ہم_سفر
دلچسپ معلومات
(براؤننگ کی مشہور نظم THE LAST RIDE TO GETHER کا ترجمہ)
(۱)
منظور یہی جب مجھے اے جان جہاں ہے
جو میرا مقدر ہے وہ اب مجھ پہ عیاں ہے
ناکام رہا آہ مرا جذبۂ الفت
حصے میں مرے آئی ہے محرومی و حسرت
لکھا ہے جو تقدیر میں وہ ہو کے رہے گا
اب تک ہے مگر دل میں وہی تیری محبت
رہتی ہے مرے سامنے ہر دم تری صورت
گو وصل کی امید تجھے سونپ چکا ہوں
اس پر بھی تری یاد کا پابند وفا ہوں
کچھ اور بھی کہنا ہے مگر تیری رضا سے
گھوڑے پہ چلیں سیر کا کچھ لطف تو آئے
(۲)
یہ سن کے جبیں جھک گئی اس شوخ ادا کی
نظریں بھی جھکیں جن میں رعونت تھی بلا کی
دیکھا جو ذرا میری طرف آنکھ اٹھا کر
کچھ آ ہی گیا رحم میرے حال زبوں پر
پوچھو نہ کچھ اس وقت دل زار کا عالم
اتنے میں ہوئی مجھ پہ عنایات کی بارش
منظور ہوئی میری یہ چھوٹی سی گزارش
اب رخش پر ہم بیٹھیں گے وہ ہوگی مرے پاس
قربت سے ہمیں ہوگا محبت کا بھی احساس
اس ساعت نادر کو میں سمجھوں گا غنیمت
کیا جانے کہ آ جائے اسی روز قیامت
(۳)
پھر بیٹھ گئی میرے ہی گھوڑے پہ وہ طناز
پر لگ گئے دل کو بھی ہوا مائل پرواز
پھر مجھ کو ملی میری وہ گم گشتہ جوانی
ماضی تھا مرے واسطے اب ایک کہانی
جو بیت چکا میرے لیے بیت چکا تھا
کیوں سوچتا یوں کرتا تو ہو سکتی تھی یہ بات
اب سود و زیاں کے تھے کہاں دل میں خیالات
یہ کہیے کہ قسمت نے دیا اب تو مرا ساتھ
جا سکتی تھی ورنہ وہ مرا چھوڑ کے بھی ہاتھ
کیا مجھ پہ گزرنی تھی بگڑ جاتا اگر کام
اب رخش پہ بیٹھی ہے مرے ساتھ وہ گلفام
(۴)
مانا کہ ملا جو وہ تمنا سے ہے کمتر
سب کچھ تو نہیں ہوتا کسی کو بھی میسر
محبوب کے پہلو میں یہ کیا کم تھی سواری
اس وقت مری روح پہ تھا کیف سا طاری
دنیا کی ہر اک چیز تھی رقصاں مرے آگے
سوچا کہ کیا کرتے ہیں سب لوگ ریاضت
کتنے ہیں مگر جن کے قدم چوم لے نصرت
تکمیل کہاں پاتے ہیں دنیا میں سبھی کام
آغاز تو آسان ہے دشوار ہے انجام
سوچا تھا ہمیشہ وہ مرے پاس رہے گی
اب رخش پہ ہے ساتھ چلو یہ بھی ہے کافی
(۵)
ہونے کو تو ہوتے ہیں کئی دل میں عزائم
ہر عزم کی تکمیل کہاں ہوتی ہے دائم
ہو لاکھ کسی کام سے انساں کو لگاوٹ
کس کام میں آتی نہیں درپیش رکاوٹ
صد شکر کہ جی بھر کے اسے دیکھ رہا ہوں
لیڈر کو ذرا دیکھیے کیا ملتا ہے انعام
مر جانے پہ چھپ جائے گا اخبار میں بس نام
جانباز سپاہی کو یہ ہوتا ہے میسر
کھودے گا پس مرگ کوئی نام لحد پر
لیڈر کا ہے یہ حال سپاہی کا یہ انجام
میں خوش ہوں کہ دونوں سے ہے بڑھ کر مرا انعام
(۶)
اے قلزم افکار میں ڈوبے ہوئے شاعر
الفاظ سے تو شعر بنانے میں ہے ماہر
ہے تیرا قلم حسن جہاں تاب کا مظہر
دے سکتا ہے جذبات کو الفاظ کا پیکر
بھر دیتا ہے الفاظ کے پیکر میں ترنم
مانا کہ بڑی چیز ہے یہ کام ہے مشکل
کیا خود بھی مگر تجھ کو ہے نعمت کوئی حاصل
جز عسرت و ادبار ترے پاس ہی کیا ہے
کیا تشنہ لبی ہی تری کاوش کا صلہ ہے
یہ مان لیا ذوق سخن سے ہوں میں عاری
لیکن تری قیمت میں کہاں ایسی سواری
(۷)
بت گر سے کہو تو نے بھی کی فن کی عبادت
رکھتا ہے فن سنگ تراشی میں مہارت
وینسؔ کا یہ بت جس کو سمجھتا ہے تو شہکار
رکھتا ہے کشش اس سے تو بڑھ کر وہ طرحدار
اس پر بھی ہے تو شاد تو کیوں مجھ کو ہو افسوس
اے ماہر موسیقی ذرا تجھ سے کروں بات
اس فن کی عبادت میں ہوئی وقف تری ذات
افسوس کہ بس اتنی ہی ملتی ہے تجھے داد
کر سکتا ہے تو ساز کی جھنکار سے دل شاد
اس پر بھی یہ مشکل کہ بدل جاتے ہیں معیار
ہے عشق کا یہ فیض کہ ہم دوش ہے دلدار
(۸)
کیا ٹھیک ہے انساں کے لیے اس کو خبر کیا
منظور اگر کاتب تقدیر کو ہوتا
ہو جاتی یہیں وصل کی نعمت بھی میسر
لیکن کوئی ناعاقبت اندیش ہو کیوں کر
انسان کو اندیشۂ عقبیٰ بھی ہے لازم
ہو جاتا اگر زیست میں پورا مرا منشا
مل جاتی یہیں مجھ کو مری جان تمنا
عقبیٰ کے لیے پھر کوئی رہتا نہ سہارا
صد شکر کہ کشتی سے رہا دور کنارا
ہو لینے دو اب رخش پہ دم بھر مجھے محظوظ
محبوب بھی محفوظ ہے عقبیٰ بھی ہے محفوظ
(۹)
خاموش تھی وہ رشک قمر غیرت فردوس
ماحول تھا میرے لیے ہم صورت فردوس
وہ ماہ لقا مجھ سے تھی اس وقت بغل گیر
ایسی ہی ہوا کرتی ہے فردوس کی تصویر
ممکن ہے کہ بن جائیں یہ لمحات دوامی
بیٹھے ہی رہیں رخش پہ تا روز قیامت
ہر وقت رہے سامنے وہ چاند سی صورت
ارماں بھی نکلتے رہیں حسرت بھی ہو باقی
بن جائے گا فردوس یہی عالم خاکی
ہوگی نہ کبھی ختم یہ پر لطف سواری
جنت بھی ہماری ہے یہ دنیا بھی ہماری
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.