Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تنقید کیا ہے؟

کلیم الدین احمد

تنقید کیا ہے؟

کلیم الدین احمد

MORE BYکلیم الدین احمد

     



    (۱) تمہید
    یوں کہنے کو تو تنقید کا سرمایہ بہت کچھ ہے، لیکن یہ سرمایہ کچھ یوں ہی سا ہے، اندر سے کھوکھلا۔ آپ نے سینٹسؔ بری کی بھاری بھرکم کتاب ’’تنقید کی تاریخ‘‘ دیکھی ہوگی اور نقادوں کی لمبی چوڑی فہرست دیکھ کر مرعوب بھی ہوں گے۔ ایسے بزرگ، نامی، مشہور نقاد جو گزشتہ صدیوں میں تنقید کے متعلق غوروفکر کرتے رہے ہیں۔ اس لمبی، چوڑی فہرست کا ایک لمبا چوڑا ضمیمہ بھی ممکن ہے لیکن کہنا پڑتا ہے کہ کام کی باتیں، وزن، قدر و قیمت رکھنے والی باتیں بہت کم ملتی ہیں۔

    رچرڈزؔ کا کہنا ہے، ’’کچھ قیاس آرائی، بہت ساری تنبیہیں، کئی الگ الگ فقرے، کچھ روشن اندازے، بہت کچھ سخن آرائی اور شاعری، بے انتہا افراتفری، کافی تحکمات، تعصب، خبط اور من کی موج، انہیں چیزوں پر موجودہ تنقید کی بنیا دہے۔‘‘ (۱) کچھ مبالغہ سہی، لیکن باتیں صحیح ہیں اور مجھے کہنے دیجئے کہ رچرڈز کی کوششوں کے باوجود بھی تنقیدی خلا باقی ہے۔ رچرڈز نے یہ مرکزی سوال پیش کیا ہے، ’’فنون کی قدرو قیمت کیا ہے، وہ کون سی چیز ہے جو انہیں بہترین دماغوں کے حساس ترین گھنٹوں کی ریاضت کا مستحق بناتی ہے اور انسانی مساعی کے نظام میں ان کی کیا جگہ ہے؟‘‘ (۲)

    یہ سوال اہم ہے، بہت اہم ہے لیکن متعلق سوالوں کی فہرست میں اس کا پہلا نمبر نہیں۔ نقاد کو ابتدا سے شروع کرنا ہے۔ قوت تنقید کیا ہے؟ اس کی کیا اہمیت ہے؟ اس کا مقصد، اس کا میدان عمل کیا ہے؟ انسانی تہذیب اور کلچر کی ترقی میں اس نے کیا حصہ لیا ہے؟ شخصی اور سماجی دماغ اور زندگی کو سدھارنے میں تنقید کی کیا قیمت ہے؟ ان مسئلوں کو پہلے حل کرنا ہے۔ یہ مسئلے کچھ نئے نہیں، بظاہر یہ معمولی اور پیش پا افتادہ ہیں، لیکن ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اور ابھی تک یہ سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔ موجودہ تنقیدی ادب ان پر کافی روشنی نہیں ڈالتا۔ کچھ معنی خیز اشارے اور پیغمبرانہ بیانات البتہ ملتے ہیں۔ مشتے نمونہ از خردارے چند مفید باتیں یہاں نقل کی جاتی ہیں۔ یہ دیکھنا ہے کہ یہ کس حد تک مفید ہیں۔ شاید آپ کو اس بات کا احساس ہوگا کہ یہ اقوال زیادہ مفید ہیں،

    (۱) ’’میرے خیال میں مختلف تجربوں کی تمیز اور ان کی قدرو قیمت کا اندازہ لگانے کا نام تنقید ہے۔‘‘ 
    (۲) ’’تنقید پہلے اور ہمیشہ قوت حاسہ سے وابستہ ہے، الفاظ کی صحیح تمیز اور ان سے تیزی اور ٹھیک ٹھیک متاثر ہونے کو تنقید کہتے ہیں۔‘‘ 
    (۳) ’’تنقید کا ہمیشہ کچھ مقصد ہوتا ہے اور موٹا موٹی یوں سمجھئے کہ یہ مقصد فنی کارناموں کی تشریح اور مذاق کی درستگی ہے۔‘‘ 
    (۴) ’’صحیح معنوں میں تنقید پوری فنی تحریک کا جزو ہے۔ یہ آرٹ کی اپنے اوپر ملوکیت کا عمل ہے۔ جیسے آرٹ زندگی کا شعور ہے، تنقید آرٹ کا شعور ہے۔‘‘ 
    (۵) ’’تنقید اور کچھ نہیں، یہ ادبی مذاق کا منطقی عمل ہے، ادب کی جانچ پرکھ کے بعد یہ دیکھنا کہ وہ کون سی چیز ہے جو ادب کو خوشگوار اور اسی وجہ سے اچھا بناتی ہے۔‘‘ 

    یہ اشارے مفید ضرور ہیں لیکن بالکل ناکافی ہیں۔ ان کی بنیاد پر تنقید کی عمارت کھڑی نہیں ہو سکتی۔ میں کہہ چکا ہوں کہ تنقیدی ادب تو بہت کافی ہے لیکن اس میں مقدم چیزوں سے متعلق کام کی باتیں کم ہیں۔ نقادوں نے ضروری باتوں کی طرف کم توجہ کی ہے۔ اپنے ’’مواد‘‘ کی طرف پوری توجہ صرف کی ہے۔ لیکن اس ’’آلہ‘‘ کا ذکر بھی نہیں کرتے جس سے وہ کام لیتے ہیں۔ آرٹ، ادب، شاعری، ڈرامہ، ان چیزوں کی تعریف، تحدید، ان کی تشریح اور قدر و قیمت کے بارے میں تو نقاد بہت رطب اللسان ہیں، لیکن اس بڑی دین کا وہ مطلق ذکر نہیں کرتے جس کے بغیر وہ نقاد بن نہیں سکتے ہیں اور اس بڑی دین سے تغافل کی بنیاد ارسطوؔ نے ڈالی۔ وہ کہتا ہے، ’’میں نفس شاعری سے بحث کروں گا۔ اس کی مختلف قسموں اور ان کی خصوصیات کو بیان کروں گا۔ آداب فطرت کی تقلید میں ہمیں مقدم اصول سے ابتدا کرنی ہے۔‘‘ 

    ظاہر ہے ارسطوؔ کا موضوع شاعری ہے، وہ قوت نہیں جو اسے نفس شاعری اور اس کی قسموں کو سمجھنے کے قابل بناتی ہے۔ آداب فطرت کی تقلید میں اسے نفس تنقید پر لکھنا چاہیے تھا، لیکن اس طرف ارسطو کا دھیان نہیں گیا اور اس کے متبعین نے بھی اس طرف دھیان نہیں کیا۔ ارسطوؔ کا اثر کچھ ایسا زبردست تھا کہ صدیوں تک آنے والے نقاد صرف ارسطوؔ کے خیالات کو سمجھنے میں لگے رہے۔ ان خیالات کی تشریح، ان کی وضاحت، ان کی گہرائی بس یہی ان کا مطمح نظر بن گیا۔ نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ یعنی ایک زمانۂ دراز تک کسی نئے رستہ کا خیال بھی دل سے محو ہو گیا۔ ارسطوؔ کے نظریوں کا اثر یہ ہوا کہ نئے، تازہ خیالات ایک مدت کے لئے ناپید ہو گئے۔ اس سے زیادہ گمراہ کن اثر یہ ہوا کہ سارے نقاد، وہ ارسطوؔ کے متبعین ہوں یا نہ ہوں، شاعری کی ماہیت دریافت کرنے میں منہمک ہو گئے لیکن کبھی بھولے سے بھی انہوں نے تنقید کی ماہیت دریافت کرنے کی ہلکی کی کوشش بھی نہ کی۔

    کہا جاتا ہے کہ تنقید اپنی ذات سے نہیں کسی دوسری چیز سے وابستہ ہے۔ اس دوسری چیز پر ضرورت سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ تنقید کسی دوسری چیز سے وابستہ ضرور ہے، لیکن ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ تنقید بذات خود بھی کوئی چیز ہے۔ یہ ہے تو محض معمولی سی بات لیکن اس سے سراسر غفلت برتی گئی ہے۔ کچھ منتشر اشارے کہیں کہیں مل جاتے ہیں لیکن ان کے علاوہ سکوت ہے۔ اس غلطی کی وجہ سے تنقید جھگڑنے والے اور جھگڑالو خطیبوں کا میدان بن گئی ہے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ جھگڑا کس بات کا ہے۔ ذاتی تعصبات اور توہمات کی وجہ سے ہم اصل کام کو بھول جاتے ہیں۔ اسی غلطی کا نتیجہ ہے کہ نقاد غلط رستے پر چل پڑے اور منزل مقصود برابر دور ہوتی گئی۔

    ’’تنقید کسی دوسری چیز سے وابستہ ہے۔‘‘ یہ حقیقت کا ادھورا شعور ہے۔ اسی ادھورے شعور کا نتیجہ ہے کہ نقاد کو طفیلی سمجھا گیا ہے اور تنقید کو محض ایک طفیلی عمل۔ کہا جاتا ہے کہ آرٹ گویا بڑا درخت اور تنقید طفیلی پودا ہے۔ جو اپنی غذا اس درخت سے پاتا ہے۔ اسی طرز خیال کا نتیجہ ہے کہ کسی نے کہا، ’’جانتے ہو نقاد ہیں کون؟ بس وہی جو ادب اور فن کے میدان میں ناکامیاب رہے ہیں۔‘‘ اس قسم کی خام خالی پر وقت برباد کرنے کی ضرورت نہ ہوتی لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ خام خیالی عام ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تنقید کو کتنا ہیچ سمجھا جاتا ہے۔ ایک دوسرے صاحب فرماتے ہیں، ’’تنقید ایسا آرٹ ہے جسے زندگی سے کوئی لگاؤ نہیں، اسے دوسرے فنون سے البتہ لگاؤ ہے۔ یہ طفیلی ہے لیکن خوشگوار۔‘‘ 

    اور ایلٹؔ کا کہنا ہے کہ دوسرے درجے کا دماغ تنقید کے کام میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے، ’’ایک وقت میں اس حد تک انتہا پسند تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ صرف وہی نقاد پڑھنے کے قابل ہیں جو خود اس فن میں عملی دسترس اور اچھی دسترس رکھتے ہیں جس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں۔‘‘ خیر اب یہ انتہا پسندی ایلیٹؔ نے چھوڑ دی ہے۔

    عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ آرٹسٹ ایک بزرگ شخصیت ہے جس کو فو ق فطرت قوت حاصل ہے۔ اس کے سر کے گرد گویا ایک روشن ہالہ ہے جو اس کی الوہیت کی نشانی ہے۔ اس کی روح ستارہ کی طرح روشن ہے اور وہ الگ، زمین سے دور اور بلند مقام پر رہتی ہے۔ اس قسم کا خیال قدیم زمانہ کی یادگار ہے۔ جب آرٹسٹ کو جادوگر خیال کیا جاتا تھا اور جب آرٹسٹ اور جادو میں چولی دامن کا ساتھ تھا۔ آرٹسٹ کو اپنی بزرگی کا احساس ہے۔ شیلی نے کہا ہے، ’’شعراء سمجھ میں نہ آنے والے وجدان کے حامل ہیں۔ وہ ایک آئینہ ہیں جس میں مستقبل اپنا عظیم الشان عکس حال پر ڈالتا ہے۔ وہ الفاظ ہیں جو ایسی حقیقت کا انکشاف کرتے ہیں جو ان کی سمجھ سے باہر ہے۔ وہ فوجی موسیقی کی طرح جنگ کے لئے ابھارتے ہیں لیکن اس جوش و ولولہ کو محسوس نہیں کرتے جو ان کی دین ہے۔ وہ لوگوں کو متاثر کرتے ہیں لیکن خود متاثر نہیں ہوتے۔ وہ عالم کے فرماں روا ہیں جنہیں دنیا تسلیم نہیں کرتی۔‘‘ 

    آرٹسٹ کی تعریف میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ ایک حد تک درست ہے، لیکن بیچارے نقاد سے ناانصافی برتی گئی ہے۔ اس کے سر کے گرد کوئی چمکتا ہوا ہالہ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ آرٹسٹ سے بہت پیچھے، ہانپتا، کانپتا چلتا ہے اس امید میں کہ اسے آرٹسٹ کی قربت نصیب ہو اور وہ آرٹسٹ کی رنگین زریں باتوں کو سنے، سمجھے اور ان کی قدر و قیمت کا جائزہ لے اور دوسروں کو اس قدر و قیمت سے آگاہ کرے۔ یعنی نقاد کچھ یوں ہی سا ہے، کچھ بیکار قسم کا۔ اگر وہ چمکتا ہے تو مانگی ہوئی روشنی میں۔ اگر نقاد کو کم مرتبہ، اس قدر کم مرتبہ سمجھا جاتا ہے تو اس میں کچھ اس کا اپنا بھی قصور ہے۔ اس نے ہمیشہ آرٹسٹ کو جاننے کی کوشش کی لیکن اپنی ہستی کو کبھی نہ پہچانا۔ پھر کیا گلہ کہ دوسروں نے اسے نہ پہچانا، اس کی کوئی اہمیت نہ سمجھی اور اس کی قدر نہ کی؟

    آرٹسٹ نے ہمیشہ نقاد کو پس پشت ڈھکیل دیا ہے اور تخلیق کو برابر تنقید سے الگ سمجھا گیا ہے۔ یہ کوئی بلند و بزرگ چیز ہے۔ وجدان ہے جسے تنقید سے کوئی واسطہ نہیں۔ آرٹسٹ گویا ایولیسی ساز ہے جو وجدان کی ہوا سے بجتا ہے۔ وہ کنول کے پھول کی طرح کاوش کی مشکلوں اور جاں کنی سے واقف نہیں۔ یہ طرز خیال رومانی قسم کا ہے جسے حقیقت سے کوئی سروکار نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ہر تخلیقی عمل میں تنقید کا ہونا ضروری ہے، ’’اب ہم لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ کوئی ایسا آرٹسٹ نہیں جو ہر مقام پر پہلے اچھا نقاد نہ ہو۔ فنی کارنامہ تنقیدی شعور کی فضا میں پھلتا پھولتا ہے۔‘‘ 

    الیٹؔ نے اس بات کو واضح طور پر بیان کیا ہے، ’’غالباً کسی مصنف کی تصنیف میں جو محنت صرف ہوتی ہے، اس محنت کا بڑا حصہ تنقیدی محنت ہے۔ چھان بین کرنا، ترتیب دینا، تعمیر کرنا، کچھ بدلنا ور خارج کرنا، خامیوں کو دور کرنا اور پھرجانچنا۔ یہ محنت، یہ کاوش صرف تخلیقی نہیں، تنقیدی بھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس قسم کی تنقید ایک ماہر اور لکھنے والا اپنے کام میں صرف کرتا ہے وہ سب سے زیادہ اور بلند ترین قسم کی تنقید ہے اور (جیسا کہ میں نے کہا ہے) بعض فنکار دوسرے فن کاروں سے بہتر ہوتے ہیں تو صرف اسی لئے کہ ان کی قوت تنقید زیادہ اچھی ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ جو تنقیدی تمیز ہم لوگوں کو اس مشکل سے ہاتھ آتی ہے وہ دوسرے خوش بخت لوگوں کے لئے تخلیق کی گرمی میں چمک جاتی ہے۔ ہم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تنقیدی محنت کا ظاہر نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ تنقیدی محنت کام میں نہیں لائی گئی ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ کتنی تنقیدی محنت نے تخلیق کا رستہ کھولا ہے یا تنقیدی صورت میں کیا کیا کاوش تخلیقی کارنامے کے دوران میں آرٹسٹ کے دماغ میں ہوتی رہتی ہے۔‘‘ 

    جس نے کوئی نظم لکھی ہے، کوئی تصویر بنائی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ کام کوہ کنی سے کم نہیں اور یہ کوہ کنی تنقیدی ہے۔ تخلیق و تنقید میں جو لگاوٹ ہے اب اس کا احساس ہو چلا ہے اور یہ بہت اچھی بات ہے، ظاہر ہے کہ تنقید کے بغیر تخلیق میں کامیابی ممکن نہیں۔ یہ سب سہی لیکن ابھی تک تنقید کو نسبتاً کم قیمت سمجھا جاتا ہے۔ الیٹ کہتا ہے، ’’کیا تنقیدی تحریر کا بہت بڑا حصہ تخلیقی نہیں؟ تنقیدی عمل اپنا بلند ترین، اپنا حقیقی مظہر تخلیق سے ملاپ میں پاتا ہے۔‘‘ 

    اس سے ظاہر ہوتا ہے سب کچھ کہنے کے بعد بھی الیٹؔ تنقید کی صحیح اہمیت سے واقفیت نہیں۔ اس حقیقت کا شعور کہیں نہیں ملتا کہ تنقید کی اپنی الگ ہستی ہے اور اس کا اپنا بھی کوئی کام ہے اور آج اس بات کا احساس ضروری ہو گیا ہے۔ تنقید کو بہت بڑا فرض انجام دینا ہے۔ خصوصاً اس زمانے میں جب طرح طرح کے مہیب روحانی، دماغی اور جذباتی خطرے ہماری ’’راہ میں ہیں۔‘‘ 

    (۱) ’’پرنسپلز آف لٹریری کریٹی سزم۔‘‘ 
    (۲) ’’پرنسپلز آف لٹریری کریٹی سلزم۔‘‘ 

    (۲) تنقید کیا ہے
    تنقید سانس کی طرح ضروری ہے۔ یہ فطرت کی گراں قدر ودیعت ہے۔ بصارت اور نطق کی طرح اس کی قیمت کا بھی اندازہ ممکن نہیں۔ شاید ان دونوں سے تنقید کی قدر و قیمت کچھ زیادہ ہے۔ ہم گردو پیش کی چیزوں کو دیکھتے ہیں، ہم ایک دوسرے سے بول چال کرتے ہیں لیکن اس دیکھنے، اس بول چال کو ہم معمولی بات سمجھتے ہیں اور اس کی اہمیت، اس کی قدروقیمت کا ہم صحیح اندازہ نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ تو کہنے کی شاید ضرورت نہیں کہ یہ چیزیں کتنی ضروری ہیں۔ اگر ہم دیکھنے اور بولنے سے معذور ہو جائیں تو پھر زندگی میں کیا رکھا ہے؟ لیکن ہم اس حقیقت پر کبھی غور نہیں کرتے۔ بچہ فطری طور پر اپنی آنکھوں سے مصرف لینا سیکھ لیتا ہے۔ اسی فطری طرح لیکن ذرا زیادہ مشکل سے وہ بولنا بھی سیکھ لیتا ہے اور یہ سیکھنا کچھ ایسا آہستہ اور بتدریج ہوتا ہے کہ بظاہر کچھ نظر نہیں آتا۔ جب بچہ دو کھلونوں میں تمیز کرنے لگتا ہے اس وقت تنقید کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ تنقید کا کرشمہ ہے کہ وہ ایک کھلونا پسند کرتا ہے اور دوسرا ناپسند۔

    یہ تمیز تو بچہ کو ہوتی ہے لیکن اس تمیز میں شعور، سوجھ بوجھ کا شائبہ نہیں ہوتا۔ وہ تو ایک ایسے احساس سے مجبور ہوکر کام کرتا ہے جس کی وجہ اس کو سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ کوئی ایک کھلونا تو پسند کر لیتا ہے، لیکن اپنی پسند کی وجہ ہمیں نہیں بتا سکتا۔ اس لئے کہ یہ وجہ اسے معلوم نہیں۔ وہ کوئی کام تو کرتا ہے، لیکن اسے اتنی سمجھ نہیں ہوتی کہ وہ اس فعل کی وجہ دریافت کر سکے۔ ممکن ہے کہ اس کے ذہن میں اس وجہ کا دھندلا سا خاکہ موجود ہو لیکن وہ اس خاکہ میں رنگ بھرکر اسے اجاگر نہیں کر سکتا۔ یعنی بچہ میں قوت تنقید تو ہوتی ہے لیکن کچھ گونگی سے۔ ابھی اسے بولنا نہیں آتا۔ وہ چیزوں کا موازنہ کرتا ہے، ان میں جو فرق ہے اس کی تمیز رکھتا ہے۔ کسی ایک چیز کو پسند بھی کرتا ہے اور اس کی قدر وقیمت بھی جانتا ہے لیکن یہ پسند ذاتی اور کچھ آوارہ قسم کی ہوتی ہے۔ وہ اس کی معقول وجہ نہیں بتا سکتا۔

    بچہ تو خیر بچہ ہے۔ بڑوں کابھی یہی حال ہے۔ وہ بھی اپنی پسند و ناپسند کی کوئی معقول وجہ نہیں بتا سکتے۔ وہ بھی کسی چیز کو پسند کرتے ہیں تو کسی کو ناپسند۔ وہ بھی تجربوں میں تمیز کرتے ہیں اور ان کی قیمت سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اپنی پسند کی وجہ صرف یہی بتا سکتے ہیں۔ ’’مجھے یہ پسند ہے۔‘‘ یوں کہنے کو تو وہ زیادہ لفظوں کا استعمال کرتے ہیں اور ان کی عبارت یا گفتگو بھاری بھرکم ہوتی ہے لیکن اس عبارت یا گفتگو میں مغز کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔ جسے ہم تنقید کہتے ہیں اس میں بھی یہی عیب ہوتا ہے۔ ہمارے نقاد باتیں تو بہت بناتے ہیں، اصول اور نقطۂ نظر کا حوالہ بھی دیتے ہیں اور کچھ ایسے الفاظ اور فقروں کو کام میں لاتے ہیں کہ پڑھنے والے مرعوب ہو جاتے ہیں لیکن غور کرنے سے ان الفاظ اور فقروں کا بھرم کھل جاتا ہے اور یہ باتیں بالکل کھوکھلی معلوم ہوتی ہیں،

    ’’ڈاکٹر خالدؔ کا موضوع صرف حسن وعشق نہیں۔ وہ دنیا کے خیالات و واقعات سے بھی اثر لیتے ہیں۔ چنانچہ موجودہ جنگ میں ہندوستان کے ایک خاص طبقے کی زندگی پر انہوں نے کس طرح آنسو بہائے ہیں۔ اس کا اندازہ ان کی نظم ’’ایک کتبہ‘‘ دیکھنے سے ہو سکتا ہے،

    شیر دل خاں!
    میں نے دیکھے تیس سال
    پے بہ پے فاقے
    مسلسل ذلتیں
    سو رہا ہوں اس گھڑے کی گود میں
    آفتاب مصر کے سائے تلے
    میں کنوارا ہی رہا
    کاش میرا باپ بھی
    اف کنوارا!
    کیا کہوں

    یہ زخمی ہندوستان کے حشر کی تصویر ہے۔ آج لاکھوں ہندوستانی نوجوان جنگ کے خونخوار جبڑوں کی شکار ہو چکے ہیں اور یہ موضوع آج گھر گھر زیر بحث ہے۔ ڈاکٹر خالد نے اسی کو پیش کرکے ہزاروں دلوں کی ترجمانی کر دی ہے۔‘‘ 

    ’’موضوع کا گھر گھر زیر بحث ہونا، دنیا کے خیالات و واقعات سے اثر لینا، ہزاروں دلوں کی ترجمانی کرنا‘‘ ایسے جملے ہیں جن سے پڑھنے والے کو مرعوب کیا جاتا ہے اور جن سے ناقدانہ نظر کی کمی پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ عبادتؔ بریلوی کو یہ مبتذل سی نظم پسند ہے اور وہ اپنی ناجائز پسند کو جائز ثابت کرنے کے لئے اس قسم کے جملے استعمال کرتے ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ اگر یہ باتیں درست ہوں تو بھی ان سے اس نظم کا شاعرانہ حسن ثابت نہیں ہوتا۔ حسن کاری سرے سے موجود نہیں۔ اور یہ ساری باتیں کھوکھلی ہیں۔ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اس نظم کا مرکزی خیال ہاؤسمینؔ کی نظم سے لیا گیا ہے۔

    میں کنوارا ہی رہا کاش میرا باپ بھی اُف کنوارا! کیا کہوں؟

    For so the game is ended. That should not have begun. My Father and my my mother. They had a likely son. And I have non.

    ظاہر ہے کہ ’’ایک کتبہ‘‘ میں ہاؤسمینؔ کے خیالات کی مسخ شدہ صورت ہے۔ خیالات کی بھی اور اسلوب کی بھی۔ ’’اُف کنوارا! کیا کہوں؟‘‘ پر صرف ہنسی آ سکتی ہے اور بس۔ ہاں تو یہاں تنقید نہیں، بھاری بھرکم لیکن کھوکھلی باتیں ہیں، ’’یہ زخمی ہندوستان کے نوجوان کے حشر کی تصویر ہے۔ آج لاکھوں ہندوستانی نوجوان جنگ کے خونخوار جبڑوں کا شکار ہو چکے ہیں۔‘‘ 

    دیکھ لیا آپ نے؟ ہمارے نقاد بھی صرف ذاتی پسند یا ناپسند کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اصول کے متعلق باتیں تو کرتے ہیں لیکن اصول سے واقفیت نہیں رکھتے۔ وہ کسی چیز کی اچھائی یا برائی کا فیصلہ تو کرتے ہیں لیکن اپنے فیصلہ کو سمجھ نہیں سکتے۔ ان کے فیصلہ کی بنیاد بھی ذاتی پسند ناپسند پر ہوتی ہے۔ وہ کوئی حساس تمیز نہیں رکھتے جو ان کی صحیح رہنمائی کر سکے۔ بہت ممکن ہے کوئی نقاد ’’جگ بیتی‘‘ کو بہت اچھی نظم سمجھے یا ذوقؔ کو مومنؔ پر ترجیح دے اور اپنی اس حرکت کے لئے معقول وجہیں بھی پیش کرے لیکن غور سے دیکھنے سے یہ بات ظاہر ہوگی کہ وہ صرف اپنی پسند کا اظہار کر رہا ہے۔

    تنقید ہے تو سانس کی طرح ایک فطری چیز ہے لیکن زندگی یا ادب میں اس کی ترقی ایسی نہیں کہ ہم اسے تشفی بخش کہہ سکیں۔ تعجب ہے کہ انسان نے اس جانب سے اس قدر بے توجہی برتی ہے۔ زندگی تنقید کے بغیر ممکن نہیں جیسے ہم سانس نہ لیں تو زندہ نہیں رہ سکتے۔ تنقید اور زندگی میں علیحدگی ممکن نہیں۔ تنقید ہماری مددگار، رہنما اور پشت پناہ ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں اس کا اثر نمایاں ہے اور اس سے مدد لی جاتی ہے۔ اپنی سانس لیتی زندگی کے ہر لمحہ میں ہم تنقیدی فیصلے کرتے رہتے ہیں۔ موٹر کار کی خریداری یا اپنے لئے کسی پیشہ کا انتخاب، دونوں میں تنقید کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کو فاشزم پر ترجیح دینے میں تنقید کی ضرورت ہے۔ فلورنسؔ نائیٹ اینگل کی تعریف اور لکرتؔ سیابورجیا کی تنقیص میں بھی تنقید کی ضرورت ہے۔ روحانی سکون کو جسمانی آرام سے اچھا سمجھنے میں تنقید کی ضرورت ہے، اور میرؔ کو چرکین سے بہتر سمجھنے میں بھی تنقید کی ضرورت ہے۔ وہ جج ہو یا چور، فریبی ہو یا بڑا تاجر، سائنس داں ہو یا بازی گر، غرض وکیل، ڈاکٹر، جنرل، فلسفی، زن بازاری سب ہی کو تنقید کی ضرورت ہے۔ سب تنقید سے کام لیتے ہیں اور ان کی کامیابی کا راز یہ تنقید ہے۔

    کہہ سکتے ہیں کہ میں تنقید کو بہت وسیع معنی میں استعمال کررہا ہوں، لیکن ذرا غور تو کیجئے، میں اس لفظ کے ساتھ کوئی ناجائز سلوک نہیں کررہا ہوں اور نہ میں اس کے مفہوم کو توڑ مروڑ کر پیش کررہا ہوں۔ بات یہ ہے کہ ابھی تک یہ لفظ ایک خاص محدود معنی میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ عام اصطلاح میں تنقید کے معنی ہیں ادبی تنقید۔ لیکن ظاہر ہے کہ ’ادبی تنقید‘تنقید کی ایک صورت ہے اور ممکن ہے کہ یہ صورت سب سے اچھی اور بیش قیمت ہو لیکن تنقید کی سیکڑوں صورتیں ہیں۔ ہم برابر تنقید کو اس محدود معنی میں استعمال کرتے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تنقید کی قدر و قیمت کو ہم ابھی تک سمجھ نہیں سکے ہیں۔

    واقعہ تو یہ ہے کہ ادبی تنقید بھی نہایت قیمتی چیز ہے جسے استہزاء اور حقارت کی نظر سے نہیں دیکھ سکتے۔ رہی قوت تنقید تو اس کی قدر و قیمت روشن ہے۔ یہ تو کہا جا چکا ہے کہ یہ سانس کی طرح ضروری ہے اور ہماری زندگی کا سبب سے۔ موازنہ، تجزیہ، تمیز، فیصلہ، انہی چیزوں سے تنقید کی گاڑی چلتی ہے اور کسی کو بھی اس بات سے انکار نہیں ہوسکتا کہ ہم ہر لمحہ شعوری یا تحت الشعوری طور پر ان چیزوں سے کام لیتے رہتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں بھی تو ان چیزوں سے الگ نہیں ہو سکتے اور کسی سمجھ دار شخص کو ان سے الگ ہونے کا خیال بھی نہ ہوگا کیونکہ ان چیزوں سے الگ ہونا خود کشی کے برابر ہے۔

    تنقید کو پہچاننا، اس کی قدر کرنا، اس سے صحیح مصرف لینا، یہی رستہ ہماری بھلائی کا ہے۔ لیکن یہ راستہ آسان نہیں۔ تنقید عجب بہروپیا ہے۔ یہ نت روپ بھرتی ہے اس لئے اس کی اصلی شکل مشکل سے نظر آتی ہے لیکن اس کی اصلی شکل سے واقفیت ضروری ہے۔ اس کی جستجو ہماری زندگی کا مقصد ہے۔ یہی ہماری راہِ نجات ہے۔ تنقید قدرت کی گراں قدر نعمت ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی صحیح تربیت کریں۔ اس کے امکانات سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں اور اسے ترقی کے بلند ترین زینوں پر پہنچائیں۔ جس طرح ہم اپنے جسم کی پرورش کرتے ہیں اور جسمانی طاقت کو ترقی دیتے ہیں اس طرح اس دماغی طاقت کی تربیت اور ترقی ضروری ہے لیکن ہم ہیں کہ اس سے بالکل غافل جیسے یہ کوئی چیز ہی نہیں۔

    یہی چیز انسان کو انسان بناتی ہے اور اسے جانوروں سے ممیز کرتی ہے۔ جانوروں میں قوت تنقید کے بدلے عقل حیوانی ہوتی ہے جو انہیں دوست اور دشمن میں تمیز کرنا سکھاتی ہے۔ بہت بڑی حد تک ان کی سلامتی، ان کی بقا، اسی جبلی احساس سے وابستہ ہے۔ قدیم انسان میں بھی اسی قسم کا جبلی احساس تھا اور یہ احساس بچوں میں ابھی تک پایا جاتا ہے لیکن دماغی قوتوں کی ترقی اس احساس کو پس پشت ڈال دیتی ہے اور رفتہ رفتہ اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہ جبلی احساس گویا ٹٹول ٹٹول کر کام کرتا ہے یا پھر مشین کی طرح۔ لیکن مشین کو اپنے کل پرزوں سے واقفیت نہیں ہوتی۔ دماغ اندھیرے میں نہیں روشنی میں کام کرتا ہے۔ اسے اپنے کل پرزوں سے واقفیت ہے۔ کم سے کم وہ اپنے کل پرزوں سے واقف ہے۔ کم سے کم وہ اپنے کل پرزوں کو جاننا اور جانچنا چاہتا ہے اور یہی شعور اس کی بڑائی کا ذمہ دار ہے، لیکن اس کی تربیت ضروری ہے۔ اچھل کود کرنا تو ہر شخص کے بس کی بات ہے لیکن عالم رقص میں اپنی جسمانی حرکتوں سے ایک حسین شاہکار بنانا دشوار ہے۔ اسی طرح اپنی دماغی قوتوں سے، ریاضت کے بغیر، اچھا، بزرگ اور حسین کام لینا بھی دشوار ہے۔

    جانوروں کو اپنے بچاؤ کی تو فکر ہوتی ہے، لیکن وہ کسی بلند نقطۂ نظر سے واقف نہیں ہوتے۔ انسان اپنے بچاؤ کے ساتھ کچھ اور بھی چاہتا ہے۔ صرف جیتے رہنا اس کی زندگی کا مدعا نہیں۔ وہ اپنی زندگی کو کسی قابل بنانا چاہتا ہے۔ اس مقصد میں تنقید کی مدد کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ انسان جانوروں کی طرح قانع نہیں۔ وہ چیزوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ انہیں پرکھتا ہے، کسی چیز کو پسند کرتا ہے تو کسی چیز کو ناپسند کرتا ہے۔ وہ چیزوں کو بدلنا، انہیں بہتر بنانا چاہتا ہے۔ وہ زندگی کے دھارے پر بہے جانا پسند نہیں کرتا۔ زندگی گویا بہتا ہوا دریا ہے جس کے بہاؤ پر جمود کا شک ہوتا ہے اور یہ اپنے بہاؤ میں ہر جاندار چیز کو بہالے جاتا ہے۔ ہر جاندار اس بہنے والے دریا کے ساتھ بہتا ہے۔ بس ایک انسان ہی اپنے گردوپیش کا جائزہ لیتا ہے، دھارے کو پلٹ دینا چاہتا ہے، کم سے کم اس کے بھید، اس کی قدروقیمت کی تلاش کرتا ہے۔

    اب تو یہ بات واضح ہو گئی ہوگی کہ تنقید زندگی کی طرح قیمتی ہے اور تنقید سے کنارہ کشی ایک قسم کی خود کشی ہے۔ وہ عام تربیت یافتہ دماغی قوت کی صورت میں ہو یا کسی مخصوص بھیس میں، تنقید کی اہمیت روشن ہے۔ واعظ، فلسفی، ڈاکٹر، وکیل، سائنس داں سب ہی تنقید کی کسی خاص صورت سے سہارا لیتے ہیں۔ وہ ہماری مادی دنیا ہو یا خیال اور روح کی کبھی نہ ختم ہونے والی وسعتیں، ہم کسی جگہ بغیر تنقید کی رہنمائی کے چل نہیں سکتے۔ اگر یہ رہنما نہ ہو تو ہماری ساری تفتیش، ہماری ساری کاوش رائیگاں جائےگی۔ اپنے اپنے طور پر سب ہی تنقید کی کسی خاص صورت سے کام لیتے ہیں اور اپنی تلاش وجستجو میں کامیاب ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی یہی تنقید خارجی اور مادی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ مثلاً یہ قانون کا پورا محکمہ، جج، وکیل، عدالت، جیل خانہ، کانسٹبل، مجرم، غرض اس پیچیدہ محکمہ کا مقصد ہے چھان بین، جانچ پڑتال، تجزیہ، فیصلہ یعنی وہی تنقید۔ تنقید کی ایسی مادی صورتیں اور بھی ہیں۔

    یہ مخصوص صورتیں اپنے اپنے میدان میں مفید بھی ہیں لیکن اپنے میدان سے باہر بالکل بیکار اور معطل ہیں۔ مثلاً قانون کا سارا محکمہ ہمیں یہ نہیں بتایا کہ بیمار بخار سے مرا یا قولنج کا شکار ہوا۔ اس کے علاوہ ان مخصوص صورتوں میں ایک کمی اور بھی ہے۔ قانونی مشین ہمیں صرف اسی قدر بتاتی ہے کہ عمر و نے کوئی خاص جرم کیا یا نہیں لیکن جو بالکل معصوم ہیں انہیں اس مشین سے سابقہ نہیں پڑتا اور ان کی خوبیوں پر یہ مشین کوئی روشنی نہیں ڈالتی اور نہ ڈال سکتی ہے۔ اس لئے تنقید کو اس کی مخصوص صورتوں میں محدود کر دینا درست نہیں۔ اس طرح تنقید کے فائدہ کی دنیا تنگ ہو جاتی ہے۔ پھر زندگی کو الگ الگ شعبوں میں تقسیم کرنا دانشمندی سے دور ہے۔ زندگی کا نظام پیچیدہ ہے اور اس کے شعبے ایک دوسرے سے الگ نہیں کئے جا سکتے ہیں۔ اس طرح علم کے مختلف شعبوں میں بھی ربط ہے۔ ایک وکیل اگر صرف قانون جانتا ہے تو اچھا وکیل نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹر کو نفسیات کا علم زیادہ اچھا ڈاکٹر بناتا ہے اور شاعر اگر نقاد بھی ہو تو زیادہ اچھا شاعر ہو جاتا ہے۔

    میں کہہ چکا ہوں کہ تنقید کا مفہوم عرف عام میں ادبی تنقید ہے۔ اسی وجہ سے اس کی صحیح قدر و قیمت سے واقفیت نہیں۔ تنقیدادب سے متعلق ہے، اس لئے اسے نظر کم سے دیکھا جاتا ہے، اسے ’’تسمہ پا‘‘ سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جو شعر کہنے کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ نکتہ چینی پر اتر آتے ہیں۔ تنقید کی دنیا ادب تک محدود نہیں۔ تنقید صرف ادب سے متعلق نہیں۔ اس کی وسعت زندگی کی وسعت سے کم نہیں۔ زندگی قوت تنقید کو پیدا کرتی ہے اور پھر اپنی بقا اور ترقی کے لئے تنقید کا سہارا ڈھونڈتی ہے۔

    (۳) تنقید اور تعلیم
    تعلیم کا مقصد رہنما ناقدانہ ادارک کی تربیت اور ترقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نقاد کو تعلیم سے دلچسپی ہوتی ہے۔ ہر سماج کو اسی قسم کی تعلیم ملتی ہے جس کی وہ مستحق ہے۔

    ’’سماج کی ساخت اور تعلیم کی ساخت میں جو قریبی رشتہ ہے اس کی اہمیت پر جس قدر زور دیا جائے کم ہے۔ اسکول اور کالج سماجی نظام سے الگ نہیں اور نہ الگ رکھتے ہیں۔ واقعہ تو یہ ہے کہ ہمارے کالج اور اسکول و ہ نظام ہیں جو جوانوں کو سماج میں حصہ لینا سکھاتے ہیں اور ایک سماج وہی امیدیں اور قدریں، وہی علم و یقین سکھا سکتا ہے جو اس کی پیداوار ہیں۔‘‘ 

    عموماً ہم اسی قریبی ربط سے واقف نہیں ہوتے لیکن نقاد کو یہ واقفیت ہوتی ہے، اسی وجہ سے وہ تعلیم میں دلچسپی لیتا ہے۔ یہ تعلیم گہوارہ اور ماں کی گود میں شروع ہوتی ہے۔ بچے بہت حساس ہوتے ہیں۔ بری عادتیں بہت جلد پکڑ لیتے ہیں۔ یہ بری عادتیں آئندہ چل کر بہت سی مشکلیں اور گتھیاں پیدا کر دیتی ہیں۔ بچوں کو ان مشکلوں اور گتھیوں اور الجھنوں سے بچانا ہے۔ لیکن عموماً والدین ان چیزوں سے باخبر نہیں ہوتے یا ان چیزوں کی پروا نہیں کرتے یا ایسے مشغول ہوتے ہیں کہ بچوں کی دیکھ بھال ٹھکانے سے نہیں کرسکتے۔ ہارڈنگ کا کہنا ہے کہ یہ دشواریاں ایسی ہیں کہ ان کا علاج مشکل ہے۔ البتہ اس کا انتظام کیا جا سکتا ہے کہ بچے جوان ہوکر اِن دشواریوں کو صحیح نقطہ ٔ نظر سے دیکھیں اور اپنی زندگی کو تباہی سے بچالیں۔

    نقاد کو دیکھنا ہوگا کہ گھر بہتر ہے یا ’نرسریز۔ ‘ پھر اسی طرح اسکول سے پہلے کا زمانہ، اسکول اور کالج اور یونیورسٹی میں کیسی تعلیم دی جاتی ہے، نقاد کو یہ سب دیکھنا ہوگا۔ جو لوگ بچوں کی تعلیم کے ذمہ دار ہیں انہیں نفسیات سے واقفیت ضروری ہے۔ اس سے بہت مدد ملےگی لیکن ان کی نظر میں کلچر سے مرکزی دلچسپی ہونی چاہیے۔ انہیں جاننا چاہیے کہ تعلیم کا مقصد ہے مہذب بچہ اور پھر ’مہذب‘ جوان بنانا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب صحیح کلچر کا علم ہو۔

    پہلے تعلیم چند لوگوں کی جاگیر تھی۔ جنہیں فرصت تھی اور جن کے پاس پیسے تھے۔ عوام کی بڑی جماعت اپنے کام میں منہمک رہتی اور وہ روایات اور چند پڑھے لکھے لوگوں سے رہنمائی کی خواستگار ہوتی ہے۔ یہ چند پڑھے لکھے لوگ سماج کے رہبر تھے اور جو تعلیم دی جاتی تھی اسے انگریزی میں ’’لبرل‘‘ کہتے ہیں اس تعلیم یں کلاسیکی ادب کا بڑا حصہ تھا اور اس قسم کی تعلیم کا مقصد یہ تھا کہ بہترین اور سب سے قیمتی خیالات کی سمجھ اور اچھائی بتائی جائے۔ غور و فکر کی عادت دلائی جائے اور دماغی توازن کی گراں قدر نعمت عطا کی جائے اور ساتھ ساتھ ایک بلند اور زیادہ اچھی زندگی کی دل میں تمنا جگائی جائے۔ یہ مختصر سی جماعت ’’سماج کا پھول‘‘ تھی، یہ لطیف و حسین کلچر کا خزانہ تھی۔

    اب پرانا نظام بدل چکا ہے اور نیا نظام عالم انتظار میں ہے۔ زندگی بہت پیچیدہ ہو گئی ہے۔ پرانی تہذیب کی جڑیں اکھڑ گئی ہیں، روایت کا رشتہ ٹوٹ گیا ہے اور کلچر ایسا لفظ ہو گیا ہے جس کے بہت سے معنی ہیں اور سب مبہم۔ اب تعلیم سب کی جاگیر ہے۔ بہت سے ادارے قائم ہوئے ہیں اور تعلیم کی اچھائی پر دھبہ لگ گیا ہے۔ ’لبرل‘ قسم کی تعلیم کو اب کوئی نہیں پوچھتا۔ لوگ صنعتی اور اس قسم کی تعلیم چاہتے ہیں جس سے وہ خاص خاص کام کرنے کے لائق ہو جائیں۔ طرح طرح کے کام، قسم قسم کے پیشے ہیں اور اس قسم کی تعلیم کی مانگ ہے جو ان کے نئے کاموں، ان نئے دھندوں میں ان کی معاون ہو۔ یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ کام، یہ دھندھے کرنے کے قابل ہیں بھی یا نہیں۔ اب آدمی اور مشین میں فرق باقی نہیں رہا ہے۔ لوگوں کو جو دھندھا سکھایا جاتا ہے اسے وہ مشین کی طرح کرتے ہیں۔

    نقاد بتاتا ہے کہ آدمی مشین نہیں۔ اس کو یہ جاننا چاہیے کہ کون سا کام کرنے کے قابل ہے۔ اس کو تمیز اور ذمہ داری سیکھنا چاہیے۔ غور و فکر کی عادت ڈالنی چاہیے اور اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ زندگی کسی خاص کام کو مشین کی طرح کرنے کا نام نہیں۔ یعنی ’لبرل‘ قسم کی تعلیم کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے اسے جہاز چلانا یا ٹائپ رائٹر سے کام لینا نہ آئے، ممکن ہے کہ بینک کو چلانا یا بینک میں ڈاکہ ڈالنا نہ آئے لیکن اسے ایک حساس تمیز آ جاتی ہے جس سے وہ بہت بڑے بڑے کام لے سکتا ہے۔

    اب سماجی اور کلچرل نظام منتشر ہو گیا ہے اور اس انتشار کی وجہ وہ زبردست مشینی کارخانہ ہے جس نے اسی عہد میں جنم لیا ہے۔ قابو اور اختیار کا وقت گزر گیا ہے اور بدباطن لوگوں کے ہاتھ ایک خوفناک اور مہیب پروپیگنڈا کا آلہ لگ گیا ہے۔ اس کو روکنے کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کو اخلاقی ذمہ داری اور تیز اور باریک ادراک کی تعلیم دی جائے ورنہ سماجی اور کلچرل نظام ٹوٹ پھوٹ جائےگا۔

    میں نے کہا ہے کہ موجودہ تہذیب بہت پیچیدہ ہو گئی ہے اور دنیا اس قدر چھوٹی ہو گئی ہے کہ ایک جگہ آندولن ہوتا ہے تو اس کا اثر ہر جگہ محسوس ہوتا ہے۔ پہلے چند لوگ کلچر کے اہل تھے اور وہ اپنے زمانے کی تہذیب کے بہترین عناصر سے آراستہ تھے۔ ان کے حدود تھے لیکن وہ زندہ تھے اور اِرد گرد کی دنیا کا انہیں تیز احساس تھا۔ وہ چمکیلا مرکز تھے جہاں سے کلچر کی کرنیں چاروں طرف پھیلتی تھیں۔ اب اس قسم کا کوئی مرکز نہیں جہاں ’انسانیت‘محفوظ رہ سکے اور جہاں سے انسانیت دوست کلچر کی کرنیں پھیل سکیں۔ نتیجہ ہے دماغی پراگندگی۔ ضرورت ہے ایسے مرکز کی جہاں مل جل کر دماغی خزانہ پھر جمع کیا جائے اور کلچر کے بکھرے ہوئے شیرازوں کی ازسرِ نو تنظیم کی جائے۔

    اب معلومات کا دائرہ اس قدر وسیع ہو گیا ہے کہ کوئی ایک شخص ان معلومات پر حاوی نہیں ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے اب کوئی بھی دنیائے معلومات کو اپنا ہدف نہیں بناتا۔ اس وسیع دائرہ کا ایک چھوٹا سا حصہ، بس یہی انفرادی توجہ کا میدان ہے اور اسی طرح بہت سے چھوٹے چھوٹے حصوں میں اس دائرہ کو بانٹ دیا گیا ہے۔ ہم اپنے مختصر حصوں کو جانتے ہیں لیکن دوسرے حصوں کی خبر نہیں رکھتے، لیکن ان حصوں کو الگ الگ جاننا مفید نہیں۔ ہمیں پورے دائرہ سے واقفیت چاہیے لیکن یہ واقفیت مختلف علوم کا ناکافی، ناتمام، ادھورا یا ٹوٹا پھوٹا علم نہ ہو بلکہ حقیقی عرفان ہو۔ آج کل دوسری چیزوں کی طرح تعلیم میں انتشار، ’’بیمار تیزی اور منقسم مقصد‘‘ کا نظارہ دکھائی دیتا ہے۔ کائناتی کوشش ہی دماغی انتشار کو تنظیم اور ہم آہنگی بخش سکتی ہے اور تخریب کو تعمیر کی شکل میں پیش کر سکتی ہے۔

    پرانی تعلیم سے یہ کام نہیں ہو سکتا ہے۔ اب ایک نئی کلچرل تعلیم ہی ہمیں راہ نجات دکھا سکتی ہے۔ جو بدحالی ہے اور جو خاص ضرورتیں ہیں، ان دونوں کا علم مشکلوں کو دور کرنے میں مدد کرے گا۔ نقاد دنیا کے مختلف حصوں میں، جو علوم کی مختلف شاخیں ہیں، ان میں رشتہ جوڑےگا اور ان میں جو معنی اور مقصد ہیں ان پر سے پردہ اٹھائےگا اور انہیں ایک نظام اور ایک دائرہ میں کھینچ لائےگا۔ یہ کام یونیورسٹیوں میں ہو سکتا ہے جو مختلف علوم کا مرکز ہیں اور جو مختلف علوم پر ایک خاص مہر ثبت کرکے ان کی معنی خیزی کو ظاہر کریں گی۔ میں نے کہا ہے کہ اسکولوں کا مقصد یہ ہے کہ ’’مہذب‘‘ بچے اور پھر مہذب جوان بنائیں۔ یونیورسٹیوں کا مقصد یہ کہ وہ ’’کلچریافتہ‘‘ آدمی بنائیں۔ ایسا آدمی دنایت اور غرور سے آزاد ہوگا، اور تنگیٔ نظر اور دلچسپیوں کی کمی سے بھی آزاد ہوگا۔ یہ تنگ نظری دماغ کو اپاہج بنا دیتی ہے۔ ایسا آدمی ادراک کے بلند ترین مقام پر ہوگا اور اپنے تیز اور حساس ادراک سے وہ سماجی اور ذاتی مسئلوں کا جائزہ لےگا اور انہیں حل کرےگا۔

    اس کا ادراک ایک جگہ جما ہوا، ایک خاص رستہ پر چلنے والا نہ ہوگا بلکہ لچک دار ہوگا جو مختلف قسم کے مرحلوں سے بہ آسانی گزر جائےگا۔ اسے حال سے بھی پوری جانکاری ہوگی، اس کی حدوداور اس کی خاص ضرورتوں سے جانکاری ہوگی، اسے ماضی سے بھی پوری جانکاری ہوگی اور اسے یہ بھی معلوم ہوگا کہ ماضی میں کون کون سی اچھی چیزیں ہیں جو آج ہمارے کام آ سکتی ہیں۔ قدروں کا پختہ احساس اسے بتائےگا کہ کون سی اچھی اور متعلق چیزوں کو وہ پسند کرے اور وہ ماضی کی بہترین چیزوں کو حال اور مستقبل کی خدمت میں استعمال کرےگا اور اسی طرح اسے احساس ہوگا کہ ماضی، حال اور مستقبل ایک رشتے میں منسلک ہیں۔ یہ احساس کہ دنیا ایک ہے، انسانیت ایک ہے، انسانی علوم ایک رشتے میں جکڑے ہوئے ہیں، مختلف زبانو ں کے ادب کثرت میں وحدت کا جلوہ دکھاتے ہیں۔ یہ احساس ایک عالمگیر نقطۂ نظر، ایک کائناتی قوت حاسہ اور آفاقی قدریں عنایت کرےگا، اور اس روشنی میں سارے اختلاف فنا ہو جائیں گے اور ایک واحد شعلہ نظر آئےگا۔

    ان بڑی باتوں سے قطع نظر، نقاد جزئیات کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے اور اپنے مخصوص اوصاف کی وجہ سے وہ اس میدان میں بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ کسی خاص تعلیمی نظام کا جائزہ لے سکتا ہے اور یہ بتا سکتا ہے کہ دونوں میں سے کون نظام تعلیم زیادہ مفید اور کارآمد ہے۔ اسی طرح وہ کسی خاص قسم کے اسکول کی طرف توجہ کر سکتا ہے اور چھان بین کرکے یہ بتا سکتا ہے کہ یہ اسکول کس حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہے۔ وہ کسی یونیورسٹی کی بھی دیکھ بھال کر سکتا ہے اور یہ دیکھ سکتا ہے کہ یہ ذہنی اور شعوری کاوشوں کو مرکزی حیثیت سے مجتمع کرتی ہے یا نہیں اور دوسری یونیورسٹیوں کے مقابلے میں یہ کامیاب ہے یا ناکامیاب اور اگر کامیاب ہے تو اس کی کامیابی کے حدود کیا ہیں۔ وہ امتحانات کے نظام کی بھی جانچ پڑتال کر سکتا ہے اور انہیں زیادہ مفید بنانے کے لئے کام کی باتیں بتا سکتا ہے اور وہ یہ بھی دیکھ سکتا ہے کہ درس میں کون کون سی کتابیں ہیں اور ان سے کسی خاص مضمون کو سمجھنے اور اس سے پوری جانکاری حاصل کرنے میں درسی کتابیں کافی ہیں یا ناکافی۔

    (۴) تنقید اور دماغی صحت
    تنقید دماغی صحت کی ذمہ دار ہے۔ ازرا پاؤنڈ نے کہا ہے، ’’جسم کوئی بری چیز نہیں۔ جسمانی بیماری اور کمزوریاں البتہ بری ہیں۔ یہی بات دماغ پر بھی منطبق ہوتی ہے۔ دماغی بیماریاں جسمانی بیماریوں سے کم مکروہ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر کسی کے دانت میں درد ہو تو اس سے صرف اس کو تکلیف ہوتی ہے لیکن ایک احمق ساری مجلس کو مکدر کر دیتا ہے اور اگر وبا کو لیجئے تو چند سرپھرے ایک ایسی وبا پھیلا سکتے ہیں جو عالمگیر پلیگ سے کم مہلک نہیں۔‘‘ 

    جسمانی امراض کی شناخت آسان ہے اور ان کا علاج بھی مشکل نہیں۔ مریض بیماری کی علامتوں کو دیکھ کر ڈاکٹر کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اسی طرح کسی وبا کی خونخواری پوشیدہ نہیں رہتی۔ ایک تہلکہ مچ جاتا ہے اور اسے دفع کرنے کی کوشش ہوتی ہے، لیکن وہ امراض جو دماغ کو تھام لیتے ہیں، اس آسانی سے پہچانے نہیں جاتے۔ ان کی خونخواریوں کی کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ اور رونا تو اس کا ہے کہ ایسے ڈاکٹر بھی نہیں ملتے جو ان بیماریوں کو پہچانیں اور ان کا علاج کر سکیں۔

    میکبتھ نے ڈاکٹر سے پوچھا تھا،
    کیا تم بیمار دماغ کا علاج کر سکتے ہو۔
    کیا تم اس غم کو جس نے حافظہ میں جڑ پکڑ لی ہے اکھاڑ سکتے ہو
    کیا تم دماغ پر لکھے ہوئے مصائب کو مٹا سکتے ہو
    اور کسی شیریں، بھلا دینے والی دوا سے
    ہمارے بھرے ہوئے سینے کو اس خطرناک چیز سے صاف کر سکتے ہو۔
    جو میرے دل پر بھاری پتھر بنی ہوئی ہے؟

    غنیمت ہے کہ میکبتھ کو یہ جانکاری تھی کہ اس کا دماغ بیمار ہے۔ وہ غم جس نے جڑ پکڑ لیا ہے۔ وہ مصائب جو دماغ پر لکھے ہوئے ہیں، وہ خطرناک چیز جو دل پر پتھر کی طرح جمی ہوئی ہے۔ ان چیزوں کی آج ہمیں آگاہی نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تندرست ہیں۔ اگر مرض کا احساس نہ ہو تو علاج بھی ممکن نہیں۔ میکبتھ کو معلوم تھا کہ اس کی دماغی صحت خراب ہو گئی تھی لیکن اس علم کا اسے کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ ڈاکٹر نے کہا تو یہ کہا۔

    ایسی بیماری میں
    مریض اپنی آپ داد رسی کر سکتا ہے۔

    وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر کو اس قسم کی بیماری سے کبھی سابقہ نہیں پڑا تھا اور اس کے خزانۂ ادویہ میں اس کی کوئی دوا نہ تھی۔ پھر بھی اس کا جواب بالکل بیکار اور مہمل نہ تھا۔ ایسی صورت میں بیمار بڑی حد تک اپنی مدد آپ کر سکتا ہے۔ بیماری کا احساس صحت کی علامت ہے۔ کسی پاگل کو اپنی پاگل پنی کا احساس نہیں ہوتا۔ بیماری کا علم اگر صحت کی خواہش میں تبدیل ہو جائے تو پھر بہت کچھ امید بندھتی ہے۔

    بیمار دماغ کا علاج مشکل کام ہے۔ یہ مشکل زیادہ مشکل اس لئے ہو جاتی ہے کہ ہمیں ان بیماریوں کا مطلق علم نہیں۔ ظاہر ہے کہ میں ان بیماریوں کی طرف اشارہ نہیں کر رہا ہوں جو طب کی کتابوں میں ملتی ہیں، کسی کے بدن کا کھلا ہوا ناسور بہت برا معلوم ہوتا ہے، لیکن اس قسم کا مکروہ ناسور دماغ میں ہوتا ہے اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ علم طب کی اس قدر ترقی ہوئی ہے لیکن اس کے برابر کوئی دوسرا علم نہیں جو دماغی صحت کا ذمہ دار ہو۔ آج کل ایک نئے علم نے ترقی کی ہے جسے سائیکو انیلیسس کہتے ہیں لیکن یہ علم بھی کچھ یوں ہی سا ہے۔ پھر جس قسم کے امراض کی میں باتیں کررہا ہوں ان کا علاج اس نئے علم سے نہیں ہو سکتا۔

    یہ بیماریاں ایسی معمولی ہو سکتی ہیں جیسے زکام یا ایسی خوفناک اور مہیب جیسے تپ دق۔ کوئی کہتا تھا کہ فوجی تربیت ادبی تربیت سے زیادہ اچھی ہے۔ سپاہی کو سخت تربیت دی جاتی ہے، اسے ہمیشہ جسمانی اور دماغی طور پر چاق و چوبند رہنا ہوتا ہے، ٹھیک کام ٹھیک وقت پرکرنا ہوتا ہے، کیونکہ اس کی پہلی غلطی آخری غلطی ہو سکتی ہے لیکن ادبی تربیت اتنی سخت نہیں۔ کسی نے اگر ملٹن کو شیکسیئر پر ترجیح دی تو یہ کوئی اہم غلطی نہ ہوگی۔ اب اسے کیا کہئے؟ سپاہی کی جان جاتی ہے، نقاد کے دماغ کا خون ہوتا ہے۔ وہ سوجھ بوجھ والا انسان باقی نہیں رہتا۔

    عام انسان بہت غبی واقع ہوا ہے۔ ان جانوروں سے زیادہ غبی جنہیں وہ حقارت سے دیکھتا ہے، ارتقا کے مدارج سے گزرنے میں وہ عقل حیوانی کو کھو بیٹھا جو اس کی رہنمائی کرتی تھی اور اس کے حواس خمسہ کی تیزی بھی جاتی رہی۔ جانور جبلی طور پر دوست دشمن میں تمیز کرتے ہیں۔ وہ خطرے کو محسوس کرتے ہیں اور اس سے بچنا جانتے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں انسان بے کس و بے چارہ اور بے بصیرت معلوم ہوتا ہے، کیونکہ عقل حیوانی تو رہی نہیں اور اس کا دماغ تیز، چمکیلا اور دوربیں نہیں۔

    دنیا میں حماقت کا راج ہے۔ مثال کی ضرورت نہیں۔ ہماری نجی زندگی ہو یا ہمارے سماجی تعلقات، ہمارے پیشے اور کاروبار ہوں یا ہمارے قانونی، سیاسی، تعلیمی ادارے ہر جگہ حماقت کی بے شمار مثالیں نظر آئیں گے۔ اس حماقت سے ہمارا بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔ ہماری قوتیں برباد ہوتی ہیں۔ اس نقصان عظیم سے نجات کی بس یہی صورت ہے کہ ہم اپنے دماغ کو زیادہ چست و چالاک، تیز و حساس بنائیں۔

    ہمارا جسم بے شمار جراثیم کا شکار ہے جو ہمارے چاروں طرف ہجوم کئے ہوئے ہیں اور جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اب ہمیں ان جراثیم کے وجود کا علم ہو چلا ہے اور ہم نے بہت ساری ترکیبیں ان کے مہلک اثر کو دور کرنے کے لئے سوچ نکالی ہیں۔ ہمارے جسم کی طرح ہمارا دماغ بھی جراثیم سے بھرا ہوا ہے۔ یہ جراثیم بہت قسم کے ہیں اور بہت مہلک ہیں اور ان سے راہ نجات نہیں، کیونکہ ہم نے ابھی ان جراثیم کو پہچانا تک نہیں ہے اور ان کو مارنے کی کوئی دوا ایجاد نہیں کی ہے۔ بہت سے جراثیم تو ہمیں وراثت میں ملے ہیں۔ مثلاً قدیم انسان اپنی بے شمار اوہام پرستی کے ساتھ ابھی تک ہمارے پیچھے لگا ہوا ہے۔ اس کی وضع ذرا بدل گئی ہے۔ وہ اپنی عریانی کو تہذیب کے لباس میں چھپائے ہوئے ہے لیکن اس کا دل وہی ہے جو تھا اور یہ وحشی ہے، اتنا ہی وحشی ہے جتنا یہ ہزاروں برس پہلے تھا۔ تہذیبیں ابھرتی ہیں، پھلتی پھولتی ہیں پھر مرجھاتی ہیں، لیکن یہ سطحی تغیرات ہیں جو برابر ہوتے رہتے ہیں، لیکن گہرائیوں میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔

    ہاں تو تہذیب کے گھروندے بنتے اور بگڑتے ہیں لیکن وحشی انسان ہمارے ساتھ ساتھ ہے، ہمارا ہمزاد ہے۔ وہ ہمارے دماغ کی کلوں کو مروڑتا رہتا ہے اور ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں، سوچتے ہیں، محسوس کرتے ہیں، اس میں اس ’دست غیب‘ کا ہاتھ ہے۔ ’’رہے لوگ جنہوں نے اپنے مطالعوں کے سلسلہ میں اس معاملے میں تفتیش کی ہے، جانتے ہیں کہ ہمارے پاؤں کے نیچے کتنی گہرائی تک ان دیکھی طاقتوں نے زمین میں جال بچھا رکھا ہے۔‘‘ ان قدیم طاقتوں میں سے ایک توہم پرستی ہے۔ قدیم انسان کی ہر بات، اس کے ہر فعل میں توہم پرستی کا جلوہ تھا۔ دوا اور جادو کے علاوہ اس کے سارے میدان عمل میں توہم پرستی کا جال پھیلا ہوا تھا اور یہ جال آج بھی پھیلا ہوا ہے۔ چیزیں بدل گئی ہیں، شکلیں بدل گئی ہیں لیکن توہم پرستی نہیں بدلی ہے۔

    سائنس کی روشنی میں توہم پرستی سم قاتل ہے، لیکن اس کی روشنی سے بہت کم لوگ مستفید ہوئے ہیں اور افسوس یہ ہے کہ سائنس بھی توہم بن جاتا ہے۔ بہر کیف، زیادہ سے زیادہ آدمی قدیم توہم پرستی کے آج بھی شکار ہیں۔ دماغی اور جذباتی طور پر وحشی سے مختلف نہیں۔ وہ ابھی تک دنیا کو وحشی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ رچرڈز کا کہنا ہے کہ فطرت ان کی نظر میں جادو کی جولان گاہ ہے۔ قدیم آدمی توہم پرست تھا اور وہ اپنی توہم پرستی سے شرمندہ نہ تھا۔ جو اپنے کو تہذیب یافتہ سمجھتے ہیں وہ اپنی توہم پرستی کو چھپائے ہوئے ہیں۔ جو سطحی اور ادھوری تعلیم انہیں ملتی ہے اس سے انہیں تہذیب یافتہ ہونے کا دھوکا ہوتا ہے۔ انہیں یہ معلوم نہیں کہ یہ تہذیب کی جلا سطحی ہے اور دماغ ابھی تک مہذب نہیں۔

    ہمیں اپنے ذی عقل ہونے پر بہت ناز ہے، لیکن ہماری عقل میں توہم پرستی نے ہزراوں چھید کردیے ہیں۔ بے عقلی ہمیشہ گھات میں لگی رہتی ہے موقع ملا اور باہر نکل آئی۔ ہماری کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے خیالات، جذبات اور اعمال میں عقل کی جلوہ گری ہو۔ ’’لیکن صرف عقل کی ہی نہیں۔‘‘ لیکن ایسا کم ہوتا ہے۔ بے عقلی ہمیں گمراہ کردیتی ہے۔ ہندوستان میں جو کچھ ہوا، دنیا میں جو کچھ ہوچکا اور ہورہا ہے اس حقیقت کا اٹل ثبوت ہے۔ ہماری راہ نجات تنقید ہے جو صحیح تعلیم کی صورت میں ہمیں توہم پرستی سے بچا سکتی ہے، جو توہم پرستی کی ماہیت، اس کی نت نئی شکلوں اور اس کی خونخواریوں کو ہمارے دماغ کی گہرائیوں سے نکال کر دن کی روشنی میں ظاہر کرسکتی ہے۔

    کچھ بیماریاں تو ہمیں وراثت میں ملی ہیں اور کچھ ہمیں لگ جاتی ہیں۔ تفصیل کی نہ ضرورت ہے نہ گنجائش۔ یہ جراثیم بے شمار ہیں اور مختلف قسموں کے ہیں اور دیکھنے میں اتنے بھلے معلوم ہوتے ہیں کہ آنکھیں حیرت میں پھنس جاتی ہیں اور یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ جراثیم حقیقتاً مہلک ہیں۔ وہ فاشزم کے جراثیم ہوں یا کمیونزم کے، شہنشاہیت کے جراثیم ہوں یا تنگ نظر وطنیت کے، نسلی برتری اور نسلی نفرت کے جراثیم، مشینری اور کاروباری اخلاق کے جراثیم، غرض طرح طرح کے جراثیم دماغ کی دنیا کو تباہ و برباد کرتے رہتے ہیں۔ ان سے نجات آسان نہیں اور مشکل تو یہ ہے کہ ان بیماریوں کا کسی کو علم بھی نہیں۔ پھر ان جراثیم کی حمایت میں بڑی بڑی طاقتیں جمع ہیں۔ ذاتی یا قومی لالچ، غرور اور طاقت کا نشہ ان جراثیم کی پرورش کرتے ہیں۔ اس لئے انہیں دفع کرنا اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

    لیکن ہمیں ان جراثیم کو مارنا ہے۔ ایک ذریعہ تو تعلیم ہے جس کا ذکر ہوچکا اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جہاں بھی ان بیماریوں کی علامتیں نظر آئیں، ان علامتوں کا ’علاج‘ کیا جائے اوراور یہ تنقید ہی سے ممکن ہے۔ اس ’علاج‘کے ساتھ ساتھ صحت مند خیالات کی ترویج بھی ضروری ہے اور اس مفید اور اہم کام میں ادب گراں قدر خدمت انجام دے سکتا ہے اور ہمارے دماغ کو صحت مند بناسکتا ہے۔ ازراپاؤنڈ نے کہا ہے، ’’اس (ادب) کا تعلق ہر خیال اور رائے کی صفائی، زور اور صحت سے ہے۔ اس کا تعلق ’اوزار‘ کی صفائی سے ہے، خیال کے مواد کی صحت سے ہے۔ صرف کبھی کبھار سائنس کے کم یاب اور محدود ایجادوں میں، یا ریاضی میں لفظوں کے بغیرکوئی آدمی نہ سوچ سکتا ہے اور نہ اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ حاکم اور قانون بنانے والا لفظوں کے بغیر قانون نہیں بنا سکتا اور ان لفظوں کی صحت اور وزن ان جہنم نصیب ادیبو ں کے ہاتھ میں ہے جنہیں نظر حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ جب ان کا کام سڑ جاتا ہے، میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ عریاں ہو جاتا ہے، جب ذریعۂ اظہار، الفاظ و خیالات کی موزونیت کا جوہر سڑ جاتا ہے، یعنی الفاظ میں گدلاپن، نادرستگی، بے اعتدالی ورم اور اس قسم کی خرابیاں آ جاتی ہیں تو سماجی اور شخصی خیالات و نظام کی دنیا تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔‘‘ 

    تنقید ان خرابیوں کو جانتی ہے، ان کے اسباب کاپتہ چلاتی ہے اور ان کا علاج کرتی ہے۔ تنقید کو ان علامتوں کا شعور ہے اور وہ ہر مخصوص علامت کے ذہنی پس منظر سے واقف ہے اور ادب کو صحت مند بناکر سماجی اور انفرادی صحت کی بنا ڈالتی ہے۔ یہ تو مانی ہوئی بات ہے کہ ادب زندگی کا آئینہ ہے۔ ذہنی زندگی کی بیماری اس آئینہ میں دکھائی دیتی ہے۔ صرف ادب ہی نہیں بلکہ ہر قسم کی تحریروں میں یہ بیماری جھلکنے لگتی ہے۔ اس وقت تنقید کی ضرورت ہوتی ہے۔

    رچرڈز نے کہا ہے، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے غیر عملی کاموں، جیسے آرٹ یا تنقید میں مشغول ہونا گویا ایسا ہے کہ کسی جہاز میں جس میں کام کرنے والے آدمیوں کی کمی ہو محض سفری بنے رہنا۔ کچھ لوگوں کے بارے میں یہ بات سچ ہے جو ایسے کاموں میں اپنے کو مشغول رکھتے ہیں، لیکن تنقید کو تعیش کی تجارت سمجھنا غلط ہے۔ سماج کا پچھلا حصہ تعلیم نہیں پاسکتا جب تک کہ اگلا حصہ آگے نہ بڑھ جائے۔ درون بینی اور ادراک ابھی کمیاب ہیں۔ نقاد، ہم نے کہا ہے، دماغ کی صحت سے اسی قدر لگاؤ رکھتا ہے جتنا لگاؤ ڈاکٹر کو جسم سے ہوتا ہے۔ نقاد ہونا قدروں کا جج ہونا ہے۔ کیونکہ آرٹ۔ آرٹسٹ کی مرضی سے قطع نظر فطری طور پر زندگی کی تعریف و تحسین ہے۔‘‘ لیوسؔ کا کہنا ہے، ’’ادبی تنقید کو ادب کے علاوہ اور کسی چیز سے بھی واسطہ ہے۔ ادب سے سنجیدہ دلچسپی محض ادبی نہیں رہ سکتی۔ یہ دلچسپی سماجی انصاف اور تنظیم اور کلچر کی صحت کے احساس اور ان میں انہماک سے وابستہ ہوتی ہے۔‘‘ 

    یہی وجہ ہے کہ ادب کو عام ذہنی تربیت کا مرکز بنایا جا سکتا ہے۔ ادب کو سوچ سمجھ کر پڑھنا، مختلف مسئلوں کو حساس، سنجیدہ اور ایماندارانہ طور پر دیکھنا۔ اس طرح سے دماغ کی اچھی اور پوری تربیت ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں اور صرف ادب ہی دماغی اصلاح کا واحد ذریعہ نہیں۔ جس قسم کی بھی تحریر ہو اور بغیر تحریر و تقریر و گفتگو کے دنیا کا کام نہیں چل سکتا۔ ہاں جہاں لفظوں کا استعمال ہوتا ہے وہاں تنقید کی عمل داری ہے۔ دماغی بیماری لفظوں میں جھلک جاتی ہے اور لفظوں کے ذریعہ سے اس بیماری کی ساری علامتیں معلوم ہو جاتی ہیں اور جب علامتیں معلوم ہو گئیں تو پھر علاج بھی دشوار نہیں۔ ظاہر ہو گیا کہ تنقید دماغی صحت کی ذمہ دار ہے۔ اس کا میدان تنگ نہیں وسیع ہے۔ زندگی کی طرح وسیع ہے۔ خیالات، جذبات اور اعمال کی دنیا پر اس کا تصرف ہے۔

    (۵) تنقید اور اخلاقی صحت
    دماغی صحت اور اخلاقی صحت میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر دماغ مریض ہو تو اخلاق بھی صحت مند نہیں ہوسکتا۔ مثلاً اگر کسی دماغ میں بڑے کاروبار کے جراثیم گھس جائیں تو ان کا اثر فوراً اخلاق میں ظاہر ہوگا یعنی ہمارا اخلاق کاروباری ہو جائےگا اور ظاہر ہے کہ صحت مند اخلاق اور کاروباری اخلاق میں وہی فرق ہوگا جو اقلیدس کی سیدھی لکیر اور بھول بھلیاں میں۔ تنقید سیدھی لکیر اور بھول بھلیاں کا فرق بتاتی ہے۔ ہمیں اس فرق کا کم علم ہوتا ہے اور اگر ہوا بھی تو برابر سیدھی لکیر کو بھول بھلیاں پر ترجیح نہیں دیتے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اخلاق کی بنیاد اس تمیز پر ہے جو میدان عمل میں مختلف چیزوں میں فرق کرنا اور ایک چیز کو دوسری چیزپر ترجیح دینا سکھاتی ہے۔

    اخلاق خلا میں سانس نہیں لیتے اور نہ لے سکتے ہیں۔ ان کے وجود کے لئے سماجی نظام ضروری ہے۔ قدیم سماجی نظام پر غذا کی تلاش اور جنسی میلانات نے گہرا اثر ڈالا تھا۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اخلاق کا تعلق صرف جنسی تعلقات سے ہے لیکن یہ خیال درست نہیں۔ اصل یہ ہے کہ قدیم انسان کے میدان عمل میں دو چیزوں کی حکومت تھی۔ مادی ضرورتیں اور مجبوریاں ایک طرف تو روحانی آزادی دوسری جانب کار فرما تھی۔ اخلاق کا مرکزی مسئلہ یہ دیکھنا ہے کہ انسانی ترقی میں سمجھ بوجھ اور شعوری مقصد کا کیا حصہ ہے۔

    وحشی کو زندگی کی باطنیت کا شعور ہے لیکن وہ اس شعور کو ترقی نہیں دیتا اور نہ دے سکتا ہے۔ بات یہ ہے کہ اسے غوروفکر کی مہلت کم ملتی ہے، یوں سمجھئے کہ گویا ملتی ہی نہیں۔ اس کی زندگی میں تنہائی کے مواقع کم آتے ہیں۔ وہ کسی خلوت میں بیٹھ کر اپنی اندرونی زندگی پر غوروفکر نہیں کرتا، اپنی روح سے تنہائیوں میں ہم کلام نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے اس کی اندرونی زندگی ادھوری سی رہ جاتی ہے اور اس کے اخلاق کی بنا روحانی آزادی پر نہیں ہوتی۔ یہ روحانی آزادی غور و فکر سے ہی حاصل ہو سکتی ہے اور غوروفکر کی اسے فرصت نہیں ملتی۔ لازمی طور پر اس کے اخلاق کا سرچشمہ خارجی چیزیں ہوتی ہیں۔ یہ خارجی چیزیں رواج اور مذہب ہیں۔ اگر کسی وحشی سے آپ اس کے فعل کی وجہ پوچھئے تو وہ کوئی معقول وجہ نہیں بتا سکےگا۔ وہ تو بس جو اور لوگ کرتے ہیں، اس کی نقالی کرتا ہے۔ اس طرح اخلاق عادت کا دوسرا نام ہو جاتا ہے۔ جس چیز کا رواج ہے وہ درست ہے۔ وحشی بس اسی اصول کی پابندی کرتا ہے۔ کیپٹن کک نے دریافت کیا تھا کہ سردار الگ کیوں کھاتے ہیں۔ جواب ملا، یہی رواج ہے اور اس لئے درست ہے۔

    اخلاق، ڈیوئی کہتا ہے، ’’رواج ہے، عوامی طریق کار ہے۔ محکم جماعتی عادتوں کا نام ہے۔ اینتھروپولوجسٹ کے لئے یہ پیش پا افتادہ حقیقت ہے۔ ہمیشہ اور ہر جگہ رواج انفرادی عمل کا معیار ہیں۔ یہی وہ نقشہ ہیں جس میں انفرادی اعمال بنے جاتے ہیں۔ یہ بات آج بھی اسی قدر صحیح ہے جیسے یہ کبھی پہلے تھی۔ رواج ہی اخلاقی معیاروں کی بنیاد ہیں۔‘‘ 

    مہذب انسان بھی کچھ وحشی جیسا ہے۔ وہ بھی عادت کا بندہ ہے اور جو بات ہوتی ہے اسے بے سمجھے بوجھے قبول کر لیتا ہے۔ وحشی کی طرح وہ بھی جو رواج ہے اسی کے مطابق کام کرتا ہے۔ اگر اس سے پوچھا جائے کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے تو شاید اس کا بھی وہی جواب ہو جو ٹاہیٹی کے باشندے نے کیپٹن کک کو دیا تھا، ’’یہ رواج ہے اور اس لئے درست ہے۔‘‘ لیکن یہ جواب تشفی بخش نہیں ہو سکتا۔ مہذب انسان کی چال یہی ہے کہ وہ اپنے اعمال کے اسباب و نتائج پر غور و فکر کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔ مہذب زندگی غور و فکر کی فرصت، غور و فکر کے مواقع دیتی ہے۔ سمجھ بوجھ کی عادت اسے اندرونی شعور عطا کرتی ہے اور خارجی اثرات کے پردے میں جو اندرونی اصول کار فرما ہیں، ان کا بھید بتاتی ہے۔ یہ تنقید کا کرشمہ ہے کہ وہ غور و فکر پر جلا دیتی ہے۔ ہماری سوجھ میں بوجھ کا عنصر داخل کرتی ہے اور ہماری تمیز کی صحیح تربیت کرتی ہے۔

    عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ وحشی اپنے میلانات وخواہشات کا بندہ ہوتا ہے اور وہ ان کی روک تھام نہیں کر سکتا۔ یعنی سماجی تہذیب سے وہ دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتا ہے یہ خیال درست نہیں۔ وحشی کے چاروں طرف رواج کا بہت پیچیدہ جال بچھا ہوتا ہے جو بہت سی باتوں میں اس کی روک تھام کرتا ہے۔ یہ خیال کہ وحشی نہایت خونخوار اور خونریز ہوتا ہے حقیقت سے دور ہے،

    ’’وحشی جنگ جو نہیں ہوتے۔ البتہ وہ یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بہت خونخوار ہیں۔ وہ مشکل سے جنگ و جدل کے لئے آمادہ ہوتے ہیں اور جب آمادہ بھی ہو جاتے ہیں تو بہت سے مذہبی عقاید اور جادو کے رسومات جنگ و جدل میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور اس کے اثر کو محدود کر دیتے ہیں۔ مشرقی افریقہ کی سب سے خونخوار قوموں میں بہت کم خون بہایا جاتا ہے۔ اسپیکؔ نے ایک جنگ کا ذکر کیا ہے جو تین سال تک جاری رہی۔ اس میں طرفین کے تین آدمی کام آئے۔ دنیا کے ہر حصے میں بہت سی قومیں ہیں جو لڑتی جھگڑتی نہیں، یا بہت کم، اور اگر یہ خیال درست ہوتا کہ قدیم قومیں ہمیشہ خوفناک قسم کی جنگ میں مصروف رہتی ہیں تو انسانیت باقی نہیں رہتی۔ قدیم انسان آپس میں جھگڑے کیسے کرتا۔ اس کے تو بہت بڑے دشمن تھے اور ان دشمنوں سے بچنے میں، آپس میں لڑنے کے لئے نہیں، اسے مل جل کر کام کرنا پڑا۔‘‘ 

    ظاہر ہے کہ یہ تصور کہ وحشی اپنے میلانات کا بندہ ہے کچھ رومانی قسم کا ہے، حقیقت سے دور۔ وہ بھی مہذب انسان کی طرح اپنے جذبات و خواہشات پر قابو رکھتا ہے۔ اپنے میلانات کے بہاؤ کو روکتا ہے اور اس کا رخ دوسری طرف پھیر دیتا ہے لیکن یہ روک تھام عادت اور رواج کی بنا پر ہوتی ہے۔ تربیت یافتہ تمیز کی بنا پر نہیں ہوتی۔ اچھی بری باتوں کی پہچان، اندرونی اصول کی چھان بین، قدروں کی تمیز یعنی تنقید، آزاد و زندہ یقین کی اس کی ذہنی دنیا میں حکومت نہیں ہوتی۔ اور مجھے کہنے دیجئے کہ مہذب انسان کی ذہنی دنیا میں بھی صحیح، آزاد اور زندہ تنقید کی حکومت کم دکھائی دیتی ہے۔ وہ بھی سمجھ بوجھ سے کم کام لیتا ہے۔ سنی سنائی باتیں، دوسروں کے اشارے، جذبات کی رو، ذہنی و جذباتی عادتیں، غرض اس قسم کی چیزیں محرک عمل ہوتی ہیں۔ وہ سوچتا سمجھتا نہیں، ذلیل و معیوب حرکتوں کا مرتکب ہوتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ کوئی بہت اچھا اور بزرگ کام کر رہا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے زمانے میں نئے نئے سپاہیوں کے سامنے ایک انگریزی جنرل نے کچھ اس قسم کی تقریر کی تھی،

    ’’ذرا سوچو تو کہ زخمی جرمن سپاہی سے دین ودنیا کا بھلا کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ وہ آج اسپتال میں علاج کے لئے بھرتی ہوتا ہے، اورکل بھلا چنگا ہوکر پھر میدان میں جنگ تمہارے مقابلے میں آ کھڑا ہوتا ہے۔ دیکھو تو ہمیں اس سے نقصان پہنچتا ہے۔ ہاں تو جب تم کسی زخمی کو پڑا ہوا دیکھو تو اسے وہیں مار ڈالو۔ اس پر بھروسہ کرنا نری حماقت ہے۔ اگر تم نے اسے چھوڑ دیا تو یاد رکھو کہ موقع ملتے ہی وہ تمہیں یا تمہارے عزیز ساتھی کو گولی کا نشانہ بنا دےگا۔ جرمنوں کی بزدلی کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی سنگینوں سے بس اسی وقت مصرف لیتے ہیں جب ہمارا کوئی زخمی سپاہی مجبوری وبے کسی کے عالم میں خاک و خون میں پڑا ہوا ہوتا ہے اور جب وہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتا۔ یہ بزدل اپنی سنگین اس کے سینے میں بھونک دیتے ہیں۔ جب تم جرمنوں کو ایسی حرکت کرتے دیکھتے ہو تو پھر تمہیں ان سے کسی قسم کی ہمدردی ہو سکتی ہے؟ نہیں، بس ان بے رحموں کو مار ڈالو۔ ایک ایک کرکے مار ڈالو۔ یاد رکھو کہ بس تمہارا یہی ایک فرض ہے کہ تم انہیں مار ڈالو۔ سلامتی کا بس یہی ایک راستہ ہے کہ تم ان ناپاک ہستیوں کو فنا کر دو۔‘‘ 

    غالباً اس تقریر کا بہت گہرا اثر ہوا ہوگا اور انگریزی سپاہیوں نے اس پر عمل بھی کیا ہوگا اور بہت سے جرمنوں کو جب وہ مجبور و بے کس خاک و خون میں پڑے ہوئے ہوں گے، اپنی سنگینوں سے ہلاک کر دیا ہوگا۔ کسی کے دل میں یہ خیال بھی نہ گزرا ہوگا کہ ذرا دیکھئے تو کہ کیا بات کہی گئی ہے اور اس کی اخلاقی نقطۂ نظر سے کیا قدروقیمت ہے۔ کسی غور و فکر کی اسے ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی ہوگی، ’’مجھے تو خو ہے کہ جو کچھ کہو بجا کہئے۔‘‘ 

    اس تقریر کا ماحصل یہ ہے کہ زخمی جرمن سپاہیوں کوقتل کر دو، کسی کو زندہ نہ چھوڑو۔ وہ مجبور و لاچار خاک و خوں میں تڑپ رہے ہوں، اپنے بچاؤ کی سکت نہ رکھتے ہوں لیکن رحم دلی سے، انسانیت سے کام نہ لو۔ درندے بن جاؤ، بے دریغ انہیں مار ڈالو۔ ان کے سینوں میں اپنی سنگین بھونک دو، بھونک دو۔ اس قسم کی تلقین کو اخلاق سے، انسانیت سے، عقل سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ جو شخص ایسی باتیں کر سکتا ہو، جو لوگ ایسی باتیں سن سکتے ہوں اور ان پر عمل بھی کر سکتے ہوں، انہیں کیسے مہذب شمار کیا جا سکتا ہے اورجو تہذیب اس قسم کی باتیں روا رکھتی ہے، وہ کیسی تہذیب ہوگی؟ جن وحشیانہ حرکتوں کا الزام جرمنوں پر رکھا جاتا ہے ہے انہیں وحشیانہ حرکتوں کی ترغیب دی جاتی ہے اور شاید یہ احساس بھی نہیں ہو تاکہ اس قسم کی مہمل و مضحک حرکت سرزد ہوئی ہے۔ اگر بولنے والے کو اس حقیقت کا احساس ہوتا اور وہ صحیح معنی میں مہذب ہوتا تو وہ خودکشی کر لیتا اور اگر سننے والے مہذب ہوتے اور سمجھتے کہ انہیں کس چیز کی ترغیب دی جا رہی ہے تو جرمنوں سے پہلے وہ بولنے والے کو اپنی سنگین کا نشانہ بنا ڈالتے۔

    لڑائی کا زمانہ تھا، ایسے زمانہ میں وطن پرستی کا جذبہ جوش پر ہوتا ہے۔ یہ تو فطری بات ہے کہ ہر شخص اپنے وطن سے محبت کرتا ہے۔ اسے ہر قسم کے خطرے سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے اور اپنے وطن کی حفاظت میں اپنی جان بھی قربان کردینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ یہ جذبہ کچھ ایسا زبردست ہوتا ہے کہ تمیز، سمجھ بوجھ، تہذیب، کلچر، تنقید سبھوں کو وقتی طور پر معطل کر دیتا ہے۔ اس تقریر میں اس جذبہ کے علاوہ اور بھی کئی احساسات کو بھڑکایا گیا ہے۔ ذاتی سلامتی کا احساس بہت قوی ہوتا ہے۔ اسے بھی اکسایا گیا ہے، ’’اگر تم نے اسے چھوڑ دیا تو یاد رکھو کہ موقع ملتے ہی وہ تمہیں یا تمہارے عزیز ساتھی کو گولی کا نشانہ بنا دےگا۔‘‘ ذاتی سلامتی کے احساس کے ساتھ ساتھ دوستی کے جذبے کو بھی بھڑکایا گیا ہے۔ اگر تمہیں اپنی سلامتی کی پروا نہیں تو نہ سہی، اپنے ساتھیوں کی سلامتی کی حفاظت تو تمہارا فرض ہے اور پھر ان چیزوں کے ساتھ، بولنے کا طریقہ ایسا ہے گویا بہت سلجھی ہوئی اور عقلمندی کی باتیں کہی جا رہی ہیں اور جو انہیں نہ مانے وہ نرا احمق ہے اور ظاہر ہے کہ احمق بننا کوئی پسند نہیں کرتا۔ گویا ایک مکر وہ کام کے لئے کیا کیا جتن کئے گئے ہیں، کیسی کیسی ترکیبیں کام میں لائی گئی ہیں۔

    یہ تقریر انسانی اخلاق کے نقطۂ نظر سے گناہ عظیم کہی جا سکتی ہے، لیکن ہم آئے دن ایسے کتنے اخلاقی گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور وہ صرف اس لئے کہ اپنے میلانات و خواہشات، اپنے احساسات، اپنی ذہنی اور جذباتی عادتوں سے مجبور ہو جاتے ہیں اور قوت تنقید سے کام نہیں لیتے۔ عقل رہتے ہوئے بھی ہم عقل سے کام نہیں لیتے۔ یعنی تہذیب کی منزلوں کو طے کر لینے کے بعد بھی ہم مہذب نہیں ہوپا تے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اخلاق کی کجی درست نہیں ہوتی اور یہ کجی صرف خاص خاص وقت نمایاں نہیں ہوتی، بلکہ یہ کجی ہمارے ہر قول وفعل میں، ہمارے سماجی اداروں میں، ہمارے ذاتی اور سماجی تعلقات میں، زندگی کے ہر شعبے میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ تنقید کی دین ہے جو ہم اس اخلاقی کجی کو پہچان لیتے ہیں اور اسے پہچان کر درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    ایک دوسری قسم کی مثال لیجئے، ’’کسی نے بھی دیکھا نہیں کہ کیا ہوا۔ ابھی وہ لڑکا فٹ پاتھ پر کھیل رہا تھا اور ابھی وہ زمین پر تھا۔ اسپتال میں ڈاکٹر کی ایک نظر کافی تھی۔ اس نے کہا، اس بچے کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ اسے ’انٹی وِنم سیرم‘فوراً ملنا چاہیے ورنہ یہ مر جائےگا۔ ایک ایک کرکے سارے اسپتالوں اور دواخانوں میں دریافت کیا گیا۔ ہر جگہ سے ایک ہی جواب ملا، دوا موجود نہیں۔ یہاں تک کہ اسمتھ کی پکڈلی والی دوکان میں بھی اس دوا کی آخری شیشی اسی روز بک گئی تھی۔ لیکن اسمتھ صرف نہیں کہہ کر کیسے بیٹھ رہتا۔ وہ قومی کیمسٹ تھا۔ اس کا فرض تھا کہ جیسے بھی ہو وہ یہ دوا منگا دے۔ اب اس میں جتنا بھی خرچ ہو۔ ایک زندگی کا سوال تھا۔ اس جان کو بچانا اس کا کام تھا۔

    اسپتال کے پاس گرجا کی گھڑی نے آٹھ بجائے۔ مریض بچے کے پاس ڈاکٹر کھڑا ہوا اس ننھی سی جان کے مدوجزر کو دیکھ رہا ہے۔ آٹھ بج کر پانچ منٹ ہو گئے۔ کیا وہ ’’سیرم‘‘ کبھی نہیں آئے گا۔ یکایک رات کی تاریکیوں میں سے ایک موٹر کی آواز سنائی دی۔ پھر ہورن بجا۔ لوٍ! دوا مل گئی۔ پانچ منٹ کے اندر اندر بچے کو دوا دے دی گئی اور وہ ننھی سی جان بچ گئی۔ کچھ دیر کے بعد ڈاکٹر نے کہا، یہ جان بال بال بچی ہے۔ لیکن یہ کیسا شاندار کارنامہ تھا!

    آپ سمجھتے ہوں گے کہ میں نے یہ سطریں کسی افسانے یا ناول سے نقل کی ہیں۔ آپ کو یہ سن کر شاید تعجب ہوگا کہ یہ عبارت ایک اشتہار سے نقل کی گئی ہے اور اس کی غرض و غایت یہ ہے کہ آپ اسمتھؔ کی دوکان سے دوائیں خریدیں۔ اس کاروباری مقصد کے لئے اتنا بڑا طوفان کھڑا کیا گیا ہے۔ اس سے ہمارے اخلاق پر کافی روشنی پڑتی ہے کہ ہم اس قسم کی اشتہار بازی روا رکھتے ہیں۔ اس قسم کے اشتہار سے متاثر ہوتے ہیں اور اسمتھؔ جیسے لوگوں کو دولت جمع کرنے کا موقع دیتے ہیں۔

    ایک مکروہ فعل کے لئے کیا کیا ترکیبیں کام میں لائی گئیں ہیں۔ اگر کسی شخص پر کوئی مصیبت آجاتی ہے تو ہم فطری طور پر اس سے ہمدردی کرتے ہیں اور اگر اس کی جان خطرے میں ہے تو ہماری ہمدردی میں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر اگر کسی معصوم بچے کی جان کا سوال ہو تو ہماری ہمدردی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ یہاں ایک بچے کی جان خطرے میں ہے اور پھر یہ آفت اچانک آتی ہے۔ ابھی وہ صحت مند تھا۔ زندگی اس کی رگوں میں دوڑ رہی تھی۔ بیماری یا موت کا گمان بھی نہ تھا اور ابھی ہم اسے جاں بلب پاتے ہیں۔ ہمدردی کا جذبہ اپنے سارے جوش و خروش کے ساتھ ابھرتا ہے۔ پھر ہمیں عالم انتظار کی جان کنی میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ ایک ایک کرکے سارے اسپتالوں اور دوا خانوں میں دوا تلاش کی جاتی ہے اور نہیں ملتی اور ہم ہیں کہ انتظار میں ہیں۔ انتظار کی شدت بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ گرجے کی گھنٹی آٹھ بجاتی ہے۔ پھر پانچ منٹ اور گزر جاتے ہیں، رہی سہی امید ختم ہوجاتی ہے۔ اس مایوسی کے عالم میں جب کوئی آس نہیں رہتی، اس وقت یکایک دوا آجاتی ہے اور اس بچے کی جانچ بچ جاتی ہے اور ہماری مایوسی خوشی سے بدل جاتی ہے۔

    یہ سب کچھ ہوتا ہے اور کس لئے، غرض بس یہ ہے کہ آپ اسمتھ کی دوکان سے دوائیں خریدیں۔ براؤن یا جونسؔ کی دوکان کی طرف بھول کر بھی رخ نہ کریں۔ یہ سب ہوتا ہے اور اس طمطراق سے ہوتا ہے کہ ڈر ہوتا ہے کہ اصل غرض کہیں نہ پوری ہوں۔ اس لئے اس کی طرف بھی توجہ ضروری ہے اور پوری توجہ ہے اور یہ اس صفائی اور چالاکی سے ہوتاہے کہ ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ کیا ہو رہا ہے۔ سارے اسپتال اور دواخانوں میں دوائیں نہ ملیں تو نہ ملیں لیکن اسمتھ کی دوکان میں ضرور رہتی ہیں۔ اب اسے کیا کیجئے کہ آخری شیشی اسی روز بک چکی ہو۔ یہ تو خیر قسمت کا پھیر تھا لیکن اسمتھؔ صرف قسمت! قسمت! کہہ کر چپ کیسے بیٹھ رہتا۔ وہ تو قومی کیمسٹؔ ہے۔ دوکان اس نے دولت کمانے کے لئے تو کھولی نہیں ہے۔ اس کی غرض تو خدمت خلق ہے۔ اب جتنا بھی خرچ ہو یہ اس کا فرض ہے کہ دوا منگا دے اور وقت پر منگا دے۔ اب اس کام میں موٹر کار، ریل گاڑی، ہوائی جہاز کا جو کچھ بھی کرایہ ادا کرنا پڑے اور جب وہ ننھی سی جان بچ جاتی ہے تو ممکن ہے کہ اس خوشی میں آپ اسمتھؔ کو بھول جائیں لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے۔

    ڈاکٹر کہتا ہے، یہ کیسا شاندار کارنامہ تھا! یہ شاندار کارنامہ اسمتھؔ کا تھاکہ س نے وقت پر دوا منگا دی۔ ہزاروں روپے خرچ کرکے دوا منگا دی اور وہ ننھی سی جان بچ گئی۔ اسمتھؔ کی دوکان آمدنی کا ذریعہ نہیں۔ یہ دوکان تجارتی اصول پر نہیں چلائی جاتی۔ یہ تو صرف قوم کی خدمت کا ایک ذریعہ ہے۔ فیاضی کی عملی شکل ہے۔ بچوں، نوجوانوں، بوڑھوں کی جانیں سلامت رہیں۔ لوگوں کی تندرستی بنی رہے اور بس!

    بیسویں صدی میں اشتہار پر کافی پیسے خرچ کئے جاتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ تاجر اور کاروباری لوگ بہت فیاض ہیں۔ یہ گویا روٹی کو دریا میں ڈالنا ہے۔ جو ہمیں ہزار گونہ اضافہ کے ساتھ لوٹ آتی ہے۔ اگر اسمتھؔ نے ہزاروں روپے خرچ کرکے دوا منگا دی تو صرف اس لئے کہ یہ بھی بہت اچھا اشتہار تھا۔ اپنی نوعیت کا سب سے الگ اور اعلیٰ۔ اس میں نہ تو قومی خدمت کا سوال پیدا ہوتا ہے اور نہ فیاضی کو اس میں کچھ دخل ہے۔ اسمتھؔ کی قومی خدمت، رحم دلی اور فیاضی ثابت کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ایک بچے کو سانپ کاٹ لے۔ یہ سانپ آیا کہاں سے؟ اور کسی اسپتال اور دوا خانے میں وہ دوا موجود نہ ہو، اور یہ بھی ضروری ہے کہ خود اسمتھؔ کی دوکان سے اس دوا کی آخری شیشی اسی روز بک گئی ہو۔ اگر سانپ نہ کاٹتا، اگر کسی اسپتال یا دوا خانے میں وہ دوا مل جاتی، اگر خود اسمتھؔ کی دوکان میں اس دوا کی آخری شیشی موجود ہوتی تو پھر اسمتھؔ کا اشتہار کیسے ہو سکتا تھا! صرف ایک دوکان کے اشتہار کے لئے ہمارے جذبات سے کھیلا گیا ہے، ہماری عقل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی اور اس کام کے لئے ادبی ترکیبوں سے ناجائز مصرف لیا گیا ہے۔

    اس قسم کا اشتہار بدترین قسم کا اخلاقی جرم ہے، لیکن اس قسم کے بے شمار جرائم ہوتے رہتے ہیں اور ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی۔ زندگی کے ہر شعبے میں اس قسم کے جرائم کی بےشمار مثالیں ملیں گی۔ گزشتہ جنگ عظیم یا کسی جنگ کے زمانے میں، اقوام متحدہ کی مجلسوں اور ان کی بکواسوں میں، ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم اور ان کے تعلقات میں، حیدرآباد اور کشمیر کے جھگڑوں میں، ہندی، ہندوستانی اور اردو کی بحثوں میں، علمی اداروں، یونیورسٹیں اور کالجوں کی کاروائیوں میں، گورننگ بوڈی، سینٹ، سنڈیکٹ، ڈسٹرکٹ بورڈ اور اسمبلی کے انتخابوں میں، طالب علموں کی اسٹرائیکوں اور کمیونسٹوں کی ریشہ دوانیوں میں، غرض زندگی کے ہر شعبہ میں اخلاقی کمی نظر آتی ہے اور ہم ایسے مطمئن ہیں کہ جیسے خرابی کا نام و نشان بھی نہیں۔ ہمیں وہ تمیز کہاں کہ ہم کجی کو کجی سمجھیں، وہ اخلاقی جرأت کہاں کہ اخلاق کی خامیوں کو درست کریں۔ یہ تمیز، یہ جرأت ہمیں تنقید سکھاتی ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ اخلاق، اخلاقی نظریوں، اخلاقی قوانین کے لئے کوئی سائنٹفک جواز نہیں۔ سائنس ہمارے لئے نت نئے واقعات، نت نئی معلومات مہیا کرتا ہے لیکن اخلاقی قدریں سائنس کی قلم رو سے باہر ہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ قدروں کا کوئی سائنٹفک جواز نہیں ہو سکتا۔ سائنٹفک جواز ممکن ہو یا نہیں، یہ تو مانی ہوئی بات ہے کہ ہم کچھ چیزوں کی زیادہ قدر کرتے ہیں اور کچھ چیزوں کی کم۔ بعض چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے ہم کافی وقت صرف کرتے ہیں اور اپنی پوری طاقت سے کام لیتے ہیں۔ طرح طرح کی مشکلوں اور زحمتوں کا سامنا کرتے ہیں اور بعض چیزوں کے لئے ہم کچھ بھی نہیں کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قدریں ہیں اور ہمیں قدروں کی پہچان ہے اور یہ بات ہر سماجی نظام میں ملتی ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جو چیز سماجی نظام کو قائم رکھتی ہے وہ یہی قدریں ہیں جن کا احساس ہر فرد کو ہوتا ہے، ’’جب کبھی کوئی شخص کہتا ہے، مجھے ایسا کرنا ہے اور جب وہ اپنے قول کے معنی پر غور کرتا ہے تو اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کے عمل کے سامنے کوئی اچھائی کا معیار ہے۔ اخلاقی احساس یا ضمیر یا صحت اور غلطی کا یقین اسے صحیح چیز کو پسند اور غلطی کو رد کرنے کو کہتاہے۔ بلکہ مجبور کرتا ہے۔‘‘ یہ اخلاقی احساس، یہ یقین کہ کچھ چیز اچھی ہے اور کچھ بری۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ اس کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ وحشیوں میں اس یقین کی بنیاد خارجی چیزوں یعنی رواج پر ہوتی ہے۔ مہذب انسان میں یہ فیصلہ سچی اندرونی قوت فیصلہ کا نتیجہ ہے۔

    ’’سائنس ہمیں معلومات دیتا ہے لیکن ان معلومات کے علم کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انہیں آنکھ بند کرکے قبول کر لیں۔ حقیقت کچھ اور ہے۔ یہ جاننا کہ چیزوں کی حقیقت کیا ہے، اس کو بدلنے میں پہلا قدم ہے۔ اس آگاہی کے ساتھ ہی وہ بدلنے لگتی ہیں کیونکہ وہ ایک دوسرے نظام میں داخل ہوتی ہیں جو اچھا یا برا ہو لیکن دور بینی اور فیصلہ کا نظام ہے۔ اخلاق واقعات کی بصیرت کا نام نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بصیرت سے کیا کام لیا جاتا ہے۔ یہ ادراک بتاتا ہے کہ کب ہم واقعات کو مان لیں اور انہیں جاودانی بخشیں اور کب انہیں حالات اور نتائج کو بدلنے میں کام میں لائیں۔‘‘ 

    سائنس اور اخلاق میں یہی فرق ٹھہرا کہ سائنس ہمیں نئی نئی معلومات، نئے نئے واقعات کا احساس عطا کرتا ہے اور اخلاق یہ بتاتا ہے کہ ہم ان معلومات سے کیا مصرف لیں اور ان واقعات کو اچھا سمجھیں یا برا، انہیں مفید سمجھیں یا غیر مفید و مہلک۔ مثلاً سائنس کی ایک دین ہے ایٹمی طاقت۔ لیکن سائنس یہ نہیں بتاتا اور نہ بتا سکتا ہے کہ ہم اس طاقت سے کیا کام لیں۔ یہ تو اخلاقی ہی سکھا سکتا ہے کہ ایٹم بم بناکر انسان اور انسانیت کا خون بہائیں یا اس نئی طاقت کو انسانی ترقی اورانسانی بہبودی کا ذریعہ بنائیں۔ ایٹم بم سے جاپانیوں کو نیست و نابود کرنا۔ اس مہیب غارت گری میں معصوم بچے، عورتیں، بوڑھے سبھی ہلاک ہوئے۔ اور ایٹم بم بھیجتے ہوئے یہ دعا کرنا کہ خدا اس مہیب غارت گری میں کامیابی دے، اس قسم کی حرکت ہمارے اخلاق پر کیا روشنی ڈالتی ہے۔ یہ دیکھنا تو ہمیں تنقید بتاتی ہے۔ تقریباً نہتھے مصر پر دو بڑی فوجی طاقتوں کا حملہ آور ہونا یا ہنگری کے جذبۂ آزادی کو رشیا کا کچل دینا، یہ سب بھی اخلاقی جرائم ہیں۔

    اخلاقی عنصر کے بغیر کوئی سماجی نظام نہیں ہو سکتا اور سماجی نظام کے بغیر کوئی کلچر نہیں ہو سکتا۔ سمجھ بوجھ کر اپنی آزاد خواہش سے، سماج دشمن میلانات کی روک تھام کرنا ہی کلچر کی جڑ ہے، ’’انسانی کلچر وجدانی نہیں۔ اس پر فتح پانے میں کبھی نہ ختم ہونے والی سعی کی ضرورت ہے اور اس میں فطری میلانات کو دبانا پڑتا ہے اور انفرادی تحریک آزادی کو سماجی مقصد کے خیال سے نیچا کرنا اور قربان کرنا پڑتا ہے۔‘‘ یہ مسلسل شعوری سعی ضروری ہے۔ میں نے کہا کہ سائنس نئے واقعات، نئے خیالات، نئی طاقتیں اکٹھا کرتا رہتا ہے، لیکن یہ نہیں بتاتا کہ ہم ان سے کیا، کب اور کیسے کام لیں، ’’یہ سائنس کے بس کی بات نہیں کہ وہ بتائے کہ انسان ان نئی معلومات، نئے خیالات، اختیار کے نئے ذرائع سے کیا کام لے، جن معلومات، خیالات اور ذرائع کی سائنس بارش کر رہا ہے۔ یہ تو انسان کو فیصلہ کرنا ہے، ان سے کیا کرے، اور یہ کیا کرنا ان قدروں کی میزان پر منحصر ہے جو اس کے پاس ہے۔ یہاں مذہب بہت بڑا کارندہ ہو سکتا ہے کیونکہ مذہب ہمیں قدر کی میزان عطا کرتا ہے اور ساتھ ساتھ وہ ایسی روحانی اور جذباتی قوت بھی بخشتا ہے جس کی مدد سے ہم ان قدروں کو عملی طور پر حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘ 

    لیکن مذہب کی آواز مدھم پڑ گئی ہے۔ سائنس کی آواز زیادہ تیز ہے اور اس روشن خیال زمانے میں زیادہ کشش رکھتی ہے۔ اس لئے اخلاقی دشواریوں کو آسان کرنے اور قدروں کی گتھی سلجھانے میں سائنس سے مدد لی جاتی ہے۔ رچرڈزؔ نے ایک سائنٹفک اخلاقی نظام کی تشکیل کی ہے، ’’جو اپنی قدریں بدلتے ہوئے واقعات کے ساتھ بدلتا رہےگا۔ ایسا اخلاق جو سحر ویز نجات، مطلق العنانیت اور مطلقیت سے آزاد ہوگا۔‘‘ وہ نظام یہ ہے، ’’اچھی اور قیمتی چیز تشویق کا عملی اظہار اور ان کے میلانات کی تشفی ہے۔ کوئی چیز اچھی ہے۔ اس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ تشفی بخش ہے اور اچھے تجربے کے یہ معنی ہوئے کہ اس میں ہمارے مہیجات کی تکمیل اور تشفی ہوئی۔ اس کے ساتھ یہ تحدید بھی ضروری ہے کہ ان میلانات کا عملی اظہار اوران کی تشفی دوسرے زیادہ اہم میلانات میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتی۔ اخلاق کا مسئلہ، کس طرح ہم زندگی سے زیادہ سے زیادہ قیمت حاصل کر سکتے ہیں، تنظیم کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ انفرادی زندگی کی تنظیم اور افراد کی ایک دوسرے سے تطبیق۔ اور اس طرح سارے غیر نفسیاتی خیالات سے چھٹکارا مل جاتا ہے اور خیر مطلق اور فوری اعتقاد سے بھی چھٹکارا مل جاتا ہے۔‘‘ 

    دوسری جگہ رچرڈز کہتا ہے کہ سب سے زیادہ قیمتی تجربہ وہ ہوگا، ’’جس میں فرد کی زندگی کے زیادہ سے زیادہ حصہ کی شرکت ہے (جتنے بھی مہیجات ممکن ہوں) اور اس کے ساتھ کم سے کم کشمکش ہو اور اعمال کے زیریں نظاموں میں آپس میں روک ٹوک نہ ہو۔ وہ جتنا زیادہ زندہ رہے جتنی رکاوٹیں کم ہو اتنا اچھا ہے۔‘‘ رچرڈز کی قدریں مقداری ہیں، ’’دیکھنے میں یہ عجیب بات معلوم ہو کہ ہم خیالات کو تجربہ کے حاکموں اور اسباب میں نہیں سمجھتے۔ ایسا کرنا ہی تو روایتی نفسیات کی سب سے بڑی غلطی رہی ہے۔ ذہن ہمارے میلانات کا ملحق رہا ہے، یہ ایک ذریعہ ہے جس سے مختلف میلانات آپس میں مل جل کر رہتے ہیں۔ انسان ذہن مطلق نہیں میلانات کا ایک نظام ہے۔ ادراک انسان کی مدد کرتا ہے۔ اس کا آقا نہیں ہے۔‘‘ 

    یہ ہے رچرڈز کا سائنٹفک اخلاقی نظام، لیکن اس میں بہت سی خامیاں ہیں۔ اگر انسان صرف بدلتے ہوئے احساسات و میلانات کا مجموعہ ہے تو پھر انسانی فطرت میں کوئی باقی رہنے والا عنصر نہیں ہو سکتا۔ کوئی ایسا احساس نہیں ہو سکتا جو نہ بدلے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان بدلنے والے ماحول کے ساتھ ہمیشہ بدلتا رہےگا اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کوئی باقی رہنے والا معیار نہ بن سکےگا۔ پھر رچرڈز کے اخلاقی نظام کی بنیاد گنتی پر ہے۔ اگر کوئی میلان اہم ہے تو صرف اس وجہ سے کہ اس کی تشفی سے زیادہ سے زیادہ دوسرے میلانات کی تشفی وابستہ ہے۔ اگر زید اور عمر کے مزاج میں، ان کی جذباتی ساخت میں بنیادی فرق ہے تو پھر ہم کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں۔ مثلاً شیر اور گائے کو لیجئے۔ شیر کے احساسات و میلانات ایسے ہیں جن سے سماج کے نظام میں دشواری پیدا ہوتی ہے اور ان میلانات کی تشفی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دوسرے افراد کے میلانات خطرے میں پڑ جائیں گے۔ بلکہ ان کی زندگی خطرے میں پڑ جائےگی۔ لیکن اگر ہم شیر سے یہ کہیں کہ وہ گائے ہو جائے تو شاید وہ ہماری حماقت پر ہنسنے لگے اور یہ کہنا کہ شیر گائے کے مقابلہ میں کم میلانات کی تشفی حاصل کرتا ہے کچھ یوں ہی سا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اس اخلاقی نظام میں کام نہیں چل سکتا ہے۔ ایسا اخلاق گویا اخلاق کی نفی ہے۔ اس سے ہمیں کوئی معیار نہیں ملتا جس سے ہم کسی چیز کی جانچ کر سکیں۔

    یہ تو ہمیں ماننا ہوگا کہ انسانی فطرت کی گہرائیوں میں کوئی زندہ حقیقت ہے، کوئی اندرونی چیز ہے جس پر خارجی ماحول کا وہ سماجی، سیاسی، اقتصادی جو کچھ بھی ہو، اثر ہوتا ہے لیکن جو خارجی حقیقتوں پر بھی اثر ڈالتی ہے اور انہیں نئی نئی شکلیں عطا کر سکتی ہے۔ پھر یہ بھی ماننا ہوگا کہ خیال کی خاص اہمیت ہے اور رچرڈز کے نظام میں اس کی کوئی جگہ نہیں۔ ہم سوچتے ہیں، اپنے اندرونی احساسات و میلانات پر غور کرتے ہیں، اور یہی صلاحیت ہمارے مہذب ہونے کی دلیل ہے۔ یہ خیال ہے جوخارجی چیزوں سے ہماری توجہ اندرونی اصول کی طرف پھیر دیتا ہے۔ اسی کے سہارے ہم اپنے میلانات کا ایک تشفی بخش نظام بنا سکتے ہیں اور ان سے ایک اچھی زندگی کی تشکیل کر سکتے ہیں۔ مذہب ہمیں قدروں کی میزان دے سکتا ہے اور موجودہ زمانہ میں ایسی میزان کی سخت ضرورت ہے لیکن مذہب میں زور زبردستی نہیں ہو سکتی ہے۔ مذہبی احساس، زندہ مذہبی احساس فطری چیز ہے اور یہ صرف فطری طور پر پھل پھول سکتی ہے۔

    (۵) تنقید اور کلچر
    ہماری تہذیب خنجر سے آپ اپنا گلا کاٹ رہی ہے، اس وقت تنقید کا اہم ترین کام تہذیب کو خودکشی سے بچانا ہے۔ موجودہ زمانہ میں مشین نے ایک مہیب عفریت کی شکل اختیار کر لی ہے اور اب یہ عفریت ہمارے قابو سے باہر ہو چلا ہے۔ اسے ہم نے اپنے کام کے لئے بنایا تھا۔ اس کی مدد سے ہم اپنی آسائش کے نئے نئے سامان مہیا کرتے تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ عفریت خود سر ہو گیا ہے۔ ہماری آسائش کی پرواہ نہیں کرتا اور اپنی طاقت میں مست انسانیت کو کچلتا ہوا رواں دواں ہے۔ ہمیں اس عفریت کو قابو میں لانا ہے اور اس سے انسانی بہبودی اور ترقی کا کام لینا ہے۔ یعنی ہمارے سامنے نہایت مشکل مرحلہ ہے اور وہ یہ کہ مشین ٹوٹ پھوٹ بھی نہ جائے اور ساتھ ساتھ اس کی ایسی فتح بھی نہ ہوکہ وہ ہماری روح کو چور چور کر دے یا اسے برابر کے لئے اپنے پنجوں میں گرفتار کر لے۔

    مشین تو سائنس کی دین ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مشکل وقت میں، اس مسئلہ کو حل کرنے میں سائنس ہماری کیا مدد کر سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سائنس کا صرف ایک مقصد ہے اور وہ حقیقت کی تفتیش ہے۔ پروفیسر پولیانیؔ نے کہا ہے کہ میری نظر میں سائنٹفک حقیقت سے زیادہ مقدس کوئی دوسری چیز نہیں اور سماجی ضرورتوں کے بہانہ سے خاص سائنس کے مشغلہ میں خلل ڈالنا سائنس اور انسانیت دونوں کے لئے مہلک ہے۔ اس قسم کے نقطۂ نظر سے کوئی خاص فائدہ نہیں۔ سائنٹسٹ بھی سماج کا ایک فرد ہے اور کچھ سماجی ذمہ داری اس پر بھی عائد ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اس حقیقت سے واقف ہو چلے ہیں۔ پروفیسر برنالؔ کے خیال میں سائنس کا بس یہی مقصد ہے کہ وہ ساری سماجی زندگی پر متحدہ منظم اور شعوری قابو حاصل کر لے اور کرودرؔ کا کہنا ہے کہ نوع انسان کی بقا سائنس کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے یہ سائنٹسٹ کا فرض ہے کہ وہ برابر اس بات کا خیال رکھے کہ سائنس سے برابر اچھا کام لیا جائے اور اسے کبھی کسی برے کام میں نہ لگایا جائے۔

    ہاں یہ کہہ دینا ضروری ہے کہ سائنٹسٹ کی سماجی ذمہ داری کا وہ مطلب نہیں جو آج کل رشیا میں ہو رہا ہے یعنی روسی سائنس الگ قائم کیا جائے اور وہ بھی نہیں جو جرمنی میں ہوا تھا کہ سائنس کی ایجادیں اس خاص غرض سے ہوں کہ ایک ملک دوسرے ملکوں پر دست تصرف د راز کرنے میں کامیاب ہو۔ سائنس کا نصب العین انسانیت کی خدمت ہے نہ کہ کسی خاص ملک یا کسی گروہ کی حرص وہوس کو کامیاب بنانا۔

    بہر کیف، تہذیب کی ترقی میں سائنس نے دست غیب کا کام کیا ہے، لیکن ڈیڑھ دو برس میں سائنس نے اس تیزی سے ترقی کی ہے، اتنی بے شمار نئی نئی چیزیں برسائی ہیں کہ ان کے بوجھ سے تہذیب کا دم گھٹنے لگا ہے۔ بات یہ ہے کہ مادی چیزیں، ضرورتیں، پیچیدگیاں بہت بڑھ گئی ہیں اور اخلاقی اور دماغی صلاحیتوں میں کوئی نمایاں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ انسان کی حالت اس بچہ جیسی ہے جس نے لوہار کا بھاری ہتھوڑا اٹھا لیا ہو اور پھر اس بوجھ کو برداشت نہ کر سکے اور ادھر ادھر ڈگمگاتا پھرے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سائنس اپنی لائی ہوئی مصیبت سے ہمیں بچا سکتا ہے یا نہیں۔

    مادی نعمتوں کے علاوہ سائنس ایک مخصوص نقطۂ نظر، چھان بین کا ایک الگ طریقہ سکھاتا ہے جس کی چند خاص خصوصیتیں ہیں۔ یقین کو معرض التوا میں رکھنا، جب تک ثبوت نہ مل جائے شک کرتے رہنا، ذاتی رجحان و تعصب کے عوض واقعات پر بھروسا کرنا اور انہیں مشعل راہ بنانا، خیالات کو غیرمعین رکھنا اور انہیں مفروضوں کی طرح جانچنا، نہ کہ ان پر عقائد کی طرح بھروسا کرنا اور تحقیق کے نئے نئے میدانوں اور نئے نئے مسئلوں کو خوشی سے دریافت کرنا۔ یہی باتیں ہیں جو سائنٹسٹ کو عام لوگوں سے ممتاز بناتی ہیں لیکن یہ سائنٹفک طریقۂ کار ابھی تک چند مخصوص اور خوش بخت لوگوں کی جاگیر ہے۔ عام طور سے لوگ لاعلمی کا شکار ہوتے ہیں اور ان کے اعتقادات کی بنا عادت اور رواج، ماحول، پروپیگنڈا، ذاتی اور سماجی تعصب اور میلانات پر ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس لاعلمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اعتقادات کی بنیاد روشن ثبوت پر ہو۔ ایسا ہو تو ہماری ساری مشکلیں آسان ہو جائیں۔

    یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے لیکن صرف سائنٹفک نقطۂ نظر اور طریقۂ کار کافی نہیں۔ جسے کلچر کہتے ہیں وہ بہت سے عناصر پر مشتمل ہے جو ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ قانون، سیاست، صنعت و تجارت، سائنس، حرفیات، فنون لطیفہ، اخلاق، وہ قدریں جنہیں ہم قیمتی سمجھتے ہیں اور جس طرح ہم ان قدروں کی جانچ پرکھ کرتے ہیں اور عام خیالات کا وہ نظام جس کی روشنی میں ہم بنیادی خیالات کی تعریف وتنقید کرتے ہیں یعنی ہمارا سماجی فلسفہ، یہ سب چیزیں مل جل کر کلچر کا نظام بناتی ہیں۔ یہ سب اجزاء اہم ہیں لیکن برابر قیمت نہیں رکھتے۔ خصوصاً فنون لطیفہ بہت اہم ہیں لیکن ان کی اہمیت کا صحیح احساس کم ملتا ہے۔ جو چیزیں سماجی حالات اور ذاتی آزادی پر اثر ڈالتی ہیں ان میں فنون لطیفہ کی گنتی نہیں ہوتی ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ فنون زیورات کی طرح کلچر کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ چیزیں ہوا اور پانی کی طرح ضروری ہیں اور ہر شخص کو ان سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔

     ہم اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ فنی کارنامے اظہار کے ذریعوں میں بہت با اثر ہیں اور وہ جذبات کو بھڑکاتے ہیں اور خیالات کو خاص رنگ میں رنگتے ہیں۔ تھیٹر، سنیما، میوزک ہول، تصویر گھر، وغیرہ سے پروپیگنڈا کا زبردست مصرف لیا جا سکتا ہے اور لیا جاتا ہے۔ عام احساسات اور خیالات کو کسی خاص رنگ میں رنگنے یا کسی خاص سانچے میں ڈھالنے کے لئے جذبات و تخیل بہت مفید و کارآمد ہتھیار ہیں۔ معلومات اور تعقل سے بہت زیادہ بااثر اور کارآمد۔ کسی کا کہنا ہے کہ مجھے قوم کا گیت بنانے دو پھر جس کا جی چاہے اس کے قوانین بنائے۔ اگر یہ بات ٹھیک ہے اور اس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ معلومات اور تعقل کے مقابلہ میں جذبات اور تخیل زیادہ آسانی سے عوام کے احساسا ت و خیالات کو کسی خاص سانچے میں ڈھال سکتے ہیں تو پھر فنون لطیفہ کی اہمیت روشن ہو جاتی ہے۔ فنون لطیفہ گویا ایک عظیم الشان طاقت کے مالک ہیں اور ان سارے عناصر پر اثر ڈال سکتے اور ڈالتے ہیں جو آپس میں مل جل کر کلچر کا نظام قائم کرتے ہیں۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ فنون لطیفہ سے دلچسپی کلچر سے دلچسپی رکھنے کے برابر ہے کیونکہ یہ فنون کلچر میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں اور ان سے منھ موڑ لینا تو بہت بڑی غلطی ہی نہیں خودکشی بھی ہے۔

    ظاہر ہے کہ فنون لطیفہ سائنٹسٹ کا میدان عمل نہیں۔ اس میدان میں تو تنقید ہی ہماری رہنمائی کر سکتی ہے۔ ضرورت ہے ایک ایسے کلچر کی جس کی بنیاد وہم و گمان، بنے بنائے اعتقادات، رسم و رواج اور عادات پر نہ ہو اور جو ساتھ ساتھ بالکل سادہ اور بے روح قسم کا بھی نہ ہو اور جس میں انسانیت کی روح پھول پھل سکے اور اپنی تکمیل حاصل کر سکے۔ یہ روح کا پھیلاؤ اور روحانی امکانات کی تکمیل، کامل دماغی اورجذباتی سکون محض سائنس کے ذریعہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر تنقید مشعل راہ نہ ہو تو پھر ہم اس منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ تنقید ہمیں تاریخی شعور عطا کرتی ہے اور یہ تاریخی شعور ہمیں یہ دیکھنا سکھاتا ہے کہ ماضی ماضی بھی ہے اور حال بھی۔ یہ احساس ہمیں زمانی اور دائمی چیزوں کو الگ الگ اور پھر ایک ساتھ دکھاتا ہے۔ گزشتہ کلچر کا شعور، اس کی بہترین عناصر کی پہچان، زمانی اور دائمی چیزوں کا احساس، اندرونی زندگی کا علم، یہ خیال کہ انسانی زندگی ایک مسلسل اور منظم سلسلہ ہے اور اس تسلسل کو باقی رکھنا ضروری ہے، یہ ساری باتیں سائنس کے دامان نگہ سے بہت دور ہیں۔ یہ گل حسن تو تنقید کی جنت نگاہی کا سبب ہیں۔

    یہ تو مانی ہوئی بات ہے کہ انسان کے ارتقا کی تاریخ ہر قسم کے جھگڑوں، ہر طرح کی کشمکشوں سے بھری پڑی ہے۔ خیالات کا تصادم، مختلف قسموں کے فلسفوں، مذہبوں اور تہذیبوں کا تنازع تو برابر ہوتا آیا ہے۔ یہ تصادم، یہ نزاع زندگی کی دلیل ہے، لیکن اس کی وجہ سے بہت بڑا نقصان بھی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ انسانیت اگر ایک قدم آگے بڑھتی ہے تو چار قدم پیچھے بھی ہٹ جاتی ہے۔ اگر کچھ اچھی باتیں ہوتی ہیں تو بہت سی خرابیاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کسی قسم کا نقصان نہ ہو، بیکار ظلم و تخریب نہ ہو، بے ضرورت بے رحمی اور بہیمیت نہ ہو، لیکن برابر ایسا ہی ہوتا ہے جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ تہذیب و ترقی کے باوجود بھی بربریت ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی۔

    آپ نے خیال کیا ہوگا کہ جب کوئی جنگ ہوتی ہے تو بربریت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اچھے میلانات پر برے میلانات و جذبات چھا جاتے ہیں۔ بے رحمی، ناانصافی، بددیانتی، خونخواری اور بہیمیت کی حکومت عام ہو جاتی ہے۔ وحشی اگر آپس میں لڑتے ہیں تو اس کی کوئی فطری وجہ ہوتی ہے۔ اگر کوئی ان کی خواہشات میں مخل ہوتا ہے یا ان کے سماجی نظام کی تخریب پر آمادہ ہوتا ہے تو وہ لڑ پڑتے ہیں۔ تہذیب یافتہ ہونے کے بعد بھی ہم کچھ اسی قسم کی چیزوں کے لئے لڑتے ہیں لیکن اصل وجہ کو ظاہر نہیں ہونے دیتے ہیں۔ اپنے کو اور دوسروں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کسی خیال یا کسی نصب العین کے لئے لڑتے ہیں۔ کسی پاگل کو ملک گیری کی ہوس ہوتی ہے یا کسی قوم کو کسی قوم کی بزرگی یا خوش حالی سے رقابت ہوتی ہے اور لڑائی کا شاخسانہ قائم ہوجاتا ہے لیکن اصل وجہ کو ہم چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور بظاہر لڑتے ہیں تو انصاف کے لئے، سچائی کے لئے، انسانیت کے لئے لڑتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ واقعی خیالات میں تصادم ہوتا ہے۔

    خیر یہ سبب کچھ بھی ہو۔ جہاں جنگ ہوتی ہے تو انسانیت کو ایک زبردست دھکا لگتا ہے۔ ترقی کی راہیں بند ہوجاتی ہیں۔ ناپسندیدہ عناصر ابھر آتے ہیں اور بیکار خون خرابہ ہوتا ہے، لیکن یہاں سوال صرف جانیں تلف ہونے کا نہیں۔ آخر وبا آتی ہے تو بہت سی جانیں تلف ہوتی ہیں۔ سوال نوع انسان کی بقا سے بھی زیادہ اہم ہے۔ انسانیت کے پیش نظر کوئی مقصد ہے، کوئی دور، بلند منزل ہے اور اسے اس مقصد کو حاصل کرنا ہے، اس منزل مقصود تک پہنچنا ہے۔ اگر یہ مقصد حاصل نہ ہو، اگر ہم منزل سے دور تھک کر یا بھٹک کر رہ جائیں تو یہ انسانیت کی شکست ہوگی اور یہ شکست نوع انسان کے فنا ہو جانے سے زیادہ افسوسناک ہوگی۔ اگر کسی دن یکایک کوئی بھولا بھٹکا ستارہ دنیاسے ٹکرا جائے تو دنیا اور انسانیت دونوں فنا ہو جائیں گے، لیکن یہ خیال برداشت کیا جا سکتاہے۔ جو بات برداشت نہیں ہو سکتی وہ انسانیت کی خودکشی ہے، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت خودکشی پر تلی ہوئی ہے۔

    ہر سمجھ دار آدمی چاہتا ہے کہ کوئی ایسی صورت نکل آئے جس سے انسان کی ترقی ہموار ہو جائے، جو کشمکشیں ہوتی ہیں اور ان کی وجہ سے جو نقصان ہوتا ہے وہ نقصان نہ ہو۔ اس نقصان سے بچنے کی بس ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ ہم دوہری ہم آہنگی حاصل کر لیں۔ ایک تو اندرونی ہم آہنگی ہے اور اس کو حاصل کرنے کا راستہ یہ ہے کہ ہماری دماغی، روحانی اور جذباتی ضرورتیں اور میلانات متوازن ہو جائیں اور ان میں کسی طرح کا تضاد اور کھنچاؤ باقی نہ رہے۔ دوسری خارجی ہم آہنگی ہے۔ یعنی انسان اور اس کے ماحول میں کسی قسم کی کشمکش نہ ہو اور اس کش مکش کی وجہ سے کسی قسم کی بے اطمینانی نہ ہو بلکہ مکمل اتفاق، اتحاد اور ہم آہنگی ہو جائے۔ یہ دوہری ہم آہنگی سائنس کے بس کی بات نہیں۔ یہ تو کچھ تنقید ہی عطا کر سکتی ہے۔

    انسانیت کی راہ میں بہت سے خطرناک مقام آتے ہیں اور اس وقت اسے بہت بڑے خطرے کا سامنا کرتا ہے، لیکن ہم ہیں کہ بالکل بے خبر ہیں، ذرا بھی خطرے کا احساس نہیں۔ معمولی آدمی اطمینان کی میٹھی نیند سوتا ہے۔ اسے خیال بھی نہیں ہوتا کہ اسے کچھ کرنا ہے، کسی خطرے کا مقابلہ کرنا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس کی روح آزاد نہیں اور جہاں آزادی نہیں وہاں بصیرت بھی ممکن نہیں۔ عادت، دستور العمل، رائے عامہ کا ڈر، اس دنیا میں اور دوسری دنیا میں سزا کا خوف، بہت ساری چیزیں جو زندگی کی منافی ہیں، جن میں شعلہ سامانی نہیں، یہ سب مل کر اس کی روح پر حکومت کرتی ہیں اور اس کے بدن کو ادھر سے ادھر ڈھکیلتی رہتی ہیں۔ تنقید ہمیں معمولیت کے پھندے سے چھڑاتی ہے اور ہماری روح کو آزاد بناتی ہے اور اس کو شعلہ سامانی بھی عطا کرتی ہے۔ انسان کی بے بصری اور اس بے بصری کی وجہ سے جو خطرے لاحق ہو گئے ہیں انہیں دن کی روشنی میں لے آتی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ ہماری نئی تہذیب زندہ درگور ہے اور اس کا ایک ہی علاج ہے یعنی زندگی ایک مسلسل نغمۂ روح بن جائے۔

    کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تہذیب نے جو یہ خطرناک صورت اخیار کر لی ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انسان اپنے ارتقا کے دوران میں غلط رستہ پر چل کھڑا ہوا۔ اس نے اپنی ذہنی طاقتوں کو ترقی تو دی لیکن جذبات و میلانات کی طرف سے کچھ بے پروا سا ہو گیا۔ اس لئے اب ہمیں اگر نجات مل سکتی ہے تو اس طرح کہ ہم اپنے جذبات و میلانات کو ترقی دیں، اس لئے کہ شدید جذبات کے ذریعہ ہی سے ہم کائنات کے ساتھ ہم آہنگی محسوس کر سکتے ہیں، اس قسم کی وحدت کا احساس کر سکتے ہیں جو کہتے ہیں کہ صوفی کو میسر ہے۔ شدید جذبات ہی کے وسیلہ سے ہم اس شعلۂ زندگی سے باخبر ہو سکتے ہیں جو سینۂ کائنات میں روشن ہے۔ بات یہ ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت کی جڑیں زمیں سے اکھڑ گئی ہیں اور ضرورت اس کی ہے کہ جڑیں پھر مضبوط ہو جائیں اور پھر ہمیں اسی وحدت کا زندہ احساس لوٹ آئے جو پہلے میسر تھا۔

    اس مشکل میں تنقید ہی مشکل کشائی کر سکتی ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ پہلے ہم ذہنی صوبائیت اور وطن پرستی سے نجات حاصل کر لیں اور ہماری زندگی کا جو ڈھنگ ہو بس اسی تک ہماری نظر محدود نہ ہو اور اسی کو ہم سب سے اچھا نہیں سمجھتے ر ہیں۔ خیالات اور کلچر دنیا میں ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ کہنے سے کام نہیں چل سکتا ہے۔ دوسری طرح کی ’’زندگیوں‘‘ دوسرے قسم کے کلچروں سے واقفیت ہونی چاہیے۔ اس کی واقفیت کے بغیر ہم کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ تنقید ہمیں وطن سے باہر سیر وسیاحت کرنا، وسیع پیمانہ پر نئے نئے ملکوں کا کھوج لگانا سکھاتی ہے۔ ہمیں زریں اقلیموں میں لے جاتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ہماری نگاہوں پر پردے پڑے رہیں گے اور ہم تنگ قسم کی وطن پرستی اور غرور کا شکار ہوچجائیں گے۔

    یہ کہنے کی شاید ضرورت نہیں کہ ہم ایک خاص رنگ میں سوچنے اور حس کرنے کی عادی ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اس کی خبر تو نہیں ہوتی لیکن ہمارا دماغ لکیر کا فقیر ہو جاتا ہے اور ہم صحیح اور آزاد طور پر سوچنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ مختلف قوموں کے درمیان زبردست دیواریں حائل ہو جاتی ہیں۔ نسل، مذہب، تعلیم، اخلاق، کلچر، فلسفہ، سب اپنے اپنے طور پر مختلف قسم کی روکاٹیں پیدا کرتے ہیں اور ہم سمجھنے لگتے ہیں کہ مختلف جماعتیں جذبات اور خیالات کی الگ الگ دنیاؤں میں بستی ہیں۔ نقاد کو اس قسم کی کمزوری سے بچنا چاہیے، لیکن افسوس یہ ہے کہ اکثر نقاد کا دماغ بھی لکیر کا فقیر ہو جاتا ہے اور کسی دوسری دنیا میں سانس لینے میں اسے دشواری معلوم ہونے لگتی ہے۔ جس قسم کی دشواری کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے وہ الیٹؔ کے اس بیان سے واضح ہو جاتی ہے،

    ’’اگر کسی کو چینی زبان کا علم نہ ہو اور اس نے بہترین چینی سوسائٹی میں اپنی زندگی کی ایک طویل مدت نہ گزاری ہو تو وہ کونفیوسیس کو سمجھ نہیں سکتا۔ میں چینی دماغ اور چینی تہذیب کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور میں یہ ماننے کے لئے بھی تیار ہوں کہ بہترین چینی تہذیب میں ایسی بہت سی خوبیاں اور لطافتیں ہیں جن کے سامنے مغربی تہذیب بھدی اور بدنما معلوم ہوتی ہے، لیکن میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ میں کونفیوسیس کو اتنی اچھی طرح سمجھ سکوں گا کہ اسے اپنا سکوں۔‘‘ 

    میرا خیال ہے کہ الیٹؔ کو دشواری کا ضرورت سے زیادہ احساس ہے۔ دشواری تو ضرور ہے لیکن اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ پھر الیٹؔ کے بیان میں کچھ تضاد بھی ہے۔ جس کوو اقعی یقین ہو کہ بہترین چینی تہذیب کی خوبیوں اور لطافتوں کے سامنے مغربی تہذیب بھدی اور بدنما ہے تو اس کو ضرور یہ خواہش ہونی چاہیے کہ جس طرح بھی ہو اس مقصد کے حصول میں کچھ بھی زحمت کیوں نہ ہو، وہ ان خوبیوں اور لطافتوں کو حاصل کر لے۔ کوئی عملی اور جذباتی وجہ ہمیں زندگی کو بہتر بنانے میں حائل نہیں ہو سکتی اور نہ ہونا چاہیے۔ جو دشواریاں بھی سامنے آئیں انہیں آسان کرنا چاہیے۔ الیٹؔ کے کہنے کا ماحصل بس اسی قدر ہے کہ وہ بھی کچھ لکیر کی فقیر قسم کا ہے اور بندھے ہوئے رستے سے الگ نہیں ہونا چاہتا اور وہ پوری پوری کاوش کرنے سے بھاگتا ہے۔ اگر اس کی دلچسپی حقیقی ہوتی تو وہ اس کاوش کے لئے تیار ہو جاتا۔ پھر ایک بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ الیٹؔ میں کوئی خاص کمی ہے جس کی وجہ سے وہ کونفیوسیس کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہے۔

    ہاں ایک دوسری دشواری بھی پیش آتی ہے اور وہ ذریعۂ اظہار سے وابستہ ہے۔ رچرڈؔ ز نے دکھایا ہے کہ منسیؔ اس کے نفسیاتی تصور کو سمجھنا اور سمجھانا بہت دشوار ہے یوں سمجھئے کہ ناممکن ہے۔ رچرڈز کا کہنا ہے کہ جن دماغوں کے بارے میں منسیؔ اس گفتگو کرتا ہے، ان کی ساخت اور خود اس کے دماغ کی ساخت مغربی دماغوں کی ساخت سے کچھ مختلف تھی اور پھر اس کے سوچنے اور بولنے کی عادت اور قماش بھی کچھ دوسری تھی۔ یہ مانتا ہوں کہ یہ دشواریاں ہیں اور کسی معمولی آدمی کے لئے یہ د شواریاں ایسی ہیں کہ وہ انہیں آسان نہیں کر سکتا ہے لیکن تنقید کی مدد سے یہ دشواریاں دور ہو سکتی ہیں۔ تنقید ہماری ذہنی تربیت کر سکتی ہے اور ہمیں ایسی صلاحیت عطا کرتی ہے جس سے ہم اس قسم کی مشکلوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ تنقید خیالات اور زندگی کے نت نئے ڈھنگ کا صحیح احساس دیتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ ہر سماج کا اندرونی نظام اور احساسات و جذبات کا طور طریقہ مختلف تہذیب میں مختلف ہوتا ہے اور ہر کلچر میں جذبات کا پیچیدہ نظام جداگانہ ہوتا ہے۔ بصیرت، ذکی الحس ادراک، تخیل اور مختلف کلچروں سے شناسائی، پھر حقیقی دلچسپی اور ضروری کاوش، اگر یہ سب چیزیں ہوں تو پھر کچھ مشکل باقی نہیں رہتی۔

    ہمیں ایک ایسی زندگی، ایک ایسے کلچر کی بنیاد ڈالنی ہے جو عالم گیر ہو۔ اس قسم کا کلچر بغیر سعی کے ممکن نہیں۔ ہماری انتہائی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ جن قدروں کو ہم قیمتی سمجھتے ہیں وہ عالمگیر ہو جائیں اور وہ کل قیمتی قدریں جو ہم دوسرے کلچروں میں پاتے ہیں ہماری ملکیت ہو جائیں۔ اسی طرح ایک عالم گیر کلچر کی بنیاد پڑ سکتی ہے یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم واقعی عالمگیر کلچر کی ضرورت سمجھیں اور مشکلوں سے ہراساں نہ ہوں۔ وہ زندگی کا ڈھنگ جو ہمیں وراثت میں ملا ہے، اس سے وفاداری ضروری ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ وفاداری تنگ نظر اور غیرناقدانہ نہ ہو۔ اگر ایسا ہوا تو پھر آزادی کے ساتھ دوسرے کلچروں کا کھوج لگانا ممکن نہ ہوگا اور ان کے بہترین اجزا کو اپنانے میں ہم کامیاب نہ ہوں گے۔

    کلچر خلا میں سانس نہیں لیتا ہے۔ اگر کسی ایک کلچر کو دوسرے کلچروں سے بالکل الگ کرکے دیکھیں تو ہم اس کی حقیقی معنی خیزی اور اس کی صحیح قدر و قیمت کو نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ ایک طرف تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس کا ماضی کی روشنی میں جائزہ لیں اور احساس تسلسل کو قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ دوسری زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم اس کا دوسرے کلچروں سے مقابلہ و موازنہ کریں۔ اس صورت میں اس کی معنی خیزی اور اس کی قدر و قیمت روشن ہو سکتی ہے۔ بظاہر ایک کلچر کسی دوسرے کلچر سے بالکل جداگانہ معلوم ہوتا ہے۔ کبھی یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ان میں بنیادی تضاد ہے لیکن ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ اختلاف و تضاد کے باوجود سبھوں میں انسانیت کی روح دوڑتی ہے، جو ہر آئینہ میں اپنی صورت دیکھنا چاہتی ہے اور اپنے حسن کا نکھار دکھانا چاہتی ہے۔ یہی حقیقت ہے جو ہمیں تنقید سکھاتی ہے۔ اگر ہم اسے بھول جائیں تو پھر ہماری زندگی تشفی بخش نہیں ہو سکتی۔

    وفاداری ضروری ہے لیکن یہ وفاداری انسانیت کے ساتھ ہو۔ وہ انسانیت جو اپنا جلوہ الگ الگ رنگ میں دکھاتی ہے اور جو تھوڑی دیر کے لئے جلد گزر جانے والے مظاہرات کے ذریعہ اپنی جھلک دکھاتی ہے۔ انسانیت نے اپنے لئے بہت سے عالیشان محل بنائے ہیں۔ تنقید ہمیں تنبیہ کرتی ہے کہ ہم کسی ایک محل میں رہ کر اسے ساری دنیا نہ سمجھ لیں۔ یہ تنقید کی دین ہے کہ ہم وطن، نسل، ماحول، ذاتی خصوصیات و تعصبات کی تنگ نظری سے نجات حاصل کر لیتے ہیں اور اپنی روح کو انسانیت کی روح میں جذب کرکے سارے محلوں کی سیر کر سکتے ہیں۔ تنقید یہ بھی تلقین کرتی ہے کہ ہم انسانیت کے لئے ایک عالی شان محل تعمیر کریں جس میں سارے جھگڑے فنا ہو جائیں اور انسانیت کامل آسودگی کی سانس لے سکے۔ 

                                                                                                                    

    مأخذ:

    سخن ہائے گفتنی (Pg. 251)

    • مصنف: کلیم الدین احمد
      • ناشر: کتاب منزل سبزی باغ، پٹنہ
      • سن اشاعت: 1967

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے