Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آرام_طلب

لارڈ ٹینی سن

آرام_طلب

لارڈ ٹینی سن

MORE BYلارڈ ٹینی سن

    دلچسپ معلومات

    (ٹینی سن کی مشہور نظم LOTUS EATERS سے ماخوذ)

    (۱)

    دنیا کی ہر اک چیز کو مل جاتا ہے آرام

    انسان کی قسمت میں ہے دن رات مگر کام

    ہر چیز کو جب ہوتا ہے آرام میسر

    انسان پریشان ہی کیوں رہتا ہے اکثر

    ہم اشرف مخلوق ہیں ممتاز ہیں سب سے

    کھاتے ہیں مگر روز حوادث کے تھپیڑے

    ہر روز نئے رنج ہیں ارمان نئے ہیں

    انسان کی تخریب کے سامان نئے ہیں

    دم بھر کے لیے گردش ایام ٹھہر جائے

    ہر صبح ٹھہر جائے ہر اک شام ٹھہر جائے

    ہم نیند کی آغوش میں دم لے نہیں سکتے

    آرام کا اک سانس بھی ہم لے نہیں سکتے

    آرام بھی انسان کو لازم ہے کبھی تو

    ہم اشرف مخلوق ہیں یہ بات نہ بھولو

    (۲)

    دیکھو تو ذرا صحن گلستاں کا تماشا

    کونپل میں بھی ہوتا ہے اثر باد صبا کا

    پتے سے بھی کرتی ہے وہی باد صبا پیار

    پتے کے مقدر میں نہ آلام نہ افکار

    دن کو تو وہ سورج کی شعاعوں میں نہائے

    پھر چاندنی شبنم کا اسے دودھ پلائے

    گر جائے گا جب شاخ سے مرجھا کے زمیں پر

    لے جائے گی پھر باد صبا ساتھ اڑا کر

    ہر سیب میں ہم کو نظر آتی ہے یہی بات

    پک جانے پہ گر جائے گا چپکے سے کسی رات

    دیکھے کوئی ہر پھول کی ہستی کا تماشا

    کھل جاتا ہے مرجھاتا ہے کچھ فکر نہ پروا

    کچھ کام مشقت سے نہ آرام سے کچھ کام

    بخشا ہے مشیت نے ہر اک چیز کو آرام

    (۳)

    اس گنبد افلاک کے چکر میں نہ آؤ

    اس قلزم ذخار میں ڈبکی نہ لگاؤ

    انسان کی ہستی کا ہے جب موت ہی انجام

    پھر کس لئے یہ کاوشیں کس کام کا پھر کام

    ہم وقت کی رفتار کو ٹھیرا نہیں سکتے

    گزرے ہوئے لمحات کو پھر لا نہیں سکتے

    کیا جانے کہ آ جائے گا کب موت کا پیغام

    بہتر ہے کہ آرام کریں چھوڑ کے سب کام

    وہ کون سی شے ہے جسے دنیا میں بقا ہے

    پھر جہد مسلسل کا یہاں خاک مزا ہے

    اس جہد مسلسل میں سکوں مل نہیں سکتا

    دنیا میں ہیں سب عیب تو ہم اس میں کریں کیا

    آلام کی یلغار سے دل ٹوٹ گیا ہے

    کچھ لطف ہے جینے میں نہ مرنے میں مزا ہے

    اس وادیٔ پر کیف میں آرام سے سو جائیں

    ہم چھوڑ کے گھر بار اسی دیس کے ہو جائیں

    (۴)

    خوش رنگ کنول دیکھیے ہر سمت کھلا ہے

    اس وادیٔ رنگیں کی فضا ہوش ربا ہے

    ہر وقت یہاں چلتی ہیں جاں بخش ہوائیں

    اس وادئ شاداب کو کیوں چھوڑ کے جائیں

    ہم گردش پیہم کا مزا دیکھ چکے ہیں

    ہم پیش نظر اپنی قضا دیکھ چکے ہیں

    ہم بحر کے گرداب بلا دیکھ چکے ہیں

    ہم حشر کے طوفان بپا دیکھ چکے ہیں

    اے ساتھیو ہم آج قسم کھا کے کہیں گے

    تا حشر اسی وادیٔ دل کش میں رہیں گے

    آرام کریں گے اسی سرسبز زمیں پر

    بل آئے ہی کیوں شور حوادث سے جبیں پر

    رہتے ہیں ملائک بھی یوںہی عرش بریں پر

    اور بجلیاں برساتے ہیں رفعت سے زمیں پر

    ایوان میں لیٹے ہوئے پیتے ہیں وہ دن رات

    ہنس دیتے ہیں جب دیکھتے ہیں دہر کے آفات

    دنیا میں کہیں جنگ کہیں قحط کہیں آگ

    انسان کو امراض کے ڈستے ہیں کہیں ناگ

    منجدھار میں انسان کہیں ڈوب رہا ہے

    امداد طلب سوئے فلک دست دعا ہے

    ہنستے ہیں ملائک تو ہمیں دیکھ کے ناشاد

    افلاک نشینوں کے لیے گیت ہے فریاد

    تقدیر کے روندے ہوئے لوگوں کی شکایت

    ہے عرش نشینوں کے لیے لغو حکایت

    یہ قہر زدہ لوگ جو فریاد کناں ہیں

    مظلوم ہیں پامال ستم ہائے زماں ہیں

    یہ اہل زمیں کرتے ہیں دن رات مشقت

    حصے میں مگر ان کے نہ دولت ہے نہ راحت

    ہو جائے گا جب ختم یہ ہستی کا فسانہ

    مل جائے گا بیچاروں کو دوزخ میں ٹھکانہ

    یہ آتش دوزخ کی بھی دیکھیں گے اذیت

    باقی ہے ابھی ان کے لیے یہ بھی مصیبت

    سنتے ہیں کہ جنت میں بھی کچھ لوگ رہیں گے

    جو راحت و آرام کو لبیک کہیں گے

    آرام میں ہستی کا بڑا راز نہاں ہے

    جو بات ہے ساحل پہ وہ موجوں میں کہاں ہے

    اس وادیٔ رنگیں میں بھی جنت کا مزا ہے

    پھولوں کا بچھونا ہے دل آویز فضا ہے

    بہتر ہے مشقت سے تو ہر حال میں آرام

    اے ساتھیو بھولے سے بھی جانے کا نہ لو نام

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے