فصیح اکمل کے اشعار
عمر بھر عہد تعلق کے نگہدار رہے
اپنے بارے میں کوئی خواب نہ دیکھا ہم نے
جو تو نہیں ہے تو لگتا ہے اب کہ تو کیا ہے
تمام عالم وحشت یہ چار سو کیا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہر ایک آنکھ میں آنسو ہر ایک لب پہ فغاں
یہ ایک شور قیامت سا کوبکو کیا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہماری فتح کے انداز دنیا سے نرالے ہیں
کہ پرچم کی جگہ نیزے پہ اپنا سر نکلتا ہے
-
موضوع : علم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہمیں پہ ختم ہیں جور و ستم زمانے کے
ہمارے بعد اسے کس کی آرزو ہوگی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بہت سی باتیں زباں سے کہی نہیں جاتیں
سوال کر کے اسے دیکھنا ضروری ہے
-
موضوع : سوال
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عمر بھر ملنے نہیں دیتی ہیں اب تو رنجشیں
وقت ہم سے روٹھ جانے کی ادا تک لے گیا
مدعا اظہار سے کھلتا نہیں ہے
یہ زبان بے زبانی اور ہے
-
موضوع : اظہار
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جنہیں تاریخ بھی لکھتے ڈرے گی
وہ ہنگامے یہاں ہونے لگے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اب کسی اور کا تم ذکر نہ کرنا مجھ سے
ورنہ اک خواب جو آنکھوں میں ہے مر جائے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ستاروں کی طرح الفاظ کی ضو بڑھتی جاتی ہے
غزل میں حسن اس چہرے کی تابانی سے آیا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کتابوں سے نہ دانش کی فراوانی سے آیا ہے
سلیقہ زندگی کا دل کی نادانی سے آیا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ