اتنا آہستہ کبھی خواب سحر ٹوٹتا ہے
اتنا آہستہ کبھی خواب سحر ٹوٹتا ہے
جس طرح نیند کی گولی کا اثر ٹوٹتا ہے
توڑنا ہاتھ بڑھا کر ہی نہیں ہے لازم
پک چکا ہو تو ہوا سے بھی ثمر ٹوٹتا ہے
آئنہ جھانک رہا ہے مرے اندر شاید
اس طرف عکس ابھرتا ہے ادھر ٹوٹتا ہے
نشۂ مے کے اترتے بھی تڑپتا ہے بدن
کس اذیت سے مگر نشۂ زر ٹوٹتا ہے
شہر دل میں بھی کئی زلزلے آتے ہیں مگر
کوئی دیوار ہی گرتی ہے نہ در ٹوٹتا ہے
ظلم بڑھ جائے تو رہتی نہیں قدرت خاموش
ہم سمجھتے تو نہیں قہر مگر ٹوٹتا ہے
لوگ بے حس ہیں کہ ماتم نہیں کرتے عاصمؔ
شہر میں روز کوئی دست ہنر ٹوٹتا ہے
- کتاب : لفظ محفوظ کرلئے جائیں (Pg. 77)
- Author :عاصم واسطی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2020)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.