Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ماڈرن ہتوپدیش

فکر تونسوی

ماڈرن ہتوپدیش

فکر تونسوی

MORE BYفکر تونسوی


    ہریجنوں کا تھانے دار
    ہریجن خاکروبوں کی ہنگامی میٹنگ میں ہریجن لیڈر غصے کے مارے جھاگ اڑاتے ہوئے بول رہاتھا، ’’میں۔۔۔ میں۔۔۔ اس بددماغ تھانے دار کا خون پی جاؤں گا، جس نے ہمارے ہریجن خاکروبوں کی توہین کی ہے۔ تم مجھے آگیا دے دو تو میں اس کا سر کاٹ کر اس ہریجن بستی کے چوراہے پر لٹکادوں گا۔ بھائیو! ہم اور تم غریب ضرور ہیں لیکن ہم اپنی غیرت اور خودی کو فروخت نہیں کرسکتے۔ میں اس تھانے دار کو عدالت کے کٹہرے میں جاکر کھڑا کردوں گا۔ تم سب ’’مقدمہ فنڈ‘‘ کے لیے ایک ایک روپیہ نکال دو۔ میں کل ہی اس کے خلاف دعویٰ دائر کردوں گا۔‘‘ 

    مقدمہ فنڈ میں پچاس روپے اکٹھے ہوگئے جو ہریجن لیڈر کو سونپ دیے گئے۔ ہریجن لیڈر میٹنگ سے اٹھ کر سیدھا ’وائن شاپ‘ پہنچا اور ان روپوں سے وہسکی اور اس کے لوازمات خریدلیے۔ 

    رات کو ہریجن لیڈر اور تھانے دار دونوں مل کر ایک دوسرے کی صحت کے جام پی رہے تھے۔ 

    مصرع پرگرہ
    کافی ہاؤس میں دوشاعر آپس میں الجھ پڑے۔ کافی دیر تک بحث مباحثہ کرنے کے بعد ایک شاعر کو اشتعال آگیا اور اس نے دوسرے شاعر کے منہ پر تھپڑ لگاکر کہا، ’’یہ میرا مصرع طرح ہے۔‘‘ 

    دوسرے شاعر نے فوراً جوابی تھپڑ لگاتے ہوئے کہا، ’’اوریہ میں نے گرہ لگائی ہے۔‘‘ 

    شیر اور بکری
    ایک بار کا ذکر ہے کہ ایک کلرک اور اس کا افسر دونوں دوست بن گئے۔ دونوں اکثر اکٹھے دیکھے جاتے۔ کبھی کلرک اپنے افسر کی کوٹھی پر ڈنر کھانے چلا جاتا اور کبھی افسر ا پنے کلرک کے کوارٹر پر پہنچ کر ڈنر کھاتا۔ دونوں ایک ساتھ وہسکی پیا کرتے تھے۔ کافی ہاؤسوں میں، سینماؤں میں، کلبوں میں، تھیٹروں میں حتی کہ کبھی کبھی شکار کے لیے بھی اکٹھے ہی جنگل میں جایا کرتے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے، اس کل یگ میں بھی شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی کیسے پی رہے ہیں۔ 

    بڑی دیر کے بعد کھلا کہ کلرک کی بیوی انتہائی حسین تھی۔ 

    بھرشٹاچاری رپورٹ
    صوبائی اسمبلی میں ایک وزیر نے اعداد و شمار کی ایک رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا، ’’گزشتہ سال صوبے میں اینٹی کرپشن مہم بڑے زور شور سے چلائی گئی۔ اس مہم کے نتیجے میں آٹھ چپڑاسی برخاست کیے گئے۔ پندرہ کلرک معطل کیے گئے۔ تین جونیر افسروں پر جرمانے کیے گئے اور دو بڑے افسروں کو وارننگ دی گئی۔‘‘ 

    اسمبلی کے ممبر نے بآواز بلند کہا، ’’اور آپ کو کیوں گرفتار نہیں کیا گیا، جب کہ آپ بہت بڑے بھرشٹاچاری ہیں۔‘‘ 

    وزیر نے فوراً کہا، ’’کیونکہ مجھے اسمبلی میں رپورٹ پیش کرنی تھی۔‘‘ 

    ایک عاشقانہ تحفہ
    ایک صاحب ایک محترمہ پر عاشق ہوگئے۔ عشق اپنے پورے شباب پر پہنچ گیا۔ جب تک وہ روزانہ ایک دوسرے سے مل نہ لیتے، چین نہ پڑتا۔ محبوبہ اپنے عاشق کو ہر روز کسی نہ کسی جگہ پر پہنچنے کا وقت دے دیتی۔ کبھی انڈیاگیٹ، کبھی چاندنی چوک، کبھی بدھا گارڈن، کبھی یوسف سرائے اور کبھی کسی سینما ہال میں اور عاشق اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچ جاتا۔ ہر روز مختلف بسیں بدل کر بسوں کے انتظار میں تھک ہارکر، بسوں کے اندر دھکم پیل کرتا ہوا بالآخر مقام محبوب تک پہنچ جاتا۔ 

    ایک مرتبہ جب وہ اسی طرح تھکاہارا محبوبہ کے پاس پہنچا تو محبوبہ بڑے رومانٹک موڈ میں تھی۔ جذبہ عشق سے چور چور ہوکر بولی، ’’پیارے! میراجی چاہتا ہے کہ آج تمہیں کوئی تحفہ لے دوں۔ بتاؤ کیا لے دوں؟‘‘ 

    عاشق بولا، ’’ایک بائیسکل لے دو۔‘‘ 

    جیوتشی
    ایک آدمی نے جیوتشی کو اپنا ہاتھ دکھایا۔ جیوتشی نے بڑے غوروخوض سے اس کے ہاتھ کی لکیروں کا معائنہ کیا اور پھر بولا، ’’تمہارے ہاتھ میں عجیب تضاد دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری موت عنقریب واقع ہونے والی ہے لیکن دوسری لکیر کہتی ہے کہ تم موت سے بچ بھی سکتے ہو۔ 

    شخص مذکور بڑا پریشان ہوا اور بولا، ’’ذرا غور سے دیکھو۔ قسمت میرے ساتھ ڈبل رول کیوں کر رہی ہے۔ کیا کوئی ایسا اُپائے نہیں ہے کہ میری موت ٹل جائے؟‘‘ 

    جیوتشی نے کہا، ’’ایک ہی اُپائے ہے کہ آپ کسی شخص کو قتل کردیں تو مزید کئی سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔‘‘ 

    شخص مذکور نے جیب سے چاقو نکالا اور جیوتشی کو قتل کردیا۔ 

    مورتی کا بھرشٹاچار
    ایک بہت بڑا سرکاری افسر رشوت لینے کا بری طرح عادی تھا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ خوف خداکا بڑا قائل تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی کوٹھی کے ایک حصے میں اپنے لیے ایک چھوٹا سا مندر بھی بنوارکھا تھا۔ جہاں وہ اور اس کا پریوار روزانہ پوجا کیا کرتے تھے۔ ایک چھوٹی سی پیتل کی مورتی ان کی پوجا کا مرکز تھا۔ 

    ایک مرتبہ کسی شخص کا کیس اس کے ہتھے چڑھ گیا۔ وہ شخص بھی بھگوان کا بڑا بھگت تھا۔ اس نے اپنے کیس کے سلسلے میں افسر مذکور سے کہا، ’’آپ جو کچھ فرمائیں گے میں آپ کی خدمت میں پیش کردوں گا۔ میرا کیس ٹھیک کردیجیے۔‘‘ 

    ’’افسر نے پوچھا، ’’کیا دوگے؟‘‘ 

    ’’جومانگوگے۔‘‘ 

    ’’اچھا تو میرے گھر کے مندر کے لیے چھ فٹ لمبی اور ایک من بھاری بھگوان کی مورتی بنواکر دے دیجیے۔‘‘ 

    پندرہ دنوں بعد نئی مورتی اس کے مندر میں استھاپت ہوچکی تھی۔ 

    لاکھ طوطے کو پڑھایا
    ایک بہت بڑے فیکٹری اونر نے اپنی تفریح طبع کے لیے ایک طوطا خریدا اور اپنی کوٹھی کے مین گیٹ کے پاس اس کا پنجرا لٹکا دیا۔ اس نے طوطے کی خوب پرورش کی۔ کھانے کو پستہ اور پینے کو شراب دیا کرتا تھا۔ طوطا بے حد پیارا تھا۔ فیکٹری اونر نے اس طوطے کو ایک فقرہ بھی سکھادیا کہ جب بھی میں کوٹھی سے باہر نکل کر دفتر جانے لگوں تو تم یہ فقرہ کہا کرنا، ’’اب کب لوٹوگے؟‘‘ 

    چنانچہ طوطا یہ فقرہ سیکھ گیا اور ہر روز جب سیٹھ جی باہر جانے لگتے طوطا بے ساختہ کہہ اٹھتا، ’’اب کب لوٹوگے؟‘‘ قضارا سیٹھ جی انتقال کرگئے۔ جب ان کی ارتھی کوٹھی سے باہر نکلنے لگی تو طوطے نے بے ساختہ کہا، ’’اب کب لوٹوگے؟‘‘ 

    حاتم طائی دہلی میں
    چند دن ہوئے، حاتم طائی دہلی میں آیا۔ کیونکہ اس کے پاس دہلی کے پوسٹ آفس سے سیکڑوں خط پوسٹ کیے گئے تھے کہ کبھی دہلی میں بھی قدم رنجہ فرمائیے، یہاں کے باشندے آپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ 

    چنانچہ حاتم طائی کو ایک دن رحم آگیا اور وہ دہلی میں آگیا۔ اسے راستے میں جو بھی حاجت مند ملا، اس نے اس کی حاجت پوری کردی۔ بھکاری، کلرک، مزدور، ٹیچر، دکاندار، وکیل، حتی کے ایک رشوت خور افسر کو بھی اس نے دس ہزار روپے دے دیے۔ کیونکہ اسے اپنی بیٹی کی شادی پر شاندار جہیز دینا تھا۔ ہوتے ہوتے یہ خبر سارے دہلی شہر میں آگ کی طرح پھیل گئی کہ حاتم طائی شہر میں آیا ہوا ہے اور وہ دونوں ہاتھوں سے دولت لٹا رہا ہے۔ 

    چنانچہ سارے باشندے اپنا کام کاج چھوڑ کر حاتم طائی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ وہ حاتم طائی کو شام تک ڈھونڈتے رہے مگر وہ کہیں نظر نہ آیا۔ آخر اخبار کے ایک ایڈیٹر نے اس کا پتہ چلالیا اور اسے معلوم ہوا کہ جتنا روپیہ وہ اپنے ساتھ لایاتھا، وہ سبھی بانٹ چکا اور اس کے پاس روٹی کھانے کے لیے بھی پیسے نہیں بچے۔ چنانچہ اس نے اللہ کے نام پر ایک ایک راہ گیر سے بھیک مانگی تو پولیس اسے انسداد گداگری کے قانون کے تحت گرفتار کرکے تھانے لے گئی اور وہ اس وقت تھانے میں قید ہے۔ 

    کالی داس کہاں رہتا ہے؟ 

    ایک دن کا ذکر ہے ایک ریڈیواسٹیشن نے فیصلہ کیا کہ مہاکوی کالی داس کا ڈرامہ ’’شکنتلا‘‘ ریڈیو اسٹیشن سے براڈ کاسٹ کیاجائے۔ جب ڈرامہ براڈ کاسٹ کے لیے بالکل تیار ہوگیا تو وہ افسر جو ڈرامہ پروگراموں کاانچارج تھا، دوڑا دوڑا اسٹیشن ڈائرکٹر کے پاس آیا اور گھبراکر بولا، ’’سر اس ڈرامے کے کنٹریکٹ پر مصنف کے دستخط کروانے ہیں۔ لیکن کالی داس جی کا ایڈریس ہی نہیں مل رہا ہے، کیا کیا جائے؟ اسٹیشن ڈائرکٹر بھی قدرے گھبراگیا اور بولا، ’’ہاں رولز کے مطابق مصنف کی اجازت کے بغیر ڈرامہ براڈکاسٹ نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن بھائی میرے! کالی داس تو انتقال فرماچکے ہیں۔‘‘ 

    افسر مذکور بولا، ’’پھر تو اور بھی مشکل ہے۔ ’’رولز کے مطابق یا تو وہ انتقال نہ کرتے اور یا اب ان کا ڈرامہ براڈ کاسٹ نہیں ہوسکتا۔‘‘ 

    اسٹیشن ڈائرکٹر نے ایک منٹ کے لیے توقف کیا اور پھر ایک دم اسے آئیڈیا سوجھ گیا۔ کنٹریکٹ فارم لے کر اس کے نیچے دستخط کردیے، 

    ’’کالی داس‘‘ 

    ’’اب تو ڈرامہ براڈ کاسٹ ہوسکتا ہے؟‘‘ اسٹیشن ڈائرکٹر نے کہا۔ 

    ’’ہاں لیکن اس کی رائلٹی فیس کا چیک کون وصول کرے گا؟‘‘ 

    ’’اس کا حل بھی سوچ لیں گے۔ پہلے ڈرامہ براڈ کاسٹ کرلو۔‘‘ 

    مجھے بھی بیچ دیجیے
    تاریخی نوادر کی ایک مشہور دکان میں ایک صاحب داخل ہوئے جو تھوڑے سے لنگڑاکر چلتے تھے۔ وہ دکان میں گھوم پھر کر مختلف نوادر دیکھتے رہے اور ان کی قیمت پوچھتے رہے۔ آخر ان کی نظر ایک آئینے پر جاپڑی۔ انہوں نے دکاندار سے پوچھا، ’’اس آئینے کی کیاقیمت ہے؟‘‘ 

    ’’ڈھائی لاکھ روپے۔‘‘ 

    ’’ڈھائی لاکھ؟‘‘ گاہک نے حیرت سے پوچھا، ’’ایک آئینے کی قیمت ڈھائی لاکھ؟‘‘ 

    ’’جی جناب۔۔۔‘‘ یہ وہ آئینہ ہے جس میں ملکہ نور جہاں اپنا چہرہ دیکھا کرتی تھی۔ دوسری میز پر ایک گلاس رکھا تھا۔ گاہک نے اس کی قیمت پوچھی تو دکاندار نے کہا، ’’یہ گلاس پانچ روپے کا ہے، کیونکہ اس میں شہنشاہ جہانگیر شراب نوش فرمایا کرتے تھے۔‘‘ 

    اس پر گاہک نے بہت سنجیدگی سے کہا، ’’آپ مجھے بھی اس دکان پر رکھ لیجیے اور مجھے بطور تیمور لنگ کے بیچ دیجیے گا۔‘‘ 

    ہنومان کی واپسی
    ایک روز کا ذکر ہے کہ ہنومان مختلف ممالک کی سیر کرتے کرتے ہندوستان آپہنچا۔ اس نے سب سے پہلے بالی اور سگریو کا اَتا پتا دریافت کیا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ دونوں یونائٹیڈ فرنٹ پارٹی میں ایک ساتھ کام کر رہے ہیں اور اپنی منسٹری بنانے کی فکر میں ہیں۔ اس کے بعد وہ آبو پربت پر گیا۔ تاکہ سنجیونی بوٹی کے کچھ پتے حاصل کرے۔ لیکن اسے وہاں جانے سے روک دیا گیا کہ وہاں تو جڑی بوٹیوں کی ریسرچ کے لیے ادارہ کھولا گیا ہے۔ اور وہاں سے بوٹیاں توڑنا قانوناً منع ہے۔ مایوس ہوکر وہ اجودھیا پہنچا تو اسے بتایا گیا کہ وہاں باڑھ آچکی ہے، ڈوب جانے کا خطرہ ہے۔ وہاں کی فیکٹریاں تک پانی میں ڈوب گئی ہیں۔ تھک ہار کر وہ دہلی آگیا، جہاں اس نے رام اور سیتا کی کھوج شروع کی۔ کسی نے کہا رام اور سیتا فلاں مندر میں رہتے ہیں۔ کسی نے کہا نہیں فلاں مندر میں رہتے ہیں۔ اس نے ہرمندر کے ہر رام اور سیتا کے سامنے اپنا سینہ چیر کر دکھایا۔ جس کے اندر ’’رام‘‘ لکھا ہوا تھا مگر کسی رام اور سیتا نے بھی اسے نہیں پہچانا کہ یہ واقعی ہنومان ہے! 

    آخر ہنومان مایوس ہوکر دہلی سے اڑا اور لنکا کے ہوائی اڈے پر جااترا اور وہاں بغیر پاسپورٹ کے لنکا میں داخل ہونے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا۔ 

    محاورے جو غلط ہوگئے

    بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ 

    لیکن آج کل کوئی چیز چھینکوں میں رکھی ہی نہیں جاتی، ریفریجریٹر میں رکھی جاتی ہے، جس سے بلی کے بھاگ مستقل طور پر پھوٹ چکے ہیں۔ 

    لنکا میں جو پیدا ہوا باون گز کا! 

    حالانکہ کہ خود لنکا کے وزیر اعظم کا قد صرف دوگز کا ہے۔ 

    ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔ 

    آج کل کوئی ڈانسٹر ایسا بہانہ نہیں کرسکتی۔ کیونکہ ناچ گھر ٹیڑھے بنائے ہی نہیں جاتے۔ آرکٹیکٹ کی سائنس بے حد ترقی کرچکی ہے۔ 

    وہ دونوں برہمن تھے
    ایک قصبے میں دو برہمن رہتے تھے۔ ایک برہمن ان پڑھ تھا لیکن امیر تھا۔ امیر تھا اور عیار تھا۔ جیسا کہ اکثر امیروں کی خصلت ہوتی ہے۔ اس کے گرد ہر وقت اور ہر موقع پر عقیدت مندوں کا ہجوم رہتا تھا، جو اس کی جھولی روپوں پیسوں سے بھردیتے تھے۔ 

    دوسرا برہمن غریب تھا لیکن گریجویٹ تھا۔ اسے دھرم کے نام پر لوٹ کھسوٹ کرنا برا معلوم ہوتا تھا۔ اس نے امیر برہمن کے خلاف پراپیگنڈہ شروع کردیا۔ اور لوگوں کو یہ سمجھانے لگا کہ دھرم بے ایمانی اور لوٹ کی اجازت نہیں دیتا، جس طرح یہ امیر برہمن کر رہا ہے۔ 

    امیر برہمن کو اس کے اس پراپیگنڈے سے بہت اندیشہ محسوس ہوا اور ایک دن اس نے غریب برہمن کو بلاکر کہا، ’’دیکھو، تم بھی برہمن ہو اور میں بھی۔ میرا اور تمہارا خون کا رشتہ ہے۔ اس لیے میں چاہتا ہوں تمہاری کچھ مدد کروں۔‘‘ 

    یہ کہہ کر اس نے غریب برہمن کو پانچ سو روپے ماہانہ پر اپنے ہاں اکاونٹنٹ کی آسامی پر ملازم رکھ لیا اور دونوں برہمن ہنسی خوشی رہنے لگے۔ 

    دھرم کا رَکشک
    شہر کے بہت بڑے مندر میں شہر کے بہت بڑے بڑے معززین جمع تھے۔ یہاں وہ مندر کمیٹی کے پردھان کا چناؤ کرنے آئے تھے۔ کئی تقریروں کے بعد سیٹھ ڈھینگر چند جی کو اتفاق رائے سے پردھان چن لیا گیا۔ تالیوں کی گونج میں سیٹھ ڈھینگر چند جی کو پھول مالاؤں سے لاد دیا گیا۔ سیٹھ جی نے جوابی تقریر میں سب کا شکریہ ادا کیا اور سر نیاز جھکاکر بھگوان کی مورتی کے سامنے وعدہ کیا کہ وہ دھرم کی رکشا کے لیے اپنی جان تک نثار کردیں گے۔ 

    جب پردھان جی مندر سے باہر تشریف لائے تو ایک پولیس پارٹی نے انہیں افیون کی اسمگلنگ کے جرم میں گرفتار کرلیا۔ 

    حضرت عیسٰی مسیح
    سڑک کے بائیں فٹ پاتھ پر دو آدمی آپس میں لڑرہے تھے۔ دونوں کے ہاتھوں میں تیز چاقو چمک رہے تھے، جس سے وہ ایک دوسرے کو زخمی کرنا چاہتے تھے۔ ایک صاحب انہیں لڑتے دیکھ کر تیزی سے ان کی طرف لپکے اور ان دونوں کے ہاتھ میں کاغذ کا ایک ایک پرزہ دے کر چلے گئے۔ دونوں نے پرزے کی طرف دیکھا۔ اس پر لکھا تھا، 

    ڈاکٹر بھیم سنگھ سرجن۔ 

    ہمارے کلینک میں زخموں کی مرہم پٹی کا بہترین انتظام ہے۔ 

    سیدھے سادے جواب
    ’’آپ دوسرے ستیہ آگرہیوں کے ساتھ جیل کیوں نہیں گئے؟‘‘ 

    ’’مجھے گھر میں تھوڑا سا کام تھا۔‘‘ 

    ’’آپ دریا میں چھلانگ لگاکر خودکشی کرنے گئے تھے۔ لوٹ کیوں آئے؟‘‘ 

    ’’پانی ٹھنڈا تھا۔‘‘ 

    ’’آپ نے اپنی محبوبہ کے نام جو ’’لولیٹر‘‘ لکھا تھا اسے پہنچانے کے لیے خود اس کے گھر کیوں گئے تھے؟‘‘ 

    ’’ڈاک ٹکٹ خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔‘‘ 

    ’’میں نے آپ کو اپنے جنم دن پر ڈنر کا دعوت نامہ بھیجا تھا۔ آپ تشریف کیوں نہیں لائے؟‘‘ 

    ’’دعوت نامے پر تاریخ درج نہیں تھی۔‘‘ 

    ’’آپ نے اس بھدی عورت سے کیوں عشق کرنا شروع کردیا، جب کہ آپ کی اپنی بیوی انتہائی خوبصورت تھی؟‘‘ 

    ’’کیونکہ میری بیوی نے ایک موٹے بھدے شخص سے عشق شروع کردیا تھا۔‘‘ 

    تین ادھوری خبریں
    (۱) اٹلی میں ابھی ابھی ایک ایسی عورت کاانتقال ہوا ہے جس کی عمر ایک سو تیس سال تھی۔ خبر میں لکھا گیا ہے کہ اس کی درازیٔ عمر کا راز یہ تھا کہ اس نے ساری زندگی کسی مرد کے ساتھ جنسی تعلقات قائم نہیں کیے تھے۔ 

    (۲) ڈاکٹروں نے ایک کا دل دوسرے کے سینے میں فٹ کرنے کے لیے چھ آدمیوں پر تجربے کیے۔ ان میں سے پانچ تجربے ناکام رہے اور وہ جانبر نہ ہوسکے۔ لیکن چھٹا آدمی جس کے سینے میں ایک عورت کا دل فٹ کیا گیا، وہ ابھی تک زندہ ہے۔ 

    مرد مرگیا۔ عورت زندہ ہے۔ 

    (۳) ایک امیرترین آدمی نے پچاس سال کی عمر میں ایک وصیت لکھ کر رکھ دی کہ جب وہ انتقال کرجائے تو اس کی ساری جائداد ایک وِوھوا آشرم کو دے دی جائے۔ لیکن جب وہ اٹھانوے سال کی عمر میں فوت ہوا تو اس وقت اس حدتک دیوالیہ ہوچکا تھا کہ اس کے کفن کے لیے بھی محلے سے چندہ جمع کرنا پڑا۔ 

    دوبھوکے

    ایک بلی نے کہا، میاؤں! 

    چوہے نے جواب دیا، ’’لیکن میں بے حد بھوکا ہوں۔ پہلے مجھے کچھ کھانے کو لادو۔‘‘ 

    بلی نے ڈبل روٹی کے دوٹکڑے لاکر اسے دیے، جسے چوہا کھاگیا۔ اس کے بعد بلی چوہے کو کھاگئی۔ 

    ڈر کس سے ہے؟
    میں اس سیاست داں سے کبھی نہیں ڈرتا جو اپنے دشمن سے دشمن کا سا سلوک کرتا رہے، بلکہ میں تو صرف اس سیاست داں سے ڈرتا ہوں جو دشمن کے ساتھ دوست کا سلوک کرتا ہے اور اسے دشمنی کرنے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔ 

    لازم و ملزوم
    میں نے ایک سیاست داں سے پوچھا، ’’تم نے ڈھٹائی کہاں سیکھی؟‘‘ 

     وہ بولا، ’’سیاست سے۔‘‘ 

    ’’اور سیاست کہاں سیکھی؟‘‘ 

    ’’ڈھٹائی سے!‘‘ 

    دو دوست
    گلی میں ایک بچہ کھڑا رو رہا تھا۔ ایک پاگل نے اسے اٹھایا اور اس کے سامنے زور زور سے ہنسنے لگا۔ 

    بچہ بھی زور زور سے ہنسنے لگا۔ 

    بچے کی ماں بھاگی بھاگی آئی اور بچے کو چھین کر لے گئی۔ 

    بچہ پھر رونے لگا۔ 

    پاگل بھی رونے لگا۔ 

    بیربل نامہ
    ایک بار اکبر بادشاہ نے بیربل سے کہا، ’’بیربل! کل رات ہمیں خواب میں ایک پاگل دکھائی دیا جو کہنے لگا میں بیربل ہوں۔‘‘ 

    بیربل بادشاہ کی اس چھپی چوٹ کو بھانپ گیا مگر ضبط کرکے بولا، ’’تو حضور نے کیا کیا؟‘‘ 

    بادشاہ بولا، ’’میں نے اس کو اپنا وزیر بنالیا۔‘‘ 

    بیربل نے فوراً کہا، ’’کمبخت بڑا عقلمند تھا، حضورکو بھی بے وقوف بناگیا۔‘‘ 

    کوّا یا خدا؟ 

    ایک پاگل نے ایک راہ چلتے آدمی کو زبردستی پکڑ لیا اور آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’وہ دیکھو، وہ آسمان پر جو اڑ رہا ہے، یہ خدا ہے یا کوّا ہے؟‘‘ 

    اس آدمی نے کہا، ’’کوّا ہے۔‘‘ 

    پاگل نے اسے چھوڑ دیا اور کہا، ’’جاؤ بھاگ جاؤ تم بھی میری طرح پاگل معلوم ہوتے ہو۔‘‘ 

    پاگل بننے کے آزمودہ طریقے
    (۱) ہمیشہ ایسی لڑکی سے عشق شروع کرو۔ جو انتہائی خوبصورت اور انتہائی جاہل ہو۔ 

    (۲) صبح اٹھتے ہی سچ بولنا شروع کردیجے، انشاء اللہ شام تک ضرور پاگل ہوجائیں گے۔ 

    حق بحق دار رسید
    فٹ پاتھ پر ایک بھکاری کی موت واقع ہوگئی۔ اس کی گودڑی میں سے ڈیڑھ ہزار روپیہ نقد نکل آیا۔ لوگوں نے وہ روپیہ معزز شہر کے حوالے کردیا تاکہ وہ اسے مفاد عامہ کے لیے خرچ کردے۔

    دوسرے دن معزز شہر نے وہ تمام روپیہ شہر کے بھکاریوں میں بانٹ دیا اور روپیہ پھر گودڑیوں میں پہنچ گیا۔ 

    اشتہار باز
    علاقے کے دوگروپوں میں لڑائی ہوگئی۔ شہر کے ایک معزز نے بیچ بچاؤ کرانا چاہا، تواسے بھی دوچار لاٹھیاں لگیں اور وہ بے ہوش ہوگیا۔ جب اسے اٹھاکر ہسپتال لے جانے لگے تو اس نے اچانک آنکھ کھولی اور کہا، ٹھہر جاؤ، مجھے فی الحال ہسپتال مت لے جاؤ۔ 

    ’’کیوں؟‘‘ 

    ’’پہلے اخبار کے فوٹو گرافر کو بلاؤ تاکہ وہ میرا فوٹو لے کر کل کے اخبار میں چھاپ دے۔‘‘

    مأخذ:

    فکر نامہ (Pg. 199)

    • مصنف: فکر تونسوی
      • ناشر: انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
      • سن اشاعت: 1977

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے