Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میں مالک مکان بنا

فکر تونسوی

میں مالک مکان بنا

فکر تونسوی

MORE BYفکر تونسوی

    اور آخر بیوی کے اصرار پر میں نے وہ ڈیڑھ کمرہ کرائے پر اٹھادیا۔ اس سے اگرچہ خاندان کی روایت ٹوٹ گئی لیکن بیوی نے نئی روایت قائم کردی۔ شادی کے بعد خاندان کی حیثیت بیوی کے مقابلے پر سیکنڈری ہوجاتی ہے۔

    یہ ڈیڑھ کمرہ میری مناسب ضروریات سے زیادہ تھا۔ زیادہ سے زیادہ اس کا مصرف یہ تھا کہ میرا بڑا لڑکا کبھی کبھی اس میں گھس جاتا اور اپنی محبوبہ کے لولیٹر پڑھا کرتا تھا یا اس کے ایک تاریک گوشے میں کچھ خستہ قسم کی خاندانی دستاویزات پڑی رہتی تھیں جن کا میں خواہ مخواہ احترام کیے جارہا تھا۔

    میری ٹریجڈی یہ تھی کہ میں انسانیت کو کرائے داروں اور مالک مکانوں میں تقسیم کرنا نہیں چاہتا۔ یہ میرا اصول ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ انسانیت کے متعلق میری معلومات کافی ناقص تھیں۔ لیکن میرا خیال ہے اصول کا معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

    میرے کرایہ دار کا نام گجانند تھا۔ جو اگرچہ نامعقول نام تھا لیکن چونکہ وہ منسٹر کا سفارشی خط لایا تھا، اس لیے مجبوراً میں نے کہا، ’’گجانند جی! منسٹر تو سفارشی خط لکھ کر اپنا سوشلزم کا گزارا کرلیتے ہیں۔ مگر آپ کرایہ دار بن کر کیوں کرنا چاہتے ہیں؟‘‘

    اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری، جو بے حد مانوس تھی، اور بولا، ’’جناب! مجھے جیوتشی نے بتایا ہے کہ اس جنم میں تم مالک مکان نہیں بن سکتے۔ صرف اگلے جنم میں چانس ہے۔‘‘

    جواب میں معصومیت تھی۔۔۔ جو مجھے پسند آئی۔ مصیبت یہ ہے کہ معصوم انسانیت کے راستے میں جیوتشی حائل ہیں۔ گجانند کے لہجے میں جو سادگی اور پاکیزگی تھی، اس کی بنا پر میں نے پوچھا، ’’بھائی جان! آپ اتنے شریف اور مہذب کیوں ہیں؟‘‘ وہ جھٹ بول اٹھا، ’’یہ خاندانی وراثت ہے، اس میں میرا کوئی دوش نہیں جناب!‘‘

    عجیب بات ہے! کئی ماں باپ ورثے میں مکان چھوڑ جاتے ہیں اور کئی صرف شرافت اور تہذیب۔ میں نے اسے سمجھایا، ’’گجا نند جی! دراصل کمرہ تو ایک ہی ہے مگر میری بیوی نے ایک چق لگا کر اسے اسے ڈیڑھ کمرہ بنا رکھا ہے تاکہ ڈیوڑھا کرایہ وصول کر سکے۔۔۔ اور شرفا کے لیے صرف ایک کمرہ میں رہنا غیر موزوں ہے۔‘‘

    اور جواب میں اس نے جیسے میری ساری فلاسفی کی توہین کر دی اور کہا، ’’اول تو مجھے شرفا میں شمار نہ کیجیے اور اگر آپ شمار کرتے بھی ہیں تو اس کا انکشاف دوسروں پر نہ کریں۔‘‘ اس کے علاوہ گجانند نے میری بیوی کا ذکر اپنے ورثے سے بھی زیادہ احترام کے ساتھ کر دیاکہ وہ بے حد معقول خاتون ہیں۔

    اور میں بیوی کی معقولیت سے گھبرا گیا اور وہ ڈیڑھ کمرہ گجانند کے حوالے کر دیا۔

    تین مہینے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے گجا نند اس ڈیڑھ کمرہ کو جنت سمجھ کر رہ رہا ہے۔ وہ اتنا مرنجاں مرنج نکلا کہ محلے کے پانچ سات چوہے تک نقل مکانی کرکے جنت میں گھس گئے۔ شرفا کی یہی ٹریجڈی ہوتی ہے کہ وہ چوہے اور انسان میں کوئی امتیاز نہیں برت سکتے۔

    ایک دن محلے کے تین چار معزز لوگ میرے پاس تشریف لے آئے، میرا مطلب ہے لباس سے وہ معزز معلوم ہوتے تھے۔ ایک نے کہا، ’’مبارک ہو فکر صاحب! آپ اب مالک مکان بن گئے ہیں!‘‘

    دوسرے نے وضاحت کی، ’’جب تک کرایہ دار نہیں آیا تھاآپ مالک مکان کہلانے کے مستحق نہیں ہوئے تھے۔‘‘

    تیسرے نے کہا، ’’یعنی اب آپ میں ایک مفہوم پیدا ہوگیا ہے۔‘‘

    چوتھے نے ایک فارم میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ’’اور اب آپ ہماری محلہ رنگ پورہ مالک مکان ایسوسی ایشن کے معزز ممبر بن جائیے!‘‘

    میں نے اپنے علم میں اضافہ کرنے کی غرض سے پوچھا، ’’اس ایسوسی ایشن کے جنم کا کوئی معقول یا نامعقول مقصد؟‘‘ وہ بولے، ’’بات یہ ہے جی! کہ یہ کرایہ دار لوگ بڑے بدمعاش ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’یعنی میرا کرایہ دار بھی بدمعاش ہے۔‘‘

    ’’نہیں ہے تو ہوجائے گا۔ اسی لیے ہم ملک مکان آپس میں بھائی چارہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اور آج سے آپ ہمارے بھائی ہیں۔‘‘

    میرا جی چاہا، انہیں کہہ دوں، کسی منسٹر کی سفارش لائیے، جب آپ کا بھائی بنوں گا۔ لیکن یہ شرط بھونڈی معلوم ہوئی کیونکہ اسے معززین آسانی سے پوری کرسکتے تھے۔ آنکھیں بند کرکے دستخط کردیے۔ اگرچہ دستخط کے بعد اپنی حرکت پر بہت تعجب ہوا۔ چند دن پہلے میں نے گجانند کو بھی اپنا بھائی کہا تھا۔ اب مکان مالکوں کا بھی بھائی بن گیا ہوں۔ یہ دو متصادم قسم کے بھائی۔۔۔؟ لیکن پھر سوچا، اس دنیا کے سبھی انسان بھائی بھائی ہوتے ہیں۔

    اسی شام گجانند سے اطلاعاً عرض کردیا کہ، ’’آج سے آپ بھائی صاحب نہیں ہیں، بلکہ کرایہ دار ہیں۔‘‘ اور گجانند نے کہا، ’’چھوڑیے جی! آپ تو مذاق کرتے ہیں۔‘‘

    لیکن میں مذاق نہیں کر رہا تھا۔ بہت سیریس تھا۔ ایسوسی ایشن کا (معزز) ممبر بن جانے سے میری ذمہ داریاں بڑھ گئیں تھیں، اس لیے میں دن رات اس ٹوہ میں رہنے لگا کہ گجانند کے کمرے سے کوئی آواز اٹھے اور میں چھت پھاڑدوں۔ فرش پر پلنگ کھسکانے کی آواز، رات کو دیر سے آنے کی آواز، چوہوں کے گلاس توڑنے کی آواز، مہنگائی کے خلاف گالیوں کی آواز، یہاں تک کہ اس کے بچوں کے رونے کی آواز بھی آئے تو میں للکار کر کہوں، ’’گجانند! اپنے بچوں سے کہہ دو رونا بند کردیں! کیونکہ اس سے میرے بچوں کو معلوم ہوجائے گا کہ انسان روتے بھی ہیں۔ اور یوں میرے بچوں کا مستقبل تباہ ہوجائے گا۔

    لیکن ایسی کوئی آواز شاید گجانند کے نصیب میں نہیں لکھی تھی۔ ایسوسی ایشن کے معزز عہدیدار وقتاً فوقتاً میرے یہاں وزٹ کرتے رہے اور مجھے بتاتے رہے کہ گجانند سے کون کون سی بدمعاشیوں کے امکانات روشن ہیں اور ان امکانات کا سدباب کرنے کے لیے تھانے کب جانا چاہیے۔ گالیاں کب دینی چاہئیں۔ پالتو کتا کب چھوڑنا چاہیے اور غنڈے بلاکر انہیں شراب کب اور کیوں پلانی چاہیے۔ بلکہ ایک معزز عہدیدار کو تو اس بات پر بہت حیرت ہوئی کہ کرایہ دار کی وجہ سے ابھی تک آپ کی آتما کی شانتی میں خلل نہیں پڑا؟

    میں نے اعتراف کیا کہ میری آتما میں کوئی نقص ہے۔

    ایک دن ایسوسی ایشن کے پریذیڈنٹ جن کی شکل بھونڈی اور لباس حسین تھا، تشریف لائے اور جیسے مجھ سے رازدارانہ لہجے میں ہمدردی کرنے لگے، ’’فکر صاحب! ایسوسی ایشن کے معززین میں آپ کی قدرومنزلت کچھ کم ہو رہی ہے۔ بلکہ کئی ایک تو (معاف کیجیے) آپ کی نیت پر بھی شک کرنے لگے ہیں کہ آپ کی وجہ سے آپ کے کرایہ دار کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں، جن کا اثر ان کے اپنے کرایہ داروں پر برا پڑ رہا ہے۔ میں نے عرض کیا، ’’مگر پریذیڈنٹ صاحب! اسے میری ٹریجڈی سمجھیے کہ گجانند شریف اور مہذب انسان ہے۔‘‘

    وہ بولے، ’’یہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ کرایہ دار مہذب ہوتے ہی نہیں!‘‘

    ’’مگر وہ کوئی غیر مہذبانہ حرکت نہیں کرتا۔‘‘

    ’’کیسے نہیں کرتا۔۔۔؟ اچھا بتائیے، غسل خانے میں جاکر گنگناتا ہے کہ نہیں؟‘‘

    ’’اوں ہوں۔۔۔‘‘

    ’’بڑا ڈل کرایہ دار ہے۔ آپ کرایہ دار بدل دیجیے!‘‘

    ’’ورنہ؟‘‘

    ’’ورنہ معززین آپ کا سوشل بائیکاٹ کرنے کے متعلق سوچ رہے ہیں۔‘‘

    ’’یہ صریحاً دھمکی تھی مگر خاندانی ورثے کے باعث میں اس دھمکی کو چیلنج دینے کے اہل نہیں رہا تھا۔ اس لیے سوچ سوچ کر میں نے گجانند کے خلاف ڈائرکٹ ایکشن کا فیصلہ کرلیا اور بازار سے گالیوں کی ایک کتاب لے آیا اور ساری رات اس کی اسٹڈی کرتا رہا۔

    اور دوسری صبح کو اپنے نتھنے پھلاکر گجانند کے پاس پہنچ گیا اور کہا، ’’تم انسان نہیں ہو۔۔۔ الو ہو!‘‘

    وہ حیران ہوا، جس سے مجھے خوشی ہوئی۔

    اور میں اس الو سے پوچھتا ہوں، ’’یہ کھڑکی کا شیشہ کس الو کے پٹھے نے توڑا؟‘‘

    ’’آپ کے چھوٹے صاحب زادے نے سہواً ایک ڈھیلہ عرض کردیا۔‘‘

    ’’تونالائق! تم نے اس کے باپ کو فحش گالیاں کیوں نہیں دیں؟‘‘

    ’’اجی، میں نے سوچا۔ بچے سب کے برابر ہوتے ہیں۔ اگر میرا بچہ ڈھیلہ ماردیتا تو۔۔۔‘‘

    مجھے بہت طیش آیا۔ گویا اب یہ بچوں کی ولدیت کو کنفیوز کر رہا ہے۔ بچے سب کے بچے ہوتے ہیں۔ سبھی انسان بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ ہنہ! نان سینس۔ یہ کیسی دنیا ہے؟ کیسی اس کی فلاسفی ہے۔ میں ٹوٹے ہوئے شیشے اور فلاسفی کی درگت پر بڑبڑاتا ہوا لوٹ آیا۔ گالیوں کی کتاب آدھے دام پر فروخت کردی۔ مجھے گجانند معزز نہیں بننے دیتا۔ میرے الزامات کو احمقوں کی بڑسمجھتا ہے۔ ہنہ! پھوں!

    میں دو تین دنوں تک مشاہدہ کرتا رہا کہ شاید وہ راہِ راست پر آجائے۔

    تیسرے دن وہ الٹا مجھے راہِ راست پر لے آیا اور مکینک کو بلاکر اپنے پیسوں سے نیا شیشہ فٹ کروادیا اور میرے تلوؤں میں آگ لگ گئی۔ جی چاہا اپنے چھوٹے صاحب زادے کو سواروپیہ رشوت دے کر کہوں کہ اس نئے شیشے کو بھی ڈھیلہ مار کر چکنا چور کردو۔ لیکن وہ ناخلف نکلا۔ کہنے لگا، ’’گجانند مجھے انگریزی کے سبق اتنی خوب صورتی اور پیار سے پڑھاتا ہے کہ میں ناخلف بننا زیادہ پسند کروں گا۔‘‘

    گویا یہ ایک سازش تھی۔۔۔ وہ میرے بچے اور بچے کے باپ میں پھوٹ کا بیج ڈال رہا تھا۔۔۔ ایسے آدمی کو کرایہ دار رکھنا، اپنے پاؤں بلکہ اپنے خاندان کے پاؤں پر کلہاڑی مارنا تھا! سوچ سوچ کر میں نے اس سازش کا توڑ تلاش کرلیا۔ دل ہی دل میں اس کی گردن پکڑ لی اور زبان ہی زبان سے کہا، ’’اگلے ہفتے میرے بڑے لڑکے کی شادی ہے، اس لیے میرا کمرہ خالی کردو۔‘‘

    حالانکہ میرے بڑے لڑکے کو اس کے سائز کی ہر لڑکی مسترد کرچکی تھی اور وہ تنگ آکر سماج کی نشکام سیوا کا پروگرام بنارہاتھا۔ لیکن شادی کی خبر سنتے ہی گجانند نے کہا، ’’میں عزیزی رویندر کی خوشی میں ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیارہوں۔‘‘

    عجیب ہونق انسان ہے۔ اسے مکان خالی کرنے کا غم نہ تھا بلکہ میرے بیٹے کے بیاہ کی خوشی تھی۔ یعنی اب میں اس کا سامان بھی زبردستی نکال کر نہیں پھینک سکتا تھا۔ غصے میں آکر میں شام کو بالکونی میں کھڑا ہوگیا اور ساری دنیا اور اس دنیا کو بنانے والے خدا تک کو سنانے کے لیے بلند آواز میں کہنے لگا،

    ’’سنیے حضرات! یہ کیا بدمعاشی ہے، میرا کرایہ دار مجھے زخمی کرنے کے لیے کل رات غنڈے لے آیا۔ انہیں شرابیں پلائیں۔ لیکن میں اس غنڈہ گردی سے نہیں ڈرتا۔ میں اس کی ہڈیاں چباجاؤں گا! کیوں سپرنٹنڈنٹ پولیس میری سالی کا بہنوئی ہے اور ڈپٹی کمشنر مجھ سے طالب علمی کے زمانے میں ریاضی کے سوال حل کرواتا رہاہے۔ ہنھ! میں اپنے لڑکے کی شادی پر اس سے کمرہ خالی کرواکے رہوں گا۔‘‘

    یہ سن کر آسمان سے پھولوں کی بارش نہیں ہوئی۔ البتہ ایسوسی ایشن کے پریذیڈنٹ نے میرے اعزاز میں کاک ٹیل پارٹی کا اعلان کردیا اور یہ اعلان اس وقت دوآتشہ ہوگیا جب میری جرأتِ رندانہ دیکھ کر محلے کے چند مسٹنڈے کرایہ دار میری بالکونی پر چڑھ آئے اور گرجنے لگے، ’’کون مائی کالال ہے جو گجانند سے کمرہ خالی کروالے! آپ کسی بھی کرایہ قانون کے تحت یہ غنڈہ گردی نہیں کرسکتے! ہم ڈپٹی کمشنر کے سبھی ریاضی کے سوالوں کو غلط قرار دیں گے۔ جو ہم سے ٹکرائے گا، پاش پاش ہوجائے گا!‘‘

    مجھے ان مسٹنڈوں کی جرأت پر خوشی ہوئی، گویا اب تنازعہ بڑھے گا اور دوآتشہ لطف آئے گا۔ لیکن گجانند نے میرے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا اور اپنا سامان پیک کرنے لگا۔ یہ میری واضح شکست تھی۔ میں بھاگا بھاگا اس کے پاس آیا اور اس کا کندھا زور زور سے جھنجھوڑ کر بولا، ’’ابے سور کے تخم! مت جاؤ۔ اس کمرے کا کرایہ دگنا کردو اور جھک مار کر رہتے رہو!‘‘

    وہ چپ رہا۔ منحوس کے دل میں میرا احترام زیادہ تھا۔ میں نے اس کے بال وحشیانہ انداز میں کھینچے، ’’ابے شیطان کی اولاد! مجھے انگوٹھا دکھادو اور کہو کہ میں ایک چھدام نہ بڑھاؤں گا!‘‘

    وہ اسی طرح سامان باندھنے میں مصروف رہا۔

    اب میرے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور پیمانے سے اچانک ایک قطرہ نکلا!

    ’’میں نے دگنا کرایہ مانگ کر تم سے جھوٹ بولا۔‘‘

    ’’آپ جھوٹ بول ہی نہیں سکتے!‘‘

    اور دوسرے لمحے وہ میرے ہر جھوٹ کو پاؤں سے ٹھکراکر چلا گیا اور میں بے قرار ہوکر سیدھا اس کمرے میں داخل ہوا اور اپنی خاندانی دستاویزات پھاڑ کر کھڑکی سے باہر پھینک دیں!

    مأخذ:

    فکر نامہ (Pg. 158)

    • مصنف: فکر تونسوی
      • ناشر: انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
      • سن اشاعت: 1977

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے