Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حالی اور پیروی مغربی

عندلیب شادانی

حالی اور پیروی مغربی

عندلیب شادانی

MORE BYعندلیب شادانی

    حالی اب آؤ پیروی مغربی کریں

    بس اقتدائے مصحفی و میر کرچکے!

    علامہ سیماب اکبر آبادی، علامہ عبدالماجد دریابادی، فلسفی تم سوفی، علامہ سالک بٹالوی، مدیر انقلاب لاہور، اور اسی قسم کے چند اور علامے کہتے ہیں کہ ہندوستانی یونیورسٹیوں میں اردو فارسی کے پیروفیسر عموماً لال بجھکڑ کے خاندان سے ہیں۔ علم سے بے بہرہ اور عقل سے محروم۔ اور قطعی دلیل اس دعوے کی یہ ہے کہ ایک پرفیسر نے حالی کے مندرج بالا شعر میں ’’پیروی مغربی‘‘ کے معنی ’’یورپین شاعری کی تقلید‘‘ بتائے اور دو اور پروفیسروں نے اس کی تائید کی۔ حالانکہ ان علاموں کے خیال کے مطابق اس شعر میں لفظ ’’مغربی‘‘ ایک ایرانی شاعر کا تخلص ہے اور مولانا حالی اس کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔

    ان پروفیسروں اور ’’دکاترہ‘‘ کے شجرۂ نسب اور مبلغ علم سے قطع نظر کرکے دیکھنا یہ ہے کہ انہوں نے جو بات کہی ہے وہ کس حد تک قابل قبول ہے۔ چونکہ علامہ لوگوں کے نزدیک حالی کے زیر بحث شعر میں لفظ ’’مغربی‘‘ سے وہ ایرانی شاعر مراد ہے جس کا تخلص ’’مغربی‘‘ ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے مغربی کا کچھ حال جان لینا ضروری ہے۔

    مسٹر عبدالرحیم شبلی۔ بی کام۔ نے ۸/جون ۱۹۴۶ء کے خیام میں ’’مغربی‘‘ کے حلات لکھے ہیں۔ مگر کچھ اس انداز سے لکھے ہیں کہ نہ صرف ناواقف لوگ بلکہ تھوڑی بہت واقفیت رکھنے والے بھی ان کے مطالعے سے دھوکا کھا سکتے ہیں۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں،

    ’’مغربی کا مختصر تذکرہ شبلی نعمانی نے شعرالعجم حصہ پنجم میں کیا ہے۔۔۔ لیکن جب مجھے تفصیلات کی جستجو ہوئی تو معلوم ہوا کہ مندرج ذیل تصانیف میں مغربی اور اس کی شاعری پر شرح و بسط کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے،

    (۱) نغمات الانس جامی۔ (۲) حبیب السیئر خواند میر۔ (۳) ہفت اقلیم امین احمد رازی۔ (۴) آتش کدۂ آذر۔ (۵۔ ۶) مجمع الفصحاء ریاض العارفین از رضا قلی خاں ہدایت (۷) تاریخ ادبیات ایران، براؤن۔ جلد سوم۔ ان تمام تصانیف کے اوراق پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’مغربی کااصلی نام محمد شیرین تبریزی تھا۔۔۔ ۷۵۰ھ/۱۳۵۰ء میں پیدا ہوا۔ تقریباً ساٹھ برس کی عمر پائی۔ رضاقلی خاں کا بیان ہے کہ وہ اصفہان کے قریب ایک موضع ’’ناعین‘‘ میں پیداہوا۔۔۔ فارسی شاعری میں اس کا وہی درجہ ہے جو سنائی، رومی، عراقی اور عطّار کو دیا جاتا ہے۔‘‘

    مسٹر شبلی۔ بی۔ کام کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ مغربی کے حالات مرتب کرنے کے لیے انہوں نے بذاتِ خود مندرجِ بالا کتابوں کا مطالعہ کیا۔ مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے صرف تاریخ ادبیات ایران (براؤن) کو پیش نظر رکھا ہے۔ اور براؤن نے مغربی کے متعلق جو کچھ لکھا ہے انہوں نے اس کے بعض حصوں کا ترجمہ کردیا ہے۔ اس دعوے کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ مجمع الفصحا میں مغربی کا مقام پیدائش ’’نائین‘‘ تحریر ہے۔ اور یہی صحیح ہے۔ مسٹر شبلی۔ بی کام۔ نے ’’ناعین‘‘ لکھا ہے۔ مگر ایران میں ’’ناعین‘‘ نامی کوئی مقام نہیں۔ اگر انہوں نے مجمع الصفحا کا مطالعہ بچشم خود کیا ہوتا تو لازمی طور پر وہ ’’نائین‘‘ لکھتے۔ ’’ناعین‘‘ ہر گز نہ لکھتے۔ بات یہ ہے کہ انہوں نے براؤن کی کتاب میں (NAIN) لکھا دیکھا۔ اور ذرا سی غفلت سے اسے ’’ناعین‘‘ بنادیا۔

    اور بالغرض یہ سہوِکاتب ہے تو دوسرا ثبوت یہ ہے کہ مسٹر شبلی کے ماخد بھی فارسی کی صرف وہی کتابیں ہیں جن کا براؤن نے ذکر کیا ہے۔ حالانکہ ان کتابوں کے علاوہ اور بھی متعدد تذکروں میں مغربی کا حال درج ہے۔ لیکن مسٹر شبلی نے براؤن کے ماخذوں کے سوا وار کسی کتاب کا نام نہیں لیا۔ اس کے علاوہ براؤن اور مسٹر شبلی کی تحریروں کامقابلہ کرنے سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ مسٹر شبلی نے لفظ بہ لفظ براؤن کی نقل کی ہے۔

    مسٹر شبلی کا یہ دعویٰ بھی بے بنیاد ہے کہ ’’مندرجِ ذیل تصانیف میں مغربی اور اس کی شاعری پر شرح و بسط کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے‘‘ اگر انہوں نے ان کتابوں کو بچشم خود دیکھا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ نغمات الانس جامی کے علاوہ اور کسی کتاب میں مغربی کا حال دوتین سطروں سے زیادہ نہیں۔ اور نغمات میں بھی مغربی اور اس کی شاعری پر شرح و بسط کے ساتھ گفتگو نہیں کی گئی بلکہ دو حکائتیں درج ہیں جن میں سے ایک میں کمال خجندی کے شعر پر مغربی کا اعتراض اور کمال کا جواب مذکور ہے۔ اور دوسری میں یہ کہا گیا ہے کہ مغربی کے پیر شیخ اسمٰعیل سیسی نے ایک مرتبہ درویشوں کو چلے میں بٹھایا تھا۔ اور مغربی کو بھی بلایا تھا۔ اس موقع پر مغربی نے یہ غزل کہی تھی،

    تامہرِ تودیدیم ز ذرات گذشیتم

    از جملہ صفات ازپے آں ذات گذشتیم

    کیا ’’مغربی اور اس کی شاعری پر شرح و بسط کے ساتھ گفتگو اسی کا نام ہے؟ بہرحال اس محل پر براؤن کا یہ قول دلچسپی سے خالی نہیں کہ ’’اگرچہ مغربی کا ذکر اکثر تذکرہ نویسوں نے کیا ہے۔ لیکن اس کے حالاتِ زندگی کچھ بھی معلوم نہیں۔‘‘

    مسٹر شبلی کا یہ قول بھی سراسر بے بنیاد ہے کہ ’’فارسی شاعری میں مغربی کا وہی درجہ ہے جو سنائی، رومی، عراقی اور عطّار کو دیا جاتا ہے۔‘‘ آج تک کسی مستند اہل قلم نے مغربی کو رومی وغیرہ کا ہم پایہ قرار نہیں دیا۔ مسٹر شبلی نے مندرج بالا عبارت کو رضاقلی خاں ہدایت صاحبِ مجمع الفصحا کے ایک قول کے ساتھ اس طرح نقل کیا ہے کہ گویا یہ بھی ہدایت کے بیان کا ایک حصہ ہے۔ اور جیسا کہ ہم پیشتر اشارہ کرچکے ہیں یہ طرزِ بیان بے حد مغالطہ انگیز ہے چنانچہ علامہ سالک بٹالوی دھوکا کھا ہی گئے۔ اور بے اختیار کہہ اٹھے کہ،

    ’’مغربی کے متعلق راقم الحروف کی معلومات تو صرف شعرالعجم اور براؤن کی تاریخ ادبیات ایران تک محدود تھیں لیکن شبلی صاحب نے مغربی اور اس کے انداز فکر پر ایک مفصل مقالہ لکھ دیاہے جس میں ثابت کیا ہے کہ مغربی اکابر شعرائے عجم سے تھا۔ اس کا عارفانہ کلام بہت کم مثالیں رکھتا ہے اور وہ رومی، سنائی، عراقی اور عطار کا ہم پایہ ہے۔‘‘

    علامہ سالک بٹالوی کے اس بیان میں کئی باتیں قابل غور ہیں۔ ایک یہ کہ مسٹر شبلی نے مغربی کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ کسی حال میں بھی ’’مفصل مقالہ‘‘ کہلانے کا مستحق نہیں کیونکہ وہ ’’مفصل مقالہ‘‘ غیرمتعلق باتوں کو چھوڑ کر خیام کے کل دو کالموں پر مشتمل ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر علامہ سالک بٹالوی نے واقعی شعرالعجم اور تاریخ ادبیات ایران میں مغربی کاحال پڑھا ہوتا تو انہیں مغربی کے متعلق علامہ شبلی نعمانی اور پروفیسر براؤن کی رائے ضرور معلوم ہوتی ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسٹر شبلی بی۔ کام۔ نے جو کچھ لکھا ہے وہ تمام تر براؤن کی تاریخ ادبیات ایران سے ماخوذ ہے۔ اور اس صورت میں وہ ہرگز یہ نہ کہتے کہ مسٹر شبلی نے ’’ثابت کیا ہے کہ مغربی اکابر شعرائے عجم سے تھا۔ اور وہ رومی، سنائی، عراقی اور عطار کا ہم پایہ ہے۔‘‘

    جاننے والے لوگوں کی نظر میں مسٹر شبلی نے کوئی بات بھی ثابت نہیں کی۔ ناواقف جو کچھ بھی سمجھ لیں۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ علامہ سالک بٹالوی نے بھی یونہی اٹکل پچو جو جی میں آیا لکھ مارا۔ تحقیق کی زحمت گوارا نہیں فرمائی۔

    مسٹر شبلی۔ بی۔ کام۔ نے مغربی اور رومی کے ہم پایہ ہونے کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ دراصل براؤن کی ایک عبارت کا غلط ترجمہ ہے۔ براؤن کے الفاظ یہ ہیں۔

    He belongs essentially to the same class of mystical poets as Sanai, Rumi۔

    یعنی وہ (مغربی) لازمی طور پر صوفی شعرا ءکے اسی طبقے سے تعلق رکھتا ہے جس میں سنائی، رومی عراقی اور عطار شامل ہیں۔ SAME CLASSکے معنی ہم پایہ نہیں ہیں۔ ایک ہی طبقے یا جماعت سے تعلق رکھنے والے سب لوگ ایک ہی پائے کے نہیں ہوا کرتے۔ مسٹر شبلی نے یہ غلطی نادانستہ کی ہے یا جان بوجھ کر بہرحال براؤن اسی سلسلے میں لکھتا ہے،

    Yet though of the same category as there, he seldom reaches their level

    یعنی مغربی اگرچہ انہیں لوگوں (یعنی رومی وغیرہ) کے طبقے کا آدمی ہے۔ مگر وہ شاذونادر ہی ان کی سطح تک پہنچتا ہے۔

    مغربی کے متعلق پروفیسر براؤن کی رائے آپ کو معلوم ہوگئی۔ اب علامہ شبلی نعمانی کا تبصرہ بھی سن لیجیے،

    ’’مغربی کا کلام سرتا پا مسئلہ وحدت کا بیان ہے اور چونکہ تخیل وجدت کم ہے اس لیے طبیعت گھبراجاتی ہے۔ ایک بات کو سو سو بار کہتے ہیں اور ایک ہی انداز میں کہتے ہیں۔‘‘

    رضا قلی خاں ہدایت صاحب مجمع الفصحا نے بھی مغربی کی شاعری کے متعلق ٹھیک یہی خیال ظاہر کیا ہے۔ ہدایت کے الفاظ یہ ہیں،

    ’’بجز یک معنی درہمہ گفتارش نتواں یافت‘‘ یعنی مغربی کے سارے کلام میں صرف ایک ہی معنی (یعنی مسئلہ وحدتِ وجود) کی تکرار ہے اور بس۔

    اس محل پر یہ بتادینا ضروری ہے کہ مولانا جامی یا لطف علی بیگ آذر صاحب آتش کدہ نے ایک لفظ مغربی کی شاعری کی تعریف میں نہیں کہا۔ نہ انہیں رومی یا عطار و سنائی کا ہم پایہ قرار دیا۔

    راقم الحروف نے دیوان مغربی کا مطالعہ کیا ہے اور نہایت دیانت داری کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ مغربی کا کلام بے کیف، خشک اور بے مزہ ہے۔ روحانیت، تصوف اور درویشی میں مغربی کا پایہ خواہ کتنا ہی بلند کیں نہ ہو لیکن جہاں تک شاعری کا تعلق ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ اوسط درجے کا شاعر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اور جو شخص مغربی کو رومی کاہم پایہ قرار دیتا ہے وہ نہ رومی کے مرتبہ سے واقف ہے نہ مغربی کے درجے کو پہچانتا ہے۔ ذیل میں ہم مغربی کی ایک مشہور غزل نقل کرتے ہیں جو ان کے کلام میں ایک صحیح نمونہ ہے۔ اس کے مطالعے سے قارئین کو خود ہی اندازہ ہوسکتا ہے کہ مغربی کس پایہ کاشاعر ہے۔

    زدریا موجِ گونا گوں برآمد

    زبے چونی برنگِ چوں برآمد

    چرنیل از بہر قومے آب گردید

    برائے دیگراں چوں خوں برآمد

    گہ ازہاموں بہ سوئے بحر شد باز

    گہے از بحر برہاموں برآمد

    چوایں دریا دہاموں موجزن شد

    حباب آسابر و گردوں برآمد

    ازیں دریا بدیں امواج ہردم

    ہزاراں گوہرِ کھنوں برآمد

    چویار آمدز خلوت خانہ بیردل

    ہموں نقش دروں بیروں برآمد

    گہے درکسوتِ لیلےٰ فروشد

    گہے برصورتِ مجنوں برآمد

    بصد دستاں بکامِ دوستان شُد

    بصد افسانہ دافسون برآمد

    بدیں کسوت کہ می بینشیں اکنوں

    یقیں می داں کہ ادا کنوں برآمد

    بہ معنی ہیچ دیگر گوں نہ گردید

    بصورت گرچہ دیگر گوں برآمد

    چو شعر مغربی درہر لبا سے

    بغایت ولبر و موزوں برآمد

    یہ ثابت کرنے کے بعد کہ مغربی زیادہ سے زیادہ ایک اوسط درجے کے شاعر ہیں۔ ان کے کلام میں مسئلہ وحدتِ وجود کی بے کیف تکرار کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ اور وہ کسی طرح بھی رومی یا عطّار و سنائی کے ہم پایہ قرار نہیں دیے جاسکتے۔ ہم اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

    علامہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ’’پیروی مغربی‘‘ سے مولانا حالی کی مراد مغربی تبریزی کی پیروی ہے وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں دو دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ،

    ’’دیوان حالی کے اکثر اڈیشینوں میں مغربی، مصحفی و میر جلی روف میں لکھے ہوئے ہیں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مصحفی و میر کی طرح مغربی بھی کسی شاعر کا تخلص ہے۔‘‘

    اول تو یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ حالی کے ’’اکثر‘‘ ایڈیشنوں میں لفظ مغربی جلی حروف میں لکھا ہوا ہے۔ کیونکہ دیوانِ حالی کا دوسرا ایڈیشن جو ظفر الملک صاحب علوی نے لکھنؤ سے شائع کیا تھا اسے چھوڑ کر دیوان حالی کے اور کسی ایڈیشن میں لفظ مغربی جلی قلم سے تحریر نہیں۔ اور بالفرض اگر دیوانِ حالی کے ہر ایڈیشن میں ’’مغربی‘‘ جلی قلم سے لکھا ہوا ہو تب بھی محض جلی قلم سے لکھے ہونے کی بنا پر اسے کسی شاعر کا تخلص قرار نہیں دیا جاسکتا۔ غزل کے آخری شعر میں یا