کرامت علی کرامت کے اشعار
ہاتھی کے کئی دانت چبانے کے لئے ہیں
کچھ دانت مگر صرف دکھانے کے لئے ہیں
تم ہمیں یاد کرو یا نہ کرو
ہم تمہیں یاد کیے جاتے ہیں
اچھا ہے یا خراب نہیں اس سے واسطہ
پھوٹا ہوا یہ میرا مقدر مجھے عزیز
ہمیشہ آگ کے دریا میں عشق کیوں اترے
کبھی تو حسن کو غرق عذاب ہونا تھا
سکون وصل میں اتنا نصیب ہو کہ نہ ہو
جس اضطراب سے میں انتظار کرتا ہوں
میں شعاع ذات کے سینے میں گونجا ہوں کبھی
اور کرامتؔ میں کبھی لمحوں کے خوابوں میں رہا
چبھ رہا تھا دل میں ہر دم کر رہا تھا بے قرار
اک اذیت ناک پہلو جو مری راحت میں تھا
غم فراق کو سینے سے لگ کے سونے دو
شب طویل کی ہوگی سحر کبھی نہ کبھی
کوئی زمین ہے تو کوئی آسمان ہے
ہر شخص اپنی ذات میں اک داستان ہے
یہ اپنے ہی کردار کا ہے نتیجہ
جو رب کی طرف سے یہ ہم پر غضب ہے
ہاتھ آئے کرامت کو کیا عالم فانی سے
آیا ہے بشر تنہا جائے گا بشر خالی
غم ہستی بھلا کب معتبر ہو
محبت میں نہ جب تک آنکھ تر ہو
پتوار گر گئی تھی سمندر کی گود میں
دل کا سفینہ پھر بھی لہو کے سفر میں تھا
جو آیا ہے اسے جانا ہے اک دن
ازل سے تو یہی اک سلسلہ ہے
تم کام اپنا کل کے لئے چھوڑتے ہو کیوں
دیکھا ہے کس نے کل کو جو کرنا ہے کر لو آج
ٹوٹ کر کتنوں کو مجروح یہ کر سکتا ہے
سنگ تو نے ابھی دیکھا نہیں شیشے کا جگر
تم مرا حال پوچھتے کیا ہو
اب تو جس حال میں ہوں اچھا ہے
منزل پہ بھی پہنچ کے میسر نہیں سکوں
مجبور اس قدر ہیں شعور سفر سے ہم
وہ کون تھا جو مری زندگی کے دفتر سے
حروف لے گیا خالی کتاب چھوڑ گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ میری فہم کا لیتا ہے امتحاں شاید
کہ ہر سوال سے پہلے جواب مانگے ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں لفظ لفظ میں تجھ کو تلاش کرتا ہوں
سوال میں نہیں آتا نہ آ جواب میں آ
-
موضوع : ہجر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ