Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فلاسفر

MORE BYشفیق الرحمان

    آخر اس گرم سی شام کو میں نے گھر میں کہہ دیا کہ مجھ سے ایسی تپش میں نہیں پڑھا جاتا۔ ابھی کچھ اتنی زیادہ گرمیاں بھی نہیں شروع ہوئی تھیں۔ بات دراصل یہ تھی کہ امتحان نزدیک تھا اور تیاری اچھی طرح نہیں ہوئی تھی۔ یہ ایک قسم کا بہانہ تھا۔ گھر بھر میں صرف مجھے امتحان دینا تھا۔ حامد میاں امتحان سے فرنٹ ہوچکے تھے کہ اگلے سال دیں گے۔ ننھی عفت کو خواہ مخواہ اگلی جماعت میں شامل کردیا گیا تھا۔ باقی جو تھے وہ سب کے سب پاس یا فیل ہوچکے تھے۔

    لازمی طور پر میری ناز برداریاں سب سے زیادہ ہوتیں۔ طرح طرح کے ناشتے، ذرا ذرا دیر کے بعد پینے کی سرد چیزیں، اور ادھر ادھر کے کمروں میں مکمل خاموشی! بچوں کو ڈرایا جاتا کہ خبردار جوان سے بات کی تو۔۔۔ خبردار جوان کے کمرے کے نزدیک سے گزرے۔ خبردار جو یہ کیا جو وہ کیا۔ یہ امتحان دے رہے ہیں!ادھر امتحان کم بخت ایسا زبردست تھا کہ کسی طرح کتابیں قابو میں نہ آتی تھیں۔ آخر تنگ آکر میں نے کہہ ہی دیا کہ مجھ سے یہاں نہیں پڑھا جاتا۔ مطلب صاف ظاہر تھا کہ پہاڑ پر جاؤں گا۔ کئی دنوں تک گھر میں یہی ذکر ہوتا رہا۔ آخر ایک دن مجھ سے کہا گیا کہ تیار ہو جاؤں۔ ابا کے کوئی خاں صاحب یا خان بہادر کی قسم کے عزیز دوست ایک مہینے سے پہاڑ پر جا چکے تھے۔ وہاں تار بھیجا گیا اور انہوں نے مجھے بلا لیا۔ گھر میں دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہاں میری ہمعمر ایک لڑکی بھی ہے۔ اس پر میرے کان کھڑے ہوئے، چنانچہ تقریباً سارے گرم سوٹ ڈرائی کلین کرانے کے لیے دے دیے گئے۔ لیکن پھر پتہ چلا کہ وہ فلسفہ پڑھتی ہے اور عینک لگاتی ہے۔ لا حول ولا قوۃ! چلو اس کا بھی فیصلہ ہو گیا۔ اب مزے سے پڑھیں گے۔ لیکن عجیب الجھن سی پیدا ہوگئی۔ فلسفی لڑکی! اس پر طرہ یہ کہ عینک لگاتی ہے۔

    میں وہاں پہنچا۔ ایک صاحب مجھے لینے آئے۔ میری عمر کے ہوں گے۔ بولے، ’’میں ہوں تو رفیق، لیکن مجھے رفو کہا جاتا ہے۔‘‘ ان کے مکان تک آٹھ دس میل کی چڑھائی تھی۔ وہ کار میں آئے تھے، لیکن ہم نے کار واپس بھیج دی کہ مزے مزے سے پیدل چلیں گے۔ راستے میں خوب باتیں ہوئیں۔ پتہ چلا کہ وہ بھی کسی امتحان کے پھیر میں ہیں۔ وہ خان صاحب (یا خان بہادر) کے کچھ چچا کے ماموں کی بھتیجی کی خالہ کے پوتے کے چچازاد بھائی کی قسم کے عزیز تھے۔ کافی دیر حساب لگانے کے پتہ چلا کہ وہ تقریباً ان کے بھتیجے تھے۔ پھر ان فلاسفر صاحبہ کا ذکر ہوا۔ شکیلہ نام تھا۔ ہم دونوں سے عمر میں دوتین سال بڑی تھیں اور فلسفے کی کوئی بڑی ساری ڈگری لینے کی فکر میں تھیں۔ چلتے چلتے کافی دیر ہوگئی تھی۔ رفو ہاتھ سے اشارہ کر کے بولے، ’’بس یہ موڑ اور رہ گیا ہے۔‘‘

    سامنے بادل ہی بادل چھائے ہوئے تھے۔ آگے راستہ نظر نہ آتا تھا۔ رفو بولے، ’’ایک عجیب بات ہے۔ اس موڑ پر ہمیشہ یا تو بادل ہوتے ہیں یا دھند!‘‘ اب ہم دھند میں سے گزر رہے تھے۔ آہستہ آہستہ دھند صاف ہوئی تو موڑ کے بعد ان کی کوٹھی یکلخت سامنے نظر آنے لگی۔ بس ایک گہرا سا کھڈ تھا بیچ میں۔ لیکن ابھی آدھ میل کا چکر اور تھا۔ ہم نے دیکھا کہ کوٹھی کے قریب درختوں کے جھنڈ میں ایک پتھر پر کوئی خاتون کھڑی تھیں۔ چھریرا قد، لہراتے ہوئے پریشان بال، ہلکا گلابی چہرہ اور ناک پر کالے فریم کی ایک عینک۔

    ’’یہی ہیں شکیلہ۔‘‘ رفو بولے۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا۔ انہوں نے سر کی جنبش سے جواب دیا۔ اتنی بری نہیں تھیں جتنا میں سمجھے بیٹھا تھا۔ اگر وہ موٹی سی عینک نہ ہوتی تو شاید حسین کہہ سکتے تھے۔۔۔ یا کم از کم وہ بھدا ساسیاہ فریم نہ ہوتا۔ میں کنبے میں بہت جلد گھل مل گیا۔ رفو اور میں تو بالکل بے تکلف ہوگئے، لیکن شکیلہ تھیں کہ لی ہی نہیں پڑتی تھیں۔ نہ کبھی ہماری باتوں میں دلچسپی لیتیں نہ کبھی گفتگو میں شریک ہوتیں۔ ہم دونوں ان کے سامنے بہیترے ٹامک ٹوئیے مارتے، اول جلول باتیں کرتے، خوشامدیں کرتے، لیکن ان کی ناک ہمیشہ چڑھی رہتی۔ اور ان کا کام کیا تھا؟ صبح سے شام تک دس دس سیر وزنی کتابیں پڑھنا۔

    رات کو انگیٹھی کے سامنے بیٹھی سوچ رہی ہیں۔ اتنی سنجیدگی سے جیسے دنیا کے نظام کا دارومدار ان ہی کی سوچ بچار پر تو ہے۔ کبھی انگلی سے ہوا میں لکھنے لگتی ہیں۔ کبھی کرسی پر طبلہ بجنے لگتا ہے۔ کبھی جھنجھلا جھنجھلا پڑتی ہیں۔ پھر یکلخت ایک مسکراہٹ لبوں پر دوڑ جاتی ہے اور سرہلنے لگتا ہے، جیسے سب کچھ سمجھ میں آگیا۔ دفعتاً مٹھیاں بھینچ لی جاتی ہیں اور غریب صوفے کے دوتین مکے رسید کیے جاتے ہیں۔ ادھر ہم انہیں دیکھ کر جھنجھلا اٹھتے۔ یہ تو نیم پاگل ہیں بالکل۔

    خان صاحب (یا خان بہادر) اور بیگم صاحبہ کا معاملہ ہی اور تھا۔ وہ ہمیشہ باتیں سیاسیات، معاشیات، فسادیات وغیرہ کی کرتے جن میں ہمیں ذرہ بھر دلچسپی نہ ہوتی۔ باقی تھے بچے وہ پہلے ہی سے احمق تھے، یا خاص طور پر احمق بنا دیے گئے تھے۔ اب بھلاہم کس سے باتیں کرتے؟ لے دے کے یہی ایک ہمعمر تھیں۔ یہی بے حد تنہائی پسند اور خشک مزاج واقع ہوئی تھیں اور ماشاء اللہ اپنی ہی دنیا میں بستی تھیں۔ کبھی منت سے کہا، ’’ہمارے ساتھ بیڈ منٹن کھیل لیجیے۔‘‘ جواب ملا، ’’عینک ہے! عینک پر چڑیا لگے گی۔‘‘ کہا، ’’نہیں! ہم نہیں لگنے دیں گے، شاٹ نہیں ماریں گے۔ بس اچھال اچھال کر کھیلیں گے۔‘‘ کہنے لگیں، ’’تو پھر وہ کھیل ہی کیا ہوا جو بے دلی سے کھیلا جائے۔ ویسے آپ دونوں تو سنگلز بھی کھیل سکتے، بھلا میں تیسری کیا کروں گی؟‘‘

    پھر کسی دن کہا، ’’ہمارے ساتھ سیر کو چلیے۔‘‘ بولیں، ’’ابھی تو مجھے فرصت نہیں۔ بالکل فرصت نہیں۔ جب تک میں یہ تھیوری سمجھ نہیں لیتی۔‘‘ پوچھا، ’’تو کب تک سمجھ لیں گی آپ یہ تھیوری؟‘‘ جواب ملا، ’’کیا پتہ۔ شاید پانچ منٹ میں سمجھ لوں۔۔۔ اور سمجھ میں نہ آئے تو مہینے تک نہ آئے۔‘‘ اور جو کسی دن بہت خوش ہوئیں تو کہتیں، ’’بس ابھی چلتے ہیں سیر کو۔ ذرا بچوں سے کہہ دیجیے کہ تیار ہوجائیں۔‘‘ بچوں کے نام پر ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے، اور بات وہیں ختم ہوجاتی۔ عموماً میں اور رفو دونوں سیر کو جایا کرتے۔ کچھ دنوں تک تو یونہی ہوتا رہا۔ پھر ایک دن ہم نے تنگ آکر بغاوت کردی۔ آخر کیوں نہیں شریک ہوتیں یہ ہمارے ساتھ۔ جب ایک ہم عمر موجود ہے تو پھر ہم اس کی رفاقت سے کیوں محروم ہیں؟

    پہلے تو طے ہوا کہ ایک رات چپکے سے ان کی ساری کتابیں جلادی جائیں یا کسی ندی میں پھینک دی جائیں۔ پھر سوچا کہ ایک دوہفتے تک اور کتابیں آجائیں گی۔ کافی سوچ بچار کے بعد ایک تجویز رفو کے دماغ میں آئی۔ بولے، ’’تو تمہیں سزا ہی دینی ہے نا انہیں؟‘‘

    ’’یقیناً!‘‘ میں نے سر ہلا کر کہا۔

    ’’تو کیوں نہ ان سے محبت کی جائے؟‘‘ وہ میرے کان میں بولے۔

    آہاہاہا۔۔۔! کتنی اچھی تجویز تھی۔ محبت کے آگے تو بھوت بھی ناچتے ہیں، اور یہ تو ہیں محض فلاسفر! ہم دونوں نے ہاتھ ملائے۔ یہ بہترین تجویز تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ محبت کون کرے؟ ہم میں سے کوئی بھی اس ذمہ داری کو سر لینا نہیں چاہتا تھا۔ ایسی ویسی محبت ہوتی تو کر بھی لیتے۔ فلاسفر سے محبت کرنی تھی۔ معاملہ خطرناک تھا۔ میں نے بڑی عاجزی سے کہا، ’’بھئی اب تم ہی کرلو۔‘‘ کیوں کہ وہ ذرادبلے پتلے سے تھے اور ان کی صحت محبت کرنے کے لیے زیادہ موزوں تھی۔ وہ تقریباً گڑگڑا کر بولے، ’’نہیں نہیں! مجھے معاف کردو تو بہتر ہوگا۔ اول تو میں نے ابھی تک کچھ پڑھا نہیں اور دوسرے یہ کہ مجھے زکام سا رہتا ہے ہر وقت۔ پھرایمان کی بات تو یہ ہے کہ مجھے عینک سے بھی ڈر لگتا ہے!‘‘ میں نے بھی بڑے بڑے بہانے پیش کیے، مگر ایک نہ چلی۔ آخر فیصلہ ہوا کہ میں اسی اتوار سے محبت شروع کردوں۔ اس کے لیے پروگرام بنایا جائے اور ریہرسل بھی باقاعدہ کیے جائیں۔

    اگلے دن ایک چھوٹا سا انگریزی کا افسانہ شکیلہ کو سنانے گیا۔ پہلے تو وہ سنتی ہی نہ تھیں۔ بڑی مشکل سے انہوں نے مجھے دس منٹ دیے۔ میں نے افسانہ شروع کیا کہ کس طرح چلتی ریل میں سے ایک لڑکی دریا میں گر پڑی جو نیچے بہہ رہاتھا۔ پل کے نیچے ہیرو نے جو کشتی چلا رہا تھا، لپک کر لڑکی کو کرکٹ کی گیند کی طرح ’’کیچ‘‘ کرلیا اور چیخ کر بولا، ’’ ہاؤ اِزاِٹ!‘‘ ریل کے گارڈ نے جو خوش قسمتی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا، امپائر کی طرح انگلی اٹھائی اور چلا کر کہا، ’’آؤٹ!‘‘ پھر ہیرو ہیروئن کی آنکھیں چار ہوئیں۔

    ’’آنکھیں چار ہوئیں؟‘‘ انہوں نے چونک کر پوچھا۔

    ’’جی نہیں! معاف کیجیے۔۔۔ آنکھیں چھ ہوئیں!‘‘ میں نے ان کی عینک کی طرف اشارہ کرکے کہا، ’’اور اگر ہیرو نے بھی کہیں چشمہ لگا رکھا ہو تو پھر آنکھیں آٹھ ہوئیں۔ اور نگاہیں شیشوں کو پار کرکے ایک دوسرے سے لڑگئیں۔۔۔ اور۔۔۔!‘‘

    ’’تم یونہی فضول باتیں کرتے ہو۔‘‘ وہ اٹھتے ہوئے بولیں، ’’جاؤ ہم نہیں سنتے!‘‘

    سہ پہر کو وہ کوٹھی کے پرے ایک چھوٹے سے جھرنے کے پاس بیٹھی فلسفے کی ایک فربہ اور تندرست کتاب پڑھ رہی تھیں۔ عینک اتار رکھی تھی۔ میں بھی ایک مریل سی کتاب لے کر بیٹھ گیا۔ وہ بدستور چپ بیٹھی رہیں۔ میں نے دور ننھی سی جھیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’واہ واہ! کیا نظارہ ہے۔ جھیل کا پانی یوں چمک رہا ہے۔ جیسے چاندی کا۔۔۔ چاندی کا شیشہ! اور اس پر اجلی اجلی مرغابیوں کا عکس کیسا بھلا لگتا ہے۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘ انہوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔۔۔ عینک کے لیے۔۔۔ جو غالباً وہاں نہیں تھی۔

    ’’آہاہاہا۔ ہاہا!‘‘ میں نے پھر کہا۔

    ’’تو خوبصورت نظارہ ہے۔۔۔ اچھا۔۔۔‘‘ وہ کوٹ کی جیبیں تلاش کر رہی تھیں، ’’ابھی دیکھتی ہوں۔ یہ کمبخت عینک کہاں غارت ہوگئی؟ تو گویا مرغابیاں بھی ہیں۔۔۔ اچھا۔۔۔!‘‘ وہ بدستور عینک ڈھونڈ رہی تھیں، ’’افوہ! وہا ں رہ گئی!‘‘ انہوں نے ایک پتھر کی طرف اشارہ کیا، ’’ذرا لادیجیے گا وہاں سے۔‘‘ میں عینک لے آیا۔ انہوں نے صاف کرکے لگائی، ’’بہت خوب! بہت اچھا نظارہ ہے۔۔۔ لیکن وہ مرغابیاں کہاں ہیں؟‘‘

    ’’بھلا وہ آپ کی عینک کا انتظار کرتیں کبھی کی اڑ گئیں۔‘‘ دراصل وہاں مرغابیاں تھیں ہی نہیں!

    ’’اچھا تو اڑگئیں۔۔۔ پھر دیکھ لیں گے کبھی۔۔۔‘‘ انہوں نے پڑھنا شروع کردیا۔

    اگلے روز میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، ’’ذرا آج میرے ساتھ سیر کو چلیں گی؟‘‘

    بولیں، ’’کیوں آج کوئی خاص بات ہے؟‘‘

    ’’جی نہیں! دراصل میں نے ایک نیا راستہ دیکھا ہے جو پہاڑ کی دوسری طرف لہراتا ہوا اترتا ہے۔ وہاں اتنے دلفریب نظارے ہیں کہ کیا بتاؤں۔۔۔ اس طرف چلیں گے!‘‘

    ’’ایک تو تمہارے ان دلفریب نظاروں نے عاجز کردیا۔ خیر!‘‘ وہ سوچنے لگیں، ’’تو گویا نیا راستہ ہے، نظارے بھی ہیں۔۔۔ اور وہ بھی دلفریب۔۔۔ اچھا چلتے ہیں!‘‘

    اب اگلا سوال ان کا بچوں کے متعلق ہوتا۔ میں نے جلدی سے پیش بندی کردی، ’’پتہ نہیں یہ بچے کہاں چلے گئے؟ بڑی دیر تلاش کی، لیکن ایک بھی تو نہیں ملا۔‘‘ اسی دوپہر کو میں نے ان کی عینک کہیں چھپا دی تھی، چنانچہ وہ بغیر عینک کے تھیں۔ جو راستہ پہاڑ کے دوسری طرف اترتا تھا وہ بالکل خشک تھا۔ ہم دونوں کالے کالے پتھروں اور کانٹے دار جھاڑیوں میں سے گزر رہے تھے۔ ’’ذرا دیکھیے تو۔۔۔ کیسے رنگ رنگ کے پھول کھلے ہیں۔ تختے کے تختے دور دور تک پھیلتے چلے گئے ہیں۔ جیسے قالین بچھے ہوں!‘‘ میں نے چندا کھڑے ہوئے درختوں کی طرف اشارہ کیا۔

    ’’کہاں ہیں؟ اس طرف۔ ہاں۔۔۔! بڑے پیارے پھول ہیں! اتنا تو مجھے عینک کے بغیر بھی نظر آجاتا ہے!‘‘ وہ اپنی کمزوری چھپا رہی تھیں۔

    ’’اور یہ اس طرف تو آپ نے دیکھا ہی نہیں۔ اس وقت کیمرہ ہوتا تو تصویر لیتے۔ ایک پتلی سی جھلمل جھلمل کرتی ہوئی آبشار ہے پہاڑ کی چوٹی پر۔ موتیوں جیسے چمکیلے قطرے پتھروں پر ناچ رہے ہیں۔‘‘ میں نے ایک سوکھے ہوئے پہاڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

    ’’واقعی بہت پیاری آبشار ہے اور آواز بھی تو بڑی مدھم اور بھلی ہے!‘‘ یہ آواز انہوں نے خواہ مخواہ سننا شروع کردی۔

    ’’ارے!‘‘ میں جیسے چونک کر بولا، ’’یہ قوس قزح! یہ قوس قزح اس پہاڑی سے اس پہاڑی تک چلی گئی ہے۔ ایک چھوٹا سا پل بن گیا ہے!‘‘

    ’’اور پھر رنگ کیسے نمایاں ہیں۔ خاص طور پر سبز رنگ! کل میں ضرور یہاں عینک لگاکر آؤں گی تا کہ ذرا اچھی طرح۔۔۔ نہیں، نہیں۔۔۔ بس یونہی عینک لگاؤں گی۔ اور اگر نہ بھی لگاؤں تو کون سا فرق پڑتا ہے۔ ویسے اب بھی سب کچھ نظر آرہا ہے!‘‘ اور دوسرے روز وہ عینک لگا کر اکیلی اسی راستے سے گئیں۔ جب واپس آئیں تو برا سا منہ بنا ہوا تھا اور مجھ سے دوتین دن تک بات نہ کی۔

    اتوار کی صبح آئی، جب سے مجھے محبت شروع کرنی تھی۔ سارا دن موقع نہ ملا۔ رات ہوئی اور چاندنی کھلی۔ پہاڑوں کا چمکیلا چاند تاباں تھا۔ میں ان کے کمرے میں گیا۔ کچھ دیر تمہید باندھی۔ چاندنی رات کی رومانی فضا کی تعریفیں کیں، فوائد بتائے۔ پھر کہا، ’’کاش آپ اس وقت میرے ساتھ چلتیں۔‘‘ وہ کچھ دیر سوچتی رہیں۔ پھر پینسل سے ناک کھجا کر بولیں، ’’آپ نے ایک بے معنی سی بات کہی ہے، بالکل بے معنی فقروں میں۔ آپ چاہتے کیا ہیں؟ چاندنی رات کی سیر یا مجھ سے باتیں کرنا؟ اگر سیر کرنی ہے تو اکیلے پھرنا بہتر ہوگا۔ کیونکہ جہاں تک چاندنی رات کی لطافت اور رومانیت کا تعلق ہے وہاں میری کوئی ضرورت نہیں۔ اگر میں ساتھ ہوئی تو آپ کبھی مجھ سے باتیں کریں گے اور کبھی فضا کی طرف متوجہ ہونے کی کوشش کریں گے۔ اگر آپ مجھ سے باتیں کرنا چاہتے ہیں تو میرے پاس بیس منٹ سے زیادہ فالتو وقت نہیں۔ اس دوران میں آپ جلدی سے باتیں کرلیجیے اور پھر خواہ چاندنی میں پھرئیے یا اندھیرے میں۔‘‘

    میں منہ بنائے چلا آیا۔ بسم اللہ ہی غلط نکلی۔

    پھر ایک دفعہ میں نے ان کی انگلیاں چھو کر کہا، ’’کتنی پیاری انگلیاں ہیں؟‘‘

    ’’آپ کا فقرہ سمجھ میں نہیں آیا۔ یہ انگلیاں ہیں ہی پیاری؟ یا صرف آپ کو پیاری لگتی ہیں؟‘‘

    ’’مجھے پیاری لگتی ہیں!‘‘ میں ذرا سہم کر بولا۔

    ’’بھلا پیارا لگنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ ایک لمبی سی پتلی چیز، اوپر معمولی کھال، نیچے گوشت اور ہڈی۔۔۔ بس! سب کی انگلیاں اسی قسم اور بالکل اسی بناوٹ کی ہوتی ہیں۔ آپ انہیں بھی تو پیاری کہہ سکتے ہیں۔‘‘ میں جھلا اٹھا۔۔۔ بات بات میں فلسفہ! کیا مصیبت ہے؟ رفو سے مشورہ لیا گیا۔ وہ بولے، ’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں، آج ایک چھوٹی سی تقریر لکھ دوں گااور تمہیں خوب مشق کروا دوں گا۔ میں کالج میں کئی ڈرامے کرچکا ہوں۔‘‘

    پورا ایک دن ریہرسل میں ضائع ہوگیا۔ میں نے انہیں باغ میں جاپکڑا۔ وہ بدستور اکیلی بیٹھی پڑھ رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے کتاب بند کردی اور گھڑی دیکھنے لگیں جیسے کہنا چاہتی ہوں کہ خواہ مخواہ وقت ضائع کروگے اب۔ میں نے تقریر شروع کی کہ کس طرح کوئی کسی کے دل میں آکر بس جاتا ہے اور پھر نکلنے کا نام نہیں لیتا۔۔۔ ہردم اسی کا خیال ستانے لگتا ہے۔

    ’’خوب! تو یوں بھی ہوجاتا ہے کبھی؟‘‘ وہ مسکرا کر بولیں۔

    ’’جی ہاں! کئی مرتبہ ہوا۔ ہوتا رہا ہے۔ ہوا کرتا ہے۔ ہوا کرے گا۔۔۔ اور۔۔۔ اور ابھی ہوا بھی ہے!‘‘

    ’’مثلاً۔‘‘

    ’’مثلاً۔ یہی کہ مجھے۔۔۔ (دلیر بن کر) یعنی میرے دل میں ہر وقت آپ کا خیال رہتا ہے!‘‘ میں جرأت کر کے کہہ گیا، لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ بدستور مسکرا رہی تھیں۔

    ’’غلط! بالکل غلط! دل میں کسی کا خیال نہیں رہ سکتا۔ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ اعصابی نظام کے توسط سے دماغ میں جاتا ہے۔ جب ہم سوچتے ہیں تو دماغ میں سوچتے ہیں۔ دل کا سوچنے سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ دل میں خیال ویال کے لیے کوئی جگہ ہے۔ وہاں تو بمشکل خون سما سکتا ہے!‘‘

    ’’اچھا تو یونہی سہی کہ دماغ میں ہر وقت آپ کا خیال رہتا ہے!‘‘

    ’’اگر یہ صحیح ہے تو یہ آپ کی دماغی کمزوری ہے کہ ایک معمولی سی چیز کا اثر دماغ کے مختلف حصوں پر اس قدر حاوی ہوجائے کہ کسی وقت پیچھا نہ چھوڑے۔‘‘

    ’’کمزوری ہی سہی، لیکن مجھے ہر وقت۔۔۔‘‘

    ’’آپ یہاں ہر وقت نہیں کہہ سکتے ہیں، کیوں کہ جب آپ سوتے ہوں گے تو یقیناً بھول جاتے ہوں گے۔ لہٰذا آپ نیند کے گھنٹوں کو چوبیس گھنٹے سے نکال کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے اتنے گھنٹے آپ کا خیال رہتا ہے، مگر یہ بھی اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب آپ سارا دن ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور ایک ہی بات سوچتے رہیں۔‘‘

    ’’خیر کچھ بھی ہو!‘‘ میں نے جھلا کر کہا (میں تقریر کے الفاظ بھولتا جا رہا تھا۔ ) ’’میں سوچتا ہوں، خواہ دل میں سوچوں یا دماغ میں یا جگر میں۔ دن بھر سوچوں یا رات بھر۔ مگر میں سوچتا ہوں اور خوب سوچوں گا، کبھی باز نہیں آؤں گا۔ آپ کی فلاسفی مجھے متاثر نہیں کر سکتی۔ میں آپ کے لیے سب کچھ کر سکتا ہوں۔ اگر آپ چاہیں تو میں نہ جانے کیا کیا کر بیٹھوں۔ (میں پھر بھول گیا) آپ چاہیں تو سر کے بل اس ندی میں چھلانگ لگادوں، اور (پرجوش لہجے میں) آپ چاہیں تو یہ بھاری پتھر وہاں رکھ آؤں اور (ذرا بلند آواز سے) اگر آپ کہیں تو اس پودے کو جڑ سے اکھیڑدوں۔ اور۔۔۔!‘‘

    ’’پھر آپ کی دماغی کمزوری ظاہر ہو رہی ہے۔ بھلا مجھے کیا پڑی ہے جو درخت اکھڑواتی پھروں یا پتھروں کو ان کی جگہ سے ہلواؤں۔ ایسے خیالات محض آپ کے دماغ کی اختراع ہیں اور ظاہر ہے کہ اس قسم کے خیالات تندرست دماغ میں کبھی نہیں آسکتے۔‘‘ انہوں نے اپنی عینک اتار دی اور صاف کرنے لگیں۔ میں تقریباً ساری تقریر بھول چکا تھا۔ یکایک مجھے ایک دورہ سا اٹھا۔

    ’’دیکھیے اگر آپ چاہیں تو میں پل بھر میں عینک کے شیشے صاف کر سکتا ہوں یا اس عینک کو توڑ کر ایک نئی عینک لا سکتا ہوں۔‘‘

    ’’چچ چچ۔۔۔ افوہ! دماغی کمزوری کے مزید ثبوت مل رہے ہیں۔ عینک کے شیشے صاف کرنا ایک معمولی سا کام ہے، اور پھر ایک ثابت چیز کو ضائع کرکے ویسی ہی نئی لانے میں کہاں کی عقل مندی ہے؟ یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ اس وقت آپ کے دماغ میں کسی عجیب جذبے کے تحت عجیب سا طوفان بپا ہے۔‘‘

    اور میں نے رفو سے آ کر کہہ دیا کہ، ’’مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا، قیامت تک نہیں ہوسکتا۔ بات بات میں مین میخ نکلتی ہے۔ ایک ایک فقرے کا پوسٹ مارٹم ہوتا ہے۔ بات کچھ کرنے جاؤ اور سن کے آؤ کچھ! میں ان فلاسفر صاحبہ سے کبھی نہیں جیت سکتا۔‘‘ مگر رفو تھے کہ برابر کہہ رہے تھے، ’’گھبراؤ مت! آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ ایک تو ان کی اس آہستہ آہستہ نے مار رکھا تھا۔ جب جا کر شکایت کرو، یہی جواب ملتا کہ آہستہ آہستہ سب درست ہو جائے گا۔ دراصل ناامید وہ بھی ہوچلے تھے۔ رفو کے بار بار مجبور کرنے پر میں ہر روز دوچار باتیں شکیلہ سے ایسی کرجاتا جن پر دیر تک فلسفے کے لیکچر سننے پڑتے۔ مگر ایک تبدیلی ان میں آتی جارہی تھی۔ پریشان بال اب سنوارے جاتے تھے۔ کپڑوں کا خاص خیال رکھا جاتا۔ عینک بھی بدل دی گئی۔ اب بغیر فریم کی نازک سی عینک آگئی تھی جس سے چہرہ بہتر معلوم ہوتا تھا۔ مگر ان کی باتیں بدستور ویسی ہی تھیں۔

    آخر ایک دن میں نے پھر ہمت کی اور سر پر کفن باندھ کر اظہار محبت کے لیے تیار ہوگیا۔ جو کچھ ہوگا دیکھا جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ ایک ڈانٹ مل جائے گی۔ بڑی محنت اور مختلف کتابوں کی مدد سے ایک رومانی تقریر تیار کی گئی۔ اسے خوب رٹ کر آخری حملے کے لیے تیار ہوگیا۔ اظہار کے لیے شام کا دلفریب وقت چنا گیا۔ جب شفق سے سارا آسمان جگمگا رہا ہو اور ٹھنڈی معطر ہوا کے جھونکوں سے شکیلہ کے بال لہرا رہے ہوں۔

    پہلے دن تو شام کو بارش ہوگئی اس لیے سب کچھ ملتوی کرنا پڑا۔ دوسرے دن صبح سے رفو نے مجھے طرح طرح کی چیزیں لاکردیں۔ اتنی کہ میں پیتے پیتے تنگ آگیا۔ ہارلکس کا دودھ، سیناٹوجن، لوہے کا ٹانک، چند چمچے مچھلی کا تیل۔۔۔ دوپہر کو ماء اللحم پلایا گیا۔ سارا دن وہ مجھے تسلی دیتے رہے کہ شاباش گھبرانا مت، معمولی سی بات ہے اور پھر کوئی روز روز تو نہیں کرنی ہوگی۔ خیر شام ہوئی۔ میں نے شکیلہ کو حسب معمول باغ میں ایک پتھر پر پڑھتے پایا۔ بغیر کسی تمہید کے میں نے تقریر شروع کردی۔

    ’’آج کی باتیں شاید آپ کو بری لگیں۔ اگر لگتی ہیں تو لگا کریں، لیکن میں کہوں گا اور ضرور کہوں گا۔‘‘ میں ایک گھٹنے کے بل جھکا اور داہنا ہاتھ بڑھا کر بولا، ’’آپ نہیں جانتیں کہ میری زندگی کس قدر اداس اور تنہا ہے۔ (انہوں نے نفی میں سرہلایا جیسے کہتی ہوں کہ نہیں جانتی۔) میں اندھیرے میں بھٹکتا رہا ہوں۔ میں نے قدم قدم پر ٹھوکریں کھائی ہیں، لیکن اب زندگی کے اس بے پایاں سمندر میں میری تنہا کشتی کا کوئی بادبان بن گیا۔ تاریک افق پر ایک روشن ستارہ طلوع ہوا۔۔۔ اور۔۔۔!‘‘

    ’’یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔‘‘ وہ پنسل کو بالوں میں پھیرتے ہوئے بولیں۔

    ’’اور۔۔۔ اور میرے مرجھائے پژمردہ دل میں۔۔۔!‘‘

    ’’غالباً مرجھائے ہوئے اور پژمردہ کا ایک ہی مطلب ہے۔ ہے نا؟ بہتر ہوتا ہے آپ ان میں سے فقط ایک استعمال کرتے۔۔۔!‘‘

    ’’اچھا! چلیے پژمردہ سہی۔۔۔ تو میرے پژمردہ دل میں پھر زندہ رہنے کی تمنا پیدا ہوئی۔‘‘

    ’’یہ کب کا ذکر ہے؟‘‘

    ’’ابھی کا ذکر ہے۔ حال ہی کا۔۔۔!‘‘ میں نے جلدی سے کہا (مجھے ڈر تھا کہ کہیں یاد کیے ہوئے فقرے بھول نہ جاؤں۔ ) ’’جی! اور یوں لگتا ہے جیسے کسی نے میرا ہاتھ تھام لیا ہو!‘‘

    ’’یہ آپ کس سے کہہ رہے ہیں؟‘‘

    ’’آپ سے کہہ رہا ہوں، لا حول و لا قوۃ! آپ سنتی رہیے۔ ٹوکیے مت!۔۔۔ ہاں تو میں کیا کہہ رہاتھا۔ بھلا؟‘‘

    ’’جیسے آپ نے کسی کا ہاتھ تھام لیا ہو۔۔۔!‘‘ انہوں نے لقمہ دیا۔

    ’’شکریہ۔۔۔! میں نے نہیں بلکہ کسی نے میرا ہاتھ تھام لیا ہو۔ اور میں بھٹکتے بھٹکتے پھر راستے پر آگیا ہوں۔‘‘

    ’’لیکن جہاں آپ بھٹک رہے تھے اسے بھی تو ہم راستہ کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ راستہ وہ جگہ ہے جہاں سے گزرا جائے۔ بھٹکنے وٹکنے کی کوئی شرط نہیں ہے بیچ میں۔ آپ کا فقرہ غلط ہے۔ یوں کہیے کہ آپ بھٹکتے بھٹکتے راہِ راست پر آگئے ہیں!‘‘

    ’’خیر! یوں ہی سہی۔ میں راہ راست پر آگیا ہوں اور اب میری زندگی۔۔۔‘‘

    ’’مگر وہ ہے کون جس نے یہ سب حرکتیں آپ کے ساتھ کی ہیں؟‘‘

    ’’نہیں بتاتے۔‘‘ میں نے بچوں کی طرح منہ بناکر کہا۔

    ’’ہم تو ضرور سنیں گے کہ وہ کون ہے!‘‘ وہ بولیں۔

    ’’وہ کون ہیں۔۔۔؟ آپ سچ مچ نہیں جانتیں کیا؟ وہ یہاں ہیں۔ (میں نے دل پر ہاتھ رکھ دیا۔ ) وہ یہاں بستی ہیں۔۔۔ نہیں نہیں میرا مطلب ہے کہ (سر پکڑ کر) یہاں بستی ہیں۔‘‘

    ’’کچھ اتا پتا بھی تو معلوم ہو ان کا۔۔۔!‘‘

    میں گھبرا گیا۔ دل بے تحاشا دھڑک رہا تھا، حلق خشک تھا۔ میں نے سوگز کی دوڑ کی تیاری کی اور چھلانگ لگاتے ہوئے بولا، ’’وہ۔۔۔ آپ۔۔۔ ہیں۔۔۔!‘‘ اور قلانچ مار کر بھاگا۔ کچھ دور جا کر مجھے چند الفاظ یاد آگئے جنہیں بھول گیا تھا۔ بھاگتے بھاگتے رک گیا اور پیچھے مڑکر زور سے بولا، ’’ذرا سن لیجیے۔ آپ بالکل شگفتہ درخت۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ شگفتہ پودے کی طرح لگتی ہیں۔ آپ کا چہرہ گلاب کے پتے کی طرح، یعنی پھول کی طرح ہے۔۔۔ اور۔۔۔ میں آپ کے لیے تحفہ لاؤں گا۔ یعنی آپ میرے لیے تحفہ لائیں گی۔ یعنی کہ انگوٹھی۔۔۔ یعنی کہ۔۔۔‘‘ آگے تو بالکل بھول گیا۔

    واپس آتے ہی میرے سر میں سخت درد شروع ہوگیا۔ نہ جانے دن میں رفو نے کیا کیا الا بلا کھلا دی تھی۔ اس کا نتیجہ شدید درد نکلا۔ کم بخت اسپرین وغیرہ سے بھی قابو میں نہ آیا۔ رات کے گیارہ بجے تھے۔ سب کے سب میری مزاج پرسی کرکے جاچکے تھے۔ رفو کو ان کے کسی دوست نے باہر مدعو کر رکھا تھا۔ میں کمرے میں اکیلا لیٹا کھڑکی سے پہاڑ کی چوٹی کو دیکھ رہا تھا جس کے پیچھے اجلی اجلی روشنی شاہد تھی کہ ابھی چاند نکلے گا۔ یکایک دروازہ کھلا۔ خوشبو کا ایک جھونکا آیا اور کپڑوں کی سرسراہٹ سنائی دی۔ ایک خوبصورت سا کوٹ پہنے شکیلہ داخل ہوئیں اور میرے سر میں دگنا درد شروع ہوگیا۔ اب یہ خوب دھمکائیں گی۔ میں نے آنکھیں موند لیں اور دبک گیا۔ لیکن انہوں نے دھمکایا نہیں، چپکے سے سرہانے بیٹھ گئیں اور ملائم ہاتھوں سے سر کو آہستہ آہستہ دبانے لگیں۔ میں نے سوچا کہ یہ تمہید باندھی جا رہی ہے۔ یہی ملائم ہاتھ ذرا سی دیر میں کانوں تک پہنچا چاہتے ہیں۔ ذرا آنکھ کھولی تو شامت آجائے گی۔

    انہوں نے میرے ماتھے پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا، ’’کیا واقعی بہت درد ہے؟‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے دیکھا۔ وہ مسکرا کر بولیں، ’’شریر کہیں کے۔ اب بھگتو شرارتوں کے نتیجے!‘‘ انہوں نے چپکے سے میری ہتھیلی پر کوئی چیز رکھ دی۔ ایک انگوٹھی ہلکی پھلکی سی۔ میں چونک پڑا۔

    ’’مگر۔۔۔ یہ انگوٹھی۔۔۔ ذرا وہ۔۔۔!‘‘ میں انہیں واپس دینے لگا۔

    ’’چپ!‘‘ وہ میرے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر بولیں، ’’جب سر میں درد ہو تو بولا نہیں کرتے۔‘‘

    میں چپ ہوگیا۔ وہ بدستور بیٹھی سر دباتی رہیں۔ چاند نکل آیا تھا۔ کچھ شعاعیں کھڑکی میں سے گزرتی ہوئی ان کے چہرے سے کھیلنے لگیں۔ ان کا چہرہ جگمگا اٹھا۔ میں نے کن انکھیوں سے دیکھا۔ ان کی بڑی بڑی آنکھیں جھلملا رہی تھیں۔ شیشوں کا چمکارا ہوگا، میں نے دل میں سوچا اور جب وہ شب بخیر کہہ کر چلی گئیں تو دفعتاً یوں لگا جیسے سر کا درد جو کچھ دیر کے لیے غائب ہو چکا تھا، پھر شروع ہو گیا ہے۔ دیر تک میں انگوٹھی کے سفید جگمگاتے ہوئے رنگ کو دیکھتا رہا۔ اگلے روز صبح صبح گھر سے تار آگیا۔ ایک مہربان پروفیسر صاحب نے مجھے دوہفتے پہلے واپس آنے کی تاکید کی تھی۔ امتحان کی تیاری کے لیے! شام تک سامان باندھنا پڑا۔ دوسرے دن جانا تھا۔ اگلی صبح میں اور رفو پیدل روانہ ہوئے۔ نیچے اترتی ہوئی سڑک مڑتی تڑتی دوبارہ کوٹھی کے بالکل پاس سے گزرتی تھی۔ ابھی ہم اس موڑ سے ذرا دور تھے، جہاں سے ان کا باغ بالکل سامنے آجاتا تھا۔

    میں یہی سوچ رہا تھا کہ کہیں میری باتوں پر وہ برا نہ مان گئی ہوں۔ مگر ان کے خشک فلسفی دل پر کیا اثر ہوا ہوگا۔ لیکن بغیر فریم کی عینک۔۔۔ وہ خوش نما ملبوس۔۔۔ اور انگوٹھی کا تحفہ۔۔۔ کیا ان کا مطلب کچھ نہیں؟ نہیں۔۔۔! غالباً کوئی مطلب نہیں!

    ’’مجھے تو ہر دم یہی ڈر رہتا تھا کہ کہیں ہمیں دھمکا نہ دیا جائے۔ بعض اوقات تو ہم نے بہت زیادتی کی۔۔۔!‘‘ رفو کہنے لگے۔ میں چونک پڑا، ’’ایں۔۔۔ کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’اور پھر جس دن تمہیں اظہار محبت کرنا تھا، اس روز میں تو بہت ڈرا۔ یہ فلاسفی بھی عجیب مصیبت ہے۔ اگر شکیلہ کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی، تو یا تو اچھی طرح تمہارے کان کھینچتی، یا تم سے محبت کرنے لگتی۔۔۔ لیکن ان پر کوئی اثرنہیں ہوا۔‘‘

    ’’بس خیریت رہی کہ کان نہیں مروڑے گئے!‘‘

    ’’مگر۔۔۔ کچھ اندیشہ سا ہے میرے دل میں۔‘‘ وہ سوچ کر بولے، ’’اور جو انہیں تم سے محبت ہوگئی ہو۔ تو۔؟‘‘

    ’’ہشت! محبت اور انہیں؟ بھلا فلاسفر بھی محبت کرتے ہیں کہیں؟ اور پھر عینک والے فلاسفر!‘‘

    ہم دونوں ہنس دیے، انہوں نے جیب سے اخبار نکالا اور پڑھنے لگے۔ ہم دونوں اسی موڑ سے گزر رہے تھے۔ سامنے ان کا باغ تھا۔۔۔ بالکل نزدیک۔ بس بیچ میں ایک کھڈ تھا۔ یکایک میری نگاہ سامنے کے پتھر پر گئی جہاں شکیلہ کھڑی تھیں۔ ان کا گلابی چہرہ پھول کی طرح چمک رہا تھا۔ بغیر فریم کی عینک کے شیشوں سے دو بڑی بڑی آنکھیں مجھے دیکھ رہی تھیں۔ وہ کتنی اچھی دکھائی دے رہی تھیں۔ رفو بدستور اخبار پڑھ رہے تھے۔ میں نے شکیلہ کو سلام کیا۔ انہوں نے سر کی جنبش سے جواب دیا۔ نہ جانے ان کے چہرے پر اتنی افسردگی کیوں تھی۔ شیشوں کے پیچھے ان کی آنکھیں جھلملا رہی تھیں۔ کہیں یہ آنسو تو نہیں۔۔۔؟ نہیں! ویسے ہی شیشوں کا چمکارا ہوگا۔۔۔ یونہی دھوکا ہوا۔۔۔

    اب ہم موڑ کو طے کر رہے تھے۔ دھند بڑھتی جا رہی تھی۔ دوچار اجلے اجلے بادلوں کے ٹکڑے ہماری طرف بھاگے آرہے تھے۔ میں شکیلہ کو دیکھ رہا تھا۔ دھند بڑھتی گئی۔ بادل کے ٹکڑے ہمارے سامنے آگئے اور سب کچھ آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔

    ’’کیا تھا؟‘‘ رفو چونک کر بولے۔

    ’’کچھ نہیں!‘‘

    پھر راستے میں ہم نے قوس قزح دیکھی جو نیچے وادی میں ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی تک چلی گئی تھی۔ بادلوں سے چند شعاعیں جھانکنے لگیں اور قوس قزح میں بے شمار پانی کے قطرے موتیوں کی طرح چمکنے لگے۔ ہم ایک آبشار کے پاس سے گزرے، پانی کی پھوار دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ پتھروں پر ہم نے ننھے منے قطرے دیکھے جو بڑی مسرت سے ناچ رہے تھے۔ ایک تنگ راستے سے گزرتے ہوئے میری کہنی ایک جنگلی گلاب کو چھو گئی۔ ٹپ۔ ٹپ۔ ٹپ۔ ٹپ۔ شبنم کے چند قطرے میری آستین پر آکر گرے۔ میں نے قطروں کو کوٹ سے جھاڑا نہیں، یونہی رہنے دیا۔ پھر میری نگاہ انگلی کی انگوٹھی پر جا پڑی، جو شکیلہ نے مجھے دی تھی۔ جگمگ جگمگ کرتا ہوا سفید نگ۔۔۔ مجھے یوں لگا جیسے کوئی آنسو جم گیا ہو۔ نگ کی جھلملاہٹ میں آنسو کی لرزش دکھائی دی۔ میں نے جلدی سے ہاتھ جیبوں میں ڈال لیے۔

    شاید رفو کا اخبار ختم ہوچکا تھا۔ انہوں نے پھر باتیں شروع کردیں۔

    مأخذ:

    شگوفے (Pg. 53)

    • مصنف: شفیق الرحمان
      • ناشر: کتاب والا، دہلی
      • سن اشاعت: 1994

    یہ متن درج ذیل زمرے میں بھی شامل ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے