آخری ملاقات کا گیت
میرا سینہ سرد اور بے جان ہوتا گیا
مگر میرے قدم سبک رہے
میں نے اپنے بائیں ہاتھ کا دستانہ
غلطی سے دائیں ہاتھ پر چڑھا لیا
ایسا لگ رہا تھا وہاں بہت ساری سیڑھیاں تھیں
میں جانتی تھی وہ صرف تین تھیں
میپل کے درختوں کے درمیان
خزاں کی سرگوشی اصرار کرتی رہی میرے ساتھ مر جاؤ
تغیر نے مجھے تھکا ڈالا ہے
تقدیر نے دھوکے سے میرا سب کچھ ہتھیا لیا ہے
میں نے جواب دیا میری پیاری میری پیاری
میں بھی تمہارے ساتھ مروں گی
میں بھی اذیت میں ہوں
یہ آخری ملاقات کا گیت تھا
میں نے مکان کے تاریک در و دیوار پر نظر ڈالی
صرف خوابگاہ کی موم بتیاں جل رہی تھیں
جن کے شعلے زرد اور بے نیاز تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.