Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ateequllah's Photo'

عتیق اللہ

1941 | دلی, انڈیا

ممتاز نقاد اور شاعر، دہلی یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر رہے

ممتاز نقاد اور شاعر، دہلی یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر رہے

عتیق اللہ کے اشعار

765
Favorite

باعتبار

مجھ میں خود میری عدم موجودگی شامل رہی

ورنہ اس ماحول میں جینا بڑا دشوار تھا

یہ راہ طلب یارو گمراہ بھی کرتی ہے

سامان اسی کا تھا جو بے سر و ساماں تھا

دن کے ہنگامے جلا دیتے ہیں مجھ کو ورنہ

صبح سے پہلے کئی مرتبہ مر جاتا ہوں

وہ بات تھی تو کئی دوسرے سبب بھی تھے

یہ بات ہے تو سبب دوسرا نہیں ہوگا

کچھ بدن کی زبان کہتی تھی

آنسوؤں کی زبان میں تھا کچھ

ہم زمیں کی طرف جب آئے تھے

آسمانوں میں رہ گیا تھا کچھ

ترے فلک ہی سے ٹوٹنے والی روشنی کے ہیں عکس سارے

کہیں کہیں جو چمک رہے ہیں حروف میری عبارتوں میں

تم نے تو فقط اس کی روایت ہی سنی ہے

ہم نے وہ زمانہ بھی گزرتے ہوئے دیکھا

پانی تھا مگر اپنے ہی دریا سے جدا تھا

چڑھتے ہوئے دیکھا نہ اترتے ہوئے دیکھا

اس گلی سے اس گلی تک دوڑتا رہتا ہوں میں

رات اتنی ہی میسر ہے سفر اتنا ہی ہے

یہ دیکھا جائے وہ کتنے قریب آتا ہے

پھر اس کے بعد ہی انکار کر کے دیکھا جائے

کہاں پہنچ کے حدیں سب تمام ہوتی ہیں

اس آسمان سے نیچے اتر کے دیکھا جائے

کس کے پیروں کے نقش ہیں مجھ میں

میرے اندر یہ کون چلتا ہے

ذرا سے رزق میں برکت بھی کتنی ہوتی تھی

اور اک چراغ سے کتنے چراغ جلتے تھے

کسی اک زخم کے لب کھل گئے تھے

میں اتنی زور سے چیخا نہیں تھا

ابھی تو کانٹوں بھری جھاڑیوں میں اٹکا ہے

کبھی دکھائی دیا تھا ہرا بھرا وہ بھی

بڑی چیز ہے یہ سپردگی کا مہین پل

نہ سمجھ سکو تو مجھے گنوا کے بھی دیکھنا

ہر منظر کے اندر بھی اک منظر ہے

دیکھنے والا بھی تو ہو تیار مجھے

کوئی شب ڈھونڈتی تھی مجھ کو اور میں

تری نیندوں میں جا کر سو گیا تھا

لمس کی شدتیں محفوظ کہاں رہتی ہیں

جب وہ آتا ہے کئی فاصلے کر جاتا ہے

خوابوں کی کرچیاں مری مٹھی میں بھر نہ جائے

آئندہ لمحہ اب کے بھی یوں ہی گزر نہ جائے

وہ رات نیند کی دہلیز پر تمام ہوئی

ابھی تو خواب پہ اک اور خواب دھرنا تھا

کچھ اور دن ابھی اس جا قیام کرنا تھا

یہاں چراغ وہاں پر ستارہ دھرنا تھا

سفر گرفتہ رہے کشتگان نان و نمک

ہمارے حق میں کوئی فیصلہ نہ کرتا تھا

فضا میں ہاتھ تو اٹھے تھے ایک ساتھ کئی

کسی کے واسطے کوئی دعا نہ کرتا تھا

ریل کی پٹری نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے

آپ اپنی ذات سے اس کو بہت انکار تھا

آئنہ آئنہ تیرتا کوئی عکس

اور ہر خواب میں دوسرا خواب ہے

اپنے سوکھے ہوئے گلدان کا غم ہے مجھ کو

آنکھ میں اشک کا قطرہ بھی نہیں ہے کوئی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے