aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پڑوسن کا کورم

ابراہیم جلیس

پڑوسن کا کورم

ابراہیم جلیس

MORE BYابراہیم جلیس

    یہ ممکن ہے کہ ایک مرد دوسرے مرد کا زندگی بھر دوست رہے لیکن یہ ناممکن ہے کہ ایک عورت دوسری عورت کی زندگی بھر دوست رہے۔

    ہمارا یہ بڑا پرانا مشاہدہ ہے کہ عورت، عورت کی دوستی سے جتنی جلد اکتا جاتی ہے اتنی جلد کسی چیز سے نہیں اکتاتی۔ آج دوستی ہو تو ہفتہ دو ہفتہ یا مہینہ دو مہینے بعد ’دوست عورتیں‘ ایک دوسرے کو ایسی نظروں سے دیکھنے لگتی ہیں جیسے ایک دوسرے سے کہتی ہوں ’’آ بہن، لڑیں۔‘‘

    چنانچہ ہمارے محلے کی ایک نئی پڑوسن اور پُرانی پڑوسن میں صبح دوستی ہوئی اور شام کو ایک دم محلّے میں شور مچ گیا۔ ہم نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا تو دونوں پڑوسنیں اپنے اپنے آمنے سامنے کے گھروں کے دروازوں پر کھڑی سارے محلے والوں کو ایک دوسرے کے حسب نسب کے شجروں سے واقف کرارہی تھیں۔

    پرانی پڑوسن سے تو ہم واقف تھے ہی لیکن اس جھگڑے سے نئی پڑوسن اور اس کے حسب نسب سے بھی فوراً واقفیت حاصل ہوگئی۔

    دو عورتوں کی لڑائی دو عورتوں تک کبھی محدود نہیں رہی، لہٰذا اس اصول کے تحت چار عورتیں نئی پڑوسن کی طرف سے اور چار عورتیں پُرانی پڑوسن کی طرف سے اس لڑائی میں کود پڑیں۔

    یہ تو بعد میں پتہ چلاکہ دونوں کی حمائتی خواتین میں سے کسی کو بھی پتہ نہ تھا کہ یہ دونوں پڑوسنیں آخر کس بات پر لڑ رہی ہیں۔ لیکن چونکہ لڑائی شروع ہو چکی تھی اور دو عورتوں کی لڑائی جلد ختم ہو جاتی ہے اس لئے چارعورتیں اِدھراور چار عورتیں اُدھر آگئیں اور ان کے تیور بتارہے تھے کہ

    لڑائی کی وجہ تو صلح کے بعد معلوم کرلیں گے، فی الحال لڑائی نہ ہونے دو۔

    محلے کی جو عورتیں اس لڑائی میں شریک نہ تھیں، انہوں نے اپنے اپنے گھروں میں اپنی اپنی ’’جوتیاں اوندھا دی تھیں۔‘‘ تاکہ لڑائی جلد ختم نہ ہو اور عورت ذات بدنام نہ ہو۔

    معرکہ بڑا گرم تھا۔ دونوں فریق عورتوں نے چیخ چیخ کر اسمبلی کا سماں باندھ دیا تھا۔

    ہم بڑی محویت کے عالم میں یہ لڑائی دیکھ رہے تھے کہ ہماری بیوی نے بڑے غصّے سے ہمیں دیکھا اور بولی، ’’شرم نہیں آتی اس طرح دیکھتے ہوئے۔‘‘

    ہم نے جواب دیا، ’’بخدا ہم پڑوسنوں کو نہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ صرف لڑائی دیکھ رہے ہیں۔‘‘

    بیوی کو بڑا غصّہ آیا اور بولی، ’’میں دیکھتی ہوں کہ تم کیسے دیکھتے ہو؟‘‘

    یہ کہہ اس نے گھر کی ساری کھڑکیاں اور دروازے بند کردئے۔ ناچار ہمیں اندر اپنے کمرے میں جانا پڑا۔

    لیکن لڑائی ایسی زوروں سے جاری تھی کہ اندر بھی صاف سُنائی دے رہی تھی۔

    یہ لڑائی ’’سننے‘‘ کے علاوہ ’’دیکھنے‘‘ والی بھی تھی مگر خیر، شادی کرنے کے نقصانات بھی تو کچھ ہوتے ہیں!

    کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بڑی چیخ پکار رہی لیکن پھر اچانک لڑائی بند ہوگئی۔ ایک دم ایسا سنّاٹا چھاگیا جیسے کسی نے ریڈیو پاکستان کے ڈرامے کو عین ’’کلائمس‘‘ کے موقع پر ’’آف‘‘ کردیا ہو۔

    ہم نے گھبراکر بیوی سے پوچھا، ’’کیوں خیر تو ہے۔ لڑائی اچانک کیسے بند ہوگئی؟‘‘

    بیوی نے نئی پڑوسن پر ترس کھاتے ہوئے کہا، ’’بے چاری کا کورم ٹوٹ گیا۔‘‘

    مأخذ:

    ہنسے اور پھنسے (Pg. 77-80)

    • مصنف: ابراہیم جلیس
      • ناشر: راجیو پرکاشن، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1978

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے