Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Khursheed Akbar's Photo'

خورشید اکبر

1959 | پٹنہ, انڈیا

مابعد جدید اردو شاعر،نجات پسند شاعر،تعبیر نواز تخلیقی نظریے کے لیے معروف

مابعد جدید اردو شاعر،نجات پسند شاعر،تعبیر نواز تخلیقی نظریے کے لیے معروف

خورشید اکبر کے اشعار

1.9K
Favorite

باعتبار

وہ ایک آئنہ چہرے کی بات کرتا ہے

وہ ایک آئنہ پتھر سے ہے زیادہ کیا

غیب کا ایسا پرندہ ہے زمیں پر انساں

آسمانوں کو جو شہ پر پہ اٹھائے ہوئے ہے

خود سے لکھنے کا اختیار بھی دے

ورنہ قسمت کی تختیاں لے جا

خدا کے غائبانے میں کسی دن

سنو کیا شہر سارا بولتا ہے

غریبی کاٹنا آساں نہیں ہے

وہ ساری عمر پتھر کاٹتا ہے

زندگی! تجھ کو مگر شرم نہیں آتی کیا

کیسی کیسی تری تصویر نکل آئی ہے

سمندر آسماں اس پر ستاروں کا سفینہ

مرا مہتاب غم ہے بیکرانی دیکھنے میں

درد کا ذائقہ بتاؤں کیا

یہ علاقہ زباں سے باہر ہے

مٹھی سے ریت پاؤں سے کانٹا نکل نہ جائے

میں دیکھتا رہوں کہیں دنیا نکل نہ جائے

آتے آتے آئے گی دنیا داری

جاتے جاتے فاقہ مستی جائے گی

دل ہے کہ ترے پاؤں سے پازیب گری ہے

سنتا ہوں بہت دیر سے جھنکار کہیں کی

جو دن ہے خاک بیاباں جو رات ہے جنگل

وہ بے پناہ مرے گھر سے ہے زیادہ کیا

کشتی کی طرح تم مجھے دریا میں اتارو

میں بیچ بھنور میں تمہیں پتوار بناؤں

بڑی بھولی ہے خرچیلی ضرورت

شہنشاہی کمائی مانگتی ہے

لہو تیور بدلتا ہے کہاں تک

مرا بیٹا سیانا ہو تو دیکھوں

دلیلیں چھین کر میرے لبوں سے

وہ مجھ کو مجھ سے بہتر کاٹتا ہے

شام کے تیر سے زخمی ہے خورشیدؔ کا سینہ

نور سمٹ کر سرخ کبوتر بن جاتا ہے

یہاں تو رسم ہے زندوں کو دفن کرنے کی

کسی بھی قبر سے مردہ کہاں نکلتا ہے

روتا ہوں تو سیلاب سے کٹتی ہیں زمینیں

ہنستا ہوں تو ڈھ جاتے ہیں کہسار مری جاں

نہ جانے کتنے بھنور کو رلا کے آئی ہے

یہ میری کشتیٔ جاں خود کو پار کرتی ہوئی

مرثیہ ہوں میں غلاموں کی خوش الہامی کا

شاہ کے حق میں قصیدہ نہیں ہونے والا

سسکتی آرزو کا درد ہوں فٹ پاتھ جیسا ہوں

کہ مجھ میں چھٹپٹاتا شہر کلکتہ بھی رہتا ہے

سہل کیا بار امانت کا اٹھانا ہے فلک

میں سنبھلتا ہوں مرے ساتھ سنبھلتی ہے زمیں

نہ جانے کیا لکھا تھا اس نے دیوار برہنہ پر

سلامت رہ نہ پائی ایک بھی تحریر پانی میں

جزیرے اگ رہے ہیں پانیوں میں

مگر پختہ کنارا جا رہا ہے

شہر بے آب ہوا جاتا ہے

اپنی آنکھوں میں بچا لوں پانی

یہ میرا خاکداں رکھا ہوا ہے

اسی میں آسماں رکھا ہوا ہے

دنیا کو روندنے کا ہنر جانتا ہوں میں

لیکن یہ سوچتا ہوں کہ دنیا کے بعد کیا

شہر جب خود کفیل ہے صاحب

کون کس کا ملال کرتا ہے

یہ کیسا شہر ہے میں کس عجائب گھر میں رہتا ہوں

میں کس کی آنکھ کا پانی ہوں کس پتھر میں رہتا ہوں

سلگتی پیاس نے کر لی ہے مورچہ بندی

اسی خطا پہ سمندر خلاف رہتا ہے

میرے اس کے بیچ کا رشتہ اک مجبور ضرورت ہے

میں سوکھے جذبوں کا ایندھن وہ ماچس کی تیلی سی

اے شہر ستم زاد تری عمر بڑی ہو

کچھ اور بتا نقل مکانی کے علاوہ

ساحل سے سنا کرتے ہیں لہروں کی کہانی

یہ ٹھہرے ہوئے لوگ بغاوت نہیں کرتے

قرآن کا مفہوم انہیں کون بتائے

آنکھوں سے جو چہروں کی تلاوت نہیں کرتے

چہرے ہیں کہ سو رنگ میں ہوتے ہیں نمایاں

آئینے مگر کوئی سیاست نہیں کرتے

ہم بھی ترے بیٹے ہیں ذرا دیکھ ہمیں بھی

اے خاک وطن تجھ سے شکایت نہیں کرتے

بدن میں سانس لیتا ہے سمندر

مری کشتی ہوا پر چل رہی ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے