Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وزیر کی تہمد

ابراہیم جلیس

وزیر کی تہمد

ابراہیم جلیس

MORE BYابراہیم جلیس

    کہتے ہیں کہ ایک چھوٹے آدمی کو شوخیٔ تقدیر سے بہت بڑی دولت مل گئی۔ چھوٹے آدمی کو بڑا روپیہ ملنا ایسی ہی بات ہے جیسے کسی بندر کے ہاتھ اُسترا لگ جائے جس طرح بندر شیو بنانے کی کوشش میں اپنا سارا چہرے ’’لہولہان‘‘ کرلیتا ہے، اسی طرح چھوٹا آدمی بڑی دولت پانے کے بعد ’’لہو ولعب‘‘ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

    ہمارے بھی ایک واقف چھوٹے آدمی کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ اسے بالکل غیر متوقع طور پر اچانک اپنی کسی لاولد رشتہ دار خاتون کی بے اندازہ جائداد ورثہ میں مل گئی۔ بس پھر کیا تھا! اپنا وہ لنگوٹی میں پھاگ کھیلنے والا دوست پتلون میں بلیئرڈ اور نیکر میں ٹینس کھیلنے لگا۔ کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتا تھا۔ اس کے قدم زمین پر ٹکتے ہی نہیں تھے۔ جب دیکھو ہوائی جہاز میں اڑ رہا ہے۔ لباس۔۔۔! صبح ایک سوٹ میں ملبوس تو دوپہر دوسرے سوٹ میں، تیسرے پہر، تیسرے سوٹ میں تو چوتھے پہر چوتھے سوٹ میں۔

    نتیجہ ظاہر ہے کہ مال حرام بود بجائے حرام رفت۔ ساری دولت دونوں ہاتھوں سے اڑاکر اب وہ پھر سے لنگوٹی میں پھاگ کھیل رہا ہے اور یار دوست اس پر فقرے کس رہے ہیں۔

    ’’کیوں میاں! آگئے اپنی اوقات پر! لگ گئی نا پھر سے لنگوٹی!‘‘

    لنگوٹی اگرچہ صرف چار بالشت پارچے کا نام ہے۔ لیکن یہاں اس کا ذکر اس کی اپنی لمبائی سے کچھ زیادہ ہی لمبا ہوگیا۔ حالانکہ یہاں ذکر لنگوٹی کا نہیں بلکہ ’’تہبند‘‘ کا تھا اور چھوٹے آدمی کی بجائے یادش بخیر ایک پُرانے وزیر کا تذکرہ تھا۔

    عرصہ دوسال سے ہم پاکستانی عوام بڑے حیران تھے کہ،

    ’’یارو۔ یہ اپنے پُرانے مہربان وزراء آخر کہاں گئے!

    وہ کہاں ہیں جہاں سے ہم سب کو

    کچھ بھی ان کی خبر نہیں آتی

    یہ ’’ایبڈو‘‘ بھی انہیں خوب لے ڈوبا!‘‘

    بارے خدا خدا کرکے پورے دوسال بعد ایک سابق وزیر کی خبر اخباروں میں چھپی ہے اور صرف اتنی خیر خبر معلوم ہوئی کہ،

    پاکستان کو اوجِ ثریا پر پہنچانے کے لئے نئے نئے منصوبے باندھنے والے اب تہبند باندھنے لگے ہیں! ?WHAT A FALL MY COUNTRY MEN یہ کیسا زوال ہے میرے ہم وطنو!

    پوری خبر یہ تھی کہ لاہور کی مال روڈ کے فیشن ایبل ہوٹل کے بیرے نے ایک سابق وزیر صاحب کو اس لئے ہوٹل میں داخل ہونے سے روک دیا کہ وہ تہبند باندھے ہوئے تھے۔ ان وزیر صاحب نے اس ہوٹل کے مالک کو ہوٹل کا الاٹمنٹ دلانے میں بڑی مدد کی تھی۔ اس لئے انہوں نے احتجاج کیا۔ لیکن ہوٹل کے مالک نے بھی انہیں پہچاننے سے انکار کردیا۔

    ہوسکتا ہے کہ سابق وزیر موصوف اس بات کو ہوٹل کے مالک کی احسان فراموشی پر محمول کریں۔ لیکن ہم اسے احسان فراموشی سے اس لئے تعبیر نہیں کرتے کہ وہ ہوٹل ایک فیشن ایبل ہوٹل ہے اور تہبند کو ابھی تک فیشن ایبل لباسوں میں شمار نہیں کیاگیا ہے۔

    واقعہ کچھ ہی ہو اس واقعہ سے عرصہ دوسال بعد پُرانے وزراء کی خیر خبر تو معلوم ہوگئی کہ، ’’پرانے وزراء ابھی تک زندہ سلامت ہیں اور ان کے تہبندیں لگ گئی ہیں۔‘‘

    ’’تہمت تو پہلے ہی سے لگی ہوئی تھی اب ’’تہمد‘‘ بھی لگ گئی!‘‘

    اسی ضمن میں ایک خبر یہ بھی معلوم ہوئی کہ،

    ’’اس فیشن ایبل ہوٹل میں انگریزی ناچ ہوتا ہے اور انگریزی ناچ میں شرکت کے لئے ڈریس سوٹ، فل سوٹ، یا پھر ’’قومی لباس‘‘ کی شرط لازمی ہوتی ہے۔‘‘

    ناچنے کے لئے قومی لباس؟ یہ ایک بحث ہے، یہاں ہمیں موضوع سے نہیں ہٹنا ہے اور یہ سوچنا ہے کہ کہیں وہ سابق وزیر تہبند کو تو قومی لباس نہیں سمجھتے تھے؟ کہیں انہیں یہ غلط فہمی تو نہیں ہوئی کہ جب لنگوٹی میں پھاگ کھیلا جاتا ہے تو تہبند میں رمبھا سمبھا اور راک این رول کیوں نہیں کھیلا جا سکتا؟ جبکہ ایسے ناچوں اور ایسے کھیلوں میں تہبند ہی میں بڑی آسانی ہے۔

    ممکن ہے وزیر موصوف نے عورتوں کے اسکرٹ اور سائے کو بھی تہبند ہی سمجھ رکھا ہو کہ جب عورتوں کو تہبند باندھنے کی اجازت ہے تو مردوں کو کیوں نہیں؟

    لیکن میرے خیال میں یہ سب باتیں غلط ہیں اور اپنے سابق وزیر نے شاید ایک مشہور سکھ افسر کی تقلید کی ہوگی۔ آپ نے اگر اس سکھ افسر کا قصّہ نہیں سنا ہے تو لیجئے اب سن لیجئے۔

    ایک سکھ افسر اتوار کی چھٹی کے دن اپنے ڈرائنگ روم میں اس حلیئے میں بیٹھے تھے کہ سر پر پگڑی گلے میں نکٹائی، جسم پر کوٹ لیکن پیروں میں پتلون نہیں۔ صرف جھانگیہ پہنے ننگی ٹانگوں سے بیٹھے ہیں۔

    ان کا ایک دوست ملنے آیا تو یہ حلیہ اور لباس دیکھ کرحیران ہوا اور پوچھا، ’’سردار جی، یہ بغیر پتلون کے کیسے بیٹھے ہو؟‘‘

    تو سردار صاحب نے جواب دیا، ’’یار، آج اتوار ہے۔ آج مجھے کہاں باہر جانا ہے۔‘‘

    دوست نے پوچھا، ’’لیکن یہ پگڑی، یہ نکٹائی، یہ کوٹ؟‘‘

    تو سردار صاحب نے جواب دیا، ’’بھیّا، یہ احتیاطاً پہنا ہے۔ شائد کسی ضروری کام سے باہر جانا پڑجائے!‘‘

    میرا بھی یہی خیال ہے کہ پُرانے وزراء نے اب اس لئے تہبندیں باندھ لی ہیں کہ، ’’اب تو ہم وزیر ہی نہیں ہیں۔ اب ہمیں کہاں باہر جانا ہے!‘‘

    لیکن پھر بھی سابق وزراء کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیئے کہ فلک نے ان کے لنگوٹی تو نہیں لگائی۔ بحمد اللہ کہ صرف تہبند ہی تک اکتفا کیا۔

    بہر حال ایک وزیر کا تہبند باندھنا ایک درس عبرت ہے۔ پُرانے وزیروں کے علاوہ نئے وزیروں کے لئے بھی۔

    ہاں البتہ یہ استدلال اپنی جگہ معقول ہے کہ،

    ’’جب ہم وزیر ہی نہیں رہے تو پھر کیا تہبند اور کیا لنگوٹی۔‘‘

    ’’اب ہمیں باہر جانا ہی کہاں ہے؟‘‘

    مأخذ:

    اوپر شیروانی اندر پریشانی (Pg. 92)

    • مصنف: ابراہیم جلیس
      • ناشر: مکتبۂ علم وفن، دہلی
      • سن اشاعت: 1966

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے