Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نادان بھونرا

ابرار محسن

نادان بھونرا

ابرار محسن

MORE BYابرار محسن

     
    ’’بھن بھن، بھن بھن، بھن بھن۔‘‘

    ایک بھونرابڑی دیر سے پھولوں کے گرد چکرلگا رہا تھا۔

    یہ نازش کی پھلواری تھی۔ ننھی نازش کو پھول بے انتہا پسند تھے۔ وہ اکثرپارک میں چلی جایا کرتی تھی اورگھنٹوں، رنگین، خوشنما اور خوشبو سے بھرے پھولوں سے لطف اٹھایا کرتی تھی اورمجبوراً ڈیدی کو اسے گود میں اٹھانا پڑتا تھا، ڈیڈی دن بھر کے تھکے ماندے شام کو جب گھر واپس آتے تو نازش کو منتظر پاتے اور وہ انہیں دور ہی سے دیکھ کر چلا اٹھتی۔

    ’’ڈیڈی! چلئے پارک میں۔‘‘

    ڈیڈی، کیوں کہ نازش کو بے حد چاہتے تھے۔ اس لئے کبھی انکار نہ کرتے اور الٹے پیروں اسے لے کر پارک کی طرف چلے جاتے۔

    ممی لاکھ چلاتیں۔

    ’’اوئی، یہ لڑکی ہے یاقیامت۔ انہیں دو گھڑی دم بھی نہیں لینے دیتی۔‘‘

    اگر کبھی ڈیڈی نازش سے کہہ دیتے، ’’بیٹی، آج بہت تھکا ہوا ہوں۔ کل چلیں گے۔‘‘

    بس نازش کی بھنویں چڑھ جاتیں، وہ روٹھ جاتی اور پھول کر کُپا پن جاتی۔ ڈیڈی تھک ہار کر کہتے، ’’اچھا، بھئی، چلو، ہم بعد میں آرام کریں گے۔‘‘

    نازش ایک دم کھل اٹھتی اور ڈیڈی کی انگلی تھام کر پارک کی طرف چل دیتی۔

    ایک روز جب ڈیڈی گھر آئے تو روزانہ کی طرح نازش نے ان سے پارک لے جانے کوکہا۔ ڈیڈی بولے، ’’بیٹی! روز اتنی دور جانے سے میں بھی تھک جاتا ہوں اور تم بھی۔ اس لئے۔۔۔‘‘

    ’’ہوں اوں‘‘ نازش مچل پڑی۔ ’’ہم تو جائیں گے۔‘‘ 

    ڈیڈی نے اسے گود میں اٹھا کر کہا، ’’پہلے میری بات تو سن لو۔‘‘

    ’’سنائیے‘‘، اس نے منہ بسورکر کہا۔

    ’’نازش!‘‘ ڈیڈی نے کہا، ’’اگر پارک خود ہی تمہارے پاس آ جائے تو؟‘‘

    ’’واہ ڈیڈی یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں بچی ہوں تو کیا ہوا، لیکن اتنا سمجھتی ہوں کہ پارک یہاں نہیں آ سکتا۔‘‘

    ’’آ سکتا ہے بیٹی! ڈیڈی نے اسے سمجھایا۔ ’’اپنے کمپاؤنڈ میں بہت جگہ پڑی ہے۔ اس میں پھولوں کے پودے لگا دو۔‘‘

    نازش اچھل پڑی، ’’ہاہا، ڈیڈی نے کتنی اچھی بات بتائی ہے۔‘‘ وہ خوشی سے تالی بجاتی ہوئی بولی، ’’یہ ترکیب تو میری سمجھ میں آئی ہی نہیں تھی۔ اب مجھے اتنی دورنہ جانا پڑےگا۔ گھر بیٹھے پھولوں سے کھیلا کروں گی۔ اباجی۔‘‘

    اگلے ہی دن ڈیڈی بہت سے پودے لے آئے۔ مالی نے زمین کھود کر کیاریاں بنادیں۔ لیجئے، پھلواری بن گئی۔ جوں جوں دن گزرتے گئے پودے رنگ برنگے مختلف قسم کے پھولوں سے لد گئے۔ گلاب، گیندے، موتیا، چمپا اور چمیلی کے پھولوں نے اپنی بھینی بھینی خوشبو دوردور تک بکھیرنی شروع کر دی۔ پھولوں کے کھلے ہی بےشمار نازک پیروں والی تتلیاں آٖ پہنچیں۔ جوسارا دن پھولوں کا منہ چومتی پھرتیں۔ تتلیوں کے ساتھ ہی ایک بھونرا بھی آیا۔ کالا کلوٹا بڑا سا۔ نہ جانے وہ سارا دن پھولوں میں کیا ڈھونڈتا پھرتا تھا۔

    ہاں، تو بھونرا پھولوں کے آس پاس بھن بھن کر رہا تھا اور نازش بڑی دیر سے اسے دیکھ رہی تھی۔ بھونرا بڑی بے چینی سے ادھرادھر اڑتا رہا۔ کبھی ایک پھول پر جا بیٹھتا کبھی دوسرے پر۔ نازش نے محسوس کیا کہ بھونرے کو ضرور کسی چیز کی تلاش ہے۔ مگر وہ اس بے زبان سے کیسے پوچھتی۔ بھلا وہ کیا بتاتا؟ ویسے نازش کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بھونرے کی مدد کر سکتی کیوں کہ وہ بڑی ہی نیک اور رحم دل لڑکی تھی۔

    آخر وہ بڑبڑانے لگی، ’’ہائے، بھونرے میاں میں کس طرح تمہاری مدد کروں؟ نہ جانے تمہیں کیا پریشانی ہے؟‘‘

    ارے! نازش حیران رہ گئی۔ کیونکہ وہ اس کے پاس ہی پودے کی شاخ پر آ بیٹھا تھا اور اپنی ننھی منی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا اور اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے باریک سی آواز سنی، ’’ننھی نازش، میں بہت دکھی ہوں۔‘‘

    ’’ہائیں، تم بول بھی سکتے ہو؟‘‘ نازش نے آنکھیں پھاڑ کر کہا۔ ’’آخرتم ہو کیا بلا؟‘‘

    ’’ہاں میں بول سکتا ہوں تاکہ میں اپنی دکھ بھری کہانی سناسکوں اور لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔‘‘ بھونرے نے اداس ہوکر کہا۔

    ’’اوئی‘‘ نازش نے کہا۔ ’’تمہاری کوئی کہانی بھی ہے۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ بھونرے نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔ ’’بڑی عجیب، بڑی انوکھی اوردرد بھری کہانی ہے۔ سنوگی۔‘‘

    ’’ہاں، ہاں، سناؤ‘‘، نازش نے جلدی سے کہا۔

    بھونرے نے کہنا شروع کیا، ’’تم نے دیکھا ہی ہوگا۔ میں ان پھولوں کے پاس اڑتا پھرتا ہوں۔ دراصل میں ان سے ہروقت یہی کہتا رہتا ہوں۔ میرا قصورمعاف کر دو اور واپس میرے ملک کو لوٹ چلو، مگر وہ نہیں سنتے۔‘‘

    ’’بھلایہ کیا بات ہوئی؟‘‘ نازش بول، ’’بھونرے میاں، کیا مجھے بےوقوف بنا رہے ہو۔‘‘

    ’’ایک بےوقوف کسی کو کیا بے وقوف بنائے گا۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’خیر، میری کہانی سنو۔ اس دنیا سے بہت دور ایک ملک ہے جس کا میں بادشاہ تھا۔ میرے ملک میں دنیا کی ہرنعمت موجود تھی۔ رعایا بہت خوش تھی۔ کسی کو کوئی غم نہ تھا۔ وہاں باغات بارہ مہینے میٹھے اور رسیلے پھلوں سے لدے رہتے تھے۔ چمن میں یہ دلکش پھول ہر موسم کھلے رہتے تھے۔ یہی پھول۔‘‘

    یہ کہتے کہتے بھونرے کی آوازبھرآ گئی۔

    ’’یہی پھول جو تم دیکھ رہی ہو، کبھی میری سلطنت میں مسکراتے تھے۔ مگراب روٹھ کر چلے آئے ہیں ان ہی کے دم سے میرے ملک میں رونق تھی۔ ان کے چلے آنے سے آج وہاں باغات اور پھلواریاں اجاڑ ہیں، ویران ہیں۔ جب یہ پھول وہاں تھے توبھانت بھانت کے پرندے اور رنگین تتلیاں بھی آیا کرتی تھیں۔ ان پھولوں کی وجہ سے لوگ بھی بہت خوش رہا کرتے تھے۔ انہیں دیکھ کر ہر دکھی آدمی خوش ہو جاتا تھا۔ رات کے وقت ٹھنڈی ہوا کے خوشگوار جھونکے ان کی خوشبو کو سارے ملک میں بکھیر دیتے تھے اور دن بھر کے تھکے ماندے لوگ سکون کی نیند سو جاتے تھے۔ آہ۔ آج وہاں کچھ بھی نہیں۔ نہ پرندے ہی آتے ہیں اورنہ تتلیاں۔ لوگ ہر وقت اداس رہتے ہیں۔ راتوں کو کروٹیں بدلتے رہتے ہیں۔ مگر نیند نہیں آتی۔‘‘

    ’’مگریہ پھول چلے کیوں آئے، تم نے انہیں کیوں آنے دیا؟‘‘ نازش نے دریافت کیا۔

    ’’اس کا ذمہ دار میں خود ہوں۔‘‘ بھونرے نے شرم سے سر جھکا کر کہا، ’’میری ہی بیوقوفی کی وجہ سے یہ چلے آئے۔ ہاں تومیں کہہ رہا تھاکہ میرا ملک بڑا خوش حال تھا اور پھرمیرے پاس تو دولت بھی بے انتہا تھی۔ میرا خزانہ بیش قیمت جواہرات سے بھرا ہوا تھا۔ مگر برا ہو لالچ کا، جس کی وجہ سے میں برباد ہو گیا۔ اتنی دولت کے باوجود میں ہر وقت یہی سوچتا تھا کہ کسی صورت سے میری دولت اور بڑھ جائے اور میرا ملک دولت میں سب سے آگے بڑھ جائے۔ دولت سے یہ پیار اس قدر بڑھ گیا کہ میں نے بے حد دولت جمع کرلی اور پھر حکم دیا کہ سارے ملک میں سونے چاندی اور جواہرات کے مکانات، سڑکیں اور گلی کوچے بنائے جائیں۔‘‘

    ’’چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ دن کوسورج کی تیز روشنی اوررات کو چاند تاروں کی دھیمی روشنی میں جب میرا سونے چاندی کا ملک جگمگاتا تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہتا۔ جب میں سونے چاندی اور جواہرات کی سڑکوں پر چلتا تو مارے غرور کےمیرا سینہ تن جاتا۔

    ایک روز میری نظر پھولوں پر پڑی اورمیرے دل میں خیال آیا، بھلا کیا فائدہ ہے ان پھولوں کا؟ بالکل بیکار ہیں یہ۔ ذرا ہاتھ میں لے کر ملنے سے ختم ہو جاتے ہیں اور پھر میرے ملک میں جب تمام چیزیں سونے چاندی کی ہیں تو پھر ان پھولوں کا یہاں کیا کام؟ پھول بھی جواہرات کے ہی ہونے چاہئیں۔‘‘ 

    میں نے حکم دیا کہ سارے پھول میرا ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ ان کی جگہ جواہرات کے پھول لگائے جائیں گے۔

    پھولوں نے جب یہ سنا تو رونے لگے اور مجھ سے گڑگڑاکر کہا، ’’ہمیں مت نکالو، بادشاہ سلامت۔ رحم کرو رحم۔‘‘ 

    ’’بکو مت۔‘‘ میں نے غصے سے کہا: ’’چلے جاؤ، فوراً، تم بالکل بیکار ہو۔‘‘ 

    ’’ہم بیکار نہیں ہیں۔ ‘‘پھول بولے، ’’ہم ‘‘خوشبو دیتے ہیں۔‘‘ 

    ’’جواہرات کے پھولوں میں خوشبو نہیں ہوتی۔ ‘‘ پھولوں نے کہا۔

    ’’ہم تم سے زیادہ جانتے ہیں۔‘‘ میں نے انہیں ڈانٹ دیا۔

    روتے رہے۔ پھر بولے، ’’اگر ہم چلے گئے تو یہ خوشنما پرندے اور خوبصورت تتلیاں بھی یہاں نہیں آئیں گی۔‘‘ 

    ’’ہونہہ‘‘ میں نے کہا، ’’بڑا غرور ہے اپنے اوپر۔ وہ سب آئیں گے۔ جواہرات کے پھول تم سے کہیں زیادہ خوبصورت ہیں۔ جاؤ نکل جاؤ، میرا ملک خالی کرو۔‘‘

    تمام پھول شبنم کے آنسو بہاتے ہوئے میرے ملک سے چلے آئے اور میں نے اس کی جگہ جواہرات کے پھول لگوا دیئے جو بڑے خوبصورت لگ رہے تھے۔ میں انہیں دیکھتا اور پھولا نہ سماتا۔

    ’’مگر جلد ہی میں نے محسوس کیا کہ ان پھول میں خوشبو نہ تھی۔ بلکہ صرف دیکھنے ہی کی خاطر خوبصورت تھی۔ میرے ملک کے لوگ سمجھتے تھے کہ ان پھولوں کی سب سے زیادہ میٹھی خوشبو ہوگی۔ مگر پتھرخواہ معمولی ہو یا قیمتی۔ اس میں خوشبو نہیں ہوتی۔ لوگ راتوں کوبے چینی سے کروٹیں بدلتے رہتے۔‘‘

    اصلی پھولوں کے جاتے ہی نہ تو خوش آواز پرندے ہی آئے اور نہ خوش رنگ تتلیاں۔ سارے چمن ویران ہو گئے۔ پہلے جب میں پھولوں کو ہاتھ میں لیتا تھا تو بڑا ہی لطف آتا تھا۔ مگران پھولوں کو ہاتھ میں لے کر ایسا محسوس ہوتا جیسے پتھر اٹھا لئے۔

    اب مجھے اپنی حماقت پر افسوس ہے۔ لگا اصلی پھول اپنے ساتھ ملک کی ساری رونق لے گئے تھے۔ لوگوں میں بےچینی بڑھی جارہی تھی۔ سب چیخ اٹھے، ’’بادشاہ! پھول کو واپس بلاؤ، ہمیں یہ نقلی پھول نہیں بھاتا وہی نرم ونازک خوشبو سے بھرے پھول دے دو۔‘‘ 

    مگر اب میں پھولوں کو کس منہ سے واپس آنے کے لئے کہتا۔ آخر لوگ مجھ سے اس قدرناراض ہو گئے کہ انہوں نے میرے خلاف بغاوت کر دی۔ مجھ سے بادشاہت چھین لی اور میرے جسم پر سیاہی پوت کر یہ کہہ کر ملک سے نکال دیا۔

    ’’جاؤ پھولوں کو واپس لاؤ ورنہ اپنی منحوس صورت یہاں لے کرنہ آنا۔‘‘ 

    ’’بس اسی وقت سے میں ان پھولوں کو مناتا پھر رہا ہوں کہ بھائی اب غصہ تھوک دو اور واپس چلو۔‘‘ 

    ’’بڑی بھول ہوئی تم سے۔ ‘‘ نازش نے کہا۔ ’’لیکن یہ تو بتاؤ کہ یہ پھول کیا کہتے ہیں؟‘‘

    بھونرا بولا، ’’بڑی منت سماجت کرنے پر پھولوں نے مجھ سے کہا کہ تمہاری طرح ہی انسان بھی سونے چاندی اور جواہرات کا دیوانہ ہو رہا ہے۔ وہ دن قریب ہی ہے جب وہ تمہاری طرح ہمیں اپنی دنیا سے نکال کر جواہرات کے پھول لگوائےگا۔ بس اسی دن ہم واپس آ جائیں گے۔ اس سے پہلے نہیں۔‘‘ 

    یہ سن کر نازش بےاختیار چیخ اٹھی، ’’نہیں نہیں، بھونرے میاں! انسان ان پھولوں کو کبھی نہیں نکالے گا۔ کیونکہ یہ ہماری دنیا کی بہار ہیں۔ ان کے سامنے جواہرات کے پھولوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ پھول ہمیں بہت عزیز ہیں۔‘‘ 

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ بھونرا بولا، ’’مجھے تو اپنی نادانی کی سزا مل ہی گئی ہے۔ لیکن میں نہیں چاہتا کہ انسان بھی میری طرح حماقت کر بیٹھے۔‘‘ 

    ’’انسان ایسا کبھی نہیں کرےگا۔‘‘نازش نے یقین کے ساتھ کہا اور اپنے پھولوں کو پیار بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔ بھونرا پھر اڑ کر پھولوں کے آس پاس منڈلا رہا تھا۔ بھن۔ بھن۔ بھن۔ بھن۔ بھن۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے