گنہ کیا میں نے
گنہ کیا میں نے
گناہ پر لذت
اک اس کنار میں جو گرم و آتشیں تھی بہت
اور ایسے بازوؤں میں
سلگ رہے تھے جو ظالم تھے آہنیں تھے بہت
اندھیری خلوت میں
اندھیری اور خموش
نظر ملی اس سے
نگاہ راز سے پر
عجب نیاز سے پر
اور ایسی خواہش سے
کہ بے قراری سے سینے میں دل مرا لرزا
میں اس کے پہلو میں بیٹھی رہی پریشاں سی
لبوں نے اس کے لبوں پر مرے
ہوس چھڑکی
تو کیا ہوا مجھ کو
کہ میرے دل سے پریشانئ زمانہ گئی
نہایت آہستہ
میں اس کے کان میں کہنے لگی فسانۂ عشق
تری تمنا ہے جاناں تری تمنا ہے
تری تمنا ہے آغوش جاں فزا تیری
تری تمنا ہے
اے مرے دوانۂ عشق
ہوس سے اس کی نظر میں بھڑک اٹھے شعلے
شراب سرخ پیالوں میں رقص کرنے لگی
تھا نرم اک بستر
اور اس کے سینے پر
انوکھی مستی سے میرا بدن لرزتا رہا
گنہ کیا میں نے
گناہ پر لذت
کنار پیکر لرزاں
پیکر مدہوش
مرے خدا مجھے کیا علم کیا کیا میں نے
اندھیری خلوت میں
اندھیری اور خموش
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.