غم فراق میں تکلیف سیر باغ نہ دو
غم فراق میں تکلیف سیر باغ نہ دو
مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا
تشریح
دماغ نہیں، مطلب تاب نہیں، طاقت نہیں، برداشت نہیں۔ خندہ ہائے بیجا فضول، بے وقت، بے موقع ہنسی، شعر کا منظر نامہ یہ ہے کہ عاشق محبوب کے فراق میں اداس اور غمزدہ بیٹھا ہے اور اس کا کوئی ہمدرد دوست اس کا غم غلط کرنے یا دل بہلانے کے لیے باغ کی سیر کا مشورہ دیتا ہے۔ جواب میں عاشق کہتا ہے کہ تم سکون اور دل کے بہلنے کی بات کرتے ہو؟ وہاں جا کر تو میری تکلیف اور زیادہ بڑھ جائے گی۔ وہاں کے پھولوں کی فضول اور بے موقع ہنسی برداشت کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں۔ اس بیان میں بہت سی ان کہی باتیں چھپی ہیں۔ جب آدمی کا دل اداس اور غمگین ہوتا ہے تو اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ اسے اچھی بات بھی بری لگتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ پھولوں کی ہنسی اسے خندہ ہائے بیجا لگتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ پھول اس کی حالت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ شاید وہ اسے دیوانہ سمجھتے ہیں۔ غالبؔ نے یہ بات اک دوسرے شعر میں کس قدر کھول کر بیان کی ہے۔
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
پھولوں کے نزدیک یہ دماغی خلل یا پاگل پن ہے تو عاشق ایسی جگہ جا کر اپنے عشق کی توہین کیوں کرائے۔ ’’میں اور، یار اور، مرا کاروبار اور‘‘ لیکن پھولوں کو اتنی سمجھ کہاں۔ ان کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ چند گھنٹوں میں ان کی ہنسی پھیکی پڑ جائے گی۔ ان کی گردن لٹک جائے گی اور وہ خاک میں مل جائیں گے۔ ان کی ہنسی فضول، بے وقت اور بے موقع ہے۔ اگر باغ کو دنیا فرض کریں تو اس کی رونقیں پھولوں کی ہنسی کی طرح وقتی اور بے موقع ہیں۔ دنیا ہنسنے کی نہیں رونے کی جگہ ہے۔ جو ہنستا ہے وہ اپنی ہنسی اور اپنے انجام سے غافل ہے۔ پریم لال شاد دہلوی نے کیا خوب کہا ہے:۔
یا تو دیوانہ ہنسے یا وہ جسے توفیق دے
ورنہ اس دنیا میں رہ کر مسکراتا کون ہے
غالبؔ کے شعر میں محبوب سے جدائی کے غم کی شدت اور غم کو زندگی کی اصل حقیقت نہ مان کر موج مستی کرنے والوں سے شاعر کے تنفر کا بیان ہے۔
محمد اعظم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.