میں دریاؤں کا سینہ چیرتا کیا
میں دریاؤں کا سینہ چیرتا کیا
مری للکار کیا میرا عصا کیا
وہ اندر سے بظاہر مر چکا ہے
زباں سے یہ نہیں کہتا ہوا کیا
ذرا سی دیر کو آیا ہے ملنے
تمنائیں مگر دل میں ہیں کیا کیا
مرا گھر جل چکا تو یار میرے
یہ مجھ سے پوچھنے آئے بچا کیا
وہ اب ملتا نہیں ہے مسکرا کر
نجانے ہو گئی مجھ سے خطا کیا
دھواں کیوں ہر طرف سے اٹھ رہا ہے
ہمارا شہر سارا جل گیا کیا
بدن شفاف تھا شیشے سا جس کا
وہ آئینے میں عاصمؔ دیکھتا کیا
- کتاب : لفظ محفوظ کرلئے جائیں (Pg. 86)
- Author :عاصم واسطی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2020)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.