مانا کوئی چراغ یا مشعل نہیں ہوں میں
مانا کوئی چراغ یا مشعل نہیں ہوں میں
یوں بھی نہیں کہ تیرگی کا حل نہیں ہوں میں
کرتا ہے مجھ میں قتل مجھے کوئی سانس سانس
مر مر کے جی رہا ہوں مسلسل نہیں ہوں میں
ہستی نے اک فریب میں رکھا ہے مستقل
سب اہتمام کل کے لئے کل نہیں ہوں میں
صدیوں سے ہو رہا ہے مرا ارتقا مگر
اپنی نظر میں اب بھی مکمل نہیں ہوں میں
زندہ ہوں ایک لمحۂ موجود کے لئے
اس پل کے بعد اور کوئی پل نہیں ہوں میں
مجھ میں ہوئی ہیں خون تمنائیں خود مری
تیری ہی خواہشات کا مقتل نہیں ہوں میں
صحرا میں ساتھ کیوں مجھے لے کر چلا ہے تو
پانی بھرا ہوا کوئی بادل نہیں ہوں میں
عاصمؔ یہ اور بات کوئی دیکھتا نہیں
لیکن کسی کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہوں میں
- کتاب : لفظ محفوظ کرلئے جائیں (Pg. 49)
- Author :عاصم واسطی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2020)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.