Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پیار کی باتیں

ابراہیم جلیس

پیار کی باتیں

ابراہیم جلیس

MORE BYابراہیم جلیس

    (غریب کی جورو)

    اخباروں میں ایک دردناک خبر شائع ہوئی تھی کہ ’’ایک شخص نے مالی پریشانیوں سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ صرف دو مہینے پہلے اس کی شادی ہوئی تھی لیکن اس کی آمدنی اتنی کم تھی کہ اس میں صرف ایک کا گزارہ ہی بمشکل ہوتا تھا اور اس پر اس نے شادی کرلی۔

    یہ خبر پڑھ کر ہمارے دوست خوش حال خاں نے بڑے غصّے سے کہا، ’’کم بخت خود بھی جہنّم میں گیا اور اپنی بیوی کی زندگی کو بھی جیتے جی جہنم بنا گیا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ غریب لوگ جب اپنے اکیلے کا پیٹ نہیں پال سکتے تو شادی کیوں کرتے ہیں؟‘‘

    ہم بے خیالی کے عالم میں بیٹھے تھے مگر خوش حال خاں کا یہ سوال سن کر ایک دم چونک پڑے۔ اچھل پڑے اور ایک دم سوچنے لگے کہ ’’ارے ہاں واقعی، یہ تو واقعی سوچنے کا سوال ہے کہ غریب لوگ جب اپنے اکیلے کا پیٹ نہیں پال سکتے تو شادی کیوں کرتے ہیں۔ اپنے ساتھ دوسرے کو کیوں مصیبت میں جھونکتے ہیں؟ ’’بیچاری‘‘ اپنے ماں باپ کے گھر میں تو اچھی بھلی کھاتی پیتی ہوگی۔‘‘

    خوش حال خاں بولے، ’’تمہارا یہ کہنابھی صحیح نہیں ہے ’’بیچاری‘‘ ماں باپ کے گھر میں اچھا کھاتی پیتی ہوتی تو ماں باپ اس کے شوہر کی حالت جانتے بوجھتے اسے اس کے پلے کیوں باندھ دیتے؟ لڑکیوں کے ماں باپ غالباً یہی سوچتے ہوں گے کہ جیسی یہاں ویسی وہاں۔ لہٰذا اپنے سر کا بوجھ اس کے کندھے پر اتاردو۔‘‘

    ہم نے جواب دیا، ’’مگر تمہارے اپنے سوال کا یہ جواب تو نہ ہوا خوش حال خاں، یہ تو جواب اس سوال کا ہوا کہ ’’غریب ماں باپ اپنی لڑکیوں کی شادیاں کیوں کرتے ہیں؟‘‘

    لیکن اس وقت ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ، ’’غریب مرد کیوں شادی کرتے ہیں؟ وہ اگرشادی نہ کرنا چاہیں تو لڑکیوں کے ماں باپ زبردستی تو اپنی بیٹی ان کے گلے نہیں منڈھ سکتے۔‘‘

    خوش حال خاں اپنی ٹھوڑی کھجاتے ہوئے بولا، ’’میراخیال ہے کہ غریب مرد توہم پرست ہوتے ہیں۔ وہ اس وہم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ عورت دولت کی دیوی ہوتی ہے۔ یعنی لچھمی اور کنوارے کے گھر میں عورت کا قدم ساری ساڑھے ستی دُور کردیتا ہے۔‘‘

    اس وقت ہمارا نوکر بھی وہیں بیٹھاحقّہ تازہ کررہا تھا۔ اس نے جب یہ بات سنی تو پہلے اپنے کان کھڑے کئے اور پھر خود کھڑا ہوا اور بولا،

    ’’سچ کہا بابو جی آپ، نے عورت بڑی نیک قدم ہوتی ہے۔ شادی سے پہلے میں بھی کتّے کی زندگی بسر کررہا تھا۔ قرض میں بال بال جکڑا ہوا تھا لیکن جیسے ہی میں نے شادی کی یعنی؛

    ’’بیوی جو گھر میں آئی تو قرضے اتر گئے‘‘

    اس جواب اور مصرعے پر ہم پھر اچھل پڑے اور بڑے فاتحانہ انداز سے خوش حال کی طرف دیکھ کر بولے، ’’ذرا نوکر کی بات پر غور کر۔‘‘

    لیکن خوش حال خاں نے یہ جواب دیا، ’’نوکر کی مسمات مستثنیات میں سے ہے۔ سبھی عورتیں تو نیک قدم نہیں ہوتی! اگر سب عورتیں نیک قدم ہوتیں تو اس آدمی نے کیوں خودکشی کی اور یہ کہ ہر غریب آدمی کیوں منہ لٹکائے پھرتاہے؟‘‘

    خوش حال خاں کا استدلال بڑا سکت تھا۔ اس لئے سوال جہاں کا تہاں رہ گیا کہ، ’’جب ایک غریب آدمی اپنے اکیلے کا پیٹ نہیں پال سکتا تو پھر وہ شادی کیوں کرتا ہے؟‘‘

    ابھی ہم اس سوال پر غور ہی رہے تھے کہ ’’غوری‘‘ آگیا۔ شہاب الدین غوری ہمارا ایک ’’اسم بہ مسمیٰ‘‘ دوست ہے۔ خاندان غوری سے تعلق رکھنے کے علاوہ اپنے نام کے اثر کے باعث ہرمعاملے پر خوب اچھی طرح غور کرتا ہے۔ چنانچہ ہم نے غوری سے مدد طلب کی کہ ’’غوری، ذرا غور تو کرو کہ جب ایک غریب آدمی نے اپنے اکیلے کا پیٹ نہیں پال سکتا تو شادی کیوں کرتاہے؟‘‘

    غوری نے پوچھا، ’’کیا یہ مسئلہ فوری غور کا مستحق ہے؟‘‘

    ہم نے اصرار کیا، ’’ہاں ہاں غوری، فوری غور اس مسئلہ پر ضروری ہے۔‘‘

    غوری نے بغیرغور کئے جواب دیا، ’’اگر غریب آدمی شادیاں نہ کریں تو دنیا میں ایک ’’بڑا آدمی‘‘ بھی زندہ نہ رہے یا پھر ہر روز غریب آدمیوں سے پٹتا رہے اور قید خانے غریب آدمیوں سے بھرجائیں۔‘‘

    یہ جواب سن کر ہم اچنبھے میں پڑگئے۔ یہ کیاجواب ہوا بھلا۔ لیکن غوری چلاگیااور جاتے جاتے ہمیں غور وخوض کے حوض میں ایک اور غوطہ دے گیا کہ،

    ’’بھائی، دنیا میں امن اسی لئے قائم ہے کہ ہر غریب آدمی کے گھر میں ایک عورت بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘

    غوری تو چلا گیا لیکن ہم چکرا گئے۔ ہماری کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھاکہ یہ کیا چکّر ہے؟

    عین اسی وقت ہمارے پڑوس میں رہنے والے ایک چپراسی کے گھر اس کی عورت کی چیخ وپکار شروع ہوئی۔ چپراسی اپنی عورت کو دھڑا دھڑپیٹ رہاتھا اور بیچاری عورت پٹتی پٹاتی پناہ لینے کے لئے ہمارے گھر آگئی اور بولی،

    ’’موا، روزبلا قصور مجھے مارتاہے، حالانکہ سارا کام اس کی مرضی کے مطابق کیاہے، حتیّ کہ سالن چکھ کر دیکھ لیجئے۔ مرچیں نہ کم ہیں نہ زیادہ۔‘‘

    یہ جواب سن کر ہمارے مرچیں لگ گئیں۔ ہم بڑے غصّے میں چپراسی کے پاس پہنچے کہ، ’’تو نے بلا قصور بیوی کو کیوں مارا؟‘‘

    چپراسی بولا، ’’اس لئے مارا کہ میرے افسر کو قبض کی شکایت ہے۔‘‘

    ہمیں پھر جیسے چکر سا آگیا کہ یا اللہ۔ یہ آج کیاہورہا ہے؟ جو سوال پوچھو اس کا جواب پہیلی۔ ہم نے بھِنّاکر پوچھا، ’’بھائی، افسر کے قبض کا بیوی کو مارنے سے کیا تعلق؟‘‘

    چپراسی بولا، ’’واہ! تعلق کیوں نہیں۔ افسر کو قبض تھا اس کی طبیعت چڑچڑی تھی۔ اس نے بلاوجہ ڈپٹی کو ڈانٹا، ڈپٹی نے سکشن افسر کو ڈانٹا، سکشن افسر نے سپرنٹنڈنٹ کو ڈانٹا، سپرنٹنڈنٹ نے ہیڈ کلرک کو، ہیڈ کلرک نے کلرک کو ڈانٹا، اور کلرک نے اپنا غصّہ مجھ پر اُتارا تو پھر آپ ہی بتائیے کہ میں اپنا غصّہ کس پر اتاروں! اس نیک بخت سے آخر شادی کس لئے کی ہے؟‘‘

    یہ جواب سن کرایک دم ہمیں سکون ساہوا اور سارے عقدے کھل گئے کہ واقعی دنیا میں امن اس لئے قائم ہے کہ ہر غریب آدمی کے گھر میں ایک عورت بیٹھی ہوئی ہے۔

    واقعی اگر ’’غریب کی جورو‘‘ نہ ہو تو دنیا میں ایک بڑا بھی سلامت نہ رہے۔

    واقعی یہ چپراسی ٹھیک ہی کہتاہے کہ، ’’اس نیک بخت سے آخر شادی کس لئے کی ہے۔‘‘

    مأخذ:

    ہنسے اور پھنسے (Pg. 57)

    • مصنف: ابراہیم جلیس
      • ناشر: راجیو پرکاشن، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1978

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے