aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

रद करें डाउनलोड शेर

लेखक : जमील जालिबी

V4EBook_EditionNumber : 001

प्रकाशक : मोहम्मद मुजतबा ख़ाँ

मूल : दिल्ली, भारत

प्रकाशन वर्ष : 1977

भाषा : Urdu

श्रेणियाँ : शोध एवं समीक्षा, अनुवाद

उप श्रेणियां : आलोचना

पृष्ठ : 581

सहयोगी : गवर्नमेंट उर्दू लाइब्रेरी, पटना

arasto se elliot tak

पुस्तक: परिचय

نقد و انتقاد وہ فن ہے جس سے فن پارے کے محاسن و معائب اور اس کی قدر کو پرکھا جاتا ہے ۔ اس فن کے باقاعدہ اولین نقوش ہمیں ارستو کی کتاب " شعریات" سے مل جاتے ہیں ۔ اس طرح نقد و انتقاد کے فن کی باقاعدہ ابتداء تین سو سال قبل مسیح تک پہونچتی ہے۔ کتاب مذکور میں جمیل جالبی نے ارستو سے ایلیٹ تک کے بڑے اور معروف مغربی نقد کے شخصیات کے نظریات کو ذکر کیا ہے۔ ہماری نقد کی بنیاد مغربی انتقاد پر رکھی گئی ہے چاہئے مقدمہ حالی ہو یا موازنہ انیس و دبیر یا کوئی اور، اس لئے اپنے انتقادی اصول پڑھنے سے قبل ضروری ہے کہ منبع و مخرج کا مطالعہ کیا جائے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر ترجمہ کا درجہ رکھتی ہے مگر مترجم نے اس میں اپنی انتھک کاوشوں کے بعد کچھ کمی و بیشی کر کے اس کو تصنیف کی حد تک پہونچا دیا ہے ۔ یہ کتاب موٹے طور پر ایک مقدمہ اور تین فصلوں پر مبنی ہے۔ سب سے پہلے کتاب کی ابتداء میں ایک مبسوط مقدمہ ہے جس میں مغربی نقد و انتقاد کی ڈھائی ہزار سال کے ادبی فکر کے ارتقاء کو مضوع بحث بنایا گیا ہے ۔ اس کے بعد پہلی فصل شروع ہوتی ہے جس میں تمام مصنفین کے بارے میں ایک تعارفی نوٹ لکھا گیا ہے تاکہ پہلے ذہنی و فکری طور پر قاری تیار ہو جائے اور اس کی اہمیت کو سمجھ لے کہ وہ آگے کس شخصیت کی فکر کا مطالعہ کرنے والا ہے۔ اس کے بعد اصل مضمون کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے ۔ ہر زندہ زبان کو اس بات کی ضرورت پڑتی ہے کہ وہ قدیم و ثروت مند زبانوں سے کچھ نہ کچھ حاصل کرے ۔ یہی اردو زبان کے ساتھ ہوا کہ اس نے بھی اپنی لسانی برادری کے ساتھ ساتھ ہر اس زبان سے اثر قبول کیا جس سے وہ کر سکتی تھی۔ ویسے ان میں سے کچھ زبانیں تو وہ ہیں جو کہیں نہ کہیں اس سے پہلے ہی اس مغربی نقد کو قبول کر چکی تھیں۔ عربی جیسی غنی زبان نے بھی مغربی نقد و انتقاد سے اپنے گیسوئے دراز میں مشاطہ کیا اور اس کے بہت سے مصنفین نے ہزار سال سے بھی پہلے ان کی کتابوں کے ترجمے سے فراغت حاصل کر لی تھی، ابن مقفی ہو یا ابن رشد یا چاہےالکندی اور ابن سینا ہوں ۔ اسی طرح فارسی زبان نے بھی بہت پہلے استفادہ کر لیا تھا جب ہم نظامی عروضی سمرقندی کی "چہار مقالہ " کا مطالعہ کرتے ہیں تو جب اس کے شعر والے باب میں پہونچتے ہیں اور دقیق نظر سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس کے خیال ارستوئی نظریات کے حامل ہیں۔ مغربی نقد و انتقاد پر لکھی جانے والی کتابوں میں سب سے بہتر کتاب ہونے کا شرف اسی کو حاصل ہے۔

.....और पढ़िए

लेखक की अन्य पुस्तकें

लेखक की अन्य पुस्तकें यहाँ पढ़ें।

पूरा देखिए

लोकप्रिय और ट्रेंडिंग

सबसे लोकप्रिय और ट्रेंडिंग उर्दू पुस्तकों का पता लगाएँ।

पूरा देखिए

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
बोलिए