Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

پروین ام مشتاق

1866 | دلی, انڈیا

کلاسیکی دور کے نمایاں شعراء میں شامل

کلاسیکی دور کے نمایاں شعراء میں شامل

پروین ام مشتاق کے اشعار

1K
Favorite

باعتبار

کچھ تو کمی ہو روز جزا کے عذاب میں

اب سے پیا کریں گے ملا کر گلاب میں

پو پھٹتے ہی ریاضؔ جہاں خلد بن گیا

غلمان مہر ساتھ لئے آئی حور صبح

مدت سے اشتیاق ہے بوس و کنار کا

گر حکم ہو شروع کرے اپنا کام حرص

ہوتی نہ شریعت میں پرستش کبھی ممنوع

گر پہلے بھی بت خانوں میں ہوتے صنم ایسے

گر آپ پہلے رشتۂ الفت نہ توڑتے

مر مٹ کے ہم بھی خیر نبھاتے کسی طرح

چبھیں گے زیرہ ہائے شیشۂ دل دست نازک میں

سنبھل کر ہاتھ ڈالا کیجیے میرے گریباں پر

بال رخساروں سے جب اس نے ہٹائے تو کھلا

دو فرنگی سیر کو نکلے ہیں ملک شام سے

اہل دنیا باؤلے ہیں باؤلوں کی تو نہ سن

نیند اڑاتا ہو جو افسانہ اس افسانہ سے بھاگ

دیئے جائیں گے کب تک شیخ صاحب کفر کے فتوے

رہیں گی ان کے صندوقچہ میں دیں کی کنجیاں کب تک

پی بادۂ احمر تو یہ کہنے لگا گل رو

میں سرخ ہوں تم سرخ زمیں سرخ زماں سرخ

مجھے جب مار ہی ڈالا تو اب دونوں برابر ہیں

اڑاؤ خاک صرصر بن کے یا باد صبا بن کر

مخلوق کو تمہاری محبت میں اے بتو

ایمان کا خیال نہ اسلام کا لحاظ

فرق کیا مقتل میں اور گلزار میں

ڈھال میں ہیں پھول پھل تلوار میں

کیوں اجاڑا زاہدو بتخانۂ آباد کو

مسجدیں کافی نہ ہوتیں کیا خدا کی یاد کو

آب دیدہ ہو کے وہ آپس میں کہنا الوداع

اس کی کم میری سوا آواز بھرائی ہوئی

وہ ہی آسان کرے گا مری دشواری کو

جس نے دشوار کیا ہے مری آسانی کو

سنتے سنتے واعظوں سے ہجو مے

ضعف سا کچھ آ گیا ایمان میں

نہ آیا کر کے وعدہ وصل کا اقرار تھا کیا تھا

کسی کے بس میں تھا مجبور تھا لاچار تھا کیا تھا

دیکھنے والے یہ کہتے ہیں کتاب دہر میں

تو سراپا حسن کا نقشہ ہے میں تصویر عشق

پوچھ لے پرویںؔ سے یا قیس سے دریافت کر

شہر میں مشہور ہے تیرے فدائی کا عشق

کسی کے سنگ در سے ایک مدت سر نہیں اٹھا

محبت میں ادا کی ہیں نمازیں بے وضو برسوں

مر چکا میں تو نہیں اس سے مجھے کچھ حاصل

برسے گر پانی کی جا آب بقا میرے بعد

دلوایئے بوسہ دھیان بھی ہے

اس قرضۂ واجب الادا کا

جاں گھل چکی ہے غم میں اک تن ہے وہ بھی مہمل

معنی نہیں ہیں بالکل مجھ میں اگر بیاں ہوں

زاہد سنبھل غرور خدا کو نہیں پسند

فرش زمیں پہ پاؤں دماغ آسمان پر

اے صبا چلتی ہے کیوں اس درجہ اترائی ہوئی

اڑ گئی کافور بن بن کر حیا آئی ہوئی

جنوں ہوتا ہے چھا جاتی ہے حیرت

کمال عقل اک دیوانہ پن ہے

مری قسمت لکھی جاتی تھی جس دن میں اگر ہوتا

اڑا ہی لیتا دست کاتب تقدیر سے کاغذ

بھیج تو دی ہے غزل دیکھیے خوش ہوں کہ نہ ہوں

کچھ کھٹکتے ہوئے الفاظ نظر آتے ہیں

ٹھہر جاؤ بوسے لینے دو نہ توڑو سلسلہ

ایک کو کیا واسطہ ہے دوسرے کے کام سے

نکلے ہیں گھر سے دیکھنے کو لوگ ماہ عید

اور دیکھتے ہیں ابروئے خم دار کی طرف

ہوا میں جب اڑا پردہ تو اک بجلی سی کوندی تھی

خدا جانے تمہارا پرتو رخسار تھا کیا تھا

بد قسمتوں کو گر ہو میسر شب وصال

سورج غروب ہوتے ہی ظاہر ہو نور صبح

اگر لوہے کے گنبد میں رکھیں گے اقربا ان کو

وہیں پہنچائے گا عاشق کسی تدبیر سے کاغذ

اسی دن سے مجھے دونوں کی بربادی کا خطرہ تھا

مکمل ہو چکے تھے جس گھڑی ارض و سما بن کر

کبھی نہ جائے گا عاشق سے دیکھ بھال کا روگ

پلاؤ لاکھ اسے بد مزہ دوائے فراق

اک ادنیٰ سا پردہ ہے اک ادنیٰ سا تفاوت

مخلوق میں معبود میں بندہ میں خدا میں

واعظ کو لعن طعن کی فرصت ہے کس طرح

پوری ابھی خدا کی طرف لو لگی نہیں

کس طرح کر دیا دل نازک کو چور چور

اس واقعہ کی خاک ہے پتھر کو اطلاع

Recitation

بولیے