گھر سے دفتر اور پھر دفتر سے گھر کرتی ہوئی
گھر سے دفتر اور پھر دفتر سے گھر کرتی ہوئی
چل رہی ہے ریل پٹری پر سفر کرتی ہوئی
یہ جو میرے آسماں پر چھائی کالی رات ہے
یہ مجھے لگتی نہیں ہرگز سحر کرتی ہوئی
ہر قدم پر میں لرزتا کانپتا دم توڑتا
عمر سارے کام بے خوف و خطر کرتی ہوئی
جی رہا ہوں بے خبر بے ہوش گرد و پیش سے
جس طرح اک بھیڑ ریوڑ میں سفر کرتی ہوئی
شاعری ہے ٹوٹے شیشے کالے کاغذ کا ادب
بے حسی کی سوچ قصہ مختصر کرتی ہوئی
تیز بارش میں امنڈتے بادلوں کی گھن گرج
وادیوں میں تیرتی جھیلوں کو تر کرتی ہوئی
میرے آگے کیوں کسی کا جل نہیں سکتا چراغ
کیوں ہوا چلتی نہیں مجھ پر اثر کرتی ہوئی
زندگی پیری فقیری شاعری صورت گری
زندگی اک ویشیا بھی رات بھر کرتی ہوئی
میں کہاں پاتا سراغ عیش و آسائش نشاطؔ
میرے آگے میری بستی تھی بسر کرتی ہوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.