Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حالی اور پیروی مغربی

عندلیب شادانی

حالی اور پیروی مغربی

عندلیب شادانی

MORE BYعندلیب شادانی

    حالی اب آؤ پیروی مغربی کریں

    بس اقتدائے مصحفی و میر کرچکے!

    علامہ سیماب اکبر آبادی، علامہ عبدالماجد دریابادی، فلسفی تم سوفی، علامہ سالک بٹالوی، مدیر انقلاب لاہور، اور اسی قسم کے چند اور علامے کہتے ہیں کہ ہندوستانی یونیورسٹیوں میں اردو فارسی کے پیروفیسر عموماً لال بجھکڑ کے خاندان سے ہیں۔ علم سے بے بہرہ اور عقل سے محروم۔ اور قطعی دلیل اس دعوے کی یہ ہے کہ ایک پرفیسر نے حالی کے مندرج بالا شعر میں ’’پیروی مغربی‘‘ کے معنی ’’یورپین شاعری کی تقلید‘‘ بتائے اور دو اور پروفیسروں نے اس کی تائید کی۔ حالانکہ ان علاموں کے خیال کے مطابق اس شعر میں لفظ ’’مغربی‘‘ ایک ایرانی شاعر کا تخلص ہے اور مولانا حالی اس کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔

    ان پروفیسروں اور ’’دکاترہ‘‘ کے شجرۂ نسب اور مبلغ علم سے قطع نظر کرکے دیکھنا یہ ہے کہ انہوں نے جو بات کہی ہے وہ کس حد تک قابل قبول ہے۔ چونکہ علامہ لوگوں کے نزدیک حالی کے زیر بحث شعر میں لفظ ’’مغربی‘‘ سے وہ ایرانی شاعر مراد ہے جس کا تخلص ’’مغربی‘‘ ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے مغربی کا کچھ حال جان لینا ضروری ہے۔

    مسٹر عبدالرحیم شبلی۔ بی کام۔ نے ۸/جون ۱۹۴۶ء کے خیام میں ’’مغربی‘‘ کے حلات لکھے ہیں۔ مگر کچھ اس انداز سے لکھے ہیں کہ نہ صرف ناواقف لوگ بلکہ تھوڑی بہت واقفیت رکھنے والے بھی ان کے مطالعے سے دھوکا کھا سکتے ہیں۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں،

    ’’مغربی کا مختصر تذکرہ شبلی نعمانی نے شعرالعجم حصہ پنجم میں کیا ہے۔۔۔ لیکن جب مجھے تفصیلات کی جستجو ہوئی تو معلوم ہوا کہ مندرج ذیل تصانیف میں مغربی اور اس کی شاعری پر شرح و بسط کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے،

    (۱) نغمات الانس جامی۔ (۲) حبیب السیئر خواند میر۔ (۳) ہفت اقلیم امین احمد رازی۔ (۴) آتش کدۂ آذر۔ (۵۔ ۶) مجمع الفصحاء ریاض العارفین از رضا قلی خاں ہدایت (۷) تاریخ ادبیات ایران، براؤن۔ جلد سوم۔ ان تمام تصانیف کے اوراق پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’مغربی کااصلی نام محمد شیرین تبریزی تھا۔۔۔ ۷۵۰ھ/۱۳۵۰ء میں پیدا ہوا۔ تقریباً ساٹھ برس کی عمر پائی۔ رضاقلی خاں کا بیان ہے کہ وہ اصفہان کے قریب ایک موضع ’’ناعین‘‘ میں پیداہوا۔۔۔ فارسی شاعری میں اس کا وہی درجہ ہے جو سنائی، رومی، عراقی اور عطّار کو دیا جاتا ہے۔‘‘

    مسٹر شبلی۔ بی۔ کام کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ مغربی کے حالات مرتب کرنے کے لیے انہوں نے بذاتِ خود مندرجِ بالا کتابوں کا مطالعہ کیا۔ مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے صرف تاریخ ادبیات ایران (براؤن) کو پیش نظر رکھا ہے۔ اور براؤن نے مغربی کے متعلق جو کچھ لکھا ہے انہوں نے اس کے بعض حصوں کا ترجمہ کردیا ہے۔ اس دعوے کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ مجمع الفصحا میں مغربی کا مقام پیدائش ’’نائین‘‘ تحریر ہے۔ اور یہی صحیح ہے۔ مسٹر شبلی۔ بی کام۔ نے ’’ناعین‘‘ لکھا ہے۔ مگر ایران میں ’’ناعین‘‘ نامی کوئی مقام نہیں۔ اگر انہوں نے مجمع الصفحا کا مطالعہ بچشم خود کیا ہوتا تو لازمی طور پر وہ ’’نائین‘‘ لکھتے۔ ’’ناعین‘‘ ہر گز نہ لکھتے۔ بات یہ ہے کہ انہوں نے براؤن کی کتاب میں (NAIN) لکھا دیکھا۔ اور ذرا سی غفلت سے اسے ’’ناعین‘‘ بنادیا۔

    اور بالغرض یہ سہوِکاتب ہے تو دوسرا ثبوت یہ ہے کہ مسٹر شبلی کے ماخد بھی فارسی کی صرف وہی کتابیں ہیں جن کا براؤن نے ذکر کیا ہے۔ حالانکہ ان کتابوں کے علاوہ اور بھی متعدد تذکروں میں مغربی کا حال درج ہے۔ لیکن مسٹر شبلی نے براؤن کے ماخذوں کے سوا وار کسی کتاب کا نام نہیں لیا۔ اس کے علاوہ براؤن اور مسٹر شبلی کی تحریروں کامقابلہ کرنے سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ مسٹر شبلی نے لفظ بہ لفظ براؤن کی نقل کی ہے۔

    مسٹر شبلی کا یہ دعویٰ بھی بے بنیاد ہے کہ ’’مندرجِ ذیل تصانیف میں مغربی اور اس کی شاعری پر شرح و بسط کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے‘‘ اگر انہوں نے ان کتابوں کو بچشم خود دیکھا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ نغمات الانس جامی کے علاوہ اور کسی کتاب میں مغربی کا حال دوتین سطروں سے زیادہ نہیں۔ اور نغمات میں بھی مغربی اور اس کی شاعری پر شرح و بسط کے ساتھ گفتگو نہیں کی گئی بلکہ دو حکائتیں درج ہیں جن میں سے ایک میں کمال خجندی کے شعر پر مغربی کا اعتراض اور کمال کا جواب مذکور ہے۔ اور دوسری میں یہ کہا گیا ہے کہ مغربی کے پیر شیخ اسمٰعیل سیسی نے ایک مرتبہ درویشوں کو چلے میں بٹھایا تھا۔ اور مغربی کو بھی بلایا تھا۔ اس موقع پر مغربی نے یہ غزل کہی تھی،

    تامہرِ تودیدیم ز ذرات گذشیتم

    از جملہ صفات ازپے آں ذات گذشتیم

    کیا ’’مغربی اور اس کی شاعری پر شرح و بسط کے ساتھ گفتگو اسی کا نام ہے؟ بہرحال اس محل پر براؤن کا یہ قول دلچسپی سے خالی نہیں کہ ’’اگرچہ مغربی کا ذکر اکثر تذکرہ نویسوں نے کیا ہے۔ لیکن اس کے حالاتِ زندگی کچھ بھی معلوم نہیں۔‘‘

    مسٹر شبلی کا یہ قول بھی سراسر بے بنیاد ہے کہ ’’فارسی شاعری میں مغربی کا وہی درجہ ہے جو سنائی، رومی، عراقی اور عطّار کو دیا جاتا ہے۔‘‘ آج تک کسی مستند اہل قلم نے مغربی کو رومی وغیرہ کا ہم پایہ قرار نہیں دیا۔ مسٹر شبلی نے مندرج بالا عبارت کو رضاقلی خاں ہدایت صاحبِ مجمع الفصحا کے ایک قول کے ساتھ اس طرح نقل کیا ہے کہ گویا یہ بھی ہدایت کے بیان کا ایک حصہ ہے۔ اور جیسا کہ ہم پیشتر اشارہ کرچکے ہیں یہ طرزِ بیان بے حد مغالطہ انگیز ہے چنانچہ علامہ سالک بٹالوی دھوکا کھا ہی گئے۔ اور بے اختیار کہہ اٹھے کہ،

    ’’مغربی کے متعلق راقم الحروف کی معلومات تو صرف شعرالعجم اور براؤن کی تاریخ ادبیات ایران تک محدود تھیں لیکن شبلی صاحب نے مغربی اور اس کے انداز فکر پر ایک مفصل مقالہ لکھ دیاہے جس میں ثابت کیا ہے کہ مغربی اکابر شعرائے عجم سے تھا۔ اس کا عارفانہ کلام بہت کم مثالیں رکھتا ہے اور وہ رومی، سنائی، عراقی اور عطار کا ہم پایہ ہے۔‘‘

    علامہ سالک بٹالوی کے اس بیان میں کئی باتیں قابل غور ہیں۔ ایک یہ کہ مسٹر شبلی نے مغربی کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ کسی حال میں بھی ’’مفصل مقالہ‘‘ کہلانے کا مستحق نہیں کیونکہ وہ ’’مفصل مقالہ‘‘ غیرمتعلق باتوں کو چھوڑ کر خیام کے کل دو کالموں پر مشتمل ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر علامہ سالک بٹالوی نے واقعی شعرالعجم اور تاریخ ادبیات ایران میں مغربی کاحال پڑھا ہوتا تو انہیں مغربی کے متعلق علامہ شبلی نعمانی اور پروفیسر براؤن کی رائے ضرور معلوم ہوتی ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسٹر شبلی بی۔ کام۔ نے جو کچھ لکھا ہے وہ تمام تر براؤن کی تاریخ ادبیات ایران سے ماخوذ ہے۔ اور اس صورت میں وہ ہرگز یہ نہ کہتے کہ مسٹر شبلی نے ’’ثابت کیا ہے کہ مغربی اکابر شعرائے عجم سے تھا۔ اور وہ رومی، سنائی، عراقی اور عطار کا ہم پایہ ہے۔‘‘

    جاننے والے لوگوں کی نظر میں مسٹر شبلی نے کوئی بات بھی ثابت نہیں کی۔ ناواقف جو کچھ بھی سمجھ لیں۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ علامہ سالک بٹالوی نے بھی یونہی اٹکل پچو جو جی میں آیا لکھ مارا۔ تحقیق کی زحمت گوارا نہیں فرمائی۔

    مسٹر شبلی۔ بی۔ کام۔ نے مغربی اور رومی کے ہم پایہ ہونے کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ دراصل براؤن کی ایک عبارت کا غلط ترجمہ ہے۔ براؤن کے الفاظ یہ ہیں۔

    He belongs essentially to the same class of mystical poets as Sanai, Rumi۔

    یعنی وہ (مغربی) لازمی طور پر صوفی شعرا ءکے اسی طبقے سے تعلق رکھتا ہے جس میں سنائی، رومی عراقی اور عطار شامل ہیں۔ SAME CLASSکے معنی ہم پایہ نہیں ہیں۔ ایک ہی طبقے یا جماعت سے تعلق رکھنے والے سب لوگ ایک ہی پائے کے نہیں ہوا کرتے۔ مسٹر شبلی نے یہ غلطی نادانستہ کی ہے یا جان بوجھ کر بہرحال براؤن اسی سلسلے میں لکھتا ہے،

    Yet though of the same category as there, he seldom reaches their level

    یعنی مغربی اگرچہ انہیں لوگوں (یعنی رومی وغیرہ) کے طبقے کا آدمی ہے۔ مگر وہ شاذونادر ہی ان کی سطح تک پہنچتا ہے۔

    مغربی کے متعلق پروفیسر براؤن کی رائے آپ کو معلوم ہوگئی۔ اب علامہ شبلی نعمانی کا تبصرہ بھی سن لیجیے،

    ’’مغربی کا کلام سرتا پا مسئلہ وحدت کا بیان ہے اور چونکہ تخیل وجدت کم ہے اس لیے طبیعت گھبراجاتی ہے۔ ایک بات کو سو سو بار کہتے ہیں اور ایک ہی انداز میں کہتے ہیں۔‘‘

    رضا قلی خاں ہدایت صاحب مجمع الفصحا نے بھی مغربی کی شاعری کے متعلق ٹھیک یہی خیال ظاہر کیا ہے۔ ہدایت کے الفاظ یہ ہیں،

    ’’بجز یک معنی درہمہ گفتارش نتواں یافت‘‘ یعنی مغربی کے سارے کلام میں صرف ایک ہی معنی (یعنی مسئلہ وحدتِ وجود) کی تکرار ہے اور بس۔

    اس محل پر یہ بتادینا ضروری ہے کہ مولانا جامی یا لطف علی بیگ آذر صاحب آتش کدہ نے ایک لفظ مغربی کی شاعری کی تعریف میں نہیں کہا۔ نہ انہیں رومی یا عطار و سنائی کا ہم پایہ قرار دیا۔

    راقم الحروف نے دیوان مغربی کا مطالعہ کیا ہے اور نہایت دیانت داری کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ مغربی کا کلام بے کیف، خشک اور بے مزہ ہے۔ روحانیت، تصوف اور درویشی میں مغربی کا پایہ خواہ کتنا ہی بلند کیں نہ ہو لیکن جہاں تک شاعری کا تعلق ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ اوسط درجے کا شاعر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اور جو شخص مغربی کو رومی کاہم پایہ قرار دیتا ہے وہ نہ رومی کے مرتبہ سے واقف ہے نہ مغربی کے درجے کو پہچانتا ہے۔ ذیل میں ہم مغربی کی ایک مشہور غزل نقل کرتے ہیں جو ان کے کلام میں ایک صحیح نمونہ ہے۔ اس کے مطالعے سے قارئین کو خود ہی اندازہ ہوسکتا ہے کہ مغربی کس پایہ کاشاعر ہے۔

    زدریا موجِ گونا گوں برآمد

    زبے چونی برنگِ چوں برآمد

    چرنیل از بہر قومے آب گردید

    برائے دیگراں چوں خوں برآمد

    گہ ازہاموں بہ سوئے بحر شد باز

    گہے از بحر برہاموں برآمد

    چوایں دریا دہاموں موجزن شد

    حباب آسابر و گردوں برآمد

    ازیں دریا بدیں امواج ہردم

    ہزاراں گوہرِ کھنوں برآمد

    چویار آمدز خلوت خانہ بیردل

    ہموں نقش دروں بیروں برآمد

    گہے درکسوتِ لیلےٰ فروشد

    گہے برصورتِ مجنوں برآمد

    بصد دستاں بکامِ دوستان شُد

    بصد افسانہ دافسون برآمد

    بدیں کسوت کہ می بینشیں اکنوں

    یقیں می داں کہ ادا کنوں برآمد

    بہ معنی ہیچ دیگر گوں نہ گردید

    بصورت گرچہ دیگر گوں برآمد

    چو شعر مغربی درہر لبا سے

    بغایت ولبر و موزوں برآمد

    یہ ثابت کرنے کے بعد کہ مغربی زیادہ سے زیادہ ایک اوسط درجے کے شاعر ہیں۔ ان کے کلام میں مسئلہ وحدتِ وجود کی بے کیف تکرار کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ اور وہ کسی طرح بھی رومی یا عطّار و سنائی کے ہم پایہ قرار نہیں دیے جاسکتے۔ ہم اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

    علامہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ’’پیروی مغربی‘‘ سے مولانا حالی کی مراد مغربی تبریزی کی پیروی ہے وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں دو دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ،

    ’’دیوان حالی کے اکثر اڈیشینوں میں مغربی، مصحفی و میر جلی روف میں لکھے ہوئے ہیں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مصحفی و میر کی طرح مغربی بھی کسی شاعر کا تخلص ہے۔‘‘

    اول تو یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ حالی کے ’’اکثر‘‘ ایڈیشنوں میں لفظ مغربی جلی حروف میں لکھا ہوا ہے۔ کیونکہ دیوانِ حالی کا دوسرا ایڈیشن جو ظفر الملک صاحب علوی نے لکھنؤ سے شائع کیا تھا اسے چھوڑ کر دیوان حالی کے اور کسی ایڈیشن میں لفظ مغربی جلی قلم سے تحریر نہیں۔ اور بالفرض اگر دیوانِ حالی کے ہر ایڈیشن میں ’’مغربی‘‘ جلی قلم سے لکھا ہوا ہو تب بھی محض جلی قلم سے لکھے ہونے کی بنا پر اسے کسی شاعر کا تخلص قرار نہیں دیا جاسکتا۔ غزل کے آخری شعر میں یا کسی شعر میں کسی لفظ کا جلی قلم سے لکھا ہونا اس امر کی دلیل ہرگز نہیں کہ وہ لازمی طور پر شاعر کا تخلص ہے۔ دیوان حالی کے ظفر الملک صاحب والے ایڈیشن کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں جابجا مختلف الفاظ کو خواہ مخواہ جلی قلم سے لکھا گیا ہے اور بعض اشعار میں معمولی الفاظ کا جلی قلم سے لکھا ہونا نہایت مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ مصلاً صفحہ ۵۴ پر اس شعر میں،

    ناچیز ہیں وہ کام، نہیں جن پہ کچھ الزام

    جو کام ہیں ان کا یہی انعام ہے گویا

    لفظ ’’کام‘‘ دوسرے مصرعے میں جلی قلم سے لکھا ہے اور اس شعر میں،

    یہ لطف بناوٹ میں دیکھانہ سنا قاصد

    ان پڑھ تو ہے تو یہ کچھ، پڑھتا تو بلا ہوتا

    لفظ ’’قاصد‘‘ جلی قلم سے لکھا ہوا ہے۔

    جہاں تک ہمیں معلوم ہے کام اور قاصد کسی شاعر کا تخلق نہیں اور اگر ہو بھی تو ان اشعار میں یہ الفاظ بطور تخلص استعمال نہیں کیے گئے۔ جلی قلم سے لکھا ہونا کاتب یا مرتب کی ’’ذہانت‘‘ کا ثبوت ہے اور بس۔

    اسی قسم کی ایک اور دلچسپ مثال سنیے ’’مجمع الاشعار‘‘ کا ایک پرانا نسخہ جو مطبع الطافی کان پور کا چھپا ہوا ہے اس وقت میرے پیش نظر ہے۔ غالباً اس مجموعے کے مرتب کو بعض غزلوں کے مصنف کا نام معلوم نہ تھا۔ لہٰذا اپنی جہالت کو چھپانے کے لیے یہ ’’حکمت‘‘ کی۔ غزل کے آخری شعر میں کسی ایک لفظ کو جلی قلم سے لکھوادیا۔ گویا یہی شاعر کاتخلص ہے۔ اور غزل کے شروع میں جو سرخی لکھی اس میں بھی اس امر کا اظہار کردیا کہ یہ غزل فلاں شاعر کی ہے۔ مثلاً صفحہ ۵پر جلی حروف میں لکھا ہے،

    غزل التجا۔ اور اس کے نیچے یہ غزل درج ہے،

    فرطِ شوق اس بت کے کوچے تک لگالے جائے گا

    کعبۂ مقصود تک مجھ کو خدا لے جائے گا

    اس غزل کا آخری شعر یہ ہے،

    اے مرے مشکل کشا، مشکل کشائی کیجیے

    تم بغیراب کون میری التجا لے جائے گا

    اس شعر میں لفظ ’’التجا‘‘ جلی قلم سے لکھا ہے گویا یہ شعر مقطع ہے۔ اور لفظ التجاؔ شاعر کا تخلص ہے۔ ایک معمولی استعداد اور معمولی سمجھ کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ لفظ ’’التجا‘‘ یہاں شاعرکا تخلص ہرگز نہیں۔ بلکہ دوسرے الفاظ کی طرح اپنے لغوی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس قسم کی مثالیں اس کتاب میں کتنی ہی موجود ہیں۔

    شبلی کو سُتلی بنادینا تو کاتب کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے لیکن حال ہی میں ایک کاتب صاحب نے اس سے بڑھ کر ذہانت کا ثبوت دیا۔ دیوان غالب لکھ رہے تھے۔ اسی زمانے میں ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔ فرمانے لگے۔ میں نے دیوانِ غالب کے متعلق ایک نئی بات دریافت کی ہے جو آج تک کسی کو معلوم نہیں اور لوگ جس وقت سنیں گے تو حیران رہ جائیں گے۔ دوست نے پوچھا وہ کون سی نئی بات ہے؟ کہا جس طرح نور الٰہی اور محمد عمر صاحبان نے مل کر ناٹک ساگر لکھی ہے اسی طرح دیوانِ غالب کی تصنیف میں آتش کا بھی ہاتھ ہے اور اگر پورا دیوان نہیں تو کم سے کم ایک غزل ضرور دونوں نے مل کر کہی ہے۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ مقطع میں دونوں کا تخلص موجود ہے اور وہ مقطع یہ ہے،

    عشق پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش، غالب

    کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

    کاتب کا دوست بھی کاتب ہی تھا۔ اس نئی تحقیق پر دل کھول کر داد دی۔

    مولانا حالی کے شعر میں لفظ ’’مغربی‘‘ کا جلی قلم سے لکھا ہونا محض اس امر کا مزید ثبوت ہے کہ کاتب اور گدھا ایک ہی خاندان سے ہیں۔ (۱) حیرت ہے کہ یہ علامہ لوگ ایک علمی بحث میں عقل سلیم کو چھوڑ کر ایک’’کالحمار‘‘ کو اپنا رہنما کیوں بناتے ہیں۔ دوسری دلیل ان حضرات کی یہ ہے کہ،

    ’’پیروی مغربی‘‘ کا مفہوم وہ نہیں ہے جو ’’پیروی مغرب‘‘ کا ہے۔ مغربی سے اگر مغربی شاعر مراد نہیں لیا جائے گا تو پھر مرکب اضافی کے بجائے اپنی موجودہ شکل میں یہ مرکب توصیفی ہوجائے گا اور پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسی پیروی جو مغربی ہو یعنی مغربی انداز کی ہو۔ اس مقام سے یہ مطلب بالکل ہی غیر مربوط ہے۔ اب یہ امر کہ ’’پیروی مغربی‘‘ مغربی اندازِ نظر کے لیے استعمال کردیا گیا ہو تو نئے ادیبوں کے یہاں اس قسم کی ترکیبوں کی گنجائش خواہ کتنی ہی نکلے مگر حالی سے مسلم الثبوت استاد کے یہاں ایسی بھونڈی ترکیبوں کا گذر نہیں۔‘‘

    خلاصہ اس گفتگو کا یہ ہے کہ اگر مولانا حالی کو یہ کہنا ہوتا کہ ’’آؤ مغرب کی پیروی کریں‘‘ تو وہ ’’پیروی مغرب‘‘ لکھتے۔ پیروی مغربی نہ لکھتے۔ کیونکہ پیروی مغربی سے یہ مطلب ادا نہیں ہوتا۔ اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ حالی نے ’’پیروی مغربی‘‘ کو ’’پیروی مغرب‘‘ کے مفہوم میں استعمال کیا ہے تو قواعد کی رو سے یہ ترکیب اس معنی میں غلط ہے اور غلطی حالی سے ہو نہیں سکتی کیونکہ وہ ایک مسلم الثبوت استاد تھے۔

    (۱) حالی ایک مسلم الثبوت استاد تھے اس میں کوئی شک نہیں

    (۲) پیروی مغربی اور پیروی مغرب کا مفہوم جدا جدا ہے۔ اس میں بھی کلام نہیں۔

    (۳) مغربی سے مراد اگر مغرب ہے تو حالی کو پیروی مغرب کہنا چاہیے تھا۔ یہ بھی درست ہے۔

    (۴) پیروی مغرب کے معنی میں پیروی مغربی لکھنا قواعد کی رو سے غلط ہے۔ اس سے بھی انکار نہیں۔

    ان تمام امور میں ہم علامہ لوگوں کے ساتھ ہیں لیکن ان کا یہ کہنا کہ مولانا حالی سے ایسی غلطی نہیں ہوسکتی۔ موصوف کو سہو و خطا سے ترکیب پائی ہوئی انسانی فطرت سے محروم کرکے ایک معصوم فرشتہ بنادینا ہے۔ اور یہ علامہ لوگوں کے امکان میں نہیں۔

    مولانا حالی سے فقط یہی ایک تسامح نہیں ہوا بلکہ ایسی اور بھی کتنی ہی فروگذاشتیں ان کے کلام میں موجود ہیں اور جن حضرات کو اس موضوع سے دلچسپی ہو وہ ہمارا مضمون ’’سند‘‘ مطبوعہ سالنامہ شاعر (آگرہ) بابت ۱۹۵۴ء ملاحظہ فرمائیں۔ لیکن اس قسم کی فروگذاشتوں سے مولانا حالی یا کسی دوسرے مسلم الثبوت استاد کی بزرگی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ بھول چوک ہر انسان سے ہوتی ہے۔ اور مولاناحالی بھی آخر ایک انسان ہی تھے۔ چوک ہوگئی۔

    حالی کے استاد مرزا غالب جو امیر خسرو کے سوا کسی ہندی نژاد کی فارسی دانی کے قائل نہ تھے جنہوں نے حزین، صائب، نظامی، خاقانی، جلال اسیر، اہلی شیرازی، اور خواجہ حافظ جیسے مسلم الثبوت ایرانی اساتذہ کی گرفت کی اور اکثر بجا کی۔ جنہوں نے صاحب برہان قاطع کو مردود، قتیل کو کھتری بچہ اور الو کا پٹھا۔ ملا غیاث الدین صاحب غیاث اللغات کو ملائے مکتبی (اور غیاث اللغات کو کتہ حیض) عبدالواسع ہانسوی کو گھاگس اور دوسرے ہندی نژاد فارسی دانوں کو ان کی ’’جہالت‘‘ کی بنا پر اسی قسم کے رکیک الفاظ سے یاد کیا۔ جنہیں اپنی فارسی دانی پر بڑا ناز تھا۔ جو ایک ایک لفظ کو پورے غور و فکر اور کامل تحقیق کے بعد استعمال کرتے تھے ذرا ان کی پنج آہنگ سامنے رکھیے اور ان کی ٹھوکریں کھانے کا تماشا دیکھیے۔ جن غلطیوں پر دوسروں کو ٹوکتے تھے خود اسی قسم کی لغزشوں کا شکار ہوئے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے۔

    پنج آہنگ صفحہ ۱۳۳۔ مصارفِ راہ مصارف بمعنی اخراجات کائستھوں کی فارسی ہو تو ہو، ایرانیوں کی نہیں وہ خرچ اور اخراجات بولتے ہیں۔

    صفحہ ۱۴۰۔ نوید فراق دائمی۔ نویداچھی خبر کو کہتے ہیں۔ فراق دائمی یعنی موت اور وہ بھی ایک دوست کی موت کی خبر کو نوید کہنا مرزا صاحب ہی کا حصہ ہے۔

    صفحہ ۱۴۸۔ مثل مقدمہ۔ اس معنی میں مقدمہ ہندوستانی ہے ایرانی مرافعہ کہتا ہے۔

    صفحہ ۱۶۵۔ درعرصۂ سہ روز۔ عرصۂ بمعنی مدت اردو ہے۔ فارسی میں عرصہ کے معنی میدان کے ہیں۔

    صفحہ ۱۵۹۔ شادی جواہر سنگھ۔ شادی بمعنی بیاہ اردو ہے۔ فارسی میں عروسی کہتے ہیں۔

    صفحہ۱۵۷۔ ملازمت۔ بمعنی نوکری اردو ہے۔ فارسی میں خدمت، نوکری اور استخدام کہتے ہیں۔

    اس کے ساتھ مرزا صاحب کا یہ شعر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے۔

    غلطی ہائے مضامین مت پوچھو لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں

    غلطی فارسی میں نہیں آتا۔ اردو میں البتہ بولتے ہیں۔ مرزا صاحب نے غلطی کی جمع فارسی کے قاعدے سے غلطی ہا بنائی۔ یہ ایک غلطی۔ اور پھر اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ اس کے ساتھ اضافت کا استعمال بھی جائز رکھا اور ’’غلطی ہائے مضامین‘‘ کہا۔ یہ دوسری غلطی۔

    اب اگر ان علامہ لوگوں سے کوئی پوچھے کہ مرزا صاحب جیسے مسلم الثبوت استاد سے کہ وہ حالی جیسے مسلم الثبوت استاد کے استاد تھے۔ اس قسم کی غلطیاں کیونکر سرزد ہوئیں تو سوائے اس کے کہ وہ بغلیں جھانکنے لگیں اور کوئی جواب ان سے نہ بن پڑے گا۔ لیکن یہی سوال اگر کوئی ہم سے پوچھے تو ہم بلا تلامل کہہ دیں گے کہ مرزا غالب انسان تھے۔ اور سہووخطا لازمہ بشریت ہے۔ لہٰذا ان سے غلطی ہوگئی لیکن اس غلطی سے عظمت و بزرگی میں کوئی فرق نہیں آتا۔

    اس محل پر یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ پیروی مغرب کے بجائے پیروی مغربی کہنا کوئی ایسی باریک غلطی نہیں کہ مولانا حالی کے لیے ان کا سمجھنا دشوار ہو۔ یہ ایک بالکل اتفاقی امر ہے کہ مولانا کی نظر اس طرف نہیں گئی اور وہ اپنی رو میں ’’پیروی مغرب‘‘ کے بجائے ’’پیروی مغربی‘‘ لکھ گئے۔

    جو حضرات ’’پیروی مغربی‘‘ کے معنی ایران کے متصوف شاعر ’’مغربی تبریزی کی پیروی‘‘ لیتے ہیں۔ وہ یا تو مولاناحالی کے حالات و خیالات سے واقف ہی نہیں یا جان بوجھ کر انہیں نظرانداز کردیتے ہیں۔ نہ صرف اس قدر بلکہ وہ اس حقیقت کو بھی بھول جاتے ہیں کہ مولاناحالی کی شاعری کا ایک متعدد بہ حصہ ایسا ہے جس میں یقیناً مغرب کی شاعری یعنی انگریزی شاعری کی تقلید کی گئی ہے اس کے برعکس ان کے پورے کلام میں چند شعر بھی ایسے نہ ملیں گے جن میں مسئلہ وحدتِ وجود کو نظم کیا گیا ہو صرف یہ مسئلہ مغربی تبریزی کا سرمایہ امتیاز ہے اور جب تک کوئی اس مسئلہ خاص کو اپنی شاعری کا موضوع نہ بنائے اسے مغربی کا مقلد کہنا مذاق صحیح کی آنکھوں میں خاک جھونکنا ہے۔ آئیے اب ہم آپ کو مختصراً وہ حالات بھی سنادیں جو حالی کی روایتی شاعری میں انقلاب کا باعث ہوئے اور انہوں نے میر و مصحفی کی پیروی ترک کرکے یورپ کی تقلید شروع کی۔

    ’’شیفتہ کی وفات کے بعد حالی جہانگیر آباد کو چھوڑ کر لاہور چلے گئے اور وہاں گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازم ہوگئے۔ یہیں وہ تراجم کے ذریعے مغربی ادب سے روشناس ہوئے اور ان کی طبیعت پراس کا نہایت خوشگوار اثر پڑا۔ یہیں سے ان کی ادبی زندگی میں انقلاب شروع ہوا۔ انگریزی شاعری کی وسعتیں، اور اس کی سادگی، پاکیزگی اور بلندی انہیں بہت بھائی اور انہوں نے ان چیزوں کو اردو میں رائج کرنے کا تہیہ کرلیا۔‘‘ (تاریخ ادب اردو ازرام بابو سکسینہ۔ صفحہ ۲۱۳۔ انگریزی)

    ’’مولانا بحیثیت ایک شاعر کے اول اول ۱۸۷۴ء میں پبلک سے روشناس ہوئے جب کہ آپ نے پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو کی ملازمت کے زمانے میں چار مثنویاں۔ برکھا رُت، نشاطِ امید۔ حبِ وطن، اور مناظرۂ رحم و انصاف اس مشہور و معروف تاریخی مشاعرے میں پڑھیں جس کو کرنل ہالرائڈ صاحب بہادر ڈائرکٹر رشتۂ تعلیم پنجاب کی زیر سرپرستی شمس العلماء مولوی محمد حسین آزاد نے قائم کیا تھا اور جس میں بجائے مصرع طرح کے مختلف مضامین دے دیے جاتے تھے جن پر شعراء طبع آزمائیاں کیا کرتے تھے۔‘‘ (دیباچۂ جواہراتِ حالی۔ ازخواجہ غلام الحسنین)

    یہ ہیں ان حالات میں سے بعض جو مولانا حالی کے خیالات میں انقلاب کا باعث ہوئے۔ اب خود مولاناکی زبان سے ان کے خیالات سنیے۔

    ’’باغ جوانی کی بہار اگرچہ قابل دید تھی مگر دنیا کے مکروہات سے دم لینے کی فرصت نہ ملی نہ خودآرائی کا خیال آیا نہ عشق و جوانی کی ہوالگی نہ وصل کی لذت اٹھائی نہ فراق کا مزا چکھا البتہ شاعری کی بدولت چند روز جھوٹا عاشق بننا پڑا۔ ایک خیالی معشوق کی چاہ میں برسوں دستِ جنوں کی وہ خاک اڑائی کہ قیس و فرہاد کو گرد کردیا۔ کبھی نالہ نیم شبی سے ربع مسکوں کو ہلا ڈالا۔ کبھی چشم دریا بار سے تمام عالم کو ڈبودیا۔ بارہا تیغ ابرو سے شہید ہوئے۔ بارہا ایک ٹھوکر سے جی اٹھے میدانِ قیامت میں اکثر گزر ہوا۔ بہشت و دوزخ کی بارہا سیر کی۔ بادہ نوشی پر آئے تو خم کے خم لنڈھا دیے اور پھر بھی سیر نہ ہوئے۔ کفر سے مانوس رہے، ایمان سے بیزار رہے، پیرمغاں کے ہاتھ پر بیعت کی، برہمنوں کے چیلے بنے۔ بت پوجے۔ زنار باندھا۔ قشقہ لگایا۔ زاہدوں پر پھبتیاں کہیں۔ واعظوں کا خاکہ اڑایا۔ دیر و بت خانہ کی تعظیم کی۔ کعبہ و مسجد کی توہین کی۔ خدا سے شوخیاں کیں۔ نبیوں سے گستاخیاں کیں۔ بیس برس کی عمر سے چالیسویں سال تک تیلی کے بیل کی طرح اسی ایک چکر میں پھرتے رہے اور اپنے نزدیک سارا جہاں طے کر چکے جب آنکھیں کھلیں تو معلوم ہوا کہ جہاں سے چلے تھے اب تک وہیں ہیں۔ نگاہ اٹھاکر دیکھا تو دائیں بائیں آگے پیچھے ایک میدانِ وسیع نظر آیا جس میں بے شمارراہیں چاروں طرف کھلی ہوئی تھیں اور خیال کے لیے کہیں عرصہ تنگ نہ تھا۔ جی میں آیا کہ قدم آگے بڑھائیں اور اس میدا ن کی سیر کریں۔ مگر جو قدم بیس برس تک ایک چال سے دوسری چال نہ چلے ہوں اور جن کی دوڑ گز دوگز زمین میں محدود رہی ہو ان سے اس وسیع میدان میں کام لینا آسان نہ تھا۔ اس کے سوا بیس برس کی بے کار اور نکمی گردش میں ہاتھ پاؤں چور ہوگئے تھے۔ اور طاقتِ رفتار جواب دے چکی تھی۔ لیکن پاؤں میں چکر تھا۔ اس لیے نچلا بیٹھنا بھی دشوار تھا۔ چند روز اسی تردد میں یہ حال رہا کہ ایک قدم آگے بڑھتا تھا دوسرا پیچھے ہٹتا تھا۔۔۔ زمانہ کا نیا ٹھاٹھ دیکھ کر پرانی شاعری سے جی سیر ہوگیا تھا اور جھوٹے ڈھکوسلے باندھنے سے شرم آنے لگی۔‘‘ (دیباچۂ مسدس حالی)

    ’’کچھ تعجب نہیں کہ اس مجموعے کو اور نیز ان نظموں کو جو پہلے شائع ہوچکی ہیں دیکھ کر ناظرین کو یہ خیال پیدا ہو کہ ان میں نئی بات کون سی ہے۔ نہ خیالات ہی ایسے اچھوتے ہیں جو کسی کے ذہن میں نہ گزرے ہوں اور نہ طرزِ بیان ہی میں کوئی ایسی جدت ہے جس سے کبھی کان آشنا ہوئے ہوں پس ان کی خدمت میں عرض کیا جاتا ہے کہ بیشک طرزِ ادا میں وہ بہت کم فرق پائیں گے اور گو پیالے وہی ہیں مگر شراب اور ہے (دیباچہ دیوان حالی)

    ضمناً یہ بھی جان لینا چاہیے کہ مولانا حالی ۱۸۳۷ء میں پیدا ہوئے تھے اور لاہور کے زمانۂ قیام میں ان کا سن سینتیس اڑتیس سال کا تھا یہی وہ زمانہ ہے جب انہیں اپنی شاعری کی روایتی، مصنوعی، اور تقلیدی نوعیت کا احساس ہوا اور انہوں نے انگریزی طرز کی شاعری کو اردو میں رواج دینا چاہا۔ اسی زمانے میں انہوں نے اس راہ میں پہلا قدم اٹھایا یعنی انجمن پنجاب کے مشاعروں میں وہ چار نظمیں پڑھیں جن کی تفصیل اوپر بیان کی جاچکی ہے۔

    کیا مذکورِ بالا واقعات اور مولانا حالی کے ان خیالات سے واقف ہونے کے بعدبھی کوئی شخص یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ مولانانے مغربی یعنی انگریزی شاعری کی تقلید نہیں کی؟ میر و مصحفی کی روایتی اور عاشقانہ شاعری سے بیزار ہونے کے بعد مولانا کو شاعری کے لیے نئے اور وسیع میدانوں کی تلاش تھی۔ ان نئے اور وسیع میدانوں کی طرف انگریزی شاعری نے ان کی رہنمائی کی۔ انگریزی شاعری کی انہوں نے تقلید کی۔ اور ایک بڑی حدتک کامیابی کے ساتھ کی۔ مغربی تبریزی بیچارے کے یہاں کیا رکھاتھا کہ مولانا اس کی پیروی کی آرزو کرتے۔ لے دے کر وہی ایک وحدتِ وجود کا مسئلہ اور بس۔ سو وہ کسی حیثیت سے بھی مولانا کے لیے جاذبِ توجہ نہیں ہوسکتا تھا۔ انہیں مسدس حالی جیسی نظموں کے لکھنے کی خواہش تھی۔ اور یہ خواہش مغربی تبریزی کی تقلید سے پوری نہیں ہوسکتی تھی اور اگر یہ کہا جائے کہ مولانا عاشقانہ شاعری کو ترک کرکے متصوفانہ شاعری کرنا چاہتے تھے تو ان کے حالات زندگی سے یا ان کی تحریروں سے کہیں اس میلان کا پتا نہیں چلتا۔ بغرض محال اگر وہ زندگی کے کسی دور میں متصوفانہ شاعری کی طرف مائل ہو بھی گئے ہوں اور انہوں نے کسی صوفی شاعر کو اپنا آئیڈیل بنانا چاہا ہو تب بھی یہ ناممکن ہے کہ ان کی نظر انتخاب مغربی تبریزی پر پڑی ہو ایسا سوچنا بھی مولانا کی طبع سلیم اور ذوق لطیف سے سووظن ہے۔ عارفانہ شاعری کرنا ہی اگر ان کے پیش نظر ہوتا تو وہ رومی کو اپنا پیشوا بناتے یا عطار و سنائی کا اقتدار کرتے۔ مغربی بیچارہ دوسرے درجے کا شاعر، جس کے کلام میں نہ سوزوگداز نہ کیف و تازگی نہ تاثیر و جدت مولانا حالی اسے اپنا رہنما کیونکر بناسکتے تھے۔

    مولانا حالی کے زیربحث شعر میں ایک طرف میر ومصحفی کی یعنی ہماری مشرقی شاعری ہے جس سے مولانا کا جی بیزار ہوچکا ہے۔ اور دوسری طرف مغربی یعنی انگریزی شاعری ہے۔ جس کے حسن و جمال نے مولانا کو گرویدہ کرلیا ہے۔ تو گویا مقابلہ مشرقی اور مغربی شاعری کا ہے مغربی تہذیب و تمدن کی تقلید کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہٰذا مسٹر شبلی۔ بی۔ کام۔ کا یہ کہنا کہ۔

    ’’اگر ہمارے نقاد سرسری نگاہ سے بھی دیوان حالی کا مطالعہ کریں تو ان کو مغربی تمدن کی مخالفت میں متعدد ا شعار نظر آئیں گے۔‘‘ خلطِ مبحث سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

    خاتمۂ سخن کے طور پر صرف ایک بات اور کہنا ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ قارئین خود ہی لگا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور پروفیسر عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں،

    ’’مولوی وحید الدین سلیم مرحوم نے ہم کو دیوان حالی پڑھایا تھا۔ اور انہوں نے مغربی سے مطلب یورپی بتایا تھا۔‘‘

    مولوی وحید الدین سلیم پانی پتی، چاہے اس لحاظ سے ساقط الاعتبار سمجھے جائیں کہ وہ بھی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ کیونکہ ان کی علمی اور ادبی قابلیت مسلم ہے وہ شاعر بھی تھے اور ادیب بھی۔ پانی پت کے رہنے والے اور مولانا حالی کے دوست تھے اور شاید دور کے عزیز بھی۔ اس لیے وہ مولانا حالی کے حالات و خیالات کو ان علامہ لوگوں سے کہیں بہتر جانتے تھے۔ جو واقعات کی طرف سے آنکھیں بند کرکے محض قیاسی گڈے لگاتے ہیں اور ’’پیروی مغربی‘‘ کے معنی مغربی تبریزی کی پیروی ٹھہراتے ہیں۔

    الغرض ’’پیروی مغربی‘‘ کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ مولانا اپنی پرانی وضع کی دقیانوسی عاشقانہ شاعری سے کنارہ کش ہوکر انگریزی طرز کی شاعری کرنا چاہتے تھے۔ بیچارے مغربی تبریزی کو علامہ لوگوں نے خواہ مخواہ کانٹوں میں گھسیٹا ہے۔ مولانا حالی نہ مغربی کی پیروی کرنا چاہتے تھے نہ کی۔ انگریزی وضع کی شاعری کرنا چاہتے تھے اور کی۔

    سیداحتشام حسین صاحب پروفیسر لکھنؤ یونیورسٹی نے یکم جولائی ۱۹۴۶ء کے خیام میں اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے تعجب ہے کہ اس کے مطالعے کے بعد بھی لوگوں کو شبہ ہے۔

    حاشیہ

    (۱) الکاتب کالحمار

    مأخذ:

    ادب لطیف،لاہور (Pg. 4)

      • ناشر: چودھری برکت علی
      • سن اشاعت: 1946

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے