Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mohammad Baqar Shams's Photo'

محمد باقر شمس

1909 - 2007 | کراچی, پاکستان

شاعر، نقاد اور ماہرِ تعلیم جن کے کام نے برصغیر میں اردو ادب، تاریخ اور فکری روایت کو جِلا بخشی

شاعر، نقاد اور ماہرِ تعلیم جن کے کام نے برصغیر میں اردو ادب، تاریخ اور فکری روایت کو جِلا بخشی

محمد باقر شمس کے اشعار

1
Favorite

باعتبار

سامنا جب ہوا محشر میں تو کچھ کہہ نہ سکا

مجھ سے دیکھا نہ گیا ان کا پریشاں ہونا

نظر لگنے کا ان کے واسطے گنڈا بنانے کو

بچا رکھے ہیں میں نے تار کچھ اپنے گریباں میں

کتنے ہی پائے صنم پر کیے سجدے میں نے

کبھی پورا نہ ہوا شوق جبیں سائی کا

دیکھا جو مجھ کو پھیر کے منہ مسکرا دئے

بجلی گری تڑپ کے دل بے قرار پر

ہے گور غریباں میں وہی شمسؔ کا مدفن

تربت جو کوئی دل کے دھڑکنے کی صدا دے

آنکھ ساقی سے ملی جیسے ہی مے خانہ میں

کھنچ کے مے آ گئی پیمانے سے پیمانے میں

ملتے ہی آنکھ اس فسوں گر سے

دل گیا اور ہمیں خبر نہ ہوئی

ہوئے آغاز عشق ہی میں ہلاک

غرق ہم ہو گئے لب ساحل

خاک کے ذروں سے اف اف کی صدا آتی ہے

میرا افسانۂ غم قصۂ ماضی نہ ہوا

سب زخم ہیں ہرے ہے لہو سے قبا بھی سرخ

لایا ہے رنگ جوش جنوں پھر بہار میں

حشر میں چھوڑ دیا دیکھ کے اترا ہوا منہ

آ چکا تھا مرے ہاتھوں میں گریباں ان کا

کبھی دنیا میں پھر نہ ہوگی سحر

ہجر کی شب اگر سحر نہ ہوئی

آئے عدم سے گلشن ہستی کی سیر کو

دامن الجھ گیا ہے یہاں خار زار میں

مے نوشی حق نے دار بقا میں بھی کی حلال

کہتا ہے شیخ دار فنا میں حرام ہے

دم نکلتا ہے تری زلف کے سودائی کا

جھلملاتا ہے ستارہ شب تنہائی کا

اے خوشا عہد عدم فکر سے آزاد تھے ہم

ایک دن بھی نہ یہاں قید محن سے نکلے

قابو میں رکھے ابلق لیل و نہار کو

دیکھا نہ میں نے ایسا کسی شہسوار کو

چارہ گر کیا سمجھ سکیں گے بھلا

درد کیسا ہے اور دوا کیا ہے

آنکھیں لگی ہیں در پہ نکلتا نہیں ہے دم

ٹھہری ہوئی ہے روح ترے انتظار میں

کوئی ویرانہ مرے ذوق کے قابل نہ ملا

اب کہاں لے کے مجھے جائے گی وحشت میری

دیکھا جو دن کو اس نے سوئے چرخ بے مدار

سونا اتر گیا ورق آفتاب کا

ہے عجب طرح کی یہ کشمکش موت و حیات

نہ میں جینے پہ ہوں راضی نہ وہ مر جانے پر

مسکراہٹ لب نازک پہ نگاہیں نیچی

کس سے سیکھا ہے یہ انداز دل آرائی کا

خوف محشر نہ رہا دل میں جو دیکھا میں نے

پشت پر میرے گناہوں کے ہے رحمت اس کی

کچھ نہ پوچھو درازیٔ شب ہجر

کٹ گئی عمر اور سحر نہ ہوئی

لذت زندگی وہ کیا جانے

جس کو درد جگر نہیں ہوتا

شعلۂ عشق اگر دل میں فروزاں ہو جائے

بڑھ کے یہ قطرۂ خوں مہر درخشاں ہو جائے

بجلی گرائی طور جلایا اڑائے ہوش

اتنا جلال اک ارنی کے سوال پر

دیکھا جو میں نے نامۂ اعمال حشر میں

قصہ لکھا تھا میرے اور ان کے شباب کا

فتنہ زا وحشت فزا دام قضا ہوتے گئے

جس قدر بڑھتے گئے گیسو بلا ہوتے گئے

ہوک جب دل سے اٹھی ضبط فغاں کر نہ سکا

راز اس گھر کا جو تھا مجھ سے وہ مخفی نہ ہوا

Recitation

Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

بولیے