں کو تھام لیا

    ایک حسین شعر کو آپ نے صرف اس لیے ذبح کرڈالا کیونکہ آپ وزیر تھے۔ اگر آپ آب پاشی کے وزیر ہوتے تو بے شک آپ شعر و ادب کا ستیاناس کرسکتے تھے لیکن آپ کو یہ یاد نہیں رہا کہ آپ تعلیم کے وزیر ہیں۔ آنریبل ادگھاٹن سنگھ جی! آپ اپنے حافظے کی طرف خاص دھیان دیجیے کہ آپ کس محکمے سے متعلق ہیں۔ 

    میرا خیال ہے آپ نے گزشتہ مہینے چارپائیوں کی دوکان کا ادگھاٹن کرتے وقت بھی یہی غلط شعر پڑھا تھا اور ایک چٹ فنڈ کمپنی کی میٹنگ میں بھی یہی غلط شعر ارشاد فرمایا تھا۔ کیا آپ کو کوئی اور غلط شعر نہیں آتا؟ میرا مطلب ہے کبھی کبھی ایک آدھ صحیح شعر بھی پڑھ دیا کیجیے اور اگر یہی غلط شعر ہی پڑھنا ہے تو اس میں وقتاً فوقتاً تھوڑی تبدیلی اور اصلاح کرلیا کیجیے یعنی ہمیشہ دل و جگر ہی نہ تھاما کیجیے، کبھی پھیپھڑا بھی تھام لیا کیجیے۔ آخر دوسرے اعضاء نے کیا قصور کیا ہے۔ سب کے ساتھ سوشلزم برتیے۔ سنا ہے آپ سوشلزم کے بڑے حامی ہیں۔ (اس انکوائری کمیشن کا کیا بنا جو آپ کی ناجائز اولاد کے سلسلے میں مقرر کیا گیا تھا؟) 

    بائی دی وے! یہ بتائیے کہ آپ وزیر بننے سے پہلے کیا کام کرتے تھے؟ کیا یہ افواہ صحیح ہے کہ آپ ناجائز شراب کی بھٹی چلاتے ہوئے ایک بار گرفتار ہوگئے تھے لیکن بعد میں نشہ بندی کمیٹی کے چیرمین بنادیے گئے تھے۔ ماضی تو آپ کا برا نہیں تھا۔ اپنا ’’حال‘‘ کیوں بگاڑ لیا اور غلط شعر پڑھنے لگے۔ لیکن قسمت کے دھنی ہو آنریبل! غلط شعر پر بھی سامعین سے داد کی تالیاں بجوالیتے ہو۔ 

    نوجوان بھکارن کے نام

    رام کلی ڈارلنگ! 
    میں نہیں جانتا تمہارا نام رام کلی ہے یا چمپا کلی، کیونکہ بھکارن کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ وہ نام سے نہیں کام سے پہچانی جاتی ہے اور ’’ڈارلنگ‘‘ میں نے تمہیں اس لیے لکھ دیا کیونکہ خالی رام کلی کچھ اچھا نہیں لگتا۔ پھیکا پھیکا سا لگتا ہے۔ ’’ڈارلنگ‘‘ کا لفظ صرف تمہاری تکمیل کے لیے لگایا ہے۔ جیسے لوگ اپنے نام کے ساتھ نواب، سردار، چودھری، شری یا مہاشے لگاکر اپنے نام میں جان پیدا کردیتے ہیں۔ 

    رام کلی! میں یہ بھی نہیں جانتا کہ تم کہاں سے آئی ہو۔ ہوسکتا ہے تمہارا سلسلہ نسب بھی کسی سردار، چودھری یانواب سے ملتا ہو، کیونکہ اس دنیا کا ہر انسان کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی ’’رائل فیملی‘‘ سے متعلق رہا ہے (ہمارے محلے کا حلوائی اپنے آپ کو سورج بنسی خاندان سے جوڑتا ہے) عین ممکن ہے تمہاری پردادی بھی کسی شہزادے کی محبوبہ رہی ہو۔ میں ایسے کئی سفید پوش چودھریوں کو جانتا ہوں جو یا تو کسی نہ کسی رام کلی کے بطن سے نمودار ہوئے یا کسی نہ کسی حسین اور جوان رام کلی کے بطن سے آنے والے چودھریوں کو نمودار کرنے کا باعث بنے۔ 

    یہ حسب نسب کی تکلیف دہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں رام کلی ڈارلنگ کہ جس پیڑ کے نیچے چند ماہ پہلے تم رین بسیرا کرتی تھیں، وہاں سے تم ایک دم گم ہوگئیں لیکن اب کے جب تم پھر لوٹی ہو تو تمہاری گود میں ایک ننھا سا بچہ بھی تھا۔ مستقبل کا ایک اور ننھا بھکاری۔ سچ سچ بتاؤ تم کس راج محل میں چلی گئی تھیں۔ سوسائٹی کا کوئی شہزادہ، کوئی چودھری، کوئی سردار تمہیں شاہی نسل کی بدنصیب راج کماری سمجھ کر لے گیا تھا اور تمہارے بطن سے ایک راج کمار پیدا کرنے کے بعد تمہیں پھر اس پیڑ کے نیچے پھینک گیا ہے۔ تاکہ تم اپنے پیڑ کے ساتھ جڑجاؤ۔ معلوم ہوتا ہے رام کلی! رائل فیملی ابھی تک تمہیں نہیں بھولی، ان کی رگوں کا لہو تمہارے لیے آج بھی کبھی کبھی مچل اٹھتا ہے۔ 

    بہرکیف تمہیں بیٹا مبارک ہو۔ بڑا ہو کر یہ بھی بھکاری بن جائے گا۔ نسل کوئی بھی ہو رام کلی! اسے قائم رہنا چاہیے۔ کم از کم اس کی وجہ سے خاندان کا نام تو زندہ رہے گا۔ گداگری کی رسم تو جاری رہے گی۔ 

    گھر کے چوہے کے نام

    برخوردار نور چشم عزیزی چوہے! 
    جے ہماری بلی کی (جو کسی بلے کے ساتھ بھاگ گئی ہے) اور بعد اس جے کے، میں تم سے ایک خانگی قسم کی شکایت کرنا چاہتا ہوں کہ میری بیوی کی تازہ ترین اطلاع کے مطابق اب گھر میں پانچ چوہے آچکے ہیں اور ان سبھوں کو تم لے آئے ہو۔ 

    دیکھو عزیز! میں تم کو اپنا لے پالک سمجھتا ہوں اور تم میرے گھر میں یوں رہ رہے ہو جیسے میری جائداد پر تمہارا آبائی حق ہے۔ تم چینی کی پلیٹ توڑدو، صابن کی ٹکیہ اٹھاکر باہر گلی میں پھینک آؤ، میز پوش کترڈالو، کتابیں کھاجاؤ، پھلوں سے ناشتہ کرو، مرغی سے ڈنر یا آلوؤں سے لنچ۔ میں نے کبھی اس کا برا نہیں مانا، بلکہ ہمیشہ یہ سوچ کر معاف کردیا کہ اولاد نالائق ہو تو اسے گھر سے باہر نہیں نکال دیتے۔ 

    مگر میری اس رواداری اور شفقت کا تم نے غلط مطلب نکال لیا اور تم میرا گھر برباد کرنے کے لیے چار مزید مسٹنڈے لے آئے ہو۔ نتیجہ یہ کہ اب میرا خرچہ چار گنا بڑھ گیا ہے۔ اے ناخلف! میں تمہیں تو اس لیے برداشت کر رہا تھا کہ ایک آدھ چوہا گھر میں ضرور رہنا چاہیے۔ اس سے ذرا گھر کی رونق اور ورائٹی قائم رہتی ہے۔ گھر میں چوہا نہ ہو تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی میں کوئی چیز کم ہے اور پھر تمہاری وجہ سے مجھے ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ چور ہمارے گھر آنے سے کتراتے تھے۔ کیونکہ رات کی گہری تاریکی میں جب سارا گھر سوجاتا ہے تو تم فوراً بیدار ہوجاتے ہو اور گھر بھر میں اچھل کود، کھڑکھڑ اور توڑ پھوڑ کرتے رہتے ہو۔ چور ان آوازوں کو سن کر الٹے پاؤں لوٹ جاتے ہیں کہ جب گھر میں ایک چور پہلے سے موجودہے تو ہماری گنجائش کہاں ہے۔ 

    لیکن اے بدبخت! تم نے اسے ہماری کمزوریوں پر محمول کیا۔ تمہیں اتنی عقل نہیں آئی، چراغ خانہ صرف اکلوتا چوہا ہوتاہے، پانچ پانچ چوہے نہیں ہوتے۔ پہلے سارے گھر پر صرف تمہاری مناپلی تھی لیکن اب جائداد کے چار وارث اور پیدا ہوگئے ہیں۔ تمہیں اتنا احمق نہیں سمجھتا تھا کہ اپنی سلطنت میں غیر ملکیوں کو دخل دینے کی اجازت دے دو گے۔ فرض کرو، کل کلاں یہ چاروں چوہے مل کر تمہیں ہی اس گھر سے بھگادیں تو کہاں جاؤگے نالائق۔ 

    لہٰذا میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ اس خط کو تار سمجھو اور ان چاروں غیر ملکیوں کو نکال دو، ورنہ تمہیں بھی بوریا بستر اٹھاکر چل دینا ہوگا۔ میں بلی کو مناکر پھر لے آؤں گا۔ چوہے دان کا استعمال سنجیدگی سے شروع کردوں گا۔ تمہیں صرف دو دن کی مہلت دی جاتی ہے۔ سنبھل جاؤ ان چاروں چوہوں کو دھوکے سے پھسلاکر پڑوسی دھنی رام کے گھرلے جاؤ۔ وہاں میرے گھر سے زیادہ پھل آتے ہیں کیونکہ اس کا بہنوئی ایک تھانے دار ہے۔ 

    نہال چند ڈاکیے کے نام

    نہال چند جی! 
    یہ تم نے کیا غضب کردیا کہ کسی مس پربھا کی چٹھی میرے گھر پھینک گئے۔ میں نے کھول کر پڑھا(یہ میری بداخلاقی تھی) تو وہ کمبخت ’’لولیٹر‘‘ نکلا۔ لفافے پر ایڈریس لکھا تھا، فقیر چند کا۔ تم سمجھے یہ فکرتونسوی کا خط ہے۔ لفافہ عطر کی خوشبو میں بسا ہوا تھا۔ بھلے آدمی! نام نہیں پڑھا جاتا تو کم از کم لفافہ سونگھ ہی لیتے کہ یہ خط فکر تونسوی کا نہیں ہوسکتا۔ تمہاری معلومات میں اضافے کے لیے یہ عرض کردوں کہ فکر تونسوی کو کوئی نامۂ الفت نہیں لکھتا، اسے تو ماتمی خط ملتے ہیں یا قرض خواہوں کے۔ یہ حرکت کرکے تم نے صرف مس پربھا اور فقیر چند کے عشق ہی کو رسوا نہیں کیا، محکمہ ڈاک و تار کو بھی رسوا کردیا۔ 

    اور نہال چند، اس المیے کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ اگر مس پربھا کا خط میرے پاس پہنچ گیا ہے تو ہوسکتا ہے کہ میرا کوئی خط تم مس پربھا کو دے آئے ہو۔ یا اس ناہنجار فقیر چند کو دے آئے ہو۔ اور ہوسکتا ہے وہ میری بیوی کا خط ہو، جو مجھے طلاق کی دھمکی دے کرمیکے چلی گئی تھی۔ میں اس کی گالیوں بھرے خط کا انتظار کر رہا ہوں اب وہ گالیاں میرے بجائے فقیر چند کو مل گئی ہوں گی۔ نجانے فقیر چند اب میرے بارے میں کیاسوچتا ہوگا۔ اس کے دل میں میری جو عظمت ہوگی وہ خاک میں مل چکی ہوگی۔ 

    ہائے ظالم نہال چند! تم نے سب کچھ بنڈل کردیا۔ مس پربھا، فقیر چند، فکر تونسوی۔۔۔ سب کے راز فاش کردیے۔ ابے اندھے! اپنی عینک کا نمبر کیوں نہیں ٹھیک کرالیتے؟ 

    مس پربھا کا ’’لولیٹر‘‘ ابھی تک میرے پاس ہے۔ میرے لیے وہ بیکار ہے، فقیر چند کے لیے اکسیر ہے۔ نامۂ محبوب نہ ملنے پر نہ جانے اس بچارے پر کیا بیت رہی ہوگی۔ کل بے اختیار میرا جی چاہا قاصد بن کر یہ خط فقیرچند کو دے آؤں لیکن عقل نے سمجھایا، اس سے عاشق کی رسوائی ہوگی۔ خواہ مخواد نادم ہوجائے گا۔ میں ذاتی طور پر عشق کی رسوائی کا قائل نہیں ہوں۔ 

    اس لیے نہال چند! یہ تمہارا اخلاقی فرض ہے کہ مجھ سے وہ خط لے جاؤ اور فقیر چند کے حوالے کرآؤ اور ہاں، یہ بات نوٹ کرلو کہ اگر آئندہ مس پربھا کا کوئی خط تم نے میرے گھر دیا تو میں اس کی اطلاع مس پربھا اور انسپکٹر جنرل ڈاک خانہ جات دونوں کو دے دوں گا۔ 

    پاچھی غنڈے کے نام

    کل سیٹھ لومڑ چند جی (ہلدی کی تھوک اور پرچون والے) شکایت کر رہے تھے کہ پاچھی مجھ سے خفا ہوگیا ہے۔ حالانکہ میں اس پر زائد از ایک لاکھ روپیہ صرف کرچکا ہوں لیکن اب وہ مجھے چھوڑ کر سیٹھ گودڑ چند جی (کھدر ریشم رنگ والے) کا غنڈہ بن گیا ہے۔ باتو ں باتوں میں انہوں نے اشارہ کیا کہ اب وہ کسی اور غنڈے کی تلاش میں ہیں، جو ان کی جان و مال کی حفاظت کرسکے اور پاچھی کو بھی سر بازار للکار کا مزا چکھاسکے۔ 

    پاچھی دادا! میں نہ لومڑ چند ہوں نہ گودڑچند، اس لیے مجھے تم سے شکایت نہیں ہے۔ لیکن ایک نکتہ پر تم ضرور واضح کرنا چاہتا ہوں کہ تم نے اپنا سیٹھ بدل کر غلطی کی۔ اس سے تمہارے کردار پر ناحق ایک دھبہ آگیا۔ لومڑ چند ہو یا گودڑ چند، تمہارے لیے دونوں برابر ہیں۔ دونوں ایک ہی غزل کے دو قافیے ہیں۔ تمہیں تو خدمت کرنا ہے۔ کسی کی کرلو۔ دونوں کے لیے تم بازار کی جنس ہو۔ ایک فروختنی جنس، تمہیں ان میں سے کوئی بھی خریدلے، تمہیں اس سے کیا۔۔۔؟ مگر پاچھی! غنڈے کے کردار کی بلندی یہ ہے کہ وہ ایک بار جسے مالک کہہ دے، اسی کا وفادار بن کر رہے۔ تم ذرا سوچو، کتے تک اپنا مالک نہیں بدلتے اور تم تو انسان ہو۔ 

    اور پھر یہ بھی تو نہیں کہ گودڑچند کے پاس جاکر تم کوئی ایسی نئی اور اچھوتی خدمت انجام دوگے جو لومڑ چند کے ہاں انجام نہیں دیتے تھے؟ نہیں پاچھی دادا! تمہارا کام ہر جگہ ایک جیسا رہتا ہے۔ یعنی جیب میں چھرا رکھنا، سیٹھ کے مخالفوں کو ڈرانا دھمکانا، مالک کی ناجائز اور نازیبا حرکتوں پر اپنی قوت اور شوکت کا پردہ ڈالنا اور موقع ملے تو ایک آدھ مخالف کا سراتار کر گندے نالے میں پھینک دینا۔ تمہیں یاد ہوگا کہ ایک بار سیٹھ لومڑ چند کے الیکشن جلسے میں تم نے سیٹھ گودڑچند کے تین چار حمایتیوں کے دانت توڑڈالے تھے۔ اب تم اسی سیٹھ گودڑچند کے غنڈے بن کر لومڑ چند کے حمایتیوں کے دانت توڑدوگے۔ تمہارے بنیادی رول میں کیا فرق پڑا پاچھی! ذرا سوچو ذراسوچو۔ اس میں لومڑ چند یا گودڑچند کی رسوائی نہیں، تمہاری رسوائی ہے۔ آنے والے مؤرخ تمہارے بارے میں کیا لکھیں گے کہ پاچھی نے چند ٹکوں کی خاطر غنڈہ نسل کا ایمان بیچ دیا۔ 

    اس لیے میری مانو تو لوٹ آؤ۔ لوٹ آؤ سیٹھ لومڑ چند کے پاس لوٹ آؤ کہ لومڑ چند کا وزن بھی مع توند ایک کونئٹل ہے اور گوڈر چند کا وزن بھی مع توند ایک کوئنٹل ہی ہے۔ 

    پڑوسی منگل چند کے نام

    پیارے منگل چند جی! 

    تم سے ایک بات کہوں، برا تو نہیں مانوگے؟ 

    تم ہر روز میرے ہاں تشریف لے آتے ہو اور میری میزبانی کے اخلاق سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہو۔ ناجائز فائدوں کی ایک مختصر سی فہرست ملاحظہ فرماؤ، 

    (۱) میرے سگریٹ پھونک جاتے ہو۔ کبھی کبھی ایش ٹرے بھی میز پر الٹ دیتے ہو۔ 

    (۲) میرے رسالے اور کتابیں اٹھاکر لے جاتے ہو اور اول تو لوٹاتے نہیں اور اگر لوٹاتے بھی ہو تو زخمی حالت میں۔ 

    (۳) تم چائے کا مطالبہ کرتے ہو اور وہ بھی دودھ اور چینی کی اس مہنگائی کے زمانے میں۔ 

    (۴) اپنی وقت گزاری کے لیے تم میرا قیمتی وقت برباد کرجاتے ہو۔ 

    (۵) تم دنیا کی بے ایمانیوں کا رونا روتے ہو، جو میرے لیے کوئی نیا انکشاف نہیں ہے۔ 

    (۶) کبھی کبھی مجھ سے ادھار بھی مانگ لیتے ہو جو ہمیشہ ادھار ہی رہتا ہے۔ 

    یہ خط تمہیں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ میں زبان کا بزدل اور تحریر کا شیرافگن ہوں۔ شاید میرے اس خط کی تحریر سے تم سنبھل جاؤ اور آئندہ ان حرکتوں سے باز آجاؤ اور اگر تم واقعی برا مان گئے تو بھئی! بے شک آجایا کرو۔ میں تمہاری خاطر اپنا اخلاق ترک کردوں گا۔ اطمینان رکھو۔ 

    گھائل نامراد آبادی کے نام

    قبلہ گھائل صاحب! 
    میں نے اکثر آپ کا کلام سنا ہے۔ پڑھا بالکل نہیں۔ کیونکہ آپ کا کلام پڑھنے کے قابل نہیں صرف سننے کے قابل ہے۔ خدا نے آپ کوگلا نہیں جل ترنگ عطا کیا ہے۔ اگر شاعر کی بجائے قوال بن جاتے تو زیادہ نیچرل رہتے۔ اس سے جہاں شاعری آپ کی دستبرد سے محفوظ رہتی، وہاں قوالوں کے قبیلے کی ساکھ اور تعداد بھی بڑھ جاتی۔ اف، آپ کے شعر کتنے بے معنی ہوتے ہیں لیکن آپ کا گلا کتنا معنی خیز ہوتا ہے۔ آپ کا گلا نہیں ہے ڈکشنری ہے۔ 

    کل ایک اور شاعر نے آپ کی تذلیل کرنے کی خاطر مجھے بتایا کہ آپ دراصل خود شاعری نہیں کرتے بلکہ دوسروں سے لکھواتے ہیں۔ یہ تو انتہائی ناشائستگی ہے۔ گھائل صاحب! کبھی کبھی خود بھی شعر لکھا کیجیے۔ جب بے معنی شعر ہی لکھنا ہیں تو خود لکھنے میں کیا ہرج ہے؟ کوشش کرکے دیکھیے تو سہی۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ آپ اس سے بھی زیادہ بے معنی شعر لکھ سکتے ہیں۔ تخلیق چاہے کیسی بھی ہو، اپنی ہونی چاہیے۔ 

    اور ہاں، وہ جو آپ کی ایک کلاسیکل اچکن ہے، اسے اب بدل ہی ڈالیے۔ وہ بھی اب آپ کے اشعار کی طرح بے معنی ہوچکی۔ افواہ ہے کہ آپ کے پردادا جناب قاتل نامراد آبادی نے بھی یہی اچکن پہن کر شہنشاہ جارج پنجم کے دربار دہلی میں قصیدہ پڑھنے کے لیے زیب تن فرمائی تھی۔ لیکن قبلہ گھائل! اب تو شہنشاہی دور ختم ہوگیا ہے۔ ڈیموکریسی آگئی ہے۔ کوئی ڈیموکریٹک اچکن پہنا کیجیے۔ شاعری نہ سہی اچکن تو اچھی ہونی چاہیے۔ 

    شری باگڑ بلا سنگھ کے نام

    ڈیر باگڑ بلاجی! 
    یہ معلوم کرکے کہ آپ ممبر اسمبلی بن گئے ہیں، میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے آپ میٹرک میں فیل ہوئے تھے تو اشتعال میں آکر ہندوستان ہی سے ہجرت کرگئے تھے اور شاید افریقہ میں بزازی کی دکان کرتے رہے اور پھر جب آپ کے پاس دس پندرہ لاکھ روپے جمع ہوگئے تو ہندوستان سے انتقام لینے کے لیے وطن لوٹ آئے۔ سچ مچ آپ نے ممبر اسمبلی بن کر میٹرک فیل ہونے کا خوب انتقام لیا۔ یہ ساری خطایونیورسٹی کی تھی۔ کاش! وہ آپ کو میٹرک پاس ہونے کا سرٹیفکیٹ دے دیتی تو آج ہماری ڈیموکریسی کا یہ حشر نہ ہوتا جو آپ کے ہاتھوں ہوا۔ 

    سنا ہے آپ نے اپنے الیکشن پرایک لاکھ روپیہ خرچ کرڈالا۔ بظاہر یہ کافی گھٹیا حرکت معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جس کے پاس پندرہ لاکھ روپیہ ہو، وہ اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ اہل ثروت کی اپنی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ لیکن ڈیر باگڑبلا! مجھے جو چیز معیوب محسوس ہوئی وہ یہ نہیں کہ آپ ممبر اسمبلی کیوں بن گئے بلکہ یہ کہ آپ کے نین نقش کافی بھونڈے ہیں۔ حسن ذہن نہ سہی حسن جسم ہی ہوتا تو ممبر اسمبلی بننے میں کوئی خاص ہرج نہیں تھا۔ 

     مثال کے طور پر اپنی آنکھوں کو لیجیے۔ آپ کی کل ملاکر ڈیڑھ آنکھ ہے۔ کم از کم دوآنکھیں تو سالم ہونی چاہئیں۔ آپ کی ناک اگر پوری ہو تو آلو کا پکوڑا معلوم ہوتی ہے۔ کاش! آپ پلاسٹک سرجری سے اس کی تراش خراش کرالیتے تو آپ مخالف امیدوار کی ضمانت ضبط کرواسکتے تھے اور چپراس پچکونے چہرے پر آپ کی اوٹ اور کچھ پٹانگ داڑھی؟ ہائے رے۔ اسے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے مناسب غذا نہ ملنے سے دھرتی چٹخ گئی ہے اور کچھ بے ہنگم جھاڑیاں اِدھر اُدھر سے اگ آئی ہیں اور جناب باگڑ بلا صاحب! میں آپ کی توند کے متعلق کوئی تشبیہ پیش نہ کروں گا۔ کیونکہ وہ تشبیہات کی حد سے بہت آگے نکل گئی ہے۔ معاف کیجیے میں یہ نہیں کہتا کہ آپ یوسفِ ثانی یا گریٹا گار بو کیوں نہ ہوئے؟ سیاست کے لیے بدن کا حسن نہیں، دماغ کا حسن چاہئے۔ لیکن آہ آپ کو تو وہ بھی میسر نہیں۔ اچھا بتاؤ ذرا، بلی موریا کون تھا اور اس نے شادی کیوں نہیں کی تھی؟ 

    میرے الفاظ کا برا مت ماننا۔ مجھے دراصل ابھی ابھی بلی پر سخت غصہ آیا تھا، کیونکہ وہ ہمارا دودھ پی گئی اور میں اپنا غصہ کسی نہ کسی پر نکالنا چاہتا تھا۔ بلی سے مجھے بلے کا خیال آگیا اور پھر باگڑ بلے کا اور یوں یہ غصیلا خط آپ کو لکھ ڈالا۔ ورنہ پیارے! بلیاں تو دودھ پی ہی جاتی ہیں۔ ہم ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ 

    آپ اس خط کو پڑھ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیجیے۔ اپنے ریکارڈ میں محفوظ مت کرلیجیے۔ ورنہ آنے والی نسلیں بڑی دکھی ہوں گی کہ ہمارے آباؤاجداد کو کیسے خط لکھے جاتے تھے۔ 

    بابو بدری لال کے نام

    اے لوئرڈویژن کلرک! 
    میں ہر روز دیکھتا ہوں کہ تم اپنی چھت پر کھڑے ہوکر ایک لڑکی کو اشارے کرتے رہتے ہو۔ سچ مچ بتاؤ، کیا تمہیں اس سے عشق ہوگیا ہے؟ 

    دیکھو بیٹا! عشق بری بلا ہے۔ اس سے گھر برباد ہوجاتا ہے اور تمہارے پاس تو ابھی گھر بھی نہیں ہے۔ کرائے کی ایک ذلیل سی کوٹھری میں رہتے ہو۔ میں جانتا ہوں کہ تم اپنی دوسو روپے کی تنخواہ میں گھر کے پانچ افراد کو پالتے ہو۔ تمہارے بائیسکل کی ٹیوب پر پندرہ پنکچر لگے ہوئے ہیں۔ تمہارے جوتے ہفتوں پالش سے محروم رہتے ہیں۔ پرسوں تم نے اپنی چھوٹی بہن کو ڈنڈے سے پیٹا تھا، کیونکہ وہ بغیر فیس لیے اسکول جانے سے انکار کر رہی تھی۔ شیو کا بلیڈ تم اکثر پڑوسی سے مانگتے دیکھے گئے ہو وغیرہ وغیرہ یعنی تم انسان تھوڑے ہو، صرف وغیرہ وغیرہ ہو۔ 

    ایسے عالمِ افلاس میں اے بدری لال! تمہیں عشق کی سوجھی ہے۔ ارے عشق کی بجائے بائیسکل کی نئی ٹیوب ہی خرید لیتے یا کسی سیٹھ گوجرچند کے گھر پیدا ہوتے۔ پندرہ پکچروں کے ساتھ محبوبہ کے لب ورخسار کی باتیں کرتے ہو؟ شرم نہیں آتی! اس لڑکی کا کیا ہے اس پر تو شباب ٹوٹ پڑا ہے، جس نے اسے مضطرب کر رکھا ہے اور وہ کسی نہ کسی کے گھر کو برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس لیے میری مانو تو ابھی عشق کو ملتوی کردو۔ میں تو کہتا ہوں عمر بھر کے لیے ملتوی کردو اور تھوڑے سے روپے جمع کرکے شادی کرلو۔ کلرک کا کام شادی کرنا ہے عشق کرنا نہیں۔ عشق کے کاغذ پر ٹائپ کرنے کی کوشش نہ کرو۔ ٹائپ کرنے کے لیے دفتر کی چھٹیاں ہی موزوں ہیں۔ اپنی زندگی کی ٹائپ مشین پر ’’لولیٹر‘‘ ٹائپ مت کیا کرو کیونکہ تمہاری مشین کی کوالٹی کچھ اچھی نہیں ہے۔ اپنی مشین کی طرف دیکھو، لڑکی کے تبسم کی طرف مت دیکھو۔ 

    میں اس لڑکی کو بھی سمجھادوں گا کہ وہ بھی تم پر رحم کرے اور اپنے شباب کا رخ کسی اور طرف موڑدے۔ 

    دلی چند جی کے نام

    دُلی چند! 
    معاف کرنا، تم انتہائی بور آدمی ہو اور نجانے کس ستم گرنے تمہیں میرے گھر کا ایڈریس دے دیا اور کہہ دیا کہ فکر تونسوی کو بور کرنا ایک بہت بڑا کار ثواب ہے۔ تم ہفتے میں دوتین بار بقول تمہارے میرے ’’درشن‘‘ کرنے کے لیے ضرور آجاتے ہو۔ ایک خاندانی نقص کی وجہ سے مجھ میں شرافت نفس بدرجہ اتم موجود ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم میری شرافت کے سینے پر پہاڑ بن کر بار بار گرتے رہو۔ کاش! تمہیں معلوم ہوتا کہ تم میرے پاس آکر جو گفتگو کرتے ہو اس کا کوئی مطلب اور مفہوم نہیں ہوتا۔ تم آلوگوبھی کے ریٹ سے لے کر ہندوستان کی اخلاقی گراوٹ سے ہوتے ہوئے عرب کی کھجوروں تک کا ذکر کر ڈالتے ہو اور پھر ان میں سے ہر ایک چیز پر اپنی بیش قیمت رائے بھی ضرور دیتے ہو اور پھر اے ظالم! یہ تقاضا بھی کرتے ہو کہ میں بھی تمہاری ہاں میں ہاں ملاؤں اور میں ملادیتا ہوں، یہ صرف میری شرافت عرف بزدلی ہے۔ دھوکے میں مت رہنا۔ 

    ہائے! اب میں تمہیں کس منہ سے کہوں کہ مجھے آلو کے ریٹ اور عرب کی کھجوروں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اگر آلو مہنگے ہوتے جارہے ہیں تو اس کے خلاف اخبار میں ایک شکایتی خط لکھ دیا کرو۔ مگر خدا کے لیے مجھے روزانہ اخبار مت سمجھو اور باقی رہی عرب کی کھجور تو عرض یہ ہے کہ تم میرے گھر آنے کی بجائے عراق عرب کیوں نہیں چلے جاتے۔ وہاں مزے سے جاکر کھجوریں کھاؤ۔ میں تمہارے خلاف کسی تھانے میں رپورٹ نہیں کروں گا کہ یہ شخص کھجوریں کھاتا ہے۔ اسے گرفتار کرلو۔ ایک گزارش اور بھی ہے کہ تم اب مجھ سے بے تکلف ہونے کی کوشش ترک کردو۔ یہ کوشش بیکار جارہی ہے۔ یعنی تم میرے سگریٹ نوش فرماتے رہتے ہو، چائے کا مطالبہ کرتے ہو اور کل تو تم نے یہ مطالبہ بھی کردیا کہ پستہ منگواؤ، چائے کے ساتھ بڑا لطف دیتا ہے۔ تم میری کتابیں اور رسالے اٹھاکرلے جاتے ہو اور اول تو لوٹاتے نہیں اور اگر لوٹاتے بھی ہو تو جیسے پوسٹ مارٹم کے لیے کوئی کسی کی لاش حوالے کر رہا ہو۔ 

    اے میرے نصیب بلکہ میری بدنصیبی! مجھ پر ترس کھاؤ۔ میرے غریب خانے پر تشریف ضرور لاؤ لیکن یوں آؤ جیسے ہوا کا جھونکا آتا ہے اور گزرجاتا ہے۔ میرے پڑوس میں ایک اور صاحب مسٹر چاندی رام رہتے ہیں۔ تم مجھ سے گزرکر اس کے گھر چلے جایا کرو، کیونکہ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحے گزار رہا ہے۔ اپنا مقصد حیات پورا کرچکا ہے۔ اگر تم اسے بور کرنا شروع کردو تو اس پر کوئی اچھا یا برا اثر نہیں پڑے گا اور تمہاراکام بھی بن جائے گا۔ 

    چاندی رام تمہارا منتظر ہے۔ 

    بلی کے نام
    چھوٹے بڑے سب کی موسی! 

    یہ خط تمہیں شری رگھبیر داس کے گھر کے پتے پر بھیج رہا ہوں کیونکہ سنا ہے، حج کرنے کے بعد جب تم لوٹی تھیں اور ایک کلو سونا اسمگل کرکے ساتھ لائی تھیں تو رگھبیر داس تمہیں بہلا پھسلاکر اپنے گھر لے گیا تھا۔ 

    دیکھو بی بلی! تمہیں یہ معلوم کرکے بہت مسرت ہوگی کہ ہمارے گھر میں ایک بہت موٹا تازہ چوہا رہ رہا ہے۔ اس کی فربہی کا سبب ہماری بے بسی اور اس کی ڈھٹائی ہے۔ اس کے پیٹ میں نہ جانے کتنے انواع و اقسام کے کھانے پہنچ چکے ہیں۔ پھل، کیک، گو شت، مکھن، دودھ ملائی، پلاؤ، بادام، گھی، ڈبل روٹیاں۔ کیا کیا گنوائیں موسی! جو چیز ہاتھ لگتی ہے چٹ کرجاتا ہے۔ ہم تو اس حرام خور کو یوں پال پوس رہے ہیں جیسے وہ ہمارا داماد ہو! اور کل رات تو بقول میری اہلیہ محترمہ کے وہ وہسکی کی بوتل کے اردگرد بھی گھوم رہا تھا۔ یعنی وہ بادہ خواری پر بھی اترآیا ہے۔ 

    محترمہ! ہم اس چوہے سے نالاں ہیں، کیونکہ ایک تو وہ چوہے دان کی گرفت میں نہیں آتا۔۔۔ بے حد ڈپلومیٹ ہوگیا ہے اور دوسرے کھا کھا کر ہیکڑی باز ہوگیاہے۔ کسی کو خاطر ہی میں نہیں لاتا۔ انتہائی بدتمیز بن گیا ہے جیسے کہ حرام کا مال کھا کھا کر ہوجاتا ہے اور کل تو اس نے حماقت کی حد کردی کہ دیوانِ غالب کو کتر کتر کے اس کے پرزے پرزے کرڈالے۔ یعنی وہ اب ناشروں کی طرح شعر و ادب کا بھی دشمن بن گیا ہے۔ ذرا سوچو غالب سے اسے کیا دشمنی؟ 

    اس لیے موسی! میں غالب کے نام پر تم سے درخواست کرتا ہوں کہ ہمارے گھر لوٹ آؤ۔ ہمارے تمہارے تعلقات کافی پرانے ہیں۔ ان تعلقات کے واسطے سے ہی آجاؤ۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ ہمارے گھروالوں نے تمہیں کافی ذہنی اور جسمانی اذیت پہنچائی تھی، کیونکہ تم ایک بلے کو بھی ہمارے گھر لے آئیں تھیں اور اس کے ساتھ رنگ رلیاں منایا کرتی تھیں، ہم نے اسے براسمجھا کیونکہ تم عشق میں اندھی ہوکر چوہے پکڑنا بھول گئی تھیں، ہم تمہیں پینے کے لیے جو دودھ دیتے، تم چوری چھپے اس لفنگے کو پلادیتیں، ہم نے تمہیں کئی بار سمجھایا کہ یہ مناسب نہیں ہے کہ، 

    تمہیں چاہوں تو تمہارے چاہنے والے کو بھی چاہوں 
    مرادل پھیردو مجھ سے یہ سودا ہو نہیں سکتا

    مگر تم بے حد جذباتی ہوگئیں اور اسی سوال پر ہم میں شکررنجی ہوگئی اور ایک دن میرے بیٹے نے اس غنڈے بلے کو ڈنڈامارا تو تم نے بطور احتجاج میرے بیٹے کو اپنے پنجے سے لہولہان کردیا اور پھر تم ناراض ہوکر بھاگ گئیں۔ (اور حج کو چلی گئیں) 

    لیکن موسی! اب میں سمجھتا ہوں کہ عشق ایک ازلی سچائی ہے اور تمہارے عشق میں ہماری مزاحمت غلط تھی۔ تم ہمیں معاف کردو اور لوٹ آؤ۔ وہ موٹا چوہا اور ہم تمہارا انتظار کر رہے ہیں اور اگر اس بلے سے تمہارا عشق اب بھی چل رہا ہو، اسے بھی ہم راہ لے آؤ۔ کم از کم اس حرام خور چوہے کے مقابلے پر تو وہ بلا بہتر ہے کہ وہ عاشق ہے، چور تو نہیں ہے۔ 

    طوطے کے نام

    مسٹر ٹیں ٹیں! 
    میرا خط پاکر تمہیں تعجب تو ضرور ہوگا کہ نہ جان نہ پہچان، لیکن فکر تونسوی نے مجھے خط کیوں لکھ ڈالا؟ لیکن پیارے! میں سماجی بہبودی کا عادی ہوں اور تم سماج میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہو۔ اس لیے تم سے صرف چند استفسارات کرنا چاہتا ہوں، تاکہ معلوم کرسکوں کہ ا نسانوں کے ساتھ تمہارے تعلقات کی صحیح صحیح نوعیت کیا ہے؟ 

    مثلاً کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ تم جنگل کے ایک آوارہ پنچھی ہو۔ تم جہاں چاہو جاسکتے ہو جو کھانا چاہو کھا سکتے ہو۔ درختوں کے پھل تمہاری ’’ڈسپوزل‘‘ پر رہتے ہیں۔ تم کتر کتر کر ان کا ستیاناس کرسکتے ہو۔ مگر اس آزادی کے باوجود تم نے انسان کی غلامی کیوں قبول کرلی، کہیں ایسا تو نہیں کہ تمہارا صرف خارجی ڈھانچہ آزاد ہو، تمہاری ذہنیت غلامانہ ہو۔ (اس دوغلے پن پر تمہیں شرم آنی چاہیے) 

    اور پھر تمہارے اندر یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ انسانوں کی آواز کی ہو بہو نقل کرلیتے ہو یعنی تم نقل نویس ہو، اوریجنل نہیں ہو۔ تمہارے پاس اپنا کچھ نہیں ہے جو کچھ ہے مانگے کا ہے۔ تم صرف انسانی آواز کا بھونڈا چربہ ہو۔ کیا یہ صورت حالات تمہیں پسند ہے؟ کیا نقل نویسی کی زندگی گزار کر تم فخر کرسکتے ہو؟ دوسروں کے سہارے زندہ رہنا اگرچہ جہالت تو نہیں ہے لیکن غیرت مندی بھی نہیں ہے۔ اس لیے پیارے اوریجنل بننے کی کوشش کرو۔ کیا سچ مچ خدا نے تمہیں وہ ذہن عطا نہیں کیا جو خود سوچتا ہے، خود عمل کرتا ہے۔ 

    اور پھر سنا ہے تم بے وفا بھی ہو۔ جو مالک تمہیں پستہ کھلاتا ہے، تم اس سے آنکھیں پھیر لیتے ہو۔ ذرا سوچو، یہ کوئی شرفاء کا کام ہے، مہذب طریقہ تو یہی ہے کہ جس کا کھاؤ اسی کا گاؤ۔ یہ نہیں کہ کھاؤ تو کسی کا، لیکن گن کسی کے بھی نہ گاؤ۔ بلکہ موقع ملے تو پنجرے سے نکل کر کسی اور کے گھر بھاگ جاؤ۔ میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تمہاری آنکھ کا پانی کیوں مر گیا؟ یا اس میں ازل ہی سے پانی نہیں تھا اور کیا کبھی تمہارے اندر حیا پیدا ہونے کے امکانات بھی ہیں یا بالکل ’’ہوپ لیس کیس‘‘ ہو۔ 

    میرے ان استفسارات کے جواب میں صرف ٹیں ٹیں نہ کرنا، مدلل جواب د ینا۔ 

    کرسی کے نام

    اے نامراد حسینہ! 
    جب سے تم غریب خانے پر آئی ہو، میرا کردار دگرگوں ہوگیا ہے۔ بالکل ایسے جیسے کسی ان پڑھ کے ہاتھ میں پارکر کاسنہری قلم تھمادیا جائے اور وہ کہے، ’’میں تو اب ناول نگار ہوں اور میرے ناول پڑھ کر لوگ ڈکنس کو بھول جائیں گے۔‘‘ 

    جب میں تمہیں خرید کر (نیلام گھر سے) گھر لایا تھا تو صرف اس لیے کہ تم سستے بھاؤ مل رہی تھیں۔ عزت اور عظمت اگر سستے بھاؤ مل جائے تو کون چھوڑتا ہے۔ لیکن گھر لایا تو میرے بچے ایک دوسرے سے دھینگا مشتی کرنے لگے۔ ہر ایک کہتا تھا کہ کرسی پر بیٹھوں گا۔ چنانچہ اس سول وار میں دو برخورداروں کی قمیص پھٹ گئیں۔ بیوی چھڑانے کے لیے آئی تو اس کے ماتھے پر ہاکی کا بلا پڑا اور مرہم پٹی کا بل ادا کرنے کے لیے خون بہہ نکلا۔ 

    ثابت ہوا کہ عزت اور عظمت بھی ایک طرح کی نیلام میں خریدی ہوئی کرسی ہے، جوپھٹی ہوئی قمیصوں اور ماتھے کے لہو کے بدلے میں خریدی جاتی ہے، تم نے تاریخ عالم میں کروڑوں اربوں قمیصیں پھاڑی ہیں، بیواؤں او ریتیموں کو جنم دیا ہے، لہلہاتے کھیتوں میں زہریلی گیسوں سے آبیاری کی ہے، کئی نسلیں، کئی تہذیبیں صرف تمہارے نام پر مسمار کی گئیں لیکن اس کے باوجود اے حسین و جمیل ستم گر! تمہاری کشش ختم نہ ہوئی اور تم بدستور عظمت اور عزت کی دل ربا علامت بنی رہیں۔۔۔ (شیم شیم! تم پر نہیں کرسی پرستوں پر) 

    تمہارے آنے سے پہلے میں ایک شریف انسان تھا۔ مگر آہ! میں شاید اپنے آباؤاجداد کا آخری شریف انسان ثابت ہوا۔ تم نے میری شرافت کو بھی لذیذ لقمہ سمجھ کر نگل لیا۔ کیونکہ جونہی پہلی بار میں تم پر بیٹھا، مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے مجھے کسی کی جیب کاٹنی چاہیے، کسی کو گالیاں دینی چاہئیں، کسی کو چابک مارنا چاہئیں اور کچھ نہیں تو اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا چائے کا پیالہ نیچے گراکر توڑدینا چاہیے اور طیش میں آکر نوکر کو آواز دینا چاہیے، ’’ابے حرامی! یہ کپ کیوں توڑدیا؟ باپ کی جاگیر سمجھا تھا کیا؟‘‘ 

    ہر روز جب ایسے مہیب اور وحشیانہ خیالات ذہن میں آنے لگے تو تمہیں یادہوگا، میں (بیوی کی آنکھ بچاکر) تمہیں باہر گلی میں پھینک آیا تھا۔ شام کو گھر لوٹا تو تم پھر گھر میں براجمان تھیں اور ہماری بیوی صاحبہ تم پر جلوہ فرماتھیں۔ مجھے دیکھتے ہی بولیں، ’’دیکھا آپ کا پڑوسی وہ جو گندر شرما بڑا دھرماتما بنا پھرتا ہے، آج ہماری کرسی ہی چراکر لے جارہا تھا۔ میری نظر پڑگئی تو میں نے اسے وہ جلی کٹی سنائیں کہ اب کم از کم چھ مہینے ہم سے بات نہیں کرے گا۔‘‘ 

    اے بدتمیز! دیکھے تم نے اپنے لچھن! میری بیوی بالکل گئو تھی، تم پر بیٹھ کر چیتابن گئی۔ جوگندر شرما ہمارانیک پڑوسی تھا۔ اس کی دھوتی کسی کانٹے سے اٹک جائے تو وہ کانٹے سے بھی معافی مانگ لیتا تھا۔ لیکن ہم تم دونوں پڑوسیوں کے درمیان آئیں تو چھ ماہ کے لیے ہماری بول چال بند کرادی۔ وہ مجھ سے کچھ کتابیں مانگ کر لے گیا تھا، اب وہ نہیں لوٹائے گا۔ پیاری نازنین! یہ تم نے کیا غضب کیا۔ دو اچھے پڑوسیوں میں ہی چپقلش کروادی! کیا یہی تمہارا خاندانی پیشہ ہے، کہ اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی خاطر پڑوسیوں کے درمیان کالی لکیر کھینچ دو، دوستوں کو بھڑادو، بھائی بہنوں کے لباس تار تار کروادو، مذہبوں، قوموں اور ملکوں کے درمیان رخنے ڈال کر صدیوں تک انہیں ملنے نہ دو۔ ایک بار پھر شیم شیم! تم پر بھی ہم پر بھی۔ 

    محترمہ! اب میں بے حد پریشان ہوں کہ تم سے کیسے نجات حاصل کروں۔ میں تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کردینا چاہتا ہوں لیکن نہ بیوی مانتی ہے نہ بچے اورخدا جھوٹ نہ بلوائے تو نہ میں ہی چاہتا ہوں۔ کیونکہ محلے والے، رشتہ دار اور احباب سبھی تمہیں دیکھ کر کہتے ہیں، فکر تونسوی عزت دار آدمی ہے، کیونکہ اس کے پاس کرسی ہے۔ 

    کبھی کبھی رات کی اتھاہ تاریکیوں کو چیر کر میں ایک دم خواب سے چونک اٹھتا ہوں اور یوں لگتا ہے جیسے تمہیں کوئی چور اٹھاکر لے گیا ہے۔ لیکن آہ! صبح تم پھر موجود ہوتی ہو۔ تم چوروں سے تھوڑے ڈرتی ہو۔ تم تو خود چوروں کی محافظ ہو۔۔۔! 

    سونے کی ڈلی کے نام

    اے سنہرے دیس کی شہزادی! 
    نہ جانے تم کہاں ہو؟ میں نے کئی بار تمہیں پیغام بھیجے، تار بھیجے، ٹیلیفون بھی کیا۔ لیکن خد کی طرح تمہارا بھی کہیں پتہ نہ ملا۔۔۔ ہائے کیا اچھا زمانہ تھا، جب لوگ سڑکوں پر سونے کی ڈلیاں اچھال دیتے تھے اور کوئی اٹھاتا نہیں تھا اور اس زمانے میں تم کبھی کبھی مجھے نظرآجایا کرتی تھیں۔ لیکن اب تو ایسا زمانہ آن لگا ہے کہ سونے کی ڈلی چھوڑ، خالی ماچس تک سڑکوں پر پھینکو تو لوگ اٹھالیتے ہیں کہ اس سے بچے ہی کھیلیں گے۔ 

    کبھی کبھی جب خبر آتی ہے کہ فلاں اسمگلر کے ہاں سونے کی ڈلیاں پکڑی گئیں تو دل بلیوں اچھلنے لگتا ہے۔ اور ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ کاش میں بھی اسمگلر ہوتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تمہیں زمین میں دباکر رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ میں نے اپنے گھر کی ساری زمین کھود ڈالی لیکن اس کے اندر سے لوہے کے ذلیل سے دوچار ٹکڑے ہی نکلے۔ پھر کسی نے اطلاع دی کہ محلے کے تاجر سیٹھ ڈمڑی لال جی کی آہنی تجوری میں تم نے بودوباش اختیار کر ررکھی ہے۔ چنانچہ تمہیں چرانے کی نیت سے پہنچا تو تجوری کے ساتھ ایک بل ڈاگ بندھا ہوا تھا۔ لہٰذا لوٹ آیا۔ کتے سے کون جھگڑا کرے۔ یہ کوئی تہذیب کی زبان تھوڑے سمجھتے ہیں۔ لیکن اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ کتوں سے تم نے تعلقات کیوں گہرے بنارکھے ہیں۔ کیا انسان برے تھے؟ 

    ایک بار پتہ چلا کہ تم بنک کے لاکر میں پڑی ہو۔ میں نے بنک منیجر سے التجا کی کہ لاکر کھول کر مجھے اس سنہری شہزادی کے درشن کرادیجیے۔ پہلے تو اس نے بہانے تراشے کہ لاکر کی چابی اس کی مالکن شریمتی پھاپھاں دیوی جی کے پاس ہے۔ پھر کہنے لگے کہ مالکن کے علاوہ کسی اجنبی کو سونے کی ڈلی دکھانا ہمارے بنک کے قواعد کے خلاف ہے۔ میں نے کہا، اتنی حسین شہزادی کو قواعدکی زنجیروں میں کیوں جکڑ رکھا ہے۔ قواعد تو انسانوں کے لیے ہوتے ہیں۔ مگر یہ تو بے جان چیز ہے۔ میرے اس اصرار اور دلیل بازی کو بنک منیجر نے غلط رنگ میں لیا اور مجھے ڈاکوؤں کے گروہ کا سرغنہ سمجھ کر پولیس کے حوالے کردیا۔ 

    غرض۔۔۔ جانِ تمنا! میں نے تیرا جلوہ دیکھنے کے لیے کیاکیا مصائب برداشت نہ کیے لیکن تمہارا دل نہ پسیجا۔ عجیب بات ہے کہ تمہارے وصال کے لیے ہمیں چور بننا پڑتا ہے، ڈاکو اور اسمگلر کہلانا پڑتا ہے، وحشی کتے ہم عاشقوں کا راستہ روک لیتے ہیں۔ تم جہاں بھی رہتی ہو، کسی نہ کسی پردے میں یا قید میں یا تالے کے اندر۔ آخر تم نے کون سا جرم کیا ہے کہ تمہیں ہر آدمی اندھیری، تاریک قیدوں میں رکھتا ہے۔ آخر تم ایک دھات کا ٹکڑا ہی تو ہو۔ تمہارے اس دھات کے چمکیلے حسن کی خاطر پورے انسانی سماج نے اپنا حلیہ بگاڑ لیا ہے۔ تمہاری خاطر دنگے، قتل، ڈکیتی یہاں تک کہ تہذیبیں ایک دوسرے کو فنا کردیتی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے؟ کیا وجہ ہے؟ کیا وجہ ہے؟ 

    اینٹ کے نام۔۔۔!

    اینٹ ری اینٹ! 
    کل تمہاری وجہ سے ہمارے محلے میں جو دنگا ہوا اس کے لیے تمہیں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ 

    یہ ٹھیک ہے کہ ہماری پڑوسن (نام تو تمہیں بھی معلوم ہوگیا ہوگا) تمہیں سامنے کے پبلک پارک سے اٹھا کر (بلکہ چراکر) لے آئی تھی۔ جہاں تم دوسری سیکڑوں اینٹوں کے ساتھ کسی کی دیوار چننے کی خاطر پڑی ہوئی تھیں۔ تم صرف پانچ پیسے کی اینٹ تھیں۔ لیکن غضب یہ ہوا کہ اسکول ماسٹر رام سہائے کی لڑکی نے اسے اینٹ چراتے دیکھ لیا اور محلے بھر میں شور و غل مچادیا۔ بس پڑوسن بچاری بدنام ہوگئی اور اس نے غصے میں آکر تمہیں اسکول ماسٹر کی بیوی کے سرپر دے مارا۔ اسکول ماسٹر نے پھر تمہیں اٹھاکر پڑوسن کا سر پھاڑ ڈالا اور یوں دنگا فساد بڑھ گیا کہ مہابھارت کا منظر سامنے آگیا۔ مہابھارت کی جنگ بھی تو صرف پانچ گاؤں کے سوال پر لڑی گئی تھی اور ہمارے محلے کی جنگ بھی پانچ پیسے کی اینٹ پر لڑی گئی۔ میں پوچھتا ہوں اری اینٹ ری اینٹ! تم نے یہ کیا کردیا۔ کیا تم اس لیے پیدا کی گئی تھیں کہ انسانوں کو بھڑا کر لہولہان کروادو۔ تم تو سایہ دار مکان بنانے کے لیے پیدا کی گئی تھیں لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ تمہارے اندر مکان مسمار کرنے کی خاصیت بھی موجود ہے۔ 

    لہٰذا کل تمہاری وجہ سے ہمارے محلے بھر میں جو دنگا ہوا اس کے لیے تمہیں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔۔۔ جے ہند! 

    کنوارا بوڑھا بنام کنواری بوڑھی

    سری شامِ حیات! 
    اس سے پہلے کہ قبر کہ دروازے ہم دونوں پر کھل جائیں، آؤ ہم ایک دوسرے پر کھل جائیں۔ تمہیں یاد ہوگا کہ آج سے چالیس برس پہلے میں نے تمہیں ایک لولیٹر لکھا تھا، جسے پڑھ کر تم نے کہا تھا، ’’مسٹر بدری ناتھ! یہ بچپن ہے۔ انسان صرف عشق اور شادی کے لیے پیدا نہیں ہوا، بلکہ ایک بہت بڑا کاز لے کر آیا ہے۔‘‘ چنانچہ میرا دل ٹوٹ گیا اور میں نے طے کر لیا کہ اگر عشق کروں گا تو صرف تم سے، ورنہ عمر بھر محروم عشق یعنی کنوارارہوں گا۔ 

    چنانچہ اے میری پیاری! میں نے چالیس برس تک تمہارا انتظار کیا۔ اگر چالیس برس تک میں ہمالیہ پربت پر جاکر تپسیا کرتا تو اب تک خدا کو پالیتا۔ لیکن آہ نہ میں خدا کو پاسکا نہ تمہیں۔ میں نے پرسوں تمہیں بازار میں جاتے ہوئے دیکھا۔ تمہاری کمر خمیدہ تھی، ارمانوں کی لاش تمہارے کندھے پر سوار تھی۔ آنکھوں پر موٹے موٹے شیشوں کی عینک تھی۔ منی پرس کے بوجھ سے تمہارے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ 

    میں پوچھتا ہوں ظالم! کیا یہی تمہارا کاز تھا؟ یہی خمیدگی، یہی لاشیں، یہی عینک اور یہی کپکپی؟ اگر واقعی یہی کاز تھا تو جان تمنا! اب اس کی تکمیل ہوچکی۔ کاز ختم ہوچکا اور اب صرف تمہارا فاتحہ باقی ہے۔ اس لیے آؤ اب تو اپنا وعدہ پورا کرڈالو، زیادہ نہ تڑپاؤ، گلے لگ جاؤ۔ تمہارے بغیر ساٹھ سال گزار دیے مگر اب یہ باقی کے د وچار سال گزارنا انتہائی مشکل ہو رہا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تم بھی اب بور ہوچکی ہو اور اپنا بوڑھا دل کسی نہ کسی کو دے دینا چاہتی ہو۔ مگر۔۔۔ 

    میں ہر ڈاک سے تمہارے لو لیٹر کا انتظار کروں گا بلکہ میں تو کہتا ہوں پیاری بڑھیا! لو لیٹر کا تکلف بھی کیوں کرتی ہو؟ 

    مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت
    میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں 

    تمہارا قدیم ترین عاشق
    بدری ناتھ، ریٹائرڈ ایڈوکیٹ

    ان دیکھی محبوبہ کے نام۔۔۔

    شیلا، نیلا، کملا، زہرہ، طاہرہ، (جو بھی تمہارا نام ہو) 

    یہ عجیب ٹریجڈی ہے کہ میں تمہیں نہیں جانتا (اور ظالم! تم مجھے نہیں جانتیں) نہ ہمارا نام، نہ ہمارے والد صاحب کا نام، نہ ہمارا پوسٹل ایڈریس، نہ گلی اور مکان کا میونسپل نمبر۔ اور اس ٹریجڈی کے بعد کامیڈی یہ ہے کہ میں نے تمہیں کبھی دیکھا بھی نہیں۔ 

    لیکن جان من! اس کے باوجود میں تم سے محبت کرتا ہوں، کیوں کہ میری تھیوری یہ ہے کہ محبت کسی رسمی تعارف کی محتاج نہیں، پوسٹل ایڈریس اور میونسپل نمبر سے بہتر چیز ہے۔ اور اس بلندی ہی کا نتیجہ ہے کہ میں نے گھنٹوں تمہارے ساتھ بیٹھ کر محبت بھری باتیں کی ہیں، مگر کبھی ہم دونوں نے ایک دوسرے کا نام اور پتہ نہیں پوچھا۔۔۔ میں نے تمہیں جب بلایا، جس نام سے بلایا، تم آگئیں۔ میری آغوش میں گرگئیں، میرے کندھے پر سر رکھ کر روئیں، میرے ہونٹوں تک آپہنچیں (کبھی کبھی میری جیب تک بھی جاپہنچیں) میں نے تمہاری پلکوں پر اپنے کپکپاتے ہوئے آنسو دیکھے اور انہیں اپنے ریشمی رومال سے پونچھ ڈالا۔ 

    تم نے اپنی ریشمی مخروطی، نازک انگلیوں سے میرا سگریٹ سلگایا اور پھر دھوئیں کے نیلے نیلے مرغولوں کے ہلکے ہلکے، تیرتے ہوئے بادلوں میں ہم دونوں گم ہوگئے۔ ایک دوسرے سے اوجھل ہوگئے۔ اور پھر یہ گم شدگی کا عالم اکثر و بیشتر صدیوں تک پھیل گیا۔ اور میں نے اکثر افسوس ظاہر کیا کہ محبت کے لیے صدیاں بھی کتنی کم ہوتی ہیں۔ کاش محبت کے لیے وقت کی کوئی قید نہ ہوتی، گھڑیاں اور ٹائم پیس نہ ہوتے، کیلنڈر اور جنتریاں نہ ہوتیں۔ 

    لیکن اے میری صدیوں پرانی محبوبہ! کل رات ایک افسوس ناک گھٹنا ہوگئی کہ جب مجھے سگریٹ نوشی کی زیادتی سے نیند نہیں آرہی تھی اور میرا سر گھوم رہا تھا تو میں نے تمہیں سردبانے کے لیے بلایا اور جب تم میری آرزوؤں کے ساز پر تھرکتی، اٹھلاتی ہوئی آئیں تو تمہارے ساتھ پانچ چھ حسینائیں اور بھی تھیں۔ اور یہ دیکھ کر میں بوکھلاگیا کہ تمہاری ہرنی ایسی آنکھیں تمہارے چہرے پر نہیں تھیں بلکہ ایک اور حسینہ کے چہرے پر لگی ہوئی تھیں۔ تمہارے ہونٹوں کے گلاب دوسری حسینہ کے پاس تھے۔ تمہاری مخروطی انگلیاں تیسری کے پاس اور زلفیں چوتھی کے سرپر سوار تھیں۔ غرض تمہارا عضو عضوبٹ چکا تھا، بے ٹھکانہ ہوگیا تھا، یوں لگتا تھا جیسے دنیا بھر کی حسیناؤں نے مل جل کر تمہارے حسن کو لوٹ لیا ہے۔ 

    اور ڈارلنگ! یہ بات مجھے بہت بری لگی کہ تم اپنا حسن (جو میں نے تمہیں عطا کیا تھا) یوں الم غلم لڑکیوں میں لٹاتی پھرو۔ اور پھر تمہارے سامنے سب نے میرا مضحکہ اڑایا۔ غضب یہ کہ اس تذلیل میں تم بھی شامل تھیں۔ 

    پیاری! اگر تم واقعی مجھے چاہتی ہو تو آئندہ ایسی حرکتوں سے گریز کرو۔ یاد رکھو۔ 

    تمہارا عاشق
    (نام لکھنے سے فائدہ)

     

    مأخذ:

    فکر نامہ (Pg. 241)

    • مصنف: فکر تونسوی
      • ناشر: انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
      • سن اشاعت: 1977

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے