Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میری شادی کی پچیسویں سالگرہ

فکر تونسوی

میری شادی کی پچیسویں سالگرہ

فکر تونسوی

MORE BYفکر تونسوی

    (پچیس سال پہلے والدین نے سازش کر کے میری شادی کر دی تھی۔ اور پچیس سال بعد احباب نے سازش کر کے میری شادی کی پچیسویں سالگرہ منا ڈالی۔ اس ’’تقریب سعید‘‘ پر مجھے بھی تقریر کرنے کے لیے کہا گیا۔ یہ تحریری تقریر سوائے میری اہلیہ محترمہ کے سبھوں نے پسند کی۔)

    محترم ْخاوندو! بیویو! اور ناکتخدائو!

    آپ حضرات نے میری شادی کی پچیسویں سالگرہ منا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ آپ ایک انتہائی بھونڈی بات بھی بڑے خوبصورت سٹائل سے کہہ سکتے ہیں۔ اور یہ ایک شاعرانہ خصوصیت ہے۔ لہٰذا مجھے شبہ ہے آپ سب حضرات شاعر ہیں۔

    مگر جناب! ہر شاعری میں ایک نقص بھی ہوتا ہے اور وہ نقص ہے مبالغہ آرائی کا۔ چنانچہ آپ سب نے اتفاق رائے سے مبالغہ کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ ہم ایک ’’آئیڈیل جوڑا‘‘ ہیں تو گویا آپ نے ہم میاں بیوی کے گذشتہ پچیس سال کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔

    جب مجھے معلوم ہوا کہ ہماری شادی کو پچیس برس گزر چکے ہیں تو مجھے فطرتِ انسانی پر بے حد ترس آیا۔ جو بچاری اپنی قوتِ برداشت کی بری طرح شکار ہے۔ صاحبان! پچیس برس تک شادی شدہ رہنا بے حسی کی بدترین مثال ہے۔ اگر آپ سے کوئی کہے کہ آپ پچیس برس تک دودھ کی نہر میں بیٹھے نہاتے رہئے تو میرا خیال ہے، چوبیس گھنٹوں ہی میں دودھ کی بو سے آپ کی ناک سڑ جائے گی اور آپ نہر میں شگاف کر کے اسے توڑ ڈالیں گے۔ لیکن پورے پچیس سال تک ہم دونوں میاں بیوی نے ایک دوسرے کی نہر کو نہیں توڑاتو اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ دودھ کی نہر اور انسانی فطرت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اگر میری بیوی دُودھ کی نہر ہوتی تو آج مجھ سے کٹ کر کسی مندر کی ہیڈ پجارن یا کسی مانٹے سری سکول کی انچارج بن چکی ہوتی اور آج کی محفل میں گلابی غرارا پہن کر یوں مرغی کی طرح اٹھلاتی نہ پھرتی۔

    دوستو! اس مرحلہ پر میری بیوی طفلانہ حد تک بھڑک سکتی ہے اور کہہ سکتی ہے کہ اگر وہ ہیڈ پجاری ہوتی تو آپ کیا ہوتے؟ میرا جواب یہ ہے کہ میرے لیے بہترین راستہ تو یہ تھا کہ میں دنیا تیاگ دیتا۔ (کیونکہ اگر دنیا نہ تیاگی جائے تو لوگ کہتے ہیں دوسری شادی کر لو۔) لیکن دنیا تیاگنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کم سے کم گوتم بدھ ہو۔ میں نے گذشتہ پچیس برس میں چھبیس مرتبہ گوتم بدھ بننے کی کوشش کی۔ لیکن ہر بار بلّی کی میائوں نے مجھے ڈرا دیا۔ اور جس رات بلی کسی بلے کے ساتھ رومانس کرنے گئی ہوئی ہوتی، اس رات کوئی بچہ رونے لگتا یا گشت کا سپاہی ہانک لگانے لگتا اور میں گوتم بدھ بنتے بنتے رک جاتا۔ اس سے اگرچہ دنیا میرے عظیم پیغام سے محرو م رہ گئی لیکن انشورنس کمپنی کو بڑا فائدہ پہنچا کہ اسے میرے بیمہ کی قسط برابر پہنچتی رہی۔ شادی کے فوراً بعد مجھے کسی نے ڈانٹ پلائی تھی کہ اب تم گرہستی ہوگئے ہو، اس لیے اب اگر تم مرگئے تو تمہارے ساتھ تمہارے بیوی بچے مرنا پسند نہیں کریں گے، اس لیے پسماندگان کو زندہ رکھنے کی خاطر تم بیمہ ضرور کروالو۔

    برادران! بات یہ ہے کہ دراصل گوتم بدھ کو وہ دقتیں درپیش نہیں تھیں جو مجھے ہیں کیونکہ اس نے بیمہ نہیں کروایا تھا۔ میرے ایسے اَن گنت خاوند بلّی کی میائوں کا شکار ہیں۔ اور شاید یہ بات صحیح ہو کہ جو خاوند بلّی کی میائوں سے ڈرتا ہے، وہی معزز اور آئیڈیل گرہستی کہلاتا ہے۔ بلّی کی میائوں ہی گرہست کے ناموس کو بچاتی ہے۔

    حضرات! آپ میں سے کون سا خاوند ہے جو گوتم بدھ نہیں بننا چاہتا۔ اور کون سی بیوی ہے جو ’’میراں‘‘ بننے کے لیے مارکیٹ میں تنبورے کا ریٹ نہیں پوچھتی پھرتی۔

    جب لمبے قد اور چھوٹی مونچھوں والے برہمن نے معطّراگنی کے سامنے مقدس منتر پڑھتے ہوئے حکم دیا تھا، ’’دولہا اور دلہن ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑلیں۔‘‘ تو بیوی کے ہاتھ کے لمس سے میرے بدن میں ایک تیز سی سنسنی دوڑ گئی تھی۔ حضرات! بعد میں مجھے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ سنسنی دراصل ہمارے جوان اور احمق خون کی تھی۔ یاد رکھیے! یہ ڈاکٹر لوگ صرف علم الاعضامیں یقین رکھتے ہیں۔ یہ لوگ محبت، رومانس، حسن، ہجر، جذبہ، دھڑکن وغیرہ اشیاء کو صرف خون ٹیسٹ کرنے والے آلہ سے ناپتے ہیں۔ ذرا اندازہ لگائیے جناب! اگر برہمن کا رول ڈاکٹر لوگوں کے سپرد کردیا جائے تو بیاہ کی مہندی اور ہسپتال کی آپریشن ٹیبل میں کوئی فرق باقی نہ رہے اور میں نہیں کہہ سکتا کہ سرجری کی بنیاد پر کوئی شادی ہو بھی سکتی یا نہیں؟

    میں سرجری کے خلاف نہیں ہوں لیکن میں شاعری کے حق میں بھی نہیں ہوں۔ جو دل کی دھڑکن اور جسم کی سستی کو مبالغہ کا شکار بنا کر محبت کہہ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس لمحہ کے بعد ویسی سنسنی مجھے پھر کبھی نہیں ہوئی۔ پچیس برس سے میں اس سنسنی کی دوبارہ آمد کا انتظار کرتا رہا ہوں لیکن وہ نہیں آئی بلکہ اس کی بجائے بچے آئے، رشتہ دار آئے، بِل آئے، راشن آیا۔ حتی کہ ایک بار پولیس کا سپاہی بھی آگیاجو میرے قرضہ کے وارنٹ گرفتاری لے کر آیا تھا۔ میں نے ہزار بار بیوی کا ہاتھ پکڑا، لیکن ہمیشہ یوں لگا، جیسے میرا ہاتھ کسی کرسی پر جا پڑا ہے، کسی ایش ٹرے کو چُھو رہا ہے، کسی تولیے کی طرف بڑھ رہا ہے۔

    لیکن جناب عالی! میرا اور میری بیوی کا (مشترکہ) کمال یہ ہے کہ ہم نے کبھی ایک دوسرے کو تولیہ یا ایش ٹرے نہیں کہا۔ آئیڈیل گرہستی زندگی کے لیے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے جذبات کے زوال کا ذکر نہ کیا جائے بلکہ گندم کی مہنگائی اور پڑوسن کی خود غرضی کا ذکر کیا جائے اور جتنی شدومدسے ذکر کیا جائے گا، اتنا جذبات کا زوال کم محسوس ہوگا۔

    دوستو! وہ لمحہ گرہستی زندگی میں بڑا نازک ترین لمحہ ہوتا ہے جب گندم سستی ہو جائے اور پڑوسن سے تعلقات خوشگوار ہو جائیں۔ اس لمحے میاں بیوی خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔ اور ویرانی بہت ستاتی ہے۔ اس لیے وہ ایک دوسرے سے ہی لڑ پڑتے ہیں، ایک دوسرے کو ایش ٹرے اور تولیہ تک کہہ دیتے ہیں اور یہی وہ نادر موقع ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کو طلاق بھی دے ڈالتے ہیں۔

    لہٰذا حضرات! کامیاب ازدواجی زندگی کا راز اسی میں ہے کہ گندم مہنگی رہے، پڑوسن سے تنازعہ جاری رہے اور بچے متواتر پیدا ہوتے رہیں تاکہ میدان کا رزار خالی نہ رہے۔ کیونکہ بھرے پڑے میدان میں ہی محبت زندہ رہتی ہے۔ بیوی کے ہونٹ گلابی محسوس ہوتے ہیں اور سنسنی کی آمد کا انتظار بڑا لذیذ ہوتا ہے۔

    ابھی ابھی ایک دوست آپ کو بتاگئے ہیں کہ میرے ازدواجی تجربات بڑے قیمتی ہیں اور آنے والی نسلیں ان سے فائدہ اٹھائیں گی۔ چنانچہ جناب! میں آئندہ نسلوں کو بآواز بلند ایک قیمتی بات بتا دینا چاہتا ہوں کہ شادی نیچرل چیز نہیں ہے۔ آپ غصہ میں مت آئیے، میرا مطلب یہ ہے کہ جیسے پائوں سے چلنا نیچرل چیز ہے، پانی پینا نیچرل چیز ہے، گھاس کا اگنا نیچرل چیز ہے، اس حساب سے شادی نیچرل چیز نہیں ہے۔ بلکہ یہ انسان کی ذاتی اختراع ہے۔ اصل میں انسان کو اختراعات کا بڑا شوق ہے۔ مثلاً وہ چابی بھر کر چلنے والی پُتلی ایجاد کرتا ہے، پانی کو برف کی طرح جمانے کا طریقہ ایجاد کرتا ہے، پینٹر ایجاد کرتا ہے جو رنگ اور برش سے گھاس کی ہو بہو ہری پتیاں بنا دیتے ہیں، بالکل اسی طرح انسان نے شادی بھی ایجاد کر ڈالی۔ اس ایجاد کے ذریعے وہ ایک مرد اور عورت کو اکٹھا کر دیتا ہے اور اسی طرح کرد یتا ہے جیسے میزکے ساتھ کرسی بنا دیتا ہے، بارش کے لیے چھتری بنا دیتا ہے اور اسے وہ اپنا آرٹ کہتا ہے۔

    براداران! انسان نے آج تک نیچر کے خلاف جتنے کام کیے ہیں وہ اس کا آرٹ کہلائے ہیں۔ ذرا غور کیجئے۔ اگر سماج میری اہلیہ کو چھتری قرار نہ دیتا تو نیچر کے اولوں سے میرے گنجے سر کا کیا حشر ہو چکا ہوتا۔

    چونکہ شادی نیچرل چیز نہیں ہے بلکہ انسان کی ایجاد ہے، اس لیے نیچر کی طرح پرفیکٹ نہیں ہے۔ ایک مرد اور ایک عورت کا زندگی بھر اکٹھے رہنا ایک مکینکل کوشش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی خاوند کو اچھی بیوی نہیں ملی اور کسی بیوی کو اچھا خاوند نہیں ملا۔

    صاحبان! اچھے خاوندوں کے لیے بری بیویوں کی اور برے خاوندوں کے لیے اچھی بیویوں کی بہتات پائی جاتی ہے۔ مگر میری اہلیہ محترمہ غور سے سن لیں کہ وہ ایک اچھی بیوی ہیں۔ اور اگر میرے متعلق بھی ان کا یہی خیال ہے تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگروہ بے ہوش ہو جائیں تو ان کے چہرے پر گلاب کا پانی ضرور چھڑکوں گا اور جو اباً وہ بھی اپنی گھنی لمبی پلکیں اٹھا کر یہ ضرور کہیں گی، ’’پیارے! تم کتنے اچھے ہو۔‘‘

    حضرات! میں مانتا ہوں کہ گلاب کا پانی ایک ڈاکٹر بھی چھڑک سکتا ہے لیکن ڈاکٹر کی پرابلم یہ ہے کہ وہ سال میں ایک آدھ مرتبہ ہمارے گھر آتا ہے اور میں ہر روز گھر آجاتا ہوں اور انسان صرف اسی چیز کو اچھا سمجھتا ہے، اسی چیز کو پیارا کہہ سکتا ہے جو زیادہ سے زیادہ اس کے نزدیک رہے۔ مثلاً میری جرابیں، بیوی کی چوڑیاں، بچے کی گڑیا۔ جناب! میں تو اس چڑیا کو بھی ’’پیاری‘‘ سمجھتا ہوں جو صرف میرے ہی گھر میں گھونسلہ بناکر رہتی ہے اور کہیں نہیں جاتی۔ حتی کہ وہ کئی بار ہمارے گھر میں بچے بھی دے چکی ہے۔

    میری بیوی اور چڑیا میں اگر کوئی فرق ہے تو یہی کہ چڑیا کے بچوں کی تعداد ہمارے بچوں سے زیادہ ہے اور بس!

    اور میرا تیسرا تجربہ یہ ہے کہ بچے پیدا کرنا ایک نہایت ہی معمولی فعل ہے۔ جو لوگ بچے پیدا نہیں کرتے، وہ صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو غیر معمولی فعل میں یقین رکھتے ہیں۔ مثلاً پیغمبری کرنا، خدا کی تلاش کرنا، شہید ہونا۔ حتی کہ ایک صاحب تو کبوتروں کی مختلف اقسام کی چھان بین کے غیر معمولی فعل میں اتنے مگن ہوگئے کہ لاولدمر گئے۔ لیکن مجھے اور میری بیوی کو نہ پیغمبری کا شوق ہے نہ کبوتروں کا۔ کیونکہ ہم دونوں معمولی انسان ہیں بلکہ جب ہماری شادی کے پانچ سال بعد تک ہمارے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا تھا تو پڑوسی ہمیں یوں شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے جیسے ہم ا سمگلر ہوں۔ بچوں کے جھولے بنانے والا بڑھئی ہماری طرف دیکھتا تو ناک سکوڑ لیتا۔ ایک دکاندار نے تو ہمیں قرض دینے سے انکار کر دیا تھا کہ بانجھ لوگوں کا کیا اعتبار ہے، کب خودکشی کر جائیں یا پیغمبر بن جائیں اور قرضہ ڈوب جائے۔

    اور جب پہلا بچہ تولّد ہوا تو اُس نے آتے ہی حالات نارمل کر دیے۔ جھولے والے بڑھئی سے لے کر زائچہ بنانے والے جیوتشی تک سب نے یہی کہا کہ بچہ بڑا بھاگوان ہے اور بڑا ہو کر بادشاہ بنے گا اور خاندان کا نام روشن کرے گا۔ چنانچہ ہماراوہ پہلا فرزند ارجمند گذشتہ دنوں نوکری نہ ملنے کی وجہ سے گھر سے نکل کرنہ جانے کہاں بھاگ گیا ہے اور دکاندار سے لے کر شری کیدارناتھ ریٹائرڈ ایڈوکیٹ تک سبھی یہ کہہ رہے ہیں کہ بھگوان نالائق اولاد کسی کو نہ دے۔

    مگر میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ بھگوان نالائق اولاد بھی دے اور لائق بھی۔ لیکن سب سے زیادہ اولاد وہ دے جو درمیانہ قسم کی ہو۔ آئیڈیل گرہستی زندگی صرف درمیانہ اولاد کے سہارے ہی چلتی رہی ہے۔ نہ صرف گرہستی زندگی بلکہ خدا کی ساری خدائی بھی۔ میری بیوی اور آپ سب درمیانہ قسم کی اولاد ہیں، خدا کی خدائی ہم سے قائم ہے۔ ہم تمنّائے خداوندی ہیں۔ ہم مقصدِ تخلیق ہیں۔ میری بیوی نے جب جب بھی مندر میں جاکر پرارتھنا کی، جب جب خدانے ہمیں ایک درمیانہ بچہ عطا کر دیا اور جب جب بھی پرارتھنا کے بغیر بچہ پیدا ہوا وہ لائق نکل آیا یا نالائق۔ میری بیوی گواہ ہے کہ نہ نالائق بچے ہمارے کام آئے نہ لائق۔ ایک لائق بچہ فلاسفر بن گیا اور ایک نالائق بچہ نوکری حاصل نہ کر سکا اور بھاگ گیا۔

    بھائیو اور بہنو! بچوں کی پرورش اور تربیت کے مسئلہ پر میں اپنا کوئی تجربہ بیان نہیں کروں گا۔ کیونکہ اس مسئلہ پر ہزاروں کتابیں مارکیٹ میں موجود ہیں، آپ انھیں پڑھ سکتے ہیں۔ ہمارا جو لڑکا گھر سے بھاگ گیا ہے اس کی پرورش کے لیے میں نے ڈیڑھ سو کتابیں پڑھی تھیں۔ اور اس کے بھاگ جانے کے بعد وہ تمام کتابیں ایک لائبریری کو دان میں دے دی ہیں۔

    میرا خیال ہے جناب! کہ معمولی رکھ رکھائو کے علاوہ بچوں کی تربیت پر زیادہ مغزپچی نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ بچے خود بڑے ہوشیار ہوتے ہیں۔ کئی نالائق والدین کے بچوں کو جب میں وزیر اور ادیب بنتے دیکھتا ہوں تو والدین پر سے میرا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ میری اہلیہ محترمہ نے لاکھ کوشش کی کہ ہمارا منجھلا لڑکا بازاری گالیاں سیکھ جائے جو اسے اپنی ماں کے زیر سایہ مل رہی ہیں مگر لڑکا بالکل بدھو نکلا یعنی ہمیشہ سر نیہوڑا کر چلتا ہے۔ میرے ایک اور بچے کا خیال ہے کہ ڈیڈی مجھے تو مضمون پولٹیکل سائنس پڑھا رہے ہیں حالانکہ میں ٹیکسی ڈرائیور بنوں گا۔ اسی طرح میری ایک چھوٹی بچی ہمیشہ اپنی سہیلیوں کی پٹائی کر کے گھر آتی ہے، حالانکہ اس کے لہو میں ہماری گذشتہ آٹھ نسلوں کا شریفانہ کلچر گھلا ہوا ہے۔ اگر وہ بڑی ہو کر کسی ملک کی ڈکٹیٹر نہ بنی تو یہ ایک انتہائی غلط بات ہوگی۔

    لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجھے بچوں سے پیار نہیں ہے۔ مجھے تو اپنے بچوں سے اتنا گہرا پیار ہے کہ یہ پیار میری بیوی کی آنکھوں میں کئی بار کھٹکا ہے۔ لیکن پیار میرا ذاتی پرابلم ہے، بچوں کا نہیں۔ ورنہ بچے اپنی تربیت خود کر لیتے ہیں۔ اپنی ترقی، اپنا مستقبل، اپنی نفرت، اپنا حسد، اپنے رجحان کا تصفیہ وہ خود کرتے ہیں اور یہ تصفیہ اکثر صحیح ہوتا ہے۔

    لیڈیزاینڈ جنٹس! شاسترانوسار آج ہمارا گرہست آشرم کا پیریڈ ختم ہو چکا اور بان برستھ آشرم شروع ہو گیا۔ لہٰذا کل میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اب ہمیں بن کی طرف نکل جانا چاہیے لیکن وہ ٹال مٹول کرنے لگی۔ مشکل یہ ہے کہ اس کی کوئی پڑوسن، کوئی سہیلی آج تک بن میں نہیں گئی۔ میں نہیں جانتا یہ شاستروں کی توہین ہے یاشاستروں کے احکام میں کوئی خامی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ شاستروں کی فروخت ممنوع قرار دے دی جائے۔ لیکن یہ ضرور چاہتا ہوں کہ ان کے احکام پر عمل کروانے کے لیے سرکار کوئی قانون ضرور بنائے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ شاستروں کے احکام صحیح ہیں۔ غلطی صرف میری بیوی میں ہے یا اس کی سہیلیوں میں۔

    ایک مرحلہ پر میری بیوی اس بات پر متفق ہوگئی تھی کہ وہ بن میں چلنے کے لیے تیار ہے مگر اس شرط پر کہ دونوں ایک ہی بن میں ایک ہی کٹیا میں رہیں۔ لیکن یہ تجویز مجھے ’’سُوٹ‘‘ نہیں کرتی تھی۔ میں کہتا تھا کہ تم ڈنڈک بن میں جائو اور میں پوبن کی طرف نکل جاتاہوں۔

    جناب! جب ہندوستان میں بہت سے بن موجود ہیں تو کیوں نہ اُن سے فائدہ اُٹھایا جائے۔ لیکن افسوس! میری بیوی کاٹیسٹ اتنا ڈیولپ نہیں ہے۔ کاش! شاستروں میں ٹیسٹ ڈیولپ کرنے کے طریقے بھی درج کیے جاتے تو ان کے احکام پر زیادہ بہتر طریقہ پر عمل کیا جا سکتا تھا۔

    حضرات! اب میں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔ مگر خاتمہ پر ایک راز کا انکشاف بھی کرنا چاہتا ہوں کہ میرے دل میں کئی بار دوسری شادی کا خیال آتا رہا ہے۔ ہر خاوند کے دل میں ایک آدھ بار یہ خیال ضرور آتا ہے مگر میری بیوی کو خوش ہونا چاہئے کہ میں نے اس خیال کو ہمیشہ زبردستی دبا دیا ہے کیونکہ میرا خیال ہے کہ ہر بیوی ایک جیسی ہوتی ہے۔ ہر خاوند بھی پہلے خواند جیسا ہوتا ہے۔ ہر دوسری شادی صرف ایک تجربہ کا اعادہ ہوتی ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ بلّی جب بھی کرتی ہے، میائوں کرتی ہے۔ جب بھی پیدا کرتی ہے، بلونگڑے ہی پیدا کرتی ہے۔ یقین نہ آئے تو میرے دوست مسٹر برش بھان سے پوچھ لیجیے، جن کی تیسری بیوی کے ہاں آٹھواں بچہ پیدا ہوا ہے۔ آٹھواں بلونگڑا نہیں۔

    مأخذ:

    نقوش،لاہور (Pg. 445)

      • ناشر: محمد طفیل
      • سن اشاعت: 1963

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے