ہر اختتام سے اک ابتدا نکلتی ہے
ہر اختتام سے اک ابتدا نکلتی ہے
جو انتہا بھی ہو بے انتہا نکلتی ہے
غلط گماں ہے کلی کا گلاب ہو جانا
کھلے تو اس سے تمہاری ادا نکلتی ہے
تمھارے حسن سے ہوتا ہے بات کا آغاز
پھر اس کے بعد بہت دور جا نکلتی ہے
وہ روح جس پہ ہے مابعد انحصار مرا
نہ جانے اپنی حقیقت میں کیا نکلتی ہے
سرود عشق پہ کرتا ہوں رقص جب عاصمؔ
زمین سوئے فلک زیر پا نکلتی ہے
- کتاب : لفظ محفوظ کرلئے جائیں (Pg. 146)
- Author :عاصم واسطی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2020)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.