Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اوئے چوہا!

نامعلوم

اوئے چوہا!

نامعلوم

MORE BYنامعلوم

    مسٹر چوہے خاں روز لوگوں سے بھری ہوئی بس کو سڑک پر فراٹے بھرتے دیکھتے ان کا بھی جی چاہتا کہ وہ بس کی سیر کریں۔ لیکن چھوٹے پاؤں ہونے کی وجہ سے اتنی لمبی چھلانگ نہ لگا سکتے تھے کہ پائیدان پر جا چڑھیں۔

    سردیوں کے دن تھے۔ چوہے خاں سڑک پر بیٹھے دھوپ سینک رہے تھے اور بس میں سیر کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے کہ بس کھڑی ہونے کی جگہ پر ایک عورت اور مرد آن کر کھڑے ہوئے۔ عورت نے ایسا کوٹ پہن رکھا تھا۔ چوہے خان کے ذہن میں جھٹ ایک ترکیب آ گئی۔ عورت کے پیچھے پہنچ کر آہستہ سے اس کے کوٹ پر چڑھنے لگے۔ عورت مرد باتوں میں اس قدر محو تھے کہ ان کو چوہے خاں کی کارگزاری کا علم نہ ہوا اور چوہے خاں بڑے اطمینان سے کوٹ کی جیب میں بیٹھ گئے۔

    اتنے میں بس آ گئی اور دونوں اس میں سوار ہو گئے۔ چوہے خاں بھی ان کے ساتھ بس کے اندر پہنچ گئے۔

    ڈرائیور نے کہا۔ ’’اپنا کرایہ اس صندوقچی میں ڈال دیں۔‘‘

    چوہے خان نے دیکھا کہ پہلے مرد نے اور پھر عورت نے کچھ نقدی صندوقچی میں ڈال دی۔ چوہے خاں سوچنے لگے کہ یہ کرایہ کیا بلا ہے۔ جب عورت نشست پر بیٹھی تو وہ جیب سے نکل کر باہر آ گئے۔

    اب چوہے خاں نے سوچا کہ شریفانہ طریقہ تو یہی ہے کہ میں ڈرائیور سے کہہ دوں کہ میں پہلی بار بس پر چڑھا ہوں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ اس کا کرایہ بھی دینا پڑتا ہے۔ اگر میں جانتا تو تھوڑی بہت رقم جیب میں ضرور لاتا۔

    وہ ڈرائیور کے پاؤں کے پاس جا کھڑے ہوئے اور کئی دفعہ کوشش کی کہ ڈرائیور سے کچھ نہیں۔ انہوں نے ڈرائیور کو اپنی طرف متوجہ بھی کیا۔ لیکن ڈرائیور بس کو چلاتا رہا اور چوہے خاں کی طرف بالکل توجہ نہ کی۔

    چوہے خان نے سوچا یہ تو سنتا ہی نہیں۔ کیوں نہ اس کی ٹانگوں پر چڑھ کر گھٹنے پر چلا جاؤں پھر تو میری بات سنےگا۔

    جب چوہے خاں نےاس تجویز پر عمل کیا تو ڈرائیور نے ان کو الٹے ہاتھ سے اس طرح اچھالا کہ وہ ایک موٹی عورت پر جاکر پڑے۔ وہ ایک دم چلائی ’’اوئی چوہا اور کھڑی ہو کر ناچنے لگی۔‘‘ چوہے خاں جھٹ بھاگ کر نشستوں کے نیچے جاچھپے۔ لیکن عورتوں میں بھاگڑ مچ گئی۔ ڈرائیور نے گاڑی گاڑی کر لی۔ ’’کیا ہے؟‘‘

    تمام عورتیں بول اٹھیں ’’چوہا‘‘۔

    اب سب لوگ چوہے خاں کی تلاش کرنے لگے۔ مگر وہ ایسی جگہ چھپے بیٹھے تھے کہ ان پر کسی کی نظر نہ پڑ سکتی تھی۔ جب سب لوگ بیٹھ گئے تو چوہے خاں نے اطمینان کا سانس لیا اور دل میں کہنے لگے۔ چوہوں کو بس میں سفر نہ کرنا چاہئے۔ ڈرائیور نے بس چلا دی۔ اب چوہے خاں درازوں سے جھانک جھانک کر باہر دیکھنے لگے مگر کسی چیز کو اچھی طرح نہ دیکھ سکے۔ انہوں نے نشستوں کے نیچے چل پھر کر بہت ڈھونڈا کہ کوئی ایسا راستہ مل جائے جس سے باہر کا نظارہ کر سکیں۔ لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ دل سے سوچنے لگے۔ یہ تو بڑی بڑی رہی۔ صرف مسافروں کے پاؤں نظر آتے ہیں۔ اتنے میں چوہے خاں نے ایک چمکیلی سلاخ دیکھی جو بس کے اندر چھت تک لگی ہوئی تھی۔ دل میں کہنے لگے۔ یہ ٹھیک رہےگی۔ اس کے سہارے میں چھت پر چڑھ جاؤں گا۔ چنانچہ وہ چھت پر چڑھ گئے۔

    چھت پر بیٹھ کر چوہے خاں کو باہر کی ہر چیز دکھائی دینے لگی۔ دفعتاً بس ایک موڑ پر مڑی۔ جس سے دھچکا لگا۔ چوہے خاں خود کو لڑھکنے سے نہ بچا سکے اور گھنٹی کی زنجیر پرآ رہے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ گھنٹی کی زنجیر ہے۔ کیونکہ پہلی ہی دفعہ بس پر سوار ہوئے تھے۔

    گھنٹی بجنی شروع ہوئی اور بجتی ہی چلی گئی۔ ڈرائیور نے خیال کیا۔ کوئی مسافر اترنا چاہتا ہے۔ اگلے موڑ پر بس کھڑی کردی گئی اور چوہے خاں اچھل کر پہلی جگہ پر جا بیٹھے۔ گھنٹی بجنی بند ہو گئی۔ جب کوئی نہ اترا تو ڈرائیور نے پھر موٹر چلا دی۔ لیکن وہ دھچکے سے چلی۔۔۔چوہے خاں پھر گھنٹی کی زنجیر پر آ رہے اور ٹن ٹن کر کے گھنٹی پھر بجنے لگی۔

    چوہے خاں نے سوچا۔ شاید ڈرائیور مجھے پریشان کرنے کے لیے بار بار گھنٹی بجا رہا ہے۔

    ڈرائیور نے اگلے موڑ پر پھر گاڑی کھڑی کردی۔ چوہے خاں زنجیر سے چھلانگ لگاکر پھر سلاخ پر چڑھ گئے۔ گھنٹی بجنی بند ہوگئی۔ جب کوئی نہ اترا تو ڈرائیور نے بس چلا دی۔

    اب چوہے خاں کے کان کے پیچھے خارش سی ہوئی اور انہوں نے کھجانے کے لیے اپنا اگلا پاؤں اٹھایا۔ لیکن خود کو سنبھال نہ سکے اور ایک بار پھر زنجیر پر گر پڑے۔ گھنٹی بجنے لگی۔ چوہے خاں نے خیال کیا ’’یہ بھی عجیب بس ہے‘‘ ڈرائیور نے پھر موڑ پر بس روکی۔ لیکن کوئی نہ اترا۔ چوہے خاں دل میں کہنے لگے۔ بڑی سست رفتار بس ہے۔ اس سے زیادہ تیز تو میں پیدل چل سکتا ہوں۔ اگلے موڑ پر اتر جاؤں گا۔

    چنانچہ جب ڈرائیور نے اگلے موڑ پر بس روکی تو وہ چمکتی ہوئی سلاخ سے نیچے اتر آئے اور پچھلے دروازے سے چھلانگ لگاکر باہر نکل گئے۔

    نیچے اتر کر چوہے خاں نے ڈرائیور کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے اسے مفت میں بس کی سیر کرا دی۔ لیکن ڈرائیور نے کچھ بھی نہ سنا اور بس چل پڑی۔

    مأخذ:

    دل چسپ کہانیاں (Pg. 108)

      • ناشر: فیروز سنز لمٹیڈ، لاہور

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے