Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Baqar Mehdi's Photo'

باقر مہدی

1927 - 2006 | ممبئی, انڈیا

ممتاز نقاد، اپنی بیباکی اور روایت شکنی کے لئے معروف

ممتاز نقاد، اپنی بیباکی اور روایت شکنی کے لئے معروف

باقر مہدی کے اقوال

72
Favorite

باعتبار

آزادی کی خواہش خود بخود نہیں پیدا ہوتی۔ اس کے لیے بڑا خون پانی کرنا پڑتا ہے، ورنہ اکثر لوگ انہیں راہوں پر چلتے ‏رہنا پسند کرتے ہیں جن پر ان کے والدین ا پنے نقش پا چھوڑ گئے ہیں۔

ادب کی تخلیق ایک غریب ملک میں پیشہ بھی نہیں بن سکتی اور اس طرح بیشتر ادیب و شاعر اتواری ‏مصور SUNDAY PAINTERS‏ کی زندگی بسر کرتے ہیں، یعنی ضروری کاموں سے فرصت ملی تو پڑھ لکھ لیا۔

اب غالب اردو میں ایک صنعت ‏Industryکی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ یہ اتنی بڑی اور پھیلی ہوئی نہیں جتنی کہ ‏یوروپ اور امریکہ میں شیکسپیئر انڈسٹری۔ ہاں آہستہ آہستہ غالب انڈسٹری بھی ‏High Cultured Project میں ‏ڈھل رہی ہے۔ یہ کوئی شکایت کی بات نہیں ہے۔ ہر زبان و ادب میں ایک نہ ایک شاعر یا ادیب کو یہ اعزاز ملتا رہا ہے ‏کہ اس کے ذریعے سے سیکڑوں لوگ باروزگار ہو جاتے ہیں۔

ہم آج کے دور کو اس لیے تنقیدی دور کہتے ہیں کہ تخلیقی ادب کی رفتار کم ہے اور معیار ی چیزیں نہیں لکھی جا رہی ‏ہیں۔

انسانی تاریخ ایک معنی میں اقتدار کی جنگ کی تاریخ کہی جا سکتی ہے۔

نقاد کا کام صرف تنقیدی ترازو میں ناپنا تولنا ہی نہیں ہے بلکہ اپنی آواز کے ذریعے ادیبوں میں حرکت و عمل کی وہ قوت ‏بھی پیدا کرنی ہے جو تخلیق ادب کی باعث ہو سکے۔

ترقی پسندی انسانی زندگی کو ’’حسین سے حسین تر‘‘ بنانے کی کوشش میں تنگ سے تنگ تر کرتی گئی جیسا کہ مذاہب ‏کے ساتھ حشر ہوا کہ وہ خدا کے بندوں کو راہ راست پر لانے کے لیے آئے تھے مگر آہستہ آہستہ انسانوں پر اس کے ‏دروازے بند ہوتے گئے اوریہ چھوٹی دنیا بہت سے چھوٹے چھوٹے فرقوں میں بدل گئی۔

آدمی جذبات کو منعکس کرنے کے باوجود آئینے سے مشابہ نہیں ہے اور یہیں سے ساری پیچیدگی شروع ہوتی ہے۔

شاعر اور ادیب کے افکار و احساسات کو کبھی بھی کسی سیاسی لائن کا غلام نہیں بنایا جا سکتا اور جب بھی اس کی ‏کوشش کی گئی ہے، ادبی بحران کا ’سیلاب بلا‘ اپنے تمام تباہ کن نتائج کو لیے ہوئے آیا ہے۔

اصطلاحیں اپنے معنی کھوتی ہیں، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ میں اس سے انکار نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن یہ بھی تاریخی ‏حقیقت ہے کہ انہیں نئے معنی و مفہوم دے کر پھر تر و تازہ کیا جاتا ہے اور اس طرح خزاں اور بہار کے موسم اصطلاحوں ‏کی دنیامیں بھی آتے رہتے ہیں۔

جدیدیت نے دنیا کو جنت ارضی بنانے کا بیڑا اٹھا کر ’جہنم‘ نہیں بنایا ہے جیسا کہ ترقی پسندی نے کیا ہے۔

پہلی تفصیلی ملاقات کتنی سرسری ہوتی ہے۔ رسمی جملے ٹوٹ ٹوٹ کر ربط نہاں کی تخلیق کرنے کی ناکام سی کوشش ‏کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے سے واقف ہو رہے ہیں۔ جب کہ ہم بڑے ضبط سے کام لے رہے ہوتے ہیں۔ ‏اس کے یہ معنی ہوئے کہ غیر شعوری طور سے ہم نہیں چاہتے کہ پہلا تاثر خراب پڑے۔ زندگی کے ’بازاری ماحول‘ نے ‏ہمیں اتنا مسخ کر دیا ہے کہ ایک دوسرے پر عیاں ہونے کے باوجود آدھے چھپے ہوئے غائب رہتے ہیں۔

جس ملک میں جمہوریت کی جڑیں گہری اور دیرپا نہ ہوں وہاں کی فضا میں ادب و تہذیب کی ترقی کے امکانات بھی زیادہ ‏نہیں ہوتے۔

اردو تنقید کی یہ بدنصیبی رہی ہے کہ اس کا آغاز کسی بڑی اثاث سے نہیں ہوا اور نہ ہی ہمارے ادب میں کوئی تنقیدی ‏روایت کا سلسلہ ملتا ہے جس سے کڑیاں ملاکر نقادوں نے نقد ادب کے اصول متعین کیے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی ‏چند برسوں تک ہمارے ترقی پسند اور جدید ادب کے نقاد اصول نقد ادب کی تشکیل اور تعبیر میں الجھے ہوئے ہیں۔

فسادات میں زخمی ہونا میرے لیے بہت بڑا تجربہ تھا۔ اس نے مجھے وہ بصیرت بخشی کہ آج تک میں تنگ نظری کا ‏شکار نہیں ہو سکا ہوں۔

معاشی قوتیں ان پوشیدہ دھاروں کی طرح ہیں جو اندر بہتے رہتے ہیں اور آہستہ آہستہ کناروں کو کاٹتے ہوئے اپنے لیے نئی ‏جگہ بناتے جاتے ہیں۔

ادب اور زندگی کے رشتے اتنے مستحکم ہو چکے ہیں کہ سیاسی تبدیلیوں کا اد ب پر اثر ناگزیر ہے۔

جدیدیت ’تعمیر اور تخریب‘ کی پرفریب اصطلاحوں کو رد کرتی ہے، وہ ادب کو سب سے پہلے ذات کا آئینہ دار قرار دیتی ‏ہے لیکن ذات کو حرف آخر نہیں سمجھتی اس لئے کہ جدیدیت ’حرف آخر‘ کی سرے سے قائل نہیں۔

ادبی دنیا میں ایک مثبت تبدیلی

کل تک ادب چند بہت ہی برگزیدہ ہستیوں کی جاگیر تھا اور وہی لوگ اس پر بحث کے اہل سمجھے جاتے تھے۔ آج ادبی ‏ذوق عام ہو چلا ہے اور اب تمام علوم میں ماہر ہوئے بغیر بھی ادبی رائے رکھی جا سکتی ہے اور قاری کی باتوں کو دھیان ‏سے سنا بھی جانے لگا ہے۔ ان حالات میں ادبی ذوق کو زیادہ بہتر اور برتر بنانے کا کام نقادوں کے علاوہ کوئی اور پوری ‏خوبی سے نہیں کر سکتا ہے۔ اس لیے نقادوں کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اچھے ادبی ذوق کو عام کرنے کی مہم میں ‏پیش پیش رہیں۔

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے