ردائے لا مکاں میری نہ بزم کن فکاں میری
ردائے لا مکاں میری نہ بزم کن فکاں میری
مجھے لے آئی ہے محرومیٔ قسمت کہاں میری
زباں زد مصرع ثانی ہے میرا ایک مدت سے
نہ صبح ضو فشاں میری نہ شام بے کراں میری
کہیں تو مختصر کر دوں ابھی روداد الفت کو
فرشتے سو نہ جائیں سنتے سنتے داستاں میری
زمانہ درس عبرت لے مرے حال پریشاں سے
جہاں دہرا رہا ہے کس لئے پھر داستاں میری
تلاطم خیز موجیں بڑھ کے مجھ کو راستہ دیں گی
کہاں تک تاب لائے گا یہ بحر بیکراں میری
حقیقت آشنا ہوتا نہیں ہر آشنا میرا
شب غم کیوں نہیں بنتی ہے آخر رازداں میری
مرے اجزائے ہستی کی خبر تو خیر کیا کہیے
یہاں ڈھونڈے سے کب ملتی ہے خاک آشیاں میری
جہاں سے نزع کی ہچکی نے روکا تھا فسانے کو
وہیں سے چھیڑ دی آ کر یہ کس نے داستاں میری
قفس میں ڈال دی ہے آشیاں کی طرح بالآخر
گزر جاتی وگرنہ عمر رفتہ رائیگاں میری
کہیں ایسا نہ ہو ٹھکرا دوں بزم عالم امکاں
محبت سے نہ ہو جائے طبیعت بد گماں میری
جہاں بھی تیلیاں رکھتا ہوں بہر آشیاں بندی
وہیں سے ٹوٹنے لگتی ہے شاخ آشیاں میری
فنا کی منزلوں سے طائر جاں پار ہو جاتا
مگر حد بن گئے آخر یہی کون و مکاں میری
یہی تو بات ہے جس پر مظفرؔ ناز ہے مجھ کو
جبیں کو چومتا ہے پیار سے ہندوستاں میری
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.