Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میزبان بے زبان

احمد جمال پاشا

میزبان بے زبان

احمد جمال پاشا

MORE BYاحمد جمال پاشا

    میزبان اس حواس باختہ انسان کو کہتے ہیں جو عموماً اپنے سے بڑے یا اہم آدمی کو کسی خاص موقع پر شرفِ میزبانی بخشنے کے بہانے گھر بھر کومختلف قسم کی مصیبتوں میں مبتلا کرانے کا وسیع تجربہ رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ گھر والوں کی وہی حالت ہوتی ہے جو گیہوں کے ساتھ گھن کی ہوا کرتی ہے۔ گھر بھر میزبانی کی چکی میں پس کر اچھا خاصا گھن چکر بن جاتا ہے۔

    علم الانسان کے ماہرین نے میزبان کی تشریح یوں کی ہے،

    ’’دورِ جدید کا ایسا انسان جس کے ایک ہاتھ میں جھاڑن، دوسرے میں جھاڑو ہوتی ہے۔ اسے دوسروں کی صفائی پر بھروسہ نہیں ہوتا۔ اس لیے صفائی کے بعد وہ خود بھی جھاڑ پونچھ کرتا ہے کہ دروازے، کھڑکیاں ٹھیک سے صاف ہیں؟ کہیں جالا تو باقی نہیں۔ کسی صوفے یا کرسی پر گرد تو نہیں۔ اس سلسلے میں وہ مہتر سے باورچی تک کے فرائض ادا کرتا ہے۔ عموماً اس قسم کا انسان شہروں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔

    میزبان کا آغاز مہمانی سے ہوتا ہے۔ میزبان پر مہمان اسی طرح نازل ہوتے ہیں جیسے گنہ گاروں پر عذاب۔ کسی مہمان نے میزبان کے لیے کیا پھڑکتا ہوا مصرعہ کہا ہے ؛

    ہمارے بھی ہیں میزباں کیسے کیسے

    مشرقی تہذیب میں میزبانی اب سے پچاس سال پہلے تک خوش قسمتی سمجھی جاتی تھی، جس کا فن یہ تھا کہ پیٹ بھروں کو کھلایا جائے اور مربھکوں کو مار مار کر ہنکا دیا جائے۔ یہ روایت اب بھی برقرار ہے۔

    میں بنیادی طور پر میزبان ہونے کے مقابلے میں مہمان ہونا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ نہ تو میں مہمان ہوتے ہی اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ ’’گرم پانی سے غسل میری کمزوری ہے۔‘‘ نہ یہ کہتا ہوں کہ’’میں چائے سے پہلے ایک گلاس گرم دودھ پیتا ہوں جس میں کم از کم پا ؤ بھر بالائی ہو جس کو معتدل بنانے کے لیے اس میں آدھ پا ؤ پستہ اور بادام پیس کر ملادیا جائے اور محض دوانڈے توڑ کر ان کی زردی ڈال دی جائے۔‘‘ نہ میں میزبان پر انکشاف کرتا ہوں کہ اصلی گھی میری کمزوری ہے۔ ڈالڈا گلا پکڑ لیتا ہے۔ گوشت میں کہاں کھاتا ہوں اس لیے جانور بٹیر سے چھوٹا نہ ہواورمرغ سے بڑانہ ہو۔ یوں میں بھی مرغ پر تیتر کو ترجیح دیتا ہوں۔ نہ میں جاتے ہی میزبان کو پان کا ڈبہ تھماتے ہوئے فرمائش کرتا ہوں، ’’بھئی اس میں پان، چھالیہ، زردہ، قوام، الائچی وغیرہ بھروا دو۔ میں تو بس جاتے ہی کہہ دیتا ہوں کہ بھئی تکلف کی ضرورت نہیں۔ گھر میں جو سبزی، دال، بھات، روٹی ہو وہی کھلا دو۔ اہتمام سے تکلف اور غیریت کی بوآتی ہے۔‘‘

    مجھے جہاں بھی جانا ہوتا ہے بس ذرا بن سنور کر تیار ہو جاتا ہوں۔ میزبان نے جو و قت دیا ہے اس سے دو یا ڈھائی گھنٹہ بعد ٹھاٹھ سے پہنچتا ہوں۔ نہ مہمان دار کو شرمندگی کہ ابھی تو اس نے نہ کوئی تیاری کی تھی نہ کوئی صاحب تشریف لائے۔ پہنچتے ہی ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔ میزبان جو بے صبری سے منتظرتھا کہ موصوف تشریف لائیں تو چرندم خورندم کا خوش گوار سلسلہ شروع کیا جائے وہ بھی خوش ہوگیاجس کا مفید نتیجہ یہ ہوتاہے کہ خاطر مدارات کا سلسلہ واپسی تک جاری رہتا ہے۔

    میزبانی کا چکر میں اس لیے نہیں پالتا کہ اس میں اچھے خاصے تشریف آدمی کی فی زمانہ درگت بلکہ حجامت بن جایا کرتی ہے۔ پھر بھی شریف آدمی ہیں ناقدرے نہیں۔ اس لیے اگر کبھی پھنس گئے تو میاں! ہوٹل زندہ باد! ایک تولسٹ لطیف تک وقت مقررہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ دوسرے کھایا پیا، ہنسے بولے، بل ادا کیا، شکریہ ادا کیا، چل دیے۔ اتنے تھینکس ملتے ہیں کہ بل ادا کرنا تک نہیں کھلتا۔

    میزبانی کے باقاعدہ دورے تو ہمارے عزیز دوست علامہ شہرت پر پڑا کرتے ہیں۔ ہر چند کہ علامہ صاحب کی میزبانی ہمیں ہمیشہ مہنگی پڑتی ہے۔ تجربہ ہے کہ ان کا ایٹ ہوم تک کبھی خالی از علت نہ نکلا اور ان کا ایک ایک مرغ فائیواسٹار میں ڈنر سے بھی مہنگا پڑا۔ ہمیشہ ان کی دعوت سے ہم بھاگے انہوں نے ہربار دوڑایا اور وہی جیتے۔ ہم ہارے۔

    ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ ہم علامہ صاحب کے مہمان تھے۔ علامہ ٹھہرے پیدائشی کنوارے۔ شادی کی عمر نکل جانے کے باوجود خوش تھے کہ ’’اس میدان میں اب سب سے سینئر ہوں۔‘‘ جہاں تک علامہ کی شادی کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں جتنے منھ اتنی باتیں اور مختلف افواہیں ہیں۔ وہ اپنے کنوارے ہونے پر ہر عیب کی طرح حسب معمول فخر کیا کرتے تھے مگر جب شادی کا ذکر چھڑجائے اوربات ان کی جوانی تک پہنچ جائے تو وہ بالکل لیٹر بکس بن جاتے تھے جس میں ہر محبت نامہ ڈالا جاسکتا ہے، مگر لیٹربکس سے کچھ معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ وہ منزل تک پہنچا سکتا ہے مگر منزل کے بارے میں کچھ بتا نہیں سکتا۔ وہ اس طرح مسکین کی طرح نظریں نیچی کرکےچپ چاپ رہتے ہیں کہ جیسے مزدور مالک کے سامنے یا کلرک افسرکے سامنے۔ ایسے میں وہ پچپن کے سن میں بھی پندرہ کے معلوم ہوتے ہیں اور شبہ ہوتاہے کہ ایجاب و قبول کی منزل پر ہیں۔ پچپن تو ہمارابیان انکساری ہے ورنہ وہ عمر کی اس منزل پر پہنچ گئے ہیں جہاں آدمی چاہے شرمائے یا ٹھنڈی سانس بھر کے خاموش ہوجائے۔ ان کی اس شرم ناک خاموشی نے بہت سی داستانوں کو جنم دیا جو حلقہ احباب میں افواہوں کی طرح گشت کرتی اور موسم کی طرح بدلتی رہتی ہیں۔

    علامہ کے ایک ہمدرد کا بیان ہے کہ نصف صدی قبل نوجوانی میں کہیں آنکھ لڑگئی تھی یعنی انہوں نے کسی کو دل ہی دل میں پسند کرلیاتھا مگر ان پسندیدہ صاحبزادی کے فرشتوں کو اس کا کبھی علم نہ ہوسکا۔ پھر یہ اپنے چکروںمیں ایسے غائب ہوئے جیسے سنیما ہال میں جب فلم اپنے کلائمکس پر ہوتو بجلی غائب ہوجائے اور انہیں پتہ بھی نہ لگ سکا کہ وہ ماہ جبیں کب بیاہ کر پردیس سدھار گئی۔ ان کے دل کے قبرستان میں اس کا مزار محبت ہے جس کے وہ جاروب کش ہیں۔

    ان کے ایک دوست جن سے علامہ کے تعلقات رازونیاز کی حدتک تھے، کا محتاط بیان ہے کہ کبھی کہیں راہ میں کسی الھڑلڑکی کی، ہر بڑ میں آپ سے کہنی اس طور پر چھو گئی کہ یہ سنیما کے ٹکٹ کی لائن کے ریلے میں تھے۔ موصوف کے جسم میں کہنی سے دماغ تک سیکڑوں بجلیاںسی چمک گئیں۔ کوندے لپک گئے۔ دوران فلم یہ بجائے پکچر کے اس کی کہنی دیکھتے رہے۔ جب فلم ختم ہوئی تونہ اس کی کہنی پہچان سکے نہ اس کی پیٹھ کہ وہ کون تھی۔ اسی کوشش میں یہ ہرشو میں ٹکٹ کی لائن میں جاکر لگتے مگر پھر کبھی نہ کہنی ٹکرائی نہ بجلی چمکی۔

    ایک واقعہ او ربیان کیا جاتا ہے کہ کسی افسانہ نگار خاتون کی تصویر آپ کو بڑی پسندآئی۔ آپ نے اس کا افسانہ بار بار پڑھا اور افسانے کی تعریف لکھ کر رسالہ میں بھیج دی۔ رائے بے حدضررسی تھی اور چھپ گئی۔ افسانہ نگار خاتون نے محض اخلاقاً آپ کو شکریہ کاخط لکھ دیا۔ خط ایک ایسی ٹھوس بنیاد تھا کہ آپ اس پر عاشق ہوگئے۔ جب بھی خط کا جواب لکھنا چاہتے تو ان کے سارے جسم میں تھر تھری سی پیدا ہونے لگتی۔ ہاتھ کانپنے لگتے اسی لیے خط کبھی شروع ہی نہ ہونے پایا۔ عرصہ بعد ایک محفل میں دونوں کا ایک دوسرے سے میزبان نے تعارف کرادیا۔ ان افسانہ نگارخاتون نے اپنے شوہر اورنصف درجن بچوں سے تعارف کرایا۔ بہ مشکل انہوں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بے ہوش ہوتے ہوتے بچے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گھر آنے کے بعد بے ہوش ہوگئے تھے۔ ہمیں اس بات پر اس لیے یقین ہے کہ ان کا ہر کام بہت ہی تاخیر سے ہوتا ہے۔ فیصلہ نہ کرپائے ہوں گے کہ بے ہوش کہاں پر ہوں۔ مگر وہ تو ہونا تھا اس لیے ہوگئے۔

    علامہ کے جب ہم مہمان ہوئے تو وہ اس لیے خوش تھے کہ مجھے اور میرے ملازم کو ملاکر اب ان کی باقاعدہ فیملی ہوگئی اورکہتے، اب یہ باقاعدہ گھر تو معلوم ہوتا ہے۔ یوں تو علامہ کے یہاں نوکروں کے علاوہ ہمیشہ کچھ رشتہ دار بھی نظر آتے ہیں۔ مگر ہم تو ان کے باقاعدہ مہمان تھے اور وہ میزبان۔ ابھی سکون کے ہم نے دوچار ہی دن گزارے تھے کہ ایک پر بہار صبح کو ہم نے محسوس کیا کہ علامہ یا تو گھر میں زلزلہ لے آئے ہیں یا پھر قسطوں میں قیامت آرہی ہے ورنہ سپر پاورس آپس میں ٹکرا گئی ہیں اور اب دنیا کا خاتمہ قریب ہے۔ تھوڑی دیر بعد ان کے چیخنے چلانے اور بھاگنے دوڑنے کی آوازیں آنے لگیں۔ کئی بار تو ہم پکارتے ہی رہ گئے مگر وہ عجیب حلیے میں ہمارے سامنے سے سرپٹ نکل گئے۔

    جائے حادثہ اور موقعِ واردات کا معائنہ کرنے کے لیے ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہم نے پہلی بار علامہ صاحب کو جس ہیئت کذائی میں دیکھا اس پر یقین کرنے کو جی نہ چاہتا تھا۔ تفتیش سے معلوم ہوا کہ چھت پر سے کوئی چوہیا اچانک ان کے بسترپر گری اور یہ اچھل کر بھاگے اور پھر جب دوڑتے ہوئے داخل ہوئے تو ان کی چادر میں الجھی ہوئی وہ اچک پھاند کر رہی تھی اور پھر یہ پاجامے کے پائنچے سے الجھ کر گرپڑے۔ جب ان کی طبیعت قدرے بحال ہوئی تو انہوں نے کہا؛

    ’’آپ ہوٹل میں ناشتہ کرنے جارہے ہیں۔ چلیے آپ ناشتہ کیجیےگا اور میں آپ کا پورا واقعہ بتاؤں گا۔‘‘

    میں نے پوچھا، ’’علامہ آ پ نے ناشتہ کرلیا؟‘‘

    ’’ناشتہ تو نہیں کیا۔ آپ کے ساتھ کروں گا۔‘‘

    اور ہم لوگ اس بلائے بے درماں کے علامہ پر حملے کی داستان سنتے ہوئے ناشتہ کرنے چل دیے۔

    دوپہر کو علامہ خبر لائے کہ بل اگر آپ ادا کریں تو میں آپ کو بہترین ہوٹل میں لے چلوں۔

    بھوک کے مارے برا حال تھا۔ ہم نے کہا، ’’چلو۔‘‘ اب ہم خوشی خوشی آگے آگے چل رہے تھے۔ کہتے جاتے،

    ’’بہترین بریانی ہوتی ہے اور آئس کریم کا کیا کہنا۔‘‘

    جیسے ہی ہم علامہ کے مہمان ہوئے از راہ قدردانی انہوں نے پڑوس کے ہوٹل کے بیرے کو بلاکر اس کا سامنا کرادیا۔ ’’جب بھی صاحب یہاں سے پکاریں، تم فوراً چائے لے کر آجانا۔ جاؤ چائے لے آؤ۔‘‘ جب چائے پی چکے تو کہنے لگے، ’’منھ کیا دیکھتا ہے، صاحب سے چائے کے پیسے مانگ۔‘‘ میں نے پیسے دے دیے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آکر پوچھتے، ’’چائے منگوا دوں؟‘‘ خالی چائے کلیجے پر جاکر ٹن سے لگتی ہے۔ مکھن لگے تو میں بھی منگوالوں؟

    میں تو کام سے گیا تھا، مگر جب بھی جانے کا نام لیتا وہ آب دیدہ ہوجاتے اور کہتے، ’’آپ کے جانے سے بڑی تکلیف ہوجائے گی۔ آپ اسے اپنا ہی گھر سمجھیں اور مجھے مہمان۔‘‘

    دوسری بار جب میں وہاں گیا اور ہوٹل میں ٹھہر گیا۔ یہ ملے تو موٹر سائیکل روک کر بہت بگڑے اور بولے،

    ’’اس میزبان قدردان کے ہوتے ہوئے آپ اور ہوٹل میں ٹھہریں؟‘‘

    میں نے پوچھا، ’’آپ کیوں چاہتے ہیں کہ میں ہوٹل میں نہ ٹھہروں؟‘‘

    کہنے لگے، ’’اس لیے کہ میں ٹھہرا کاروباری آدمی۔ آخر ہر وقت کھانے اور ناشتہ کے لیے کہاں دوڑ سکوں گا۔ ساتھ رہیے گا تو کم از کم اس کا تو اطمینان رہے گا کہ خود نہیں گئے تو آپ نے نوکر ہی سے منگا لیا۔‘‘

    مأخذ:

    انتخاب مضامین احمد جمال پاشال (Pg. 81)

    • مصنف: احمد جمال پاشا
      • ناشر: اترپردیش اردو اکیڈمی، لکھنؤ
      • سن اشاعت: 1988

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے