Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شرارتوں کا ایک دن

قیصر تمکین

شرارتوں کا ایک دن

قیصر تمکین

MORE BYقیصر تمکین

    معلوم نہیں یہ کس کی شرارت تھی کہ مجھ کو خواہ مخواہ ہی اول نمبر کا شیطان مشہور کر دیا۔ میں خود کبھی کبھی سوچتا کہ کیا میں شریر ہوں۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آتا تو ان سب لوگوں کو کسی نہ کسی طرح پریشان ضرور کرتا جو مجھ کو شریر اور شیطان کہتے ہیں۔

    میں شیطان تھا یا مجھ کو زبردستی بنا دیا گیا یہ میں کہہ نہیں سکتا پھر بھی صرف ایک دن کے قصے آپ کو سناؤں گا اور آپ خود فیصلہ کیجئےگا کہ میرے ساتھ کتنی ناانصافی ہوئی۔

    ہماری چھوٹی خالہ کی طبیعت کچھ خراب تھی اور حکیم صاحب کے مشورے سے ان کے کھانے کے لئے ساگودانہ پکایا گیا تھا۔ نانی اماں نے ساگودانہ کا پیالہ پانی میں ٹھنڈا ہونے کے لئے رکھ دیا۔ میں نے سوچا کہ ایسے تو ٹھنڈا ہونے میں دیر لگے گی ذرا پیالے کو پانی میں چاروں طرف گھمایا جائے تو جلدی ٹھنڈا ہوگا۔ نانی کی نظر جو مجھ پر پڑی تو اس زور سے چلائیں گویا میں کوئی بہت بڑا گناہ کر رہا تھا۔ یہ کیا شرارت ہو رہی ہے۔۔۔‘‘ انہوں نے غصے سے کہا۔

    میں نے گھبرا کر ان کی طرف پلٹ کر دیکھا۔ پیالہ میرے ہاتھ سے زور سے پھسل گیا اور پانی میں ڈوب گیا۔ نانی اماں نے وہ شور مچایا کہ معلوم ہوتا تھا قیامت آ گئی ہو۔ میں سارے گھر میں چھپتا پھرا اور آخر چھوٹی خالہ ہی کے پلنگ کے نیچے گھس کر چھپ گیا مجھے نانی اماں پر بڑا غصہ آ رہا تھا۔ پلنگ کے نیچے نظر پڑی تو دیکھا نانی اماں کا بڑا سا پاندان رکھا تھا میں نے ساری الائچیاں نکال کر جیب میں بھر لیں اور کتھے چونے میں ان کے قوام کی شیشی الٹ دی۔ یہ تو میں نے نانی اماں سے بدلہ لیا تھا اب اس میں شرارت کون سی تھی۔۔۔!

    جب وہاں کچھ سناٹا ہوا تو میں پلنگ کی پناہ سے نکل کر باہر دیوان خانے تک گیا وہاں ڈاکٹر سود کی نظر مجھ پر پڑ گئی اور بری بری طرح انہوں نے ڈانٹ کر کہا ’’بڑی تمہاری شرارتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اتنی کونین پلاؤں گا کہ طبیعت ہری ہو جائےگی۔۔۔‘‘

    ڈاکٹر سود ہر بات پر یہی کہتے تھے ’’طبیعت ہری کر دوں گا۔۔۔‘‘

    اب بتائیے میں نے ان کا کیا بگاڑا تھا جو ڈاکٹر سود بھی مجھ کو شیطان کہنے لگے مجھ کو اپنی بدقسمتی پر بڑا رونا آیا اور بہت اداسی میں ٹہلتا ہوا باہر باغ میں چلا گیا وہاں آم کے درخت پر خوب مزے دار کھٹ مٹھی کیریاں ہلکی ہوا میں جھول رہی تھیں ہر کیری اس طرح ہل رہی تھی گویا پیار سے مجھ کو اپنی طرف بلا رہی ہو ’’مجھ کو کھاؤ۔۔۔‘‘

    میں نے سنا تھا (بزرگوں سے) کہ کسی کو دعوت نامنظور نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ تھوڑی سی سوچ بچار کے بعد ہی میں درخت پر چڑھ گیا اور اپنے کو اچھی طرح پتوں میں چھپا لیا۔ اب میں مزے لے لے کر کیریاں کھا رہا تھا اور جی چاہتا تھا کہ کہیں سے نمک مل جائے تو پھر مزہ آ جائے۔

    اتنے ہی میں ڈاکٹر سود وہاں تھوڑی دیر کو رکے اور ماموں جان سے باتیں کرنے لگے انہوں نے نسخہ ایک ہاتھ میں لیا دوسرے ہاتھ سے جیب سے قلم نکالا اور دانتوں سے اس کو کھولا (ابھی کوئی بچہ ایسے دانتوں سے قلم کھولتا تو خوب ڈانٹتے) خیر وہ نسخے میں کچھ لکھنے لگے اور ان کی صاف صاف چند یا ہلکی دھوپ چھاؤں میں بڑے پیارے انداز سے چمکنے لگی۔ تھوڑی دیر میں ماموں جان اندر چلے گئے اور مجھ سے ضبط نہ ہوا تو میں نے ایک کچی پکی امبیا ان کے سر پر زور سے رسید کی۔ نشانہ تو میرا ہمیشہ سے سچا تھا ڈاکٹر صاحب ’’اوہ مائی گاڈ۔۔۔‘‘ کہہ کر سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اب انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ مجھے ڈر لگا کہ وہ درخت پر مجھ کو نہ دیکھ لیں اس لئے میں نے منمنا کر کہا ’’میں تجھ کو کچا کھا جاؤں گی۔۔۔‘‘

    ڈاکٹر صاحب بڑے کمزور عقیدے کے آدمی معلوم ہوئے کیونکہ اتنا سنتے ہی وہ اس طرح بھاگے کہ ان کی ہیٹ باغ کے دروازے پر ہی پڑی رہ گئی (میں نے اس میں خوب امبیاں بھریں)

    جب میں پیڑ سے اترکر دیوان خانے میں پہنچا تو وہاں کوئی بھی نہ تھا میں نے سوچا کہ یہیں کہیں چھپ کر ساجاؤں اور دوپہر گزار دوں مگر اتنے ہی میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور کوئی صاحب بڑی موٹی آواز میں بولے۔

    ’’ہیلو ڈپٹی صاحب ہیں۔۔۔‘‘

    ’’جی نہیں آپ کون صاحب بول رہے ہیں۔۔۔‘‘ میں نے بڑی شرافت سے جواب دیا۔

    ’’اچھا تو دیکھو ہم رام بول رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا اور میں نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔ ’’جی ایم رام صاحب بول رہے ہیں، اصل میں میں ایم راج ہی سمجھا تھا۔ وہ پھر بولے۔

    ’’نہیں ایم رام نہیں بھئی۔ رام۔۔۔‘‘

    ’’اچھا بھائی رام جی ہیں۔۔۔نمستے۔۔۔‘‘

    ’’افوہ بھائی رام نہیں رام۔ رام۔ فقط رام۔۔۔سمجھے۔۔۔؟

    ’’اچھا۔ فقط رام جی بول رہے ہیں۔۔۔کہئے۔۔۔‘‘

    ’’افوہ تمہاری سمجھ میں ہی نہیں آتا میرا نام ہے میجر رام۔۔۔‘‘

    ’’اچھا منیجر رام صاحب آداب عرض۔۔۔‘‘

    ’’اوہ ڈیم اٹ۔۔۔ تم کون ہو۔‘‘ انہوں نے جھنجھلا کر پوچھا۔

    ’’جی سرکار میں نوکر بول رہا ہوں۔۔۔‘‘

    ’’تم کو کس گدھے نے نوکر رکھا ہے۔۔۔‘‘ انہوں نے بڑے غصے میں رعب جھاڑا۔

    ’’دیکھئے میں آپ کے باپ کا نوکر نہیں ہوں، جو آپ ڈانٹ رہے ہیں۔‘‘ میں نے بڑے غصے میں جواب دیا۔

    انہوں نے ٹیلی فون رکھ دیا۔ مجھے ماموں جان آتے دکھائی دیئے اور میں نے وہاں سے کھسک جانا ہی بہتر سمجھا۔ مگر اس میں شرارت کیا تھی۔ میں سچ مچ ان کا نام سمجھ نہیں پایا تھا۔

    اب میں باورچی خانے کی طرف جا نکلا جہاں مدوخاں کو کھانا پکا رہا تھا۔ مجھے بھوک لگ رہی تھی اس لئے میں نے اس سے کہا۔ ’’ایک بھوکا آیا ہے لاؤ ایک روٹی اس کو دے آؤں۔۔۔‘‘

    مگر وہ میری چال میں آنے والا نہیں تھا بولا ’’کہہ دیجئے آگے بڑھو ابھی کھانا تیار نہیں ہے۔۔۔‘‘

    میں کھڑا ہوا کھانوں کی خوشبو سونگھتا رہا۔ وہ ظالم ساری روٹیاں ڈلیا میں ڈھک کر اندر لے گیا اب میری سمجھ میں کچھ نہ آیا تو میں نے مرچ کا ڈبا سالن میں اور نمک کا مرتبان ترکاری میں انڈیل دیا اور وہاں سے چل دیا۔

    مجھے معلوم ہو گیا کہ آج میرا کھانا بند کر دیا گیا ہے اس لئے میں پڑوں میں صدیقی صاحب اور ان کی بیوی کسی بات پر فرصت سے لڑ رہے تھے مجھ کو دیکھ کر چپ ہو گئے۔ صدیقی صاحب کی بیوی نے مجھ کو بہلایا پھسلایا۔ میرے سامنے چار لڈو لا کر رکھے اور پوچھنے لگیں کہ ’’صبح ناشتہ میں کیا پکا تھا۔ اس وقت کھانا کیا پک رہا ہے۔ تمہاری ممی شام کو پارٹی میں جانے کی تیاری کر رہی ہیں کہ نہیں۔‘‘

    میں اطمینان سے لڈو کھاتا رہا اور ان کو بتایا کہ ’’ہمارےیہاں صبح کا ناشتہ بند ہو گیا ہے اس وقت مرچ کا سالن اور نمک ترکاری پکی ہے۔۔۔‘‘

    صدیقی صاحب نے بیوی کی طرف دیکھا اور بیوی جھنجھلا کر بولیں ’’دیکھو کتنا چالاک ہے۔ ایک ہمارے بچے ہیں کہ ہر بات دوسروں کے یہاں جاکر بتا دیتے ہیں بیوقوف کہیں کے۔۔۔‘‘

    صدیقی صاحب بولے۔ سب تمہاری تربیت کا اثر ہے۔۔۔‘‘ اس پر ان دونوں میں پھر جھگڑا شروع ہو گیا اور میں وہاں سے بھی کھسک گیا۔

    میں گھر میں دیوان خانے کی چھت پر چڑھ گیا سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں اتنے میں بڑے تخت پر مجھ کو قالین رکھا ہوا دکھائی دیا۔ مدوخاں نے قالین دھوپ میں ڈالا تھا اور وہ شاید اب شام ہوتے وقت اس کو اٹھا کر نیچے لے جانے والا تھا۔ میں قالین کے اندر چھپ کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ جد مدوخاں قالین اٹھانے کی کوشش کرے گا تو بڑا مزہ آئےگا۔ دھڑا دھڑ دو چار کرارے ہاتھ کسی نے موٹے سے رول سے قالین پر جمائے اور جلدی سے درد سے بلبلاتا ہوا قالین میں سے نکلا۔ مدوخاں نے مجھ کو دیکھا تو ہنسی کے مارے اس کے آنسو نکلنے لگے۔ غلطی میری تھی یہ قالین اس نے گرد جھاڑنے کے لئے رکھ دیا تھا اور فرصت پاتے ہی ادھر آ گیا اس کے ہاتھ میں بڑا خوفناک رول تھا جس سے اس نے ٹھکائی کی تھی۔ اگر موٹا قالین نہ ہوتا تو یقیناً میری ہڈی پسلی ٹوٹ گئی ہوتی۔ میں سسک سسک کر رو رہا تھا اور سب لوگ ہنس رہے تھے بڑے بھائی نے کہا ’’مدوخاں کا کیا قصور۔ یہ کیوں یہاں آکر چھپا۔ ضرور کچھ چھپا کر کھا رہا ہوگا۔‘‘

    وہ سب لوگ میرے کان پکڑ کر امی جان کے حضورمیں لے گئے۔ وہاں صدیقی صاحب کی بیوی بیٹھی تھیں۔ انہوں نے جو مجھے اس حال میں دیکھا تو چمکار کر بولیں ’’کیا ہوا بیٹا کیوں رو رہے ہو۔‘‘

    سب نے جلدی جلدی میری شرارتوں کی رپورٹیں دینا شروع کیں۔ گویا کوئی پیچھے رہ گیا تو اسے انعام نہیں مل پائےگا۔ صدیقی صاحب کی بیوی بولیں ’’اے نہیں۔ بڑا شرمیلا لڑکا ہے۔ ابھی صبح ہمارے یہاں آیا تھا۔ شرماتا تو اتنا ہے کہ میں نے چار لڈو دیئے وہ بھی اس نے بڑی مشکل سے کھائے۔‘‘

    امی جان مارے شرمندگی کے روہانسی سی ہو گئیں اور انہوں نے بڑی خونی نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں ڈر کے مارے کانپ گیا مگر پھر میرا دماغ کام کر گیا اور میں دھڑ سے زمین پر گر پڑا۔ تھوڑی چوٹ تو ضرور لگی مگر پھر ہوا یہ کہ امی جان کا غصہ فوراً ختم ہو گیا۔

    خالہ بی بولیں ’’اے ہے بچارے بچے نے صبح سے کچھ نہیں کھایا اور تم سب لوگ اس کی ناحق شکایتیں کر رہے ہو۔۔۔‘‘

    صدیقی صاحب کی بیوی بولیں ’’اے ہاں شرارتیں تو سبھی بچے کرتے ہیں ابھی کل ہی ہمارے یہاں گل دان توڑ گیا۔ مگر ہم نے تو کچھ بھی برا نہیں مانا۔ توڑ پھوڑ کس کے بچے نہیں کرتے۔۔۔‘‘

    بھائی صاحب اپنی کوششوں میں ہار سے گئے۔ میں نے ایک آنکھ کھول کر چپکے سے دیکھا تو ان کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ گویا اگر میری پٹائی نہ ہوئی تو ان کی زندگی بےلطف ہو جائےگی۔ میں نے چپکے سے مدوخاں پر نظر ڈالی تو اس کی بڑی بڑی موچھیں دیکھ کر مجھے اس کے وہ پہلوانوں کے سے کرارے ہاتھ یاد آ گئے جو اس نے قالین پر جمائے تھے۔ میری پیٹھ میں اچانک درد ہونے لگا اور میں زور سے کراہا۔ اس دردناک کراہ سے امی جان کا بھی دل ہل گیا انہوں نے جلدی سے اٹھ کر میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ یہ دیکھ کر تو سب تماشائی ایک ایک کر کے وہاں سے کھسک لئے۔

    اتنی ہی دیر میں ابو آ گئے۔ وہ دن بھر کی ساری رپورٹ سن چکے تھے تھوڑا غصہ تو یوں بھی تھا امی کو میری تیمارداری کرتے دیکھا تو ان کا غصہ اور بھی بڑھ گیا، بولے ’’تم اس شیطان کی نازبرداری کر رہی ہو۔‘‘

    امی جان بولیں’’نہیں بچہ ہے۔ شرارت بھی کرتے ہیں۔ اس وقت تو سچ مچ بڑی زور سے غش کھا کر گرا۔

    ابو بولے ’’بس تمہارے اسی لاڈ پیار سے تو سب بچے خراب ہو رہے ہیں۔‘‘

    امی بولیں ’’میں نے نہیں، آپ کی ہر وقت کی ڈانٹ پھٹکار نے سب کوبے غیرت بنا دیا ہے۔‘‘

    ابو بولے ’’ہاں تو میں بچوں کو خراب کر رہا ہوں اور تم تو ہیرا بنارہی ہو۔ اصل میں تم ہی نے سب کو چوپٹ کیا ہے۔‘‘

    میں نے کہیں مولوی صاحب سے سنا تھا کہ جب دو آدمی لڑیں تو تیسرے آدمی کو ایمانداری سے دونوں کا قصور ثابت کر کے صلح کرانا چاہئے۔

    میں نے جلدی اٹھ کر امی اور ابو میں صلح کرنے کے لئے کہا ’’اب ہٹائیے جانے بھی دیجئے۔ اصل میں آپ دونوں نے ہی سب بچوں کو خراب کیا ہے۔

    اس کے بعد کیا ہوا۔ یہ میں نہیں بتاؤں گا۔ آپ خود ہی سمجھ لیجئے کہ بچپن کا وہی دن مجھ کو کیوں اب تک یاد ہے۔

    مأخذ:

    کھلونا، نئی دہلی (Pg. 53)

      • ناشر: محمد یونس دہلوی
      • سن اشاعت: 1963

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے