قائم چاندپوری کے اشعار
شامت ہے کیا کہ شیخ سے کوئی ملے کہ واں
روزہ وبال جاں ہے سدا یا نماز ہے
الٰہی واقعی اتنا ہی بد ہے فسق و فجور
پر اس مزہ کو سمجھتا جو تو بشر ہوتا
چاہئے آدمی ہو بار تعلق سے بری
کیونکہ بیگانوں کے یاں بوجھ کو خر ڈھوتے ہیں
کی وفا کس سے بھلا فاحشۂ دنیا نے
ہے تجھے شوق جو اس قحبہ کی دامادی کا
ٹکڑے کئی اک دل کے میں آپس میں سئے ہیں
پھر صبح تلک رونے کے اسباب کئے ہیں
میں ہوں کہ میرے دکھ پہ کوئی چشم تر نہ ہو
مر بھی اگر رہوں تو کسی کو خبر نہ ہوں
گر یہی ناسازئ دیں ہے تو اک دن شیخ جی
پھر وہی ہم ہیں وہی بت ہے وہی زنار ہے
بانگ مسجد سے کب اس کو سر مانوسی ہے
جس کے کانوں میں بھرا نالۂ ناقوسی ہے
ظالم تو میری سادہ دلی پر تو رحم کر
روٹھا تھا تجھ سے آپ ہی اور آپ من گیا
بڑ نہ کہہ بات کو تیں حضرت قائمؔ کی کہ وہ
مست اللہ ہیں کیا جانیے کیا کہتے ہیں
کوئی دن آگے بھی زاہد عجب زمانہ تھا
ہر اک محلہ کی مسجد شراب خانہ تھا
ٹک فہم ارادت سے برہمن کی سمجھ شیخ
کیا کم ہے خدا سے ترے ہنگامہ بتاں کا
قائمؔ میں اختیار کیا شاعری کا عیب
پہنچا نہ کوئی شخص جب اپنے ہنر تلک
ہر طرف ظرف وضو بھرتے ہیں زاہد ہوئی صبح
ساتھ اٹھ ہم بھی صراحی میں مئے ناب کریں
قائم میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ
اک بات لچر سی بزبان دکنی تھی
طرف نے بند کیا ہے ہر اک طرف سے تجھے
طرف نہ پکڑے تو تجھ کو ہیں لے شمار طرف
رسم اس گھر کی نہیں داد کسو کی دے کوئی
شور و غوغا نہ کر اے مرغ گرفتار عبث
میں کن آنکھوں سے یہ دیکھوں کہ سایہ ساتھ ہو تیرے
مجھے چلنے دے آگے یا ٹک اس کو پیشتر لے جا
اے عشق مرے دوش پہ تو بوجھ رکھ اپنا
ہر سر متحمل نہیں اس بار گراں کا
دل کو پھانسا ہے ہر اک عضو کی تیرے چھب نے
ہاتھ نے پاؤں نے مکھڑے نے دہن نے لب نے
ٹوٹا جو کعبہ کون سی یہ جائے غم ہے شیخ
کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا
فکر تعمیر میں ہوں پھر بھی میں گھر کی اے چرخ
اب تلک تو نے خبر دی نہیں سیلاب کے تئیں
یہ پاس دیں ترا ہے سب اس وقت تک کہ شیخ
دیکھا نہیں ہے تو نے وہ کافر فرنگ کا
شیخ جی مانا میں اس کو تم فرشتہ ہو تو ہو
لیک حضرت آدمی ہونا نہایت دور ہے
دل چرا لے کے اب کدھر کو چلا
اے ترے چور کی کہی تھی بھلا
کب میں کہتا ہوں کہ تیرا میں گنہ گار نہ تھا
لیکن اتنی تو عقوبت کا سزا وار نہ تھا
ایراد کر نہ پڑھ کے مرا خط کہ یہ تمام
بے ربطیاں ہیں ثمرۂ ہنگام اشتیاق
معنی نہ آئیں درک میں غیر از وجود لفظ
آرے دلیل راہ حقیقت مجاز ہے
کوچہ ترا نشہ کی یہ شدت جہاں سے لاگ
اللہ ہی نباہے میاں آج گھر تلک
بعد خط آنے کے اس سے تھا وفا کا احتمال
لیک واں تک عمر نے اپنی وفاداری نہ کی
مجھ بے گنہ کے قتل کا آہنگ کب تلک
آ اب بنائے صلح رکھیں جنگ کب تلک
گریہ تو قائمؔ تھما مژگاں ابھی ہوں گے نہ خشک
دیر تک ٹپکیں گے باراں کے شجر بھیگے ہوئے
ڈہا کھڑا ہے ہزاروں جگہ سے قصر وجود
بتاؤں کون سی اس کی میں استوار طرف
بنا تھی عیش جہاں کی تمام غفلت پر
کھلی جو آنکھ تو گویا کہ احتلام ہوا
شیخ جی کیونکہ معاصی سے بچیں ہم کہ گناہ
ارث ہے اپنی ہم آدم کے اگر پوتے ہیں
پہلے ہی اپنی کون تھی واں قدر و منزلت
پر شب کی منتوں نے ڈبو دی رہی سہی
جس چشم کو وہ میرا خوش چشم نظر آیا
نرگس کا اسے جلوہ اک پشم نظر آیا
دوں ہم سری میں بیٹھ کے کس ناسزا کے ساتھ
یاں بحث کا دماغ نہیں ہے خدا کے ساتھ
کہتا ہے آئنہ کہ ہے تجھ سا ہی ایک اور
باور نہیں تو لا میں ترے روبرو کروں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کر نہ جرأت تو اے طبیب کہ یہ
دل کا دھڑکا ہے اختلاج نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دل سے بس ہاتھ اٹھا تو اب اے عشق
دہ ویران پر خراج نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
چاہیں ہیں یہ ہم بھی کہ رہے پاک محبت
پر جس میں یہ دوری ہو وہ کیا خاک محبت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
قائمؔ جو کہیں ہیں فارسی یار
اس سے تو یہ ریختہ ہے بہتر
-
موضوع : ریختہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہر عضو ہے دل فریب تیرا
کہئے کسے کون سا ہے بہتر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آ اے اثرؔ ملازم سرکار گریہ ہو
یاں جز گہر خزانے میں تنخواہ ہی نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہونا تھا زندگی ہی میں منہ شیخ کا سیاہ
اس عمر میں ہے ورنہ مزا کیا خضاب کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ