میں جتنا خوش ہوں اپنے آپ سے اتنا خفا ہوں
میں جتنا خوش ہوں اپنے آپ سے اتنا خفا ہوں
عجب اک نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہوں
جسے اپنا بنا سکتا ہوں اس کو رد کیا ہے
جسے اپنا بنا سکتا نہیں اس کا ہوا ہوں
بڑی برجستگی سے بات کر لیتا ہوں اکثر
مگر جب سوچنے لگتا ہوں کتنا سوچتا ہوں
تجھے معلوم ہے کہنا مرا کرنا نہیں ہے
تجھے معلوم ہے میں آدمی ہوں بے وفا ہوں
مجھے اک خواب کا مقروض ٹھہرایا گیا ہے
میں اک مدت سے آنکھیں رہن رکھے سو رہا ہوں
مجھے سننا نہ سننا ایک مشکل مرحلہ ہے
کبھی یک لخت سناٹا کبھی اک دم صدا ہوں
توجہ کا تقاضہ اس قدر مجھ سے نہیں کر
ابھی بالکل ابھی میں نیند سے سو کر اٹھا ہوں
تجھے معلوم ساری خوبیاں سب عیب میرے
تجھے معلوم ہے اچھا ہوں میں کتنا برا ہوں
سفر اک مرحلے کے بعد کرنا ہے مسلسل
کسی اک انتہا کے بعد میں بے انتہا ہوں
کوئی میرے قلم کو چند بوتل خون دینا
کہ میں تاریخ اپنے وقت کی لکھنے لگا ہوں
مرے لکھے ہوئے ہر لفظ پر تم غور کرنا
تمہیں معلوم ہو جائے گا میں کتنا نیا ہوں
مری تخلیق میں عاصمؔ کئی آمیزشیں ہیں
میں اپنے آپ میں مٹی ہوں پانی ہوں ہوا ہوں
- کتاب : لفظ محفوظ کرلئے جائیں (Pg. 62)
- Author :عاصم واسطی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2020)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.